وفاقی پولیس کے پاس ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تربیت ہے نہ جدید اسلحہ آئی جی اسلام آباد کا اعتراف
زمرد خان کو سیکیورٹی ایریا میں داخل ہونے کی اجازت دینا کسی حکمت عملی کا نتیجہ نہیں تھا، آئی جی وفاقی پولیس سکندر حیات
LONDON:
آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے اعتراف کیا ہے کہ وفاقی پولیس کے پاس سکندر کے واقعے جیسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے نہ ہی تربیت ہے اور نہ ہی جدید اسلحہ ہے۔
سکندر واقعے سے متعلق وزارت داخلہ کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے کہا ہے کہ واقعے کی اطلاع ملنے پر انہوں نے جائے وقوعہ پر جانے کا فیصلہ کیا لیکن ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر رضوان کا فون آیا کہ وہ جائے وقوعہ کے قریب ہیں اور چھٹی ہونے کے باوجود وہیں پہنچ رہے ہیں لہٰذا ایس ایس پی آپریشنز اور لاجسٹک کی موجودگی کے باعث انہوں نے جائے وقوعہ پر نہ جانے اور دفتر میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ انہوں نے تمام صورتحال پر نہ صرف مسلسل نظر رکھی بلکہ وقتاً فوقتاً اپنے جونیئرز کو ہدایت بھی دیں اور اعلیٰ حکام سے رابطہ بھی رکھا لیکن زمرد خان کی موجودگی کا ٹی وی سے ہی پتہ چلا جب انہوں نے سکندر کو دبوچنے کی کوشش کی اور وہ گر گئے، زمرد خان کو سیکیورٹی ایریا میں داخل ہونے کی اجازت دینا کسی حکمت عملی کا نتیجہ نہیں تھا، وہ بغیر پرواہ کئے ممنوعہ ایریا میں داخل ہوئے جس کے بعد انہیں روکنا ناممکن تھا۔
سکندر حیات کے مطابق واقعے کے روز وفاقی پولیس کے پاس 9 ہزار 993 پولیس افسران اور اہلکار تھے لیکن صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی کا فقدان تھا جبکہ میڈیا بھی اس کا ذمہ دار تھا۔
آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے اعتراف کیا ہے کہ وفاقی پولیس کے پاس سکندر کے واقعے جیسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے نہ ہی تربیت ہے اور نہ ہی جدید اسلحہ ہے۔
سکندر واقعے سے متعلق وزارت داخلہ کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے کہا ہے کہ واقعے کی اطلاع ملنے پر انہوں نے جائے وقوعہ پر جانے کا فیصلہ کیا لیکن ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر رضوان کا فون آیا کہ وہ جائے وقوعہ کے قریب ہیں اور چھٹی ہونے کے باوجود وہیں پہنچ رہے ہیں لہٰذا ایس ایس پی آپریشنز اور لاجسٹک کی موجودگی کے باعث انہوں نے جائے وقوعہ پر نہ جانے اور دفتر میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ انہوں نے تمام صورتحال پر نہ صرف مسلسل نظر رکھی بلکہ وقتاً فوقتاً اپنے جونیئرز کو ہدایت بھی دیں اور اعلیٰ حکام سے رابطہ بھی رکھا لیکن زمرد خان کی موجودگی کا ٹی وی سے ہی پتہ چلا جب انہوں نے سکندر کو دبوچنے کی کوشش کی اور وہ گر گئے، زمرد خان کو سیکیورٹی ایریا میں داخل ہونے کی اجازت دینا کسی حکمت عملی کا نتیجہ نہیں تھا، وہ بغیر پرواہ کئے ممنوعہ ایریا میں داخل ہوئے جس کے بعد انہیں روکنا ناممکن تھا۔
سکندر حیات کے مطابق واقعے کے روز وفاقی پولیس کے پاس 9 ہزار 993 پولیس افسران اور اہلکار تھے لیکن صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی کا فقدان تھا جبکہ میڈیا بھی اس کا ذمہ دار تھا۔