اسلامی۔۔۔ صدارتی۔۔۔ نظام
نظام سقہ کی خوش نصیبی کہ اسے پتا تھا حکومت کتنے دورانیے کے لیے دی گئی ہے۔
سُنتے ہیں ''اسلامی صدارتی نظام'' آنے والا ہے۔ اسلامی، صدارتی اور نظام کی اصطلاحات سے تو ہم واقف ہیں، لیکن ''اسلامی صدارتی نظام'' ہمارے لیے ایک نئی اصطلاح ہے۔ چلیے اس نئی اصطلاح کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے بات آخر سے شروع کرتے ہیں، یعنی نظام۔ ہم کئی نظاموں سے واقف ہیں، جیسے حضور نظام، جو ریاست حیدرآباد دکن کے فرماں روا اور خود پورے کا پورا نظام تھے، دوسرا نظام سقہ، یعنی وہ ماشکی جسے مغل بادشاہ ہمایوں نے ایک دن کے لیے بادشاہت عطا کی تھی اور اُس نے اپنی اس ایک روزہ حکم رانی میں چمڑے کے سِکے جاری کردیے تھے۔
نظام سقہ کی خوش نصیبی کہ اسے پتا تھا حکومت کتنے دورانیے کے لیے دی گئی ہے، اس لیے ایک ہی دن میں چمڑے کے سِکے جاری کرکے معیشت میں تبدیلی لے آیا، معلوم نہ ہوتا تو پورا دن عوام کی چمڑی اُدھیڑ کر معیشت سُدھارنے میں گزار دیتا۔ ایک ہوتا ہے نظام ہاضمہ، یہ کافر اور مومن سب کا ایک جیسا ہوتا ہے، اس لیے تاحال اسلامی ہوتا ہے نہ غیراسلامی، مستقبل کا پتا نہیں کہ آپ ڈاکٹر کے پاس نظام ہاضمہ کی شکایت لے کر جائے اور وہ پوچھے ''میاں پہلے ٹیسٹ کراؤ کہ تمھارا نظام ہاضمہ اسلامی ہے یا غیراسلامی۔'' جس چوتھے نظام سے ہماری آشنائی ہے وہ ہے نظام الاوقات، یوں تو اچھا نظام وہی ہوتا ہے جو ہر ایک کو اپنی اوقات میں رکھے، مگر یہ وہ والا نظام نہیں ہے۔ نظام الاوقات وہ نظام ہے جس کی ہمارے ہاں خود کوئی اوقات نہیں۔ یہ بس کاغذ پر لکھ کر دیوار کا اُترتا رنگ اور اکھڑتا پلاسٹر چھپانے کے کام آتا ہے، ورنہ اس کے مطابق کوئی آتا ہے نہ جاتا ہے۔
اب آتے ہیں ''صدارتی'' کی طرف، کیوں کہ حالات بھی اسی طرف آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم اس طرف پہلے بھی کئی بار آچکے بلکہ لائے جاچکے ہیں۔ آپ ہمیں دانش ور سمجھتے ہوئے پوچھیں گے کہ صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام میں کیا فرق ہے؟ ہمارا سیدھا سا اور نہایت معقول جواب تو یہ ہے کہ صدارتی نظام صدارتی نظام ہوتا ہے اور پارلیمانی نظام پارلیمانی نظام، چلیے یوں سمجھ لیجیے کہ دونوں نظاموں میں فرق یہ ہے کہ صدارتی نظام میں صدر سب کچھ ہوتا ہے، اس کے علاوہ اس نظام کے تحت ملک میں باقی سب کچھ ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام اور وزیراعظم کو ووٹوں، لوٹوں اور نوٹوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن صدر بننے کے لیے بھاری بُوٹوں کا ہونا بھی کافی ہے۔
واضح رہے کہ ہم ''پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے'' والے گُل بوٹوں کی بات نہیں کر رہے، ذکر اُن بوٹوں کا ہے جو جب آتے ہیں گُل کِھلاتے ہیں۔ مثال کے لیے دیکھیے ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف کی صدارتیں۔ اقتدار میں آنے کے لیے یہ کمر کستے ہیں اور اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کی شیروانی کسی رہتی ہے، کیوں کہ شیروانی کے نیچے وردی ہوتی ہے، شیروانی ڈھیلی ہوتے ہی اقتدار پر گرفت بھی ڈھیلی پڑجاتی ہے۔ یہ کساؤ آخرکار کمردرد لاتا ہے اور صاحب کمر ملک سے باہر جاکر کمر مٹخاتا اور درد سے افاقہ پاتا ہے۔
