مردم شماری کے نتائج اور کراچی آخری حصہ

محکمہ شماریات نے آبادی کے لحاظ سے جو غیر متوازن فیصلے کیے ہیں وہ ناانصافیوں کی حدود کو پار کر چکے ہیں۔

ADEN:
کسی انسان کے لیے اس سے بڑی مفلسی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے پاس خود اس کی اپنی شناخت نہ ہو، جیسے کہ آج بھی لاکھوں پاکستانی نہ صرف اپنی شناخت سے محروم ہیں جسکی بنا پر اپنی ہی سرزمین پر حق رائے دہی سے محروم رکھے جا رہے ہیں اور اس محرومی کا سلسلہ یہیں نہیں ٹھہر جاتا بلکہ شناخت کی عدم حصولی انھیں زندگی کی انتہائی بنیادی سہولتیں بھی ختم کر دیتی ہے مثلاً شناختی دستاویزات نہ ہونے کے سبب اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے علاوہ ملازمتیں ملنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے یہاں تک کہ علاج کے لیے اسپتالوں میں داخل ہونا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

سندھ کے حوالے سے یہ بات یاد رہے کہ صرف کراچی کی آبادی کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کر کے سب سے بڑی ستم ظریفی کی جا چکی ہے بلکہ آج تک کی جا رہی ہے ۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں آباد ہونے والے شہری کو اس کی ریاست کی طرف سے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ سیاسی حقوق بھی حاصل ہوتے ہیں کیونکہ ریاست کا قانون اس کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے بنیادی سیاسی و سماجی رشتے کو اپنی مرضی سے آزادانہ طریقے کے مطابق استوار کر سکے۔

بدقسمتی سے تیسری دنیا کے ساتھ ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ جہاں چند ممالک بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے گمبھیر مسائل کا شکار ہیں وہیں پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ممالک میں کیا جاتا ہے اور خصوصاً اس کا ایک گنجان آبادی والا شہر کراچی جو اپنے مسائل کے انبار میں روز بہ روز اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے اور جسکی وجہ صرف ایک ہے وہ یہ کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے علاوہ خود اسی صوبے کے اندرونی اضلاع اور تحصیلوں سے روزگار کی تلاش میں آنیوالے افراد کی وجہ سے بھی کراچی کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

ایک اور بات جو مشاہدے میں آئی ہے وہ یہ کہ صوبائی محکموں نے سرکاری ملازمتیں جو اندرون سندھ کے ڈومیسائل رکھنے والوں کو دی ہیں ان کی تعیناتی بھی شہر کراچی میں رکھی گئی ہے ظاہر ہے کہ وہ گوٹھوں سے روزانہ کراچی نہیں آ سکتے لہٰذا ان کے خاندان بھی یہیں پر آ کر آباد ہو گئے ہیں اور پھر وہ لوگ اپنے دیگر رشتے داروں اور دوستوں کو بھی یہاں بلا لیتے ہیں کیونکہ انکو رہائش کی سہولت میسر آ جاتی ہے یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کراچی کے گرد و نواح میں آباد ہوتی بستیاں اور سڑکوں پر بڑھتا ہوا ٹریفک کا رش ایک کھلا ثبوت ہے جب کہ دوسری جانب کراچی شہر کی آبادی محکمہ شماریات کے غیر حتمی نتائج کے مطابق کم بتائی یا جان بوجھ کر غلط اعداد و شمار دکھائے جا رہے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔


کراچی کے ساتھ ناانصافیوں کے بھی مختلف طریقے اختیار کیے گئے ہیں مثلاًNFC ایوارڈ جو وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوتا ہے اور صوبائی حکومت اپنی مرضی سے جہاں چاہے خرچ کرتی ہے۔ یہ اختیار صوبہ اپنے پاس رکھتا ہے لیکن کراچی کے ساتھ خود وہ صوبہ جس میں یہ شہر موجود ہے مالی، معاشی، انتظامی اور سماجی زیادتی کرتا چلا جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس شہر کے دروازے پورے ملک کی عوام کے لیے ملازمتوں اور کاروبار کے علاوہ سیاست کے لیے بھی کھول دیے گئے ہیں۔

