حکومت کو حقیقت پسندانہ پالیسیاں بنا کر انقلابی اقدامات کرنا ہونگے

’’ماہرین امور خارجہ، تجزیہ نگاروں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں‘‘ کا ’’ایکسپریس فورم‘‘میں اظہارِ خیال

’’ماہرین امور خارجہ، تجزیہ نگاروں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں‘‘ کا ’’ایکسپریس فورم‘‘میں اظہارِ خیال

''موجودہ حکومت کی پالیسیاں اور مستقبل پر ان کے اثرات'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ، سیاسی تجزیہ نگاروں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات
(ماہر امور خارجہ )

تحریک انصاف نے لوگوں کی توقعات میں بے انتہا اضافہ کیا مگر انہیں حکومت میں آنے کے بعد معلوم ہوا کہ ایسا ممکن نہیں لہٰذا حقیقت پسندانہ پالیسیاں بنانی چاہئیں۔ اپوزیشن سے الجھنے پر توجہ رکھنے کی وجہ سے حکومت کی بنیادی مسائل سے توجہ ہٹ گئی۔ عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔

میں ان پر بلا وجہ اعتراض نہیں اٹھانا چاہتا مگر میرے نزدیک پنجاب کا وزیراعلیٰ فعال،متحرک اور مضبوط ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہ کئی ممالک سے بڑا صوبہ ہے۔ ملک کی شرح خواندگی کم ہورہی ہے، صنعت و زراعت بھی بدحالی کا شکار ہے جبکہ بڑھتی ہوئی آبادی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت کو آبادی کنٹرول کرنے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ جب تک آبادی کنٹرول نہیں ہوگی تب تک مسائل حل نہیں ہوسکتے۔اس کا آبادی میں اضافے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ سری لنکا کی شرح خواندگی سب سے زیادہ ہے اور آبادی میں اضافے کی شرح سب سے کم ہے جبکہ پاکستان میں اس کا الٹ ہے۔

امریکا و دیگر ترقی یافتہ ممالک میں آبادی کی شرح منفی ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک ایران نے آبادی پر قابو پایا حالانکہ وہاں بھی اسلامی قوانین رائج ہیں۔ ایران کی شرح خواندگی 1.2 فیصد ہے جبکہ ہم ریڈ لائن کو عبور کر رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ حکومتوں نے اس طرف توجہ نہیں دی لہٰذا موجودہ حکومت کو حقیقت پسندانہ پالیسیاں بنا کر تندہی سے کام کرنا ہوگا۔ یہ خوش آئند ہے کہ اس وقت سول ملٹری ادارے ایک پیج پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہے اور کراچی کی حالت بھی سب کے سامنے ہے۔

صدراتی نظام اور 18 ویں ترمیم کے حوالے سے باتیں بے بنیاد ہیں۔ حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ہے۔ بھارت کے معاملے پر بھی ان کا ردعمل بہترین تھا۔ انہوں نے کوئی لچک نہیں دکھائی اور بھارت کو دوٹوک جواب دیا کہ ہم ردعمل پر مجبور ہوجائیں گے۔ ہمیں اب پرانی عادت ترک کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں سی پیک کو تماشہ نہیں بنانا چاہیے۔ سی پیک میں کچھ حصہ سرمایہ کاری ہے اور کچھ قرض لہٰذا اگر حکومت نے اس میں اچھا پرفارم نہ کیا تو چین کے ساتھ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ پاکستان ریجنل الائنس سسٹم میں خود کو اچھی جگہ رکھ رہا ہے۔

امریکا اور بھارت سٹرٹیجک پارٹنر ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے مائیک پومپیو کو کہا کہ ہم مانتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ امریکا کے سٹرٹیجک تعلقات بن چکے ہیں مگر آپ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے بغیر افغانستان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا،ا س لیے توازن قائم کریں۔ امریکا، بھارت الائنس میں اسرائیل، سعودی عرب اور خلیجی ممالک شامل ہیں۔ ہمیں سیکھنا چاہیے کہ ہم مختلف ممالک کے ساتھ کس طرح باہمی تعلقات استوار کر سکتے ہیں۔ اگر سعودی عرب اور دبئی بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرسکتے ہیں تو ہم ایران کے ساتھ کیوں نہیں؟ وزیراعظم کا دورہ ایران مثبت قدم ہے، ہمیں ترکی اور ایران کے ساتھ بلاک کو مزید فروغ دینا چاہیے۔ روس کے ساتھ بھی تعلقات کو فروغ مل رہا ہے جو خوش آئند ہے۔