بوٹوں والے صدر کے یکسر متضاد کھونٹوں والا صدر ہوتا ہے۔ یہ خود کو صدر بنانے والے کا ممنون رہتا ہے اور کہتا ہے ''ہم تو ہیں بابل تیرے کھونٹے کی گائیاں، جد (جدھر) ہانکے ہنک جائیں''، مُدت صدارت میں کبھی کبھی سلامی کے چبوترے پر رکھ کر اس کی نمائش کی جاتی ہے، پھر لپیٹ کر واپس ایوان صدر میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ فائلوں پر دست خط کرنے کے کام آتا ہے، اور سال میں ایک بار پارلیمنٹ سے خطاب کرتا ہے، جو نہ حزب اختلاف سُنتی ہے، نہ حزب اقتدار سُنتی ہے اور نہ قوم، بلکہ حزب اختلاف کے شور کی وجہ سے صدر خود بھی نہیں سُن پاتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
یوں یہ صدر سلمان خان کی طرح اپنی بھی نہیں سُنتا۔ بُوٹوں اور کھونٹوں والے صدر کے درمیان ایک خون کے گھونٹوں والا صدر بھی ہوتا تھا جو اب نہیں رہا۔ یہ آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت حکومت اور اسمبلیاں اُٹھا کر پھینک سکتا تھا، اسی لیے اسے وزیراعظم خون کے گھونٹ پی کر برداشت کرتا تھا، وہ گھونٹ ہی لے رہا ہوتا تھا کہ یہ ایک لقمے میں اُسے ہڑپ کرجاتا تھا۔ اس ترمیم کے خاتمے کے بعد سے صدر، صدرمقام نہیں ہوتا صرف ایوان صدر میں مقیم ہوتا ہے۔
اب بات ہوجائے ''اسلامی'' کی۔ یہ لفظ سابقہ اور لاحقہ بن کر کسی بھی شئے، نظام، اصطلاح اور لفظ کو تقدس عطا کردیتا ہے، اس طرح عامی، خامی، بدنامی۔۔۔۔مزید قافیے آپ جوڑ لیں، سب نیک نامی حاصل کرلیتے ہیں، جیسے ''اسلامی بینکنگ'' کی کام یابی بتاتی ہے کہ اسلامی لگادینا کبھی ''بے سود'' ثابت نہیں ہوتا۔ جنرل ضیاء الحق اپنی حکم رانی پر اسلامی کی مُہر لگا کر گیارہ سال کھینچ گئے۔ وہ صدر تو تھے ہی، ''اسلامی'' کی گردان اس قدر کرتے تھے کہ انھیں خود کو ''اسلامی صدر'' قرار دینا چاہیے تھا، مگر انھوں نے کسرنفسی سے کام لیا، نہ خود کو صدر کہا نہ اپنے پارلیمانی، صدارتی اور آمرانہ ملغوبے کو ''اسلامی صدارتی نظام'' کا نام دیا، اچھا نہیں کیا، ورنہ ہمارے سامنے اس نظام کی ایک تصویر اور مثال ہوتی۔ خیر اب دیکھتے ہیں کہ جس ''اسلامی صدارتی نظام'' کی بات چل رہی ہے وہ کس بلا کا نام ہے یا فقط ''ادارتی انتظام'' ہے۔
نظام سقہ کی خوش نصیبی کہ اسے پتا تھا حکومت کتنے دورانیے کے لیے دی گئی ہے، اس لیے ایک ہی دن میں چمڑے کے سِکے جاری کرکے معیشت میں تبدیلی لے آیا، معلوم نہ ہوتا تو پورا دن عوام کی چمڑی اُدھیڑ کر معیشت سُدھارنے میں گزار دیتا۔ ایک ہوتا ہے نظام ہاضمہ، یہ کافر اور مومن سب کا ایک جیسا ہوتا ہے، اس لیے تاحال اسلامی ہوتا ہے نہ غیراسلامی، مستقبل کا پتا نہیں کہ آپ ڈاکٹر کے پاس نظام ہاضمہ کی شکایت لے کر جائے اور وہ پوچھے ''میاں پہلے ٹیسٹ کراؤ کہ تمھارا نظام ہاضمہ اسلامی ہے یا غیراسلامی۔'' جس چوتھے نظام سے ہماری آشنائی ہے وہ ہے نظام الاوقات، یوں تو اچھا نظام وہی ہوتا ہے جو ہر ایک کو اپنی اوقات میں رکھے، مگر یہ وہ والا نظام نہیں ہے۔ نظام الاوقات وہ نظام ہے جس کی ہمارے ہاں خود کوئی اوقات نہیں۔ یہ بس کاغذ پر لکھ کر دیوار کا اُترتا رنگ اور اکھڑتا پلاسٹر چھپانے کے کام آتا ہے، ورنہ اس کے مطابق کوئی آتا ہے نہ جاتا ہے۔
