تحقیق کرو۔۔۔ نیند کیوں کر آتی ہے

محققین کی تحقیق اپنی جگہ لیکن ہمارا اس سے پوری طرح متفق ہونا ضروری نہیں۔

محققین کی تحقیق اپنی جگہ لیکن ہمارا اس سے پوری طرح متفق ہونا ضروری نہیں۔ فوٹو: فائل

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کی نیند کے بارے میں بنائے جانے والے قصے کہانیاں نہ صرف ہماری صحت اور موڈ دونوں کو تباہ کرتے ہیں بلکہ ہماری زندگی کو بھی کم کرتے ہیں۔

نیو یارک یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے انٹرنیٹ پر دیے جانے والے رات کی نیند کے سب سے زیادہ مقبول نسخوں کا پتا لگایا۔ رپورٹ کے مطابق نیند لانے کے لیے آزمائے جانے والے نسخوں میں ٹی وی دیکھنا، اسمارٹ فون کا استعمال، الارم بجنے کے بعد ''اسنوزبٹن'' دبا کر جھپکی لینا شامل ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ ان نسخوں پر عمل سے نیند اچھی نیند نہیں آتی اور صحت پر مضر اثرات مُرتب ہوتے ہیں۔

محققین کی تحقیق اپنی جگہ لیکن ہمارا اس سے پوری طرح متفق ہونا ضروری نہیں۔ ویسے تو بعض لوگوں کو بیوی دیکھ کر بھی نیند آجاتی ہے، لیکن ٹی وی دیکھ کر خوابوں میں کھوجانا تو بڑی عام سی بات ہے، بشرط یہ کہ ٹی وی پر حکومت کا کوئی حامی اینکر حالات کی منظر کشی کر رہا ہو یا کوئی وزیر مستقبل کا نقشہ کھینچ رہا ہو، پھر تو دل ودماغ کو وہ سکون ملتا ہے کہ ناظر آنکھیں بند کرکے یقین کرتا اور سوجاتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی حکومت مخالف تجزیہ کار حکومتی کارکردگی کا احوال پیش کر رہا ہو تو دیکھنے والے کو صبح دیکھ کر لگتا ہے ''یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا'' کا قصہ ہوگا، لیکن وہ استفسار پر جھنجھلا کر کہتا ہے ''مجھ کو ایک تجزیہ کار نے سونے نہ دیا۔'' اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ سوتے سمے ٹی وی پر ''مثبت خبریں'' دینے والے چینل اور پھر رات بھر سُہانے خواب دیکھیں۔


جس طرح ''دوست یاں کم ہیں اور بھائی بہت'' اس طرح ہمارے ہاں نیند لانے والے عوامل بہت کم ہیں اور اسے بھگانے والے افراط سے، جن کی فہرست میں ٹی وی سے پہلے بیوی کا نام آتا ہے۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ بیویوں کو اپنے نصیب کے سونے کا خیال عین شوہر کے سونے کے اوقات میں آتا ہے، پھر شکوے شکایات اور خاندان کی حکایات نہ سُنو تو ''ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمھیں پیاری ہے'' کا گِلہ سُننے کو ملتا ہے۔ بڑے جگر والے ہیں جو اس توتو میں میں، جس میں بیوی توتو اور شوہر میں میں کر رہا ہوتا ہے، کے بعد بھی ''اب آؤ مل کے سو رہیں تکرار ہوچکی'' کا ارادہ باندھتے ہیں، ورنہ اس تکرار میں نیند فرار ہوچکی ہوتی ہے۔

نیند کی راہ کا روڑا وہ ایس ایم ایس بھی بنتے ہیں جن میں عین سوتے وقت آپ کو موت یاد دلائی جاتی ہے۔ یوں تو موت کا ایک دن معین ہے، لیکن ایسے ایس ایم ایس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی اس خوف میں گرفتار ہوجاتا ہے کہ کہیں کل کا دن ہی متعین نہ ہو۔ ہم جیسے سیاہ کار اس خوف کا شکار ہوکر نیکی کی طرف مائل ہونے کے بجائے اس فکر میں غلطاں ہوجاتے ہیں کہ کون کون سے گناہ سرزد ہونے سے رہ گئے؟

اگر آپ کا گھر کسی ''لاؤڈاسپیکر''کی زد پر ہے تو جوش سے بھری ہوش اُڑاتی آواز رات گئے تک آپ کی نیند اُڑائے رکھتی ہے۔ کان بند کرنے کے لیے تکیے پر تکیہ کرنے سے بھی بات نہیں بنتی۔ محلے کی شادی میں گانوں کی ریکارڈنگ اور ڈھول کی تھاپ کے ساتھ پھٹے ڈھول سی آوازوں کا شور آپ کو پَرائی شادی میں عبداﷲ دیوانہ بنائے رکھتا ہے، یہ شادی کئی دن تک آپ کی نیند کی بربادی بنی رہتی ہے۔ کسی شادی میں جانا بھی اپنے ہاتھوں نیند کو بھگانا ہے، جس کی وجہ رات بارہ بجے ملنے والا کھانا ہے۔ یہ مُرغن کھانا ڈکاروں کی صورت میں خراٹوں کو آپ سے دور رکھتا اور جاگنے پر مجبور رکھتا ہے۔

اب اتنے سارے نیند بگاڑ عوامل کے ہوتے ہوئے تحقیق یہ ہونی چاہیے کہ کسی کو نیند آتی ہے تو کیوں کر آتی ہے؟
Load Next Story