روح کی تسکین کے لیے بانسری بجاتا ہوں
روح کی تسکین کے لیے بانسری بجاتا ہوں۔
یہ ایک ایسے بانسری نواز کا قصّہ ہے، جو بانسری روح کی تسکین کے لیے بجاتا ہے کہ اس کی ذات اِس ساز سے نتھی ہوچکی ہے۔ اب بانسری کے بغیر گزارہ نہیں!
2006 اور 2011 میں پی ٹی وی سے بہترین کمپوزر کا ایوارڈ حاصل کرنے والے نوجوان بانسری نواز، سلمان عادل نے جس گھر میں آنکھ کھولی، وہاں موسیقی شجر ممنوعہ تھی۔ ان کے والد محمد رمضان عادل معروف صحافی ہیں۔ بیٹے کو بھی وہ صحافت کے میدان میں لانے کے خواہاں تھے، مگر محمد سلمان عادل کے شوق کے سامنے ہر رکاوٹ ہم وار ہوتی چلی گئی۔ کم عمری ہی میں وہ ملکی سطح پر پہچانے جانے لگے۔
بس، پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ صادق پبلک اسکول سیٹلائٹ ٹاؤن، راول پنڈی سے پرائمری، مسلم انٹرنیشنل اسکول، راول پنڈی سے میٹرک، سیٹلائٹ ٹاؤن ڈگری کالج سے ایف اے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد انھوں نے انگریزی زبان، کمپیوٹر ہارڈویئر اور ایئرٹکٹنگ کے کورسز بھی کیے، مگر بانسری کی ''لے'' سب پر حاوی رہی، اور تاحال حاوی ہے۔
ماضی کھوجتے ہوئے وہ کہتے ہیں،''بانسری زندگی میں یوں داخل ہوئی کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں میرے کچھ کزن ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ اُن میں سے ایک کو دو گانے (Duet) بجانے کا شوق تھا۔ اُس نے مجھے سیکھنے کی دعوت دی۔ میں تمام تر کوشش کے باوجود زیادہ نہیں سیکھ سکا۔ میرے کزن تو چلے گئے، لیکن بانسری میرے اندر چھوڑ گئے۔ اُس وقت میں الغوزہ نما بانسری بجاتا تھا۔ بہت بعد میں علم ہوا کہ اصل بانسری تو اِس سے یک سر مختلف شے ہے۔ شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر استاد صدیق بنگالی صاحب کے پاس جانا شروع کردیا۔
وہ بازاروں میں بانسری بجاتے اور بانسریاں فروخت کیا کرتے تھے، میں باقاعدہ شاگرد تو نہیں ہوا، بس ان کے ساتھ ساتھ بازار میں چلتا پھرتا رہتا۔ ان کی انگلیوں کی حرکات و سکنات دیکھتا اور جہاں سمجھ میں نہیں آتا، ان سے پوچھ لیا کرتا۔ وہ بھی شفقت فرماتے رہے، اور یوں میں نکھرتا چلا گیا۔ پھر مجھے راول پنڈی آرٹس کونسل میں بہ طور بانسری انسٹرکٹر ملازمت مل گئی۔''
سلمان عادل نے اِس سفر کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا،''باپ نیک نام صحافی تھا اور گھرانہ مذہبی، اس ماحول میں آگے بڑھنا میرے لیے ناممکن تھا، لیکن میرے مالک نے شاید طے کر لیا تھا کہ مجھے اِسی میدان میں آگے بڑھنا ہے، پھر میری جس گھر میں شادی ہوئی، وہ بھی مذہبی تھا، لیکن میری والدہ اور بہن بھائیوں نے میرا ساتھ دیا، اور میں آگے بڑھتا چلا گیا۔''
سلمان عادل کے مطابق جب انھوں نے معروف بانسری نواز، استاد بابر علی کی شاگردی اختیار کی، تب سمجھ میں آیا کہ وہ ایک ایسے سمندر میں چھلانگ لگا چکے ہوں، جو بے انت ہے۔ ''استاد بابر علی نے جب شاگردی کی رسم کے بعد دعا کروائی، تب میرے اندر ایک غیرمرئی تبدیلی آئی۔ مجھ پر نوازشات کے در کھلتے چلے گئے۔ بھارت، جاپان، چین، ہالینڈ، فرانس، بیلجیئم، انگلینڈ جیسے ممالک میں جا کر میں نے گروپ میں اور سولو پرفارمینس دی۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ان ممالک میں پاکستان کی نمایندگی کروں گا، اور لوگ میرے فن کی وجہ سے پاکستان کو پہچانیں گے۔ یہ میرے فن سے زیادہ میرے استاد کی دعا کی برکت تھی۔''