اب آتے ہیں ''صدارتی'' کی طرف، کیوں کہ حالات بھی اسی طرف آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم اس طرف پہلے بھی کئی بار آچکے بلکہ لائے جاچکے ہیں۔ آپ ہمیں دانش ور سمجھتے ہوئے پوچھیں گے کہ صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام میں کیا فرق ہے؟ ہمارا سیدھا سا اور نہایت معقول جواب تو یہ ہے کہ صدارتی نظام صدارتی نظام ہوتا ہے اور پارلیمانی نظام پارلیمانی نظام، چلیے یوں سمجھ لیجیے کہ دونوں نظاموں میں فرق یہ ہے کہ صدارتی نظام میں صدر سب کچھ ہوتا ہے، اس کے علاوہ اس نظام کے تحت ملک میں باقی سب کچھ ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام اور وزیراعظم کو ووٹوں، لوٹوں اور نوٹوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن صدر بننے کے لیے بھاری بُوٹوں کا ہونا بھی کافی ہے۔
واضح رہے کہ ہم ''پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے'' والے گُل بوٹوں کی بات نہیں کر رہے، ذکر اُن بوٹوں کا ہے جو جب آتے ہیں گُل کِھلاتے ہیں۔ مثال کے لیے دیکھیے ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف کی صدارتیں۔ اقتدار میں آنے کے لیے یہ کمر کستے ہیں اور اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کی شیروانی کسی رہتی ہے، کیوں کہ شیروانی کے نیچے وردی ہوتی ہے، شیروانی ڈھیلی ہوتے ہی اقتدار پر گرفت بھی ڈھیلی پڑجاتی ہے۔ یہ کساؤ آخرکار کمردرد لاتا ہے اور صاحب کمر ملک سے باہر جاکر کمر مٹخاتا اور درد سے افاقہ پاتا ہے۔
بوٹوں والے صدر کے یکسر متضاد کھونٹوں والا صدر ہوتا ہے۔ یہ خود کو صدر بنانے والے کا ممنون رہتا ہے اور کہتا ہے ''ہم تو ہیں بابل تیرے کھونٹے کی گائیاں، جد (جدھر) ہانکے ہنک جائیں''، مُدت صدارت میں کبھی کبھی سلامی کے چبوترے پر رکھ کر اس کی نمائش کی جاتی ہے، پھر لپیٹ کر واپس ایوان صدر میں رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ فائلوں پر دست خط کرنے کے کام آتا ہے، اور سال میں ایک بار پارلیمنٹ سے خطاب کرتا ہے، جو نہ حزب اختلاف سُنتی ہے، نہ حزب اقتدار سُنتی ہے اور نہ قوم، بلکہ حزب اختلاف کے شور کی وجہ سے صدر خود بھی نہیں سُن پاتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
یوں یہ صدر سلمان خان کی طرح اپنی بھی نہیں سُنتا۔ بُوٹوں اور کھونٹوں والے صدر کے درمیان ایک خون کے گھونٹوں والا صدر بھی ہوتا تھا جو اب نہیں رہا۔ یہ آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت حکومت اور اسمبلیاں اُٹھا کر پھینک سکتا تھا، اسی لیے اسے وزیراعظم خون کے گھونٹ پی کر برداشت کرتا تھا، وہ گھونٹ ہی لے رہا ہوتا تھا کہ یہ ایک لقمے میں اُسے ہڑپ کرجاتا تھا۔ اس ترمیم کے خاتمے کے بعد سے صدر، صدرمقام نہیں ہوتا صرف ایوان صدر میں مقیم ہوتا ہے۔
اب بات ہوجائے ''اسلامی'' کی۔ یہ لفظ سابقہ اور لاحقہ بن کر کسی بھی شئے، نظام، اصطلاح اور لفظ کو تقدس عطا کردیتا ہے، اس طرح عامی، خامی، بدنامی۔۔۔۔مزید قافیے آپ جوڑ لیں، سب نیک نامی حاصل کرلیتے ہیں، جیسے ''اسلامی بینکنگ'' کی کام یابی بتاتی ہے کہ اسلامی لگادینا کبھی ''بے سود'' ثابت نہیں ہوتا۔ جنرل ضیاء الحق اپنی حکم رانی پر اسلامی کی مُہر لگا کر گیارہ سال کھینچ گئے۔ وہ صدر تو تھے ہی، ''اسلامی'' کی گردان اس قدر کرتے تھے کہ انھیں خود کو ''اسلامی صدر'' قرار دینا چاہیے تھا، مگر انھوں نے کسرنفسی سے کام لیا، نہ خود کو صدر کہا نہ اپنے پارلیمانی، صدارتی اور آمرانہ ملغوبے کو ''اسلامی صدارتی نظام'' کا نام دیا، اچھا نہیں کیا، ورنہ ہمارے سامنے اس نظام کی ایک تصویر اور مثال ہوتی۔ خیر اب دیکھتے ہیں کہ جس ''اسلامی صدارتی نظام'' کی بات چل رہی ہے وہ کس بلا کا نام ہے یا فقط ''ادارتی انتظام'' ہے۔