وزیر خزانہ کی تبدیلی

اسد عمر کے مشیروں اور معاونین نے اچھے انداز میں ان کا ساتھ نہیں دیا۔

کچھ ہفتوں تک جاری رہنے والی قیاس آرائیوں کے بعد آخر کار اسد عمر وفاقی وزارت خزانہ سے مستعفی ہوگئے۔ ساتھ ہی انھوں نے کابینہ میں شامل ہونے سے بھی معذرت کرلی اور وزیر توانائی کا قلمدان قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ریکارڈ کی درستی کے لیے اسد عمر کو شاباش دینا ضروری ہے کیوں کہ انھوں نے انتہائی مایوس کن حالات سے دوچار ملکی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی۔ المیہ یہ ہے کہ اسد عمر کو حزبِ اختلاف بالخصوص مسلم لیگ ن کی جانب سے نشانہ بنایا گیا اور اس خوف ناک صورت حال پر واویلا کیا جس کے اصل ذمے دار وہ خود تھے۔

خاص عزائم رکھنے والے میڈیا کے مخصوص حلقے نے اسد عمر کی ہر تجویز یا پالیسی پر شدید تنقید کی۔ ان میں غالب اکثریت صرف باتیں بنانے والے ماہرین معیشت کی تھی، ان سب نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر یہ ابہام پیدا کیا کہ نو ماہ میں اس ایک شخص نے پاکستان کو معاشی ترقی کی ان بلندیوں پر پہنچنے سے روک لیا جہاں مسلم لیگ ن ملک کے جس کے بہت قریب لے جا چکی تھی۔ یہ عام تاثر بنا دیا گیا کہ اسد عمر نے جو کچھ کیا یا کہا وہ غلط تھا اس کے برخلاف حقیقت یہ ہے کہ ان کی اچھائیاں خامیوں پر غالب تھیں۔

اسحاق ڈار نے روپے کی اصل سے زائد قدر برقرار رکھنے کے لیے 7ارب ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ جھونک دیا جس کے باعث معیشت زوال پذیر ہوئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ تحریک انصاف کو برسر اقتدار آتے ہی ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے 12ارب ڈالر کا انتظام کرنا تھا۔ انتہائی کمزور معاشی حالات میں اسد عمر کو انتہائی دشوار اہداف حاصل کرنا تھے۔ دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے قرضوں کی ادائیگی کی خاطر رقوم کا انتظام کرنا اور اس کے ساتھ ہی پائیدار نمو کے لیے معیشت کو مستحکم کرنا ان کے ابتدائی چیلنج تھے۔ گزشتہ حکومت 6.6فی صد کا مالیاتی خسارہ چھوڑ کر گئی تھی اور اس کی تباہ کُن پالیسوں کی وجہ سے ملکی قرضوں میں گزشتہ دس برسوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا اور ملک آیندہ کئی نسلوں تک قرضوں میں جکڑ گیا۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی گزشتہ دو سیاسی حکومتوں میں ملکی قرضے 6 ٹریلین سے بڑھ کر 30ٹریلین روپے تک پہنچ گئے۔ زرمبادلہ سے متعلق انتہائی مشکل حالات میں بھی اسد عمر نے آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کی گئی کڑی شرائط کے سامنے ہار نہیں مانی۔ ان تشویش ناک حالات میں فوری طور پر کچھ عملی کوششیں درکار تھیں، اسد عمر نے معاشی خلا کو پُر کرنے کے لیے عمران خان کو چین، سعودی عرب، اقوام متحدہ اور دیگر دوست ممالک کے پاس جانے پر راضی کیا حالاں کہ عمران خان اس سے گریز کررہے تھے۔ اسی سے حزب اختلاف کی سیاست کا اندازہ لگائیے کہ انھوں نے ان کاوشوں کو ''کشکول'' بڑھانے کا نام دیا۔

پاکستان کے دوست ممالک کی جانب سے کی جانے والی ''برج فنانسنگ'' کی بدولت پاکستان اب آئی ایم ایف کی شرائط پر مذاکرات کے قابل ہوگیا ہے اور اس کی شرائط میں نرمی بھی لائی جاسکے گی۔ اسد عمر اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور کسی سمجھوتے پر بھی تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے آئی ایم کے ساتھ مذاکرات اچھے انداز میں آگے نہیں بڑھے۔ دوست ممالک سے مالی امداد کے بعد اسد عمر آئی ایم ایف سے پیکیج پر مذاکرات کررہے تھے اور اپنی آخری پریس کانفرنس میں انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ گفت و شنید آخری مراحل میں ہے اور آئی ایم ایف معاہدے پر آمادہ ہے۔

ان حالات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں ہی آئی ایم ایف سے رجوع کرنے اور معاہدے کی شرائط پر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف واویلا کررہی ہیں۔ ن لیگ نے بڑی آسانی سے یہ فراموش کردیا کہ فروری 2018 میں اس کے خیر خواہوں نے ملک کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف سے 6یا سات ارب ڈالر حاصل کرنے کی تجویز دی تھی۔


