وزیر اعظم کی وزرا کو ہدایت

عوام کو حکومت کے تعمیری اقدامات اور حقائق سے آگاہ کیا جائے اور عوام کو حکومتی کارکردگی سے آگاہ کیا جائے۔

وزیر اعظم عمران خان نے وزیروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بیانات دینے میں احتیاط برتیں اور ایسے بیانات نہ دیں جن سے عوام میں خوف اور مایوسی پھیلے۔ عوام کو حوصلہ دینے کے بیانات دیے جانے چاہئیں اور عوام کو حکومت کے تعمیری اقدامات اور حقائق سے آگاہ کیا جائے اور عوام کو حکومتی کارکردگی سے آگاہ کیا جائے۔

وزیر اعظم نے اپنے وزیروں کی 8 ماہ کی کارکردگی دیکھ کر وفاقی وزیر صحت کو برطرف اور اسد عمر اور فواد چوہدری جیسے وزیروں کی وزارتیں تبدیل کر کے قوم کو حیران کر رکھا ہے جس پر ان پر تنقید بھی ہو رہی ہے اور ان کے اقدام کو سراہا بھی جا رہا ہے کہ جس وزیر نے کارکردگی نہیں دکھائی انھیں ہٹا کر وزیر اعظم نے اچھا کام کیا ہے کیونکہ وہ پہلے بھی کہتے آ رہے ہیں کہ کارکردگی نہ دکھانے والے وزیروں کو ہٹا دیا جائے گا۔

وزیر اعظم نے سیاست کی بجائے صلاحیت دیکھی اور جو وزیر ناکام رہا اس کو ہٹا کر وزیر اعظم عمران خان نے دیگر وزیروں کو بھی پیغام دے دیا ہے مگر لگتا ہے کہ بعض وزرا نے وزیر اعظم کی ہدایت پر توجہ نہیں دی اور وہ اپنی پرانی روش پر گامزن ہیں۔ وزیر اعظم نے قابلیت و صلاحیت کی وجہ سے منتخب لوگوں کی بجائے ایسے لوگوں کو اہم وزارتیں دی ہیں جو اپنے شعبوں کے لیے مشہور ہیں۔ وزیر اعظم نے اسی وجہ سے اسد عمر کی ناکامی کے بعد عبدالحفیظ شیخ کو اس قابل سمجھا اور وزارت خزانہ سونپ دی۔ وزیروں کی تبدیلی بلاشبہ وزیر اعظم کا اختیار ہے اور انھوں نے جو مناسب سمجھا وہ کیا مگر وزیروں کی تبدیلی کے بعد پارٹی کے اجلاس میں وزیروں کو صاف پیغام دے دیا ہے۔

سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری بلاشبہ حکومت کی کامیاب ترجمانی کر چکے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ وہ بعض دفعہ ضرورت سے اوور ہو جاتے تھے اور انھوں نے حکومت کی مخالف دونوں پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کو بھی آڑے ہاتھوں لینے کو اپنا فرض اولین بنا لیا تھا جس پر ظاہر ہے وزیر اعظم اور پی ٹی آئی خوش ہوتی ہو گی مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی دوہری پالیسی کے باعث میڈیا مالکان اور میڈیا پرسنز کا اعتماد کھو چکے تھے اور انھی کی وجہ سے میڈیا پر جتنا برا وقت فواد چوہدری کے دور میں آیا ماضی میں کبھی نہیں آیا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں میڈیا ورکرز بے روزگار، میڈیا ادارے بند ہوئے مگر سابق وزیر اطلاعات دونوں پارٹیوں کو اپنے دلاسوں سے بہلاتے رہے جس میں میڈیا میں حکومت کی مخالفت میں نمایاں اضافہ ہوا اور صحافی وہ حقائق آشکار کرنے پر مجبور ہو گئے جو حکومتی حلقوں کو ناگوار گزرا اور عوامی سطح پر حکومت کی مخالفت بڑھی۔

حکومت کی ترجمانی کے ساتھ میڈیا کے تعاون کا حصول وزیر اطلاعات کی ذمے داری ہوتی ہے مگر جنرل پرویز مشرف کے پرانے ساتھی اور بعد میں پیپلز پارٹی میں سیاست کر کے پی ٹی آئی میں آنے اور اہم وزارت ملنے کے بعد فواد چوہدری میڈیا کے ٹاک شوز میں اخلاقی حدود بھی پھلانگ جاتے تھے اور ان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کو حذف بھی کرنا پڑتا تھا۔ فواد چوہدری نے اپنی وزارت میں اپنی مخالفت بڑھائی۔