سلمان عابد
(دانشور )

کابینہ میں رد وبدل سے خود وزیراعظم بھی معترف ہیں کہ وہ جو چاہتے تھے وزراء نے اس طرح کی کارکردگی نہیں دکھائی۔ کابینہ میں تبدیلی کی بنیادگڈ گورننس کو بہتر کرنا، اچھا ڈیلور کرنا اور لوگوں کو ریلیف دینا ہے۔ حکومت کے لیے اس وقت دو بڑے چیلنجز ہیں۔ پہلا چیلنج معاشی بحران ہے۔ عمران خان اور اسد عمر نے انقلابی انداز میں معیشت چلانے کی کوشش کی مگر ثابت ہوا کہ ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے ڈاکٹر حفیظ شیخ کا انتخاب کیا گیا جو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کیلئے موثر ہیں۔

اسی بنیاد پر پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ان کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اب روایتی طریقے سے معیشت چلانے کی کوشش کی جائے گی۔ ایمنسٹی سکیم کومسترد کر دیا گیا جبکہ کاروباری طبقے کو ریلیف دیا جائے گا۔ حفیظ شیخ کی کامیابی کا انحصار عالمی اداروں پر ہے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے تھی خصوصاً اس وقت جب گرے لسٹ والا معاملہ بھی درپیش ہے تو عالمی اداروں سے ٹکراؤ میں نہیں جانا چاہیے تھا۔ ہماری اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری محدود ہے۔ حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں کر پا رہی۔ لوگوں کے اندر خوف کی فضا پیدا کردی گئی جس سے کاروباری طبقہ ڈر گیا اور ایسا تاثر گیا کہ اب کسی کی دولت محفوظ نہیں رہے گی۔

افسوس ہے کہ جس انداز میں حکومت نے معاملات چلانے کی کوشش کی وہ کارگر ثابت نہیں ہوسکا۔ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ رمضان میں مہنگائی بڑھ جاتی ہے جس پر قابو پانا حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے، مجھے حکومت فوری ریلیف دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آ رہی۔ معاشی استحکام، اندرونی استحکام سے آتا ہے مگر اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تناؤ کی صورتحال ہے، ڈیڈلاک برقرار ہے اور دونوں ہی میچورٹی کا مظاہرہ نہیں کر رہے جس سے ملک کو نقصان ہورہا ہے۔

حکومت کے رویے سے محاذ آرائی بڑھ رہی ہے، انہیں احتساب کا معاملہ نیب اور عدلیہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے بعض وزراء کا لب و لہجہ ابھی بھی اپوزیشن والا ہے جو حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے ، وزیراعظم کو اس حوالے سے ضابطہ اخلاق بنانا ہوگا۔ ملک میں سول ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے۔ افغانستان کا مسئلہ کافی حد تک حل ہونے کے قریب ہے جس پر بھارت، ایران و دیگر ممالک کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ اگر پاکستان ، افغانستان کے مسئلے کاایسا حل کروانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو افغان حکومت، طالبان، امریکا و دیگر علاقائی ممالک کو قبول ہو تو اس کے اچھے نتائج مرتب ہوں گے اور خطے میں ایک نئی ڈویلپمنٹ ہوگی۔ وزیر اعظم کا دورہ ایران بہترین اور مثبت رہا۔ پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ ہم نے خود کو سعودی کیمپ میں ڈال دیا اور ایران کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی۔

