مصر‘ اخوان اور خانہ جنگی

مصر میں اخوان المسلمون کو ایک مرتبہ پھر ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔

shaikhjabir@gmail.com

مصر میں اخوان المسلمون کو ایک مرتبہ پھر ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ 1928ء سے آج تک اخوان کی تاریخ شہادتوں اور حزیمتوں سے بھری نظر آتی ہے۔ گزشتہ چند روز میں مصر میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 800 سے زائد بتائی جاتی ہے۔ صدر مرسی کو حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد سے مصر میں ہنگامے اور تشدد پھوٹ پڑے۔ زیادہ تر ہلاکتیں فوج اور پولیس کی جانب سے ہتھیاروں کے استعمال سے ہوئیں۔ اخوان کے 42 رہنماؤں کو گرفتارکر لیا گیا، ان کی ریلیاں منسوخ کر دی گئیں۔ جیل میں قید اخوان کے 38 حامیوں کو قتل کر دیا گیا۔ ظلم، تعدی اور دہشت گردی کی تاریک رات ہے جس نے مصرکو اور اخوان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ سب کچھ جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر کیا جارہا ہے۔ جمہور کو قتل کرکے جمہوریت کی آبیاری کی جا رہی ہے۔

گزشتہ چند دہائیوں سے جاری عاجلانہ امریکی اقدامات کے نتیجے میں عالم اسلام میں عوامی سطح پر اسرائیل اور امریکا مخالف جذبات پروان چڑھتے چلے گئے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اب عالمی طاقتوں کی یہ خواہش ہے کہ مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام میں امریکا اور اسرائیل کے خلاف پیدا ہونے والی مہلک نفرت کا رخ فرقہ ورانہ فسادات یا خانہ جنگی کی طرف موڑ دیا جائے۔

مصر کی فوج جس راستے پر گامزن دکھائی دیتی ہے اس سے اندازہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اسی ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہے۔ ظلم و تعدی سہے جانے اور برداشت کرنے کی اخوان کی ایک طویل تاریخ ہے۔ خیال ہے کہ تاریخی ظلم کے نتیجے میں اخوان کو حاصل ہونے والی قوت کو خانہ جنگی کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ الجزائر کی مثال کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے جب ''اسلامک فرنٹ'' کی طاقت کو خانہ جنگی کے ذریعے ختم کیا گیا تھا۔

اس امر میں تو کوئی کلام نہیں کہ آج اخوان پر ستم کی ایک نئی رات طاری کر دی گئی ہے۔ اس تاریک رات کو روشن صبح میں بدلنے کے دو ہی راستے ہو سکتے ہیں۔ ایک راستہ وہ ہے جو عالم اسلام کی قریباً سب ہی مذہبی سیاسی جماعتوں نے گزشتہ نصف صدی سے زائد اپنا رکھا ہے۔ وہ راستہ ہے احتجاج، جلسے جلوس اور ریلیوں کا، دھرنے دینے کا، دوسرا راستہ ہوتا ہے صبر و تحمل کا، برداشت کا، تصادم سے حتی الامکان گریز کرتے ہوئے اپنی قوت کے مراکزکو محفوظ اور مجتمع رکھنے کا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اول الذکر راستے پر ایک عرصے سے چلنے کے باوجود عالم اسلام کی کسی بھی مذہبی سیاسی جماعت کو ان کا ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ احتجاج کے نتیجے میں مزید احتجاج نے جنم لیا یہاں تک کہ تشدد اور ہلاکتوں سے مذہبی تحاریک اپنے اہداف سے دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔

یہ تو ہوتا ہے کہ لوگوں کو، عام افراد کو مظالم کی وجہ سے ان سے کسی درجہ ہمدردی ہو جاتی ہے اور کہیں کہیں انھیں ہمدردی کے ووٹ بھی مل جاتے ہیں لیکن یہ محض وقتی طور پر ہوتا ہے۔ خود مصر کی مثال سامنے کی ہے۔ انھیں ہمدردی کے ووٹ تو مل گئے لیکن پھر اس کے فوراً ہی بعد کیا ہوا۔ اقتدار میں آتے ہی صدر مرسی کی اکثریت کہاں گئی۔ یاد کیجیے جب صدر مرسی نے ریفرنڈم کروایا تھا تو انھیں کتنے ووٹ ملے تھے؟ دستور سازی کے لیے موزوں ووٹوں کی کل تعداد 20.9 فی صد تھی۔ اس میں سے بھی صرف 13.29 فی صد ووٹ اثبات میں تھے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اکثریت کے تمام تر دعوے کچھ ہی دن میں باطل ثابت ہوتے چلے گئے۔ صدر مرسی کو اسی وقت اقتدار سے علیحدہ ہو جانے کا فیصلہ کر لینا چاہیے تھا لیکن وہ اس رائے تک نہیں پہنچ سکے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کے ملک خانہ جنگی کے دہانے تک پہنچ گیا ہے۔

دعوت دین کا اصل یا اہم ترین مقصد ہے۔ دعوت کے فروغ کا سب سے موثر ذریعہ جہاد ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جہاد دشمن کے خلاف ہوتا ہے، اپنوں کے خلاف یا مدعوین کے خلاف نہیں ہوتا۔ احتجاج کے طریقوں سے تحریک کو آگے بڑھانے کی کوششیں جہاد کے زمرے میں نہیں آتیں۔ اخوان کو نہایت صبر و تحمل کے ساتھ عہد رسالت کی حکمت عملی اور منہاج کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حکمت عملی کی کئی منازل ہیں۔ ایک منزل اعلان برآت بھی ہے ایک منزل اعلان ہجرت بھی ہے اور۔۔۔۔اور ایک منزل شعب ابی طالب بھی ہے۔