گزشتہ 20 سال سے بانسری سے وابستہ، سلمان عادل کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ صوفی بزرگوں کے مزاروں پر باقاعدگی سے حاضری دیتے ہیں۔ ''اُن بزرگوں کی نسبت سے میرے اندر روحانیت کا ایک ایسا در کھلا ہے، جس کو میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ زندگی میں اب مجھ سے بانسری شہرت اور دولت کے لیے نہیں بجائی جاتی، یہ کام میں صرف اپنی روح کی تسکین کے لیے کرتا ہوں۔'' سلمان نے اقبال باہو، استاد شوکت علی، عابدہ پروین، خان صاحب غلام علی خان جیسے نام وَر گلوکاروں کے ساتھ بانسری پر سنگت کی، اور ان سے داد بھی حاصل کی۔ کہنا ہے،''نام ور فن کاروں کو یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ میرا تعلق موسیقی کے گھرانے سے نہیں، بلکہ میں شوق کے ہاتھوں اِس فن کی طرف آیا ہوں۔'' سلمان موسیقی کے گھرانوں کے ممنون ہیں کہ اُنھوں نے ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی۔
سلمان کے نزدیک جو بانسری نواز اچھا گائیک بھی ہو، وہ یقینی طور پر بانسری بھی اچھی بجائے گا کہ بانسری اور گائیکی میں براہ راست تعلق ہے۔ ''جب مجھ پر یہ راز کھلا، تو میں نے استاد شوکت منظور صاحب سے گائیکی کی تربیت حاصل کی۔ ان سے راگ سیکھے، میرے فن کو نکھارنے میں ان راگوں اور راگنیوں نے بہت مدد کی۔''
راگ پیلو اُنھیں بہت پسند ہے۔ آہیربھیروں بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ ''میں جب تصوف کی طرف متوجہ ہوا، تو علم ہوا کہ صوفیائے کرام نے راگ مال کونس اور بھیم پالاسی کو بہت سنا۔ اُنھوں نے اِن دو راگوں میں اپنے من کی بات بیان کرنے میں بہت آسانی محسوس کی۔''
آگ لگا دینے والے راگ دیپک کے بارے میں بانسری نواز سلمان عادل نے کہا،''راگ دیپک کا کوئی وجود نہیں۔ یہ خیالی راگ ہے۔ میں نے اپنے پورے کیریر میں اِس راگ کو نہ سنا ہے اور نہ ہی کبھی کسی استاد نے اس کو کسی ساز پر میرے سامنے بجایا ہے۔''
سلمان عادل اس بات پر دکھی ہیں کہ موسیقی میں بانسری کے استعمال کی کمی نے سروں سے چاشنی چھین لی ہے۔ ''بانسری کی اصل آواز کی جگہ اب جدید آلات موسیقی نے ضرور لے لی ہے، لیکن دلوں کو مسحور کرنے والی سُر کی مٹھاس میں واضح کمی آگئی ہے۔ پاکستان کی فلمی دنیا میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بانسری کا استعمال اپنے عروج پر تھا۔ اس دور میں لازوال گیت تخلیق ہوئے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ جب اس مدھر ساز کا استعمال کم ہوا، تو موسیقی سماعت کے لیے شور بنتی گئی۔ معروف بانسری نواز استاد نوشاد علی خان نے خوب کہا تھا؛ 'جدید آلات موسیقی کی دھوم ضرور ہے، مگر بانسری جیسی مٹھاس جدید آلات سے ممکن نہیں!' بانسری کا استعمال صرف اب کلاسیکل فن کار کررہے ہیں جب کہ فلمی موسیقار تو 'کی بورڈ' سے ہی مختلف سازوں کی آواز حاصل کرکے کمپوزیشن تیار کر لیتے ہیں۔ ''