حکومت پر تنقید اپوزیشن جماعتوں کی ذمے داریوں میں شامل ہے تاہم آج کل صرف یہ سیاست بازی اور ذاتی حملوں تک محدود ہوگئی ہے۔اس کا مقصد دراصل پی پی اور ن لیگ کی قیادت کی مبینہ کرپشن پر پردہ ڈالنا ہے۔ ان کی قیادت کے بیرون ملک اثاثوں اس وقت بھی بڑھ رہے تھے جب ملکی معیشت مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔ اس پوری مہم کا مقصد حکومت کو کمزور کرکے احتساب سے فرار اختیار کرنا ہے۔ اپوزیش نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ پر آتے ہی جو گولہ باری شروع کردی ہے یہ اس بات کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔ اسد عمر کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے مشکل ترین وقت میں بھی ملکی مفاد کو فوقیت دی۔ انھوں نے کہا ''میں نے ایسے فیصلے کرنے سے انکار کردیا جو قوم کو برباد کرسکتے تھے۔''

پاکستان میں بات کا بتنگڑ بنانے کا رجحان عام ہے، صرف سنسنی پھیلانے کے لیے اسد عمر کی کابینہ سے علیحدگی کو حزب مخالف کی ''فتح''کے طور پر پیش کیا گیا۔ تاریخ کے سرسری جائزے ہی سے پتا چلتا ہے کہ ن لیگ نے کئی وزیر خزانہ تبدیل کیے، اسحاق ڈار کے بعد مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ مقرر کیا گیا۔

پیپلز پارٹی اس معاملے میں سب سے آگے رہی اور 2013میں اپنے دورِ حکومت کے خاتمے تک وزارت خزانہ کے لیے پانچ مختلف چہرے تبدیل کیے۔ اس دور میں حفیظ شیخ نے سب سے زیادہ یعنی تین سال کے عرصے تک یہ ذمے داری نبھائی، شوکت ترین 15ماہ اور نوید قمر پانچ ماہ تک اس منصب پر فائز رہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جب ڈاکٹر حفیظ شیخ نے استعفی دیا تو صدر زرداری نے فوراً یہ قلم دان اپنے قابل اعتماد سینیٹر سلیم مانڈوی والا کے سپرد کردیا جو محض 43 دن وزیر رہے۔ اس پورے عرصے میں زرداری نے صدراتی طرزپر حکومت چلائی اور سلمان فاروقی ڈیفیکٹو وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے طور پر کام کرتے رہے۔ داخلی قرضے ڈرامائی انداز میں بڑھ گئے ملکی معیشت پر جس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ اس پورے دور میں بھاری رقوم جعلی اکاؤنٹ اور ان سے غیر قانونی غیر ملکی اکاؤنٹس میں گردش کرتے رہیں۔

حفیظ شیخ متاثر کُن کارکردگی کا ریکارڈ رکھنے والے معیشت داں ہیں۔ 2000سے 2002تک انھوں نے سندھ کے وزیر خزانہ و منصوبہ بندی کی ذمے داریاں نبھائیں اور سندھ کو خسارے سے نکالا۔ بعدازاں مشرف دور میں وفاقی وزیر برائے نجکاری رہے۔ بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت رکھتے ہیں اور انھیں پاؤں جمانے کے لیے وقت درکار نہیں ہوگا۔ بجٹ آنے میں جتنا وقت بچا ہے اس دوران انھیں اس پر کچھ نہ کچھ کام کرنے کا موقع بھی مل جائے گا۔ حفیظ شیخ کو کئی بھاری پتھر اٹھانا ہوں گے۔

اسی ماہ پاکستان آنے والی آئی ایم ایف کی ٹیم سے مذاکرات ان کا پہلا چیلنج ہوگا۔ اہم ترین امور پر اسد عمر کے حالیہ دورہ امریکا میں اتفاق رائے ہوچکا ہے اب صرف تکنیکی پہلو اور رسمی باتیں طے ہونا باقی رہ گئی ہیں۔ گرتی ہوئی معیشت اور بڑھتے ہوئے افراطِ زر کو روکنے کے لیے اگر حفیظ شیخ اپنی مرضی کی ٹیم کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ اسد عمر کے مشیروں اور معاونین نے اچھے انداز میں ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اس سے یہی سبق حاصل کرنا چاہیے کہ اپنے خاص عزائم رکھنے والے اور ''اسٹیٹس کو'' کے محافظ بیوروکریٹس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ حفیظ شیخ کو نہ صرف اپنے پیش رو وزیر خزانہ کی رخصت کے اسباب سے سبق حاصل کرنا چاہیے بلکہ اسد عمر کی معاونت نہ کرنے والے عناصر سے بھی دور رہنا چاہیے۔

حفیظ شیخ اگر ایسی پالیسیاں نافذ کرنا چاہتے ہیں جن کے نتیجے میں حکومتی اخراجات کم ہوں، محصولات میں اضافہ ہو، خسارے میں کمی آئے، سرمایہ کاری اور شرح نمو میں اضافہ ہو تو اس کے لیے انھیں جہاں سے ممکن ہو مدد مہیا ہونی چاہیے۔ اسد عمر سے مشاورت بھی مفید ہوگی۔ اسد عمر کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں، انھوں نے مشکل ترین معاشی حالات میں اپنے مؤقف پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا یہی ان کے فخر کے لیے کافی ہے۔ وہ وزیر اعظم کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، ان کی تبدیلی کا فیصلہ عمران خان کے لیے بھی ایک مشکل فیصلہ ہوگا۔ اپنی پارٹی کی حکومت کی خاطر اسد عمر کو کابینہ میں کوئی وزارت ضرور قبول کرنا چاہیے اور اپنی صلاحیتیں قوم کی خدمت کے لیے بروئے کار لانی چاہیں۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
Load Next Story