اس دورے کے بعد صدر روحانی اور عمران خان نے مشترکہ کانفرنس میں دہشت گردی پر جو موقف اپنایا اس سے لگتا ہے دونوں ممالک مل کر اس حوالے سے کام کرسکتے ہیں۔ہندوستان میں انتخابات کی وجہ سے پاکستان مخالف جذبات کو ابھارا جا رہا ہے تاہم انتخابات کے بعد جس بھی جماعت کی حکومت بنے گی وہ بات چیت سے پاکستان کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کی کوشش کرے گی۔ حکومت کو اپنی توجہ کارکردگی پر دینی چاہیے اور احتساب کا معاملہ عدالتوں اور احتساب کے اداروں پر چھوڑ دینا چاہیے۔


روزانہ کی بنیاد پر بیان بازی سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہورہا ہے، حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہاںسیاحت کے حوالے سے بات ہوئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 3 برسوں میں سیاحت میں 36 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کی بڑی وجہ یہاں امن و امان کی بہتر صورتحال ہے۔ اس شعبے میں حکومت جتنا زیادہ کام کرے گی اتنی معیشت بہتر ہوگی۔ مقامی حکومتوں کے حوالے سے نیا نظام لایا جارہا ہے۔ عمران خان کی سب سے زیادہ توجہ اس طرف تھی کہ وہ ایک بہترین لوکل باڈی سسٹم لانا چاہتے تھے۔ حکومت نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے بلدیاتی نظام کو تبدیل کیا جس پر ہمیں تحفظات ہیں کیونکہ یہ وہ نظام نہیں ہے جس کی عمران خان بات کرتے ہیں۔

راجہ حسن اختر
(نمائندہ بزنس کمیونٹی )

سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو تنقید کی تمام حدود پار کر لیتے ہیں اور حکومت میں خامیاں نکالتے ہیں مگر جیسے ہی اقتدار میں آتے ہیں توواویلا کیا جاتا ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے، اس وقت خزانہ بھرا ہوا تھا؟اُس وقت جو بھی حکومت تھی وہ خالی خزانے کے ساتھ معاملات چلا رہی تھی، اگر آج یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خزانہ خالی ہونے کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہورہے تویہ بہانہ قابل قبول نہیں۔ اسد عمر شیڈو کابینہ کے وزیر خزانہ تھے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے وہ بلند و بانگ دعوے کرتے رہے مگر وزیر بننے کے بعد ریلیف نہیں دے سکے اور ناک آؤٹ ہوگئے۔ انہیں تبدیل کر دیا گیا مگر یہ نہیں معلوم کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنانے میں ورلڈ بینک کا دباؤ ہے یا حکومت کی مجبوری۔ پاکستان کے اصل مسائل کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا۔

تجارتی خسارہ کم کرنے کیلئے ہم ورلڈ بینک، آئی ایم ایف و دوست ممالک کی جانب دیکھتے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی چین، سعودی عرب، ملائشیا ودویگر دوست ممالک، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ سے مدد مانگ رہی ہے ، حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت ملک نہیں چلایا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کے دیگر ممالک کرائسس سے نکلنے کیلئے صرف قرض لیتے ہیں؟حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ ملک کو کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔

افسوس ہے کہ اس وقت ملک میں صنعتکاری کا عمل رکا ہوا ہے، ہم اس کے فروغ کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری یہاں آنے سے ملکی معیشت مستحکم ہوگی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کوئی باہر سے آکر یہاں سرمایہ کاری کیوں کرے گا؟ یہاں تو سرمایہ دار کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ بینک میں بزنس اکاؤنٹ کھلوانا ایک مشکل مرحلہ ہے جب کہ این ٹی این، ایف بی آر و دیگر مسائل الگ ہیں۔ پاکستان گرے لسٹ میں ہے جس کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ ناقص پالیسیوں کی وجہ سے نئے ایکسپورٹرز کے کروڑوں پورے ڈوب گئے۔