کراچی شہر کے وسائل کو وہ بھرپور طریقے سے اپنے استعمال میں لاتے ہیں جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ NFC ایوارڈ سے حاصل کی جانیوالی دیگر صوبوں کے حصے سے ایک خاص مالیت کی رقم بین الاقوامی شہر کراچی کے لیے مختص کر دی جاتی لیکن ہو یہ رہا ہے کہ دوسرے صوبوں سے آنیوالی عوام جو ملک کے دور دراز علاقوں سے اس شہر میں روٹی روزی کے لیے آتے ہیں وہ اپنی ضرورت کے تحت مقامی ڈومیسائل بھی بنوا لیتے ہیں لیکن شناختی کارڈ میں اپنے مستقل پتے پر وہ وہیں کا پتہ تحریر کرواتے ہیں جہاں سے وہ آئے ہوئے ہوتے ہیں اور محکمہ شماریات بھی ان کا شمار ان کی آبائی بستیوں میں کرتا ہے جب کہ ان کی طویل معیاد رہائش کی وجہ سے تمام تر بنیادی ضروریات جن میں تعلیم، صحت، پانی، بجلی، سڑکوں کا استعمال اسی بجٹ سے ہو رہا ہوتا ہے جو وہاں کے مقامی لوگوں کے لیے مختص کیا گیا ہوتا ہے لیکن اس کے استعمال میں وہ افراد بھی شامل ہو جاتے ہیں جن کا حصہ اس صوبے کو حاصل ہونیوالے NFC ایوارڈ کے مالیاتی حصے میں شامل نہیں ہوتا۔ اب ظاہر ہے کہ وہ دوسروں کے حصے میں شامل ہو جاتے ہیں جو کشیدگی کا باعث بنتا ہے۔

میں پھر اپنے اس بنیادی نکتے کی طرف واپس آتی ہوں کہ وہ ایک بہت بڑی آبادی جس کا قومی مالیاتی من و سلویٰ تو ان کی آبائی حکومتوں پر اترتا ہے اور وہ بیچارے یہاں کے خالی پلاٹوں پر قبضے کر کے پینے کے پانی کی لائنیں پھاڑ کر اپنے لیے پانی بھی کھینچ لیتے ہیں اور گزرنے والے تاروں پر کنڈے ڈال کر اپنے لیے روشنی کا انتظام بھی کر لیتے ہیں جب کہ دوسری جانب مقامی باشندے بجلی پانی اور گیس کے زیادہ آنیوالے بلوں کی قسطیں کم کروانے کے لیے دفتروں کی لائنوں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

بات وہیں پہنچتی ہے کہ محکمہ شماریات نے آبادی کے لحاظ سے جو غیر متوازن فیصلے کیے ہیں وہ ناانصافیوں کی حدود کو پار کر چکے ہیں۔ ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے ایسے مربوط اور منصفانہ فیصلوں کی ضرورت ہے جو حقائق کی بنیاد پر کیے جائیں نہ کہ خواہشات پر کیونکہ اگر عوام کا اعتماد اٹھ جائے تو نئی بغاوت کو جنم دیتا ہے جو سرکشی اور خودسری پر مبنی ہوتی ہے وہاں انسانیت پر عصبیت غالب سمجھی جاتی ہے۔ جسکے آثار محسوس ہو رہے ہیں۔

اپنی کمیونٹی پر فخر کرنا ایک فطری جذبہ ہے لیکن کسی ریاست میں آباد مختلف کمیونٹیز کے درمیان طلب اور رسد غیر متوازن ہونے لگے تو قومیں پھر ''ہم کے صیغے'' سے نکل کر ''میں'' کی طرف چل پڑتی ہیں جس کے لیے اشد ضروری ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی یلغار کو نظم و ضبط میں لانے کے لیے ایسے انتظامی یونٹس تشکیل دیے جائیں جن سے حق دار کو اس کا حق یعنی شناخت، تعلیم، صحت، روزگار اور ڈومیسائل وہیں پر حاصل ہو جہاں کا وہ مستقل رہائشی ہے اور ریاست کی انتظامی مشینری خودکار نظام کے ذریعے مندرجہ بالا سہولتیں مہیا کرنے کی پابند ہو۔ فلاحی اسلامی جمہوری ریاست کا ایک بنیادی اصول ہے جس کے لیے سب سے اولین عمل مملکت میں مساوات کو درجہ اول میں رکھنا ضروری ہے۔
Load Next Story