شنید ہے کہ صدر مرسی کو بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ بھی نفاذ شریعت کے لیے سیکولر ہو جائیں۔ مرسی صاحب نے اس کی مقدور بھر کوشش بھی کی تھی۔ اقتدار کے لیے اخوان نے اپنے کئی اصولوں میں لچک پیدا کی۔ مرسی صاحب نے سیکولرازم کے حوالے سے نرم گوشے کا تاثر دینے کے لیے عیسائی طبقے کو بڑے پیمانے پر نمایندگی دی۔ اسلامی علمیت کے اس مسلمہ اصول سے انحراف کرتے ہوئے کہ اسلامی ریاست کے مناصب اعلیٰ صرف مسلمانوں کے لیے ہیں، ایک عیسائی کو نائب وزیر اعظم کے منصب پر تقرر کی کوشش بھی کی گئی۔ سیکولر اقتدار کے فروغ کو بھی برداشت ہی نہیں قبول بھی کیا گیا۔ ایسی پالیسیاں منظور کرلی گئیں جن کا اسلامی اقدار اور معاشرت سے تضاد واضح تھا۔ مثال کے طور پر مرسی کے وزیر سیاحت نے اعلان کیا کہ نیل کے ساحلوں پر غسل آفتابی کرنے والوں کو کسی قسم کی روک ٹوک یا ممانعت کا سامنا نہیں کرنا ہو گا۔ اس قسم کے اقدامات سے یہ تصور کر لیا گیا کہ وہ مغرب اور سیکولر طبقات کے لیے قابل قبول ہو گئے ہیں۔ لیکن مستقبل کے موہوم امکانات کو جن کا شائبہ بھی نہ تھا مرسی کا تختہ الٹنے کے سبب بنا دیا گیا۔ کہنے کو مصر کی قومی اسمبلی میں 90 فی صد نشستیں مذہبی جماعتوں کے پاس تھیں لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مصر کے عوام کی اکثریت شریعت کے نفاذ میں دل چسپی رکھتی ہے؟

عالم اسلام کی سیاسی مذہبی جماعتوں کو عرصے سے یہ غلط فہمی لاحق ہے کہ جمہوری آئینی ریاست، مذہبی ریاست ہو سکتی ہے۔ یہ ایک فکری غلط فہمی ہے جس کو رفع کر لینا چاہیے اس حوالے سے فیڈرلسٹ پیپرز کا مطالعہ نہایت ضروری اور مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں ایک جمہوری آئینی ریاست کے سانچے، ڈھانچے اور قوت کے مراکز کا تعین کر دیا گیا ہے۔

مصر کے حوالے سے ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ مصر کی فوج جمہوریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ یہ غلط فہمی جمہوریت اور انسانی حقوق کی فلسفیانہ اساس سے ناواقفیت کا شاخسانہ ہے۔ حقوق انسانی کی 30 شقوں میں مذہبی بالادستی کا کوئی تصور سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔ حقوق انسانی نے مذہب کو ہر انسان کا ذاتی معاملہ قرار دے کر اسے رسوم و رواج اور عبادات تک محدود کر دیا۔ ہر فرد اپنی ذاتی زندگی میں آزاد ہے کہ وہ جس طرح چاہے پوجا پاٹ کرے یا جس طرح چاہے شادی بیاہ و موت کی رسومات ادا کرے۔ ریاست اس کے اس حق کی ذمے دار ہے۔

لیکن اگر کوئی فرد اس کے علی الرغم کوئی اور تصور خیر رکھتا ہے اور وہ تصور خیر ایسا ہو کہ جس سے آزادی اور سرمائے کے فروغ پر حرف آئے یا اس کا امکان ہی پیدا ہو تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مرسی کی حکومت ایک جانب تو آئینی جمہوریت کا اعلان کرتی ہے، حقوق انسانی پر یقین رکھتی ہے جس کے مطابق سب انسان برابر ہیں۔ ایک متقی، پرہیز گار اور ایک فاسق و فاجر میں کوئی فرق نہیں۔ ایک نبی اور غیر نبی عزت مرتبے اور رائے میں مساوی ہیں۔ دوسری جانب مرسی صاحب توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا قتل مانتے ہیں نہ صرف مانتے ہیں بلکہ اسمبلی سے بھی منواتے ہیں۔ ان حالات میں فوج کی یہ ذمے داری بن جاتی ہے کہ وہ حقوق انسانی کے منشور کے برخلاف نظریات کی حامل حکومت کو بالجبر ہٹا دے اور مصری فوج یہی کر رہی ہے۔

موجودہ حالات میں صدر مرسی کے حامیوں اور اخوان المسلمون کے بڑوں کو یک طرفہ طور پر اپنے مطالبات اور اقتدار سے غیر مشروط دستبرداری کا اعلان کرنا چاہیے تا کہ مصر خانہ جنگی کی طرف نہ جا سکے۔

آج کے مصر کو بے امنی اور خانہ جنگی سے بچا لے جانا ہی اصل کام ہے۔ اس کے لیے اقتدار کی قیمت کوئی قیمت نہیں۔
Load Next Story