نئے وزیر خزانہ سے درخواست ہے برآمدات کے فروغ کیلئے کام کریں اور ایکسپورٹرز کے مسائل حل کریں۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ جب تک ملک میں انڈسٹریلائزیشن نہیں ہوگی اور سرمایہ داروں کو سہولیات نہیں دی جائیں گی تب تک معاشی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ایز آف ڈوئنگ بزنس کے بہت سے دعوے کیا جاتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، حکومت کو ''ون ونڈو'' کے زبانی دعوے چھوڑ کر حقیقی معنوں میں سرمایہ داروں کو سہولیات فراہم کرنی چاہئیں۔

پاکستان زرعی ملک ہے۔ یہاں گیس و بجلی کے بحران کے ساتھ ساتھ پانی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ حکومت کو بڑے ڈیمز تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کے چھوٹے ذخائر بھی بنانے چاہئیں تاکہ کسانوں کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ حکومت کی پالیسیاں پائیدار نہیں ہیں لہٰذا جب تک ٹھوس پالیسیاں نہیں لائیں گے، تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ حکومت کو کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ توانائی بحران و دیگر اہم مسائل پر قابو پانا ہوگا۔ پاکستان میں سیاحت کے شعبے میں کافی پوٹینشل ہے۔ تھائی لینڈ، ملائشیا، چین، بھارت و دیگر ممالک نے سیاحت سے اپنی معیشت کو بہتر کیا، ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

ملیحہ سمیع
(تجزیہ نگار )

حکومت کو گزشتہ9 ماہ سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے مگر ابھی تک وہ ان سے نبرد آزما نہیں ہوسکی۔عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں عوام سے چند اہم وعدے کیے جن میں مہنگائی و بے روزگاری کا خاتمہ، عوام کو ریلیف اور گھر کی فراہمی شامل ہیں۔ مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو چکاہے۔

ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق اپریل 2019ء میں مہنگائی کی شرح 12.4 فیصد پر جا چکی ہے جبکہ ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اس برس کے آخر میں 160 روپے تک پہنچ جائے گا۔ عمران خان کی حکومت سے چار بڑے طبقات کو امیدیں وابستہ تھیں۔ نوجوانوںکو ملازمتوں کے حوالے سے امید تھی، انہیں کوئی روزگار نہیں ملا بلکہ 10 لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے۔ مڈل کلاس اور کارپوریٹ کلاس کو بھی حکومت سے توقعات تھیں مگر مہنگائی کی وجہ سے مڈل کلاس عنقریب لوئر کلاس بننے جا رہی ہے۔

ادویات کی قیمتوں میں 100 گنا اضافہ ہوا جبکہ کمر توڑتی مہنگائی سے لوگوں کی قوت خرید ختم ہوتی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت کی ناقص پالیسیوں سے کارپوریٹ کلاس مایوس ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو بھی بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں۔

وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش رکھتے تھے مگر فی الحال وہ بھی پریشان نظر آرہے ہیں۔ اگر حکومت کی پالیسیاں موثر ہوتی تو پرفارمنس بھی بہتر ہوتی۔ پنجاب میں انتہائی تشویشناک صورتحال ہے، کوئی بھی نیا منصوبہ نہیں بنایا گیا بلکہ جو منصوبے پہلے سے چل رہے ہیں وہ سست روی کا شکار ہیں۔ تعلیم، صحت ودیگر مسائل پر حکومت کی توجہ نہیں ہے، تعلیمی ادارے نہیں بن رہے جبکہ ہسپتالوں میں معاملات انتہائی خراب ہیں۔ حکومت کو عام آدمی کے مسائل کے حل پر توجہ دینا ہوگی۔

خارجی محاذ پر حکومت اچھا پرفارم کر رہی ہے ۔ وزیراعظم کے سعودی عرب، چین، ایران و دیگر ممالک کے دوروں سے بہتری آئی ہے۔ ان کا حالیہ دورہ ایران علاقائی امن کیلئے بہتر ہے۔ ایران کے ساتھ تجارت، تیل، گیس و دیگر شعبوں میں تعاون سے فائدہ ہوگا۔ایرانی صدر روحانی نے پاکستان دورے کی دعوت قبول کی جو خوش آئند ہے۔
Load Next Story