سلمان کے بہ قول بانسری تیار کرنا، بانسری بجانے جیسا مشکل فن ہے۔ دنیا میں جتنے بھی عالمی سطح کے بانسری نواز گزرے ہیں، ان میں سے زیادہ تر نے اپنی بانسریاں خود تیار کیں۔ ''اس روایت کو میں نے بھی آگے بڑھایا۔ بانسری تیار کرنے کی تربیت اپنے استاد سے حاصل کی۔'' اب ایک بانسری ورک شاپ بھی بنالی ہے، جہاں لوگ بانسری تیار کرنے کا ہنر سیکھنے آتے ہیں۔ اس ضمن میں کہتے ہیں،''بانسری موسیقی کی دنیا کا ایک ایسا آلہ ہے، جو کاغذی بانس کی لکڑی سے بنتا ہے، اس لکڑی سے ڈالر بھی تیار ہوتا ہے، یہ بانس صرف بنگال میں پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے آلات موسیقی کی نسبت بانسری کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے، کیوں کہ اس کی تیاری میں کوئی دوسری دھات استعمال نہیں ہوتی۔''
ان کے مطابق آلات موسیقی کی درجہ بندی میں بانسری کو ہوا کی مدد سے بجنے والے آلات میں شامل کیا جاتا ہے۔ درست انداز میں ہونٹوں کے نیچے بانسری رکھنے کے بعد جب سوراخوں سے سانس گزرتا ہے، تو آواز جنم لیتی ہے، اس آواز کو سروں میں ڈھالنے کا عمل فن کار کے سانس کے اتار چڑھاؤ اور انگلیاں کی حرکات سے انجام پاتا ہے۔ ''یہ سارا عمل برسوں کی سخت ریاضت کا نتیجہ ہوتا ہے۔''
سلمان کے مطابق بانسری اپنی تاریخ کے لحاظ سے بھی مشہور ہے۔ جرمنی کے ایک علاقے میں ماہرین آثاریات کو تقریباً 35000 سے 40000 سال پرانی بانسریاں ملی ہیں۔ ''ان بانسریوں کی دریافت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موسیقی کا رواج یورپ میں جدیدیت کے عہد سے کافی پہلے موجود تھا۔''
2006 اور 2011 میں پی ٹی وی سے بہترین کمپوزر کا ایوارڈ حاصل کرنے والے نوجوان بانسری نواز، سلمان عادل نے جس گھر میں آنکھ کھولی، وہاں موسیقی شجر ممنوعہ تھی۔ ان کے والد محمد رمضان عادل معروف صحافی ہیں۔ بیٹے کو بھی وہ صحافت کے میدان میں لانے کے خواہاں تھے، مگر محمد سلمان عادل کے شوق کے سامنے ہر رکاوٹ ہم وار ہوتی چلی گئی۔ کم عمری ہی میں وہ ملکی سطح پر پہچانے جانے لگے۔
بس، پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ صادق پبلک اسکول سیٹلائٹ ٹاؤن، راول پنڈی سے پرائمری، مسلم انٹرنیشنل اسکول، راول پنڈی سے میٹرک، سیٹلائٹ ٹاؤن ڈگری کالج سے ایف اے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد انھوں نے انگریزی زبان، کمپیوٹر ہارڈویئر اور ایئرٹکٹنگ کے کورسز بھی کیے، مگر بانسری کی ''لے'' سب پر حاوی رہی، اور تاحال حاوی ہے۔
ماضی کھوجتے ہوئے وہ کہتے ہیں،''بانسری زندگی میں یوں داخل ہوئی کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں میرے کچھ کزن ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ اُن میں سے ایک کو دو گانے (Duet) بجانے کا شوق تھا۔ اُس نے مجھے سیکھنے کی دعوت دی۔ میں تمام تر کوشش کے باوجود زیادہ نہیں سیکھ سکا۔ میرے کزن تو چلے گئے، لیکن بانسری میرے اندر چھوڑ گئے۔ اُس وقت میں الغوزہ نما بانسری بجاتا تھا۔ بہت بعد میں علم ہوا کہ اصل بانسری تو اِس سے یک سر مختلف شے ہے۔ شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر استاد صدیق بنگالی صاحب کے پاس جانا شروع کردیا۔
