’’صاحبہ‘‘

بات اگر ’’صاحبہ‘‘ تک ہوتی تو بھی ٹھیک تھی ’’صاحبہ‘‘ تو ایک بہانہ تھا اپنی نالائقیاں چھپانے کے لیے۔

Jvqazi@gmail.com

صاحب ہوا مذکر، صاحبہ مونث۔ مگر کبھی کبھی ان ناموں سے ہاتھ ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے معنیٰ کھو بیٹھتے ہیں اور پھر ایک نئے معنیٰ کے ساتھ اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔ خیر ''صاحبہ'' کے ساتھ وہ کچھ نہیں ہوا جو ''وڈیرے'' کے ساتھ ہوا یا پھر ''سائیں''کے ساتھ۔ یہ دونوں الفاظ بہت مثبت خیال کے ساتھ ذہن کے گوشوں میں اپنی جگہ بناتے تھے مگر وقت کے ساتھ وڈیرا اپنی ماہیت بدلتا گیا۔ وہ جو پریوار یا برادری کے بڑے ہوتے تھے ان کو وڈیرا کہا جاتا تھا۔ معنی ''بڑا'' ۔ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھتا تھا مگر پھر چارلس نیپیئر کے بعد ''وڈیرا'' وہ ٹھہرا جو انگریزوں کی تابعداری کرے اور دوسروں سے کروائے۔

اس کے بدلے اس نے انگریزوں سے خطابات لیے اور تحفے میں زمینیں لیں ۔ سائیں حال ہی تک بہت اعلیٰ مقام رکھتا تھا اور اب بھی رکھتا ہے لیکن سندھ چونکہ اب بھی انھی پیروں اور وڈیروں کے شکنجے میں ہے تو سائیں بھی یہی ٹھہرے۔ اور ''سائیں '' اسکول میں پڑھانے والے استاد کو بھی کہتے تھے اور جب استاد ہی نہ رہا تو سائیں کہنا بھی کھوٹے سکے کے مانند ٹھہرا۔

جب ''صاحبہ'' متنازعہ ہوا تو ''صاحب ''کیسے بچ سکتا تھا۔ شیخ رشید نے جب یہ ''صاحب'' کو متنازع بنانے کی کوشش کی، فردوس عاشق اعوان کو صاحب سے مخاطب کیا کہ ''صاحبہ'' والا معاملہ پس منظر میں چلا جائے مگر یہ ہوا نہیں اسلیے کہ یہ مردوں کا سماج ہے۔ وہ لفظ جو اسی تناظر میں ہو تو ان کو کچھ بھی نہیں ہوتا اسی لیے کہ مردوں نے احتجاج نہیں کیا کہ ایک عورت کو صاحب کہہ کے مردوں کی تذلیل کی گئی کہ کہیں شیخ رشید نے ''صاحب'' لفظ کو بطور گالی استعمال کیا جس طرح عمران خان صاحب نے یہ لفظ بلاول بھٹو صاحب کے لیے استعمال کیا۔ الفاظ کا انتخاب وہ ہو جو حساس معنی، تناظر اور تاریخ رکھتے ہوں۔جب بھی عورت پر قابو نہیں پا سکتے تو یہ الزام لگانا شروع کر دیتے ہیں ۔ عورت اگر وہی غلطی کرے جو مرد کرے تو اس کی سزا کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جب کہ مرد کے لیے تو کبھی کبھی سزا ہوتی ہی نہیں۔