سابق ایم ڈی پی ٹی وی کے معاملے میں وزیر اعظم کے انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی اور معاون خصوصی نعیم الحق کا بھی خیال نہیں کیا اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر اور دیگر پارٹی رہنماؤں کو بھی نہیں بخشا اور صرف وزیر اعظم کی خوشنودی کا حصول اپنا فرض اولین بنائے رکھا جس پر میڈیا پر ان کی تبدیلی کی خبریں آتی رہیں اور میڈیا کو بھی برباد کرنے میں کسر نہیں چھوڑی۔ وزیر اعظم کے اپنے بھی ذرایع ہوتے ہیں اور انھیں حقائق کا علم ہوتا رہتا ہے اور آخر وزیر اعظم کو انھیں حکومت کی ترجمانی اور وزارت اطلاعات سے ہٹانا پڑا۔

پنجاب کے سابق وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان بھی اپنی اوقات سے نکل گئے تھے جس کے بعد ان کی وزارت سے چھٹی کرائی گئی مگر فواد چوہدری نے سبق نہیں سیکھا اور وزیر اعظم سے زیادہ روزانہ ہی میڈیا پر براجمان رہنے کا شوق برقرار رہا اور میڈیا کو انتہائی بدتر مقام پر پہنچا دینے اور اپنوں اور غیروں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے عادی فواد چوہدری کو ہٹانے کے سوا وزیر اعظم کے پاس کوئی چارہ نہ رہا تو انھیں ہٹانا پڑا۔

وزیر صحت کی برطرفی میں دواؤں کی قیمتیں اور بحران تھا اور وہ واحد وزیر تھے جنھیں برطرف کیا گیا جب کہ اسد عمر کو پھر بھی وزیر اعظم توانائی کی وزارت دینے کے خواہش مند تھے مگر انھوں نے معذرت کر لی جنھیں وزارت کے لیے آمادہ کرنے کا دعویٰ وہ وزیر ریلوے شیخ رشید کر رہے ہیں جن کا اسد عمر سے کوئی دیرینہ تعلق ہے نہ وہ خود پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں مگر ریلوے معاملات پر توجہ دینے کی بجائے وہ بھی روزانہ میڈیا پر رہنے کے خبط میں مبتلا شیخ رشید یہ نہیں سوچ رہے کہ جس اسد عمر نے حکومت میں رہنے سے اپنے چیئرمین عمران خان سے معذرت کر لی تو اسد عمر شیخ رشید کی بات کیسے مان سکتے ہیں۔ اسد عمر کے لیے کہا گیا کہ انھوں نے عوام کو مزید مہنگائی سے ڈرایا تھا اور شاید انھی کی وجہ سے وزیر اعظم کو اپنے وزرا کو ہدایت کرنا پڑی کہ وہ عوام کو نہ ڈرائیں۔

حال ہی میں پہلے وزیر مملکت اور پھر وزیر داخلہ بنائے جانے والے متنازعہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر سے پہلے چھتروں کی بات منسوب ہوئی جس کا انھوں نے اعتراف بھی کیا اور اب قومی اسمبلی میں انھوں نے اپوزیشن کے سوالات کا جواب دینے کی بجائے ایوان میں یہ جواب دیا کہ میں تہاڈی ساریاں کسراں کڈھ دیاں گا۔

وزیر اعظم کی واضح ہدایت کے بعد نئے وزیر داخلہ کا یہ رویہ حیران کن ہے جب کہ ایک روز کی خاموشی کے بعد وزیر ریلوے اپنی پرانی ڈگر پر آگئے ہیں جب کہ ان کی وزارتی کارکردگی صرف دعوؤں تک محدود ہے۔ انھیں ریلوے کی وزارت اس حال میں نہیں ملی جو سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو بلور دور کی ملی تھی۔ وزیر ریلوے رحیم یار خان حادثے پر محض معافی مانگ لینے سے بری الذمہ نہیں ہو جاتے انھیں ریلوے کا پرانا تجربہ ہے وہ عملی طور کام کر کے ریلوے میں بہتری لا سکتے ہیں۔

وزیروں خصوصاً شیخ رشید، مراد سعید، محمد علی خان و دیگر کو یہ دیکھنا چاہیے کہ حکومت کو محض چند ووٹوں کی برتری حاصل ہے اور عمران خان دعوؤں سے زیادہ عملی کام پر یقین رکھتے ہیں اور کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں وہ ملک کی معاشی حالت کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں جس کے لیے انھوں نے اسد عمر کو تبدیل کر دیا تو دوسرے وزیر کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں انھیں وزیر اعظم کی ہدایت کو فالو کرنا ہو گا اور محض اپوزیشن پر تنقید کے علاوہ اپنی اپنی وزارتوں کی کارکردگی عوام کو دکھانا ہو گی۔
Load Next Story