وہ بازاروں میں بانسری بجاتے اور بانسریاں فروخت کیا کرتے تھے، میں باقاعدہ شاگرد تو نہیں ہوا، بس ان کے ساتھ ساتھ بازار میں چلتا پھرتا رہتا۔ ان کی انگلیوں کی حرکات و سکنات دیکھتا اور جہاں سمجھ میں نہیں آتا، ان سے پوچھ لیا کرتا۔ وہ بھی شفقت فرماتے رہے، اور یوں میں نکھرتا چلا گیا۔ پھر مجھے راول پنڈی آرٹس کونسل میں بہ طور بانسری انسٹرکٹر ملازمت مل گئی۔''
سلمان عادل نے اِس سفر کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا،''باپ نیک نام صحافی تھا اور گھرانہ مذہبی، اس ماحول میں آگے بڑھنا میرے لیے ناممکن تھا، لیکن میرے مالک نے شاید طے کر لیا تھا کہ مجھے اِسی میدان میں آگے بڑھنا ہے، پھر میری جس گھر میں شادی ہوئی، وہ بھی مذہبی تھا، لیکن میری والدہ اور بہن بھائیوں نے میرا ساتھ دیا، اور میں آگے بڑھتا چلا گیا۔''
سلمان عادل کے مطابق جب انھوں نے معروف بانسری نواز، استاد بابر علی کی شاگردی اختیار کی، تب سمجھ میں آیا کہ وہ ایک ایسے سمندر میں چھلانگ لگا چکے ہوں، جو بے انت ہے۔ ''استاد بابر علی نے جب شاگردی کی رسم کے بعد دعا کروائی، تب میرے اندر ایک غیرمرئی تبدیلی آئی۔ مجھ پر نوازشات کے در کھلتے چلے گئے۔ بھارت، جاپان، چین، ہالینڈ، فرانس، بیلجیئم، انگلینڈ جیسے ممالک میں جا کر میں نے گروپ میں اور سولو پرفارمینس دی۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ان ممالک میں پاکستان کی نمایندگی کروں گا، اور لوگ میرے فن کی وجہ سے پاکستان کو پہچانیں گے۔ یہ میرے فن سے زیادہ میرے استاد کی دعا کی برکت تھی۔''
گزشتہ 20 سال سے بانسری سے وابستہ، سلمان عادل کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ صوفی بزرگوں کے مزاروں پر باقاعدگی سے حاضری دیتے ہیں۔ ''اُن بزرگوں کی نسبت سے میرے اندر روحانیت کا ایک ایسا در کھلا ہے، جس کو میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ زندگی میں اب مجھ سے بانسری شہرت اور دولت کے لیے نہیں بجائی جاتی، یہ کام میں صرف اپنی روح کی تسکین کے لیے کرتا ہوں۔'' سلمان نے اقبال باہو، استاد شوکت علی، عابدہ پروین، خان صاحب غلام علی خان جیسے نام وَر گلوکاروں کے ساتھ بانسری پر سنگت کی، اور ان سے داد بھی حاصل کی۔ کہنا ہے،''نام ور فن کاروں کو یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ میرا تعلق موسیقی کے گھرانے سے نہیں، بلکہ میں شوق کے ہاتھوں اِس فن کی طرف آیا ہوں۔'' سلمان موسیقی کے گھرانوں کے ممنون ہیں کہ اُنھوں نے ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی۔
سلمان کے نزدیک جو بانسری نواز اچھا گائیک بھی ہو، وہ یقینی طور پر بانسری بھی اچھی بجائے گا کہ بانسری اور گائیکی میں براہ راست تعلق ہے۔ ''جب مجھ پر یہ راز کھلا، تو میں نے استاد شوکت منظور صاحب سے گائیکی کی تربیت حاصل کی۔ ان سے راگ سیکھے، میرے فن کو نکھارنے میں ان راگوں اور راگنیوں نے بہت مدد کی۔''