''صاحبہ'' ہو ، ''چوڑیاں'' ہو یا ''دوپٹہ'' یہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے جو لوگ مرد نہیں ہوتے یا جو اس انداز میں نہیں کھڑے ہوتے اکثر ان کے لیے یہی کچھ کہا جاتا ہے کہ وہ چوڑیاں پہن لیں، دوپٹہ اوڑھ لیں اور اب تو ''صاحبہ'' بھی اس کام کے لیے استعمال ہونے لگا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو مرد کی نظر سے دیکھا گیا اور بینظیر کو زن۔ دونوں اپنے اس رتبے میں تعظیم کے لائق تھے۔ بینظیر کو اس مردوں کے سماج میں اتنا جرات مند ہونے پر مرد ہی کہا جاتا تھا۔ مگر وہ مرد نہ تھی وہ زن تھی اور اس نے اس جرات سے اور عورت کے درجے کو بلند کیا۔ ایک ایسے سماج میں جہاں وہ پستہ حال ہے، شاید دنیا میں اس کی اس پستہ حالی پر کوئی اور ملک ثانی نہیں رکھتا۔ مگر بینظیر کا رتبہ اپنے والد سے بھی بڑا ہے وہ کسی آمر کی پیدا کی ہوئی نہیں تھی اور نہ ہی اس کا 1971 کا سانحہ تعاقب کر رہا تھا۔ یہ جو مرد وزن کی تکرار ہے اور جو ''صاحب'' اور ''صاحبہ'' میں جھلکتا ہے، اکثر ایوانوں میں نکھر کے آتا ہے کہ اب عورتوں کی نشیستیں زیادہ ہیں۔

یہ ٹکرائو اب نئے مقام میں داخل ہوتا ہے۔ جنہوں نے صاحبہ کو بطور بری بات کہہ کر استعمال کیا ان کے ہاتھ تو ضرور جل گئے ہونگے۔ہو سکتا ہے اگر پرفارمنس بہتر ہوتی، مہنگائی اتنی نہ بڑھتی اور معیشت کا بھٹہ نہ بیٹھتا تو ''صاحبہ'' پر اتنا رد عمل نہ ہوتا۔ بلاول کے پاس ان کو چڑانے کے لیے ''سلیکٹیڈ'' لفظ ہے جو وہ وزیراعظم سے پہلے لگاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے یہ ان کے دل پر لگتا ہے۔ بیچ سے مسلم لیگ نون غائب ہے اور بلاول کے لیے کھلا میدان ہے۔

وہ بلاول کو پہلے بھٹو زرداری کے چکر میں چلاتے رہے یہاں تک تو یہ بات ایک حد تک ٹھیک تھی کہ دو ذاتیں ایک ساتھ لے کر کے نہیں گھومتے۔ یا تو بھٹو ہو جائو یا پھر زرداری۔ شادی کے بعد بینظیر جو بھٹو تھی ۔ بڑے بڑے مرد بمع ممتاز بھٹو میدان میں آئے کہ وہ بھٹو نہیں زرداری ہے۔ بلاول پر زیادہ برہم شیخ رشید ٹھہرے۔ بلاول اپنی تقاریر پڑھ کر کیا کرتے اور انداز بیان اپنی والدہ جیسا رکھتے۔ پہلے تو اس صاحب پر ہنسی ہم کو بھی آتی تھی مگر گاہے بگاہے اب ان کے بیان میں اور خیال میں پختگی سے آ گئی ہے بہتر یہی ہے کہ ان کے بیان کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اس کا جواب سنجیدگی سے دیا جائے۔اب یہ ملک بہتان بازیوں، گالیوں، بڑے بڑے خوابوں و نظریوں سے نہیں چل سکتا اور یہی ''صاحبہ'' پہ جو رد عمل ہے وہ آپ کے سامنے اور عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہے۔ آپ کی نالائقیاں ہیں جو بلاول کیش کروا رہا ہے۔


اس مردوں کے سماج میں ہمارے ہر موضوع و بحث و گالی میں نشانہ عورت ہی رہی ہے چلو اچھا ہوا اس بار بلاول کو عورت کر کے پکارا گیا اسے نیچا ثابت کرنے کے لیے۔ یہ تو خیر مرد ہے مگر وہ جو خواجہ سرا ہیں جن کو خدا نے ایسا بنایا ہے اور جو وہ ہیں وہ اس میں خوش ہیں یا جو مختلف جنسی رویے رکھتے ہیں وہ جانے ان کا خدا جانے ہم ان سے یہاں کیوں حساب لینا چاہتے ہیں۔ وہ باتیں جن کی کوئی تصدیق نہیں ہم ان پر اپنا وقت کیوں ضایع کرنا چاہتے ہیں۔

آج اس ملک کا جو حلیہ بنا ہے یہ وہی اشرافیہ ہے۔ یہ وہی پرانی بنی فالٹ لائن ہے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر ہے۔ کبھی آمریت تو کبھی جمہوریت۔ کبھی سول ملٹری توازن ہے تو کبھی خان صاحب والی Hybrid ڈیموکریسی ہے۔ ہاتھی کے دانت دکھانے کے لیے ایک اور کھانے کے لیے کچھ اور۔ ہمارا نظام ہی پورے برصغیر میں انوکھا ہے اور اب کے انجنیئر بدلنا ہو گا۔ یوں کہئے کہ اب انجینئرنگ سے کام نہیں چلے گا۔ یہ ملک ادارے مانگتا ہے۔ ادارہ جاتی اسقامت۔

جس طریقے سے ان دس برسوں میں سندھ کے اندر بربادی ہوئی ہے یا جس طرح شریف خاندان نے اداروں کو برباد کیا، قرضے لیے گئے غیر ضروری پراجیکٹ میں لگائے گئے اس کا مطلب جو آمریتوں کے دور میں ہوا وہ بھی ٹھیک تھا؟ سنئے حالات اور بھی خراب ہونگے اگر ہم نے اپنے قبلے درست نہ کیے ادارے بہتر نہ کیے، نیشنل قیادت پیدا نہیں کی۔ موڈی کو نکالنے کے لیے وہاں راہول جیسی قیادت موجود ہے مگر ہمارے یہاںمتبادل نہیں ہوتا۔ اور یہی وہ المیہ ہے جو اس ملک کو اندر سے کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔

بات اگر ''صاحبہ'' تک ہوتی تو بھی ٹھیک تھی ''صاحبہ'' تو ایک بہانہ تھا اپنی نالائقیاں چھپانے کے لیے۔ جب نواز شریف حکومت میں تھے تو یہ ان کو جواب اسمبلی میں کم اسمبلی سے باہر زیادہ دیا کرتے تھے۔ چلو یہ تو اچھا ہے کہ اپوزیشن اسمبلی کے فلور پر ہی بولتی ہے۔ ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں پھر یہ بھی نہ جواب باہر کنٹینر پر بیٹھ کر دیں۔ بیٹھتی معشیت، افراط زر و بیروزگاری سوالیہ نشان ہے، سیاست کے اندر بہت تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں اور اس بدلتی دنیا میں ۔ بدلتا پاکستان لازم ہے اور اگر پاکستان کا بدلنا ہم سے بے قابو ہو جائیگا تو پھر یہاں سب کے ساتھ برا ہو گا۔

اس لیے ایڈونچر نہ کیے جائیں، نہ ایک ارب نوکریاں پیدا کرنے کی بات کی جائے۔ یہ ایک دم الٹی چال چل سکتے ہیں کیوں کہ ایسی باتیں اور کام آپ کے غیر سنجیدہ رویے کے عکاس ہیں جب کہ سیاست بہت سنجیدہ رویے کی طلبگا رہے۔

ہمیں اب دشمن کو بْرا دکھانے کے لیے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے اجتناب کرنا ہو گا یہ کچھ وقت تک تو ہمیں بہلا سکتے ہیں مگر مجموعی طور پر یہ ہمارے بیانیہ کو اور بھی خراب کرتے ہیں۔ بیانیہ قوم کی روح ہوتی ہے اور اگر یہ روح بگڑ جائے تو حالات اور بھی بگڑ سکتے ہیں۔

معافی بلاول سے مانگنے کی ضرورت نہیں۔ معافی ہمیں پاکستان کی تمام عورتوں سے مانگنی ہو گی جو ''صاحبہ'' کی وارث ہیں اور بڑے فخر سے ان کے نام عزت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے معافی جو ''صاحبہ'' لفظ پر بھی مانگنی ہو گی کہ یہ لفظ ڈکشنری میں اسی معنی کے ساتھ واپس جائے جو اس کا حق ہے۔
Load Next Story