راگ پیلو اُنھیں بہت پسند ہے۔ آہیربھیروں بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ ''میں جب تصوف کی طرف متوجہ ہوا، تو علم ہوا کہ صوفیائے کرام نے راگ مال کونس اور بھیم پالاسی کو بہت سنا۔ اُنھوں نے اِن دو راگوں میں اپنے من کی بات بیان کرنے میں بہت آسانی محسوس کی۔''
آگ لگا دینے والے راگ دیپک کے بارے میں بانسری نواز سلمان عادل نے کہا،''راگ دیپک کا کوئی وجود نہیں۔ یہ خیالی راگ ہے۔ میں نے اپنے پورے کیریر میں اِس راگ کو نہ سنا ہے اور نہ ہی کبھی کسی استاد نے اس کو کسی ساز پر میرے سامنے بجایا ہے۔''
سلمان عادل اس بات پر دکھی ہیں کہ موسیقی میں بانسری کے استعمال کی کمی نے سروں سے چاشنی چھین لی ہے۔ ''بانسری کی اصل آواز کی جگہ اب جدید آلات موسیقی نے ضرور لے لی ہے، لیکن دلوں کو مسحور کرنے والی سُر کی مٹھاس میں واضح کمی آگئی ہے۔ پاکستان کی فلمی دنیا میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بانسری کا استعمال اپنے عروج پر تھا۔ اس دور میں لازوال گیت تخلیق ہوئے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ جب اس مدھر ساز کا استعمال کم ہوا، تو موسیقی سماعت کے لیے شور بنتی گئی۔ معروف بانسری نواز استاد نوشاد علی خان نے خوب کہا تھا؛ 'جدید آلات موسیقی کی دھوم ضرور ہے، مگر بانسری جیسی مٹھاس جدید آلات سے ممکن نہیں!' بانسری کا استعمال صرف اب کلاسیکل فن کار کررہے ہیں جب کہ فلمی موسیقار تو 'کی بورڈ' سے ہی مختلف سازوں کی آواز حاصل کرکے کمپوزیشن تیار کر لیتے ہیں۔ ''
سلمان کے بہ قول بانسری تیار کرنا، بانسری بجانے جیسا مشکل فن ہے۔ دنیا میں جتنے بھی عالمی سطح کے بانسری نواز گزرے ہیں، ان میں سے زیادہ تر نے اپنی بانسریاں خود تیار کیں۔ ''اس روایت کو میں نے بھی آگے بڑھایا۔ بانسری تیار کرنے کی تربیت اپنے استاد سے حاصل کی۔'' اب ایک بانسری ورک شاپ بھی بنالی ہے، جہاں لوگ بانسری تیار کرنے کا ہنر سیکھنے آتے ہیں۔ اس ضمن میں کہتے ہیں،''بانسری موسیقی کی دنیا کا ایک ایسا آلہ ہے، جو کاغذی بانس کی لکڑی سے بنتا ہے، اس لکڑی سے ڈالر بھی تیار ہوتا ہے، یہ بانس صرف بنگال میں پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے آلات موسیقی کی نسبت بانسری کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے، کیوں کہ اس کی تیاری میں کوئی دوسری دھات استعمال نہیں ہوتی۔''
ان کے مطابق آلات موسیقی کی درجہ بندی میں بانسری کو ہوا کی مدد سے بجنے والے آلات میں شامل کیا جاتا ہے۔ درست انداز میں ہونٹوں کے نیچے بانسری رکھنے کے بعد جب سوراخوں سے سانس گزرتا ہے، تو آواز جنم لیتی ہے، اس آواز کو سروں میں ڈھالنے کا عمل فن کار کے سانس کے اتار چڑھاؤ اور انگلیاں کی حرکات سے انجام پاتا ہے۔ ''یہ سارا عمل برسوں کی سخت ریاضت کا نتیجہ ہوتا ہے۔''
سلمان کے مطابق بانسری اپنی تاریخ کے لحاظ سے بھی مشہور ہے۔ جرمنی کے ایک علاقے میں ماہرین آثاریات کو تقریباً 35000 سے 40000 سال پرانی بانسریاں ملی ہیں۔ ''ان بانسریوں کی دریافت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موسیقی کا رواج یورپ میں جدیدیت کے عہد سے کافی پہلے موجود تھا۔''