پنجاب اسمبلی میں نئے بلدیاتی نظام کا مسودہ قانون کثرت رائے سے منظور
بل نافذ العمل ہونے کے بعد بلدیاتی اداروں کے انتخابات ایک سال کےاندر کروائے جائیں گے، متن
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے ترامیم مسترد کئے جانے کے باوجود نئے بلدیاتی نظام کا مسودہ قانون منظور کرلیا گیا۔
ایکسپریس نیوزکے مطابق پنجاب اسمبلی نے نئے بلدیاتی نظام کا مسود ہ قانون منظور کرلیا ہے،اور منظور کردہ بل آج ہی گورنرپنجاب کو منظوری کے لئے بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے، گورنر کی منظوری اورگزٹ نوٹیفیکشن ہوتے ہی بلدیاتی ادارے تحلیل ہوجائیں گے۔
اپوزیشن نے بل کی منظوری کے خلاف ایوان کے اندر بنچوں پر کھڑے ہو کر بھرپور احتجاج کیا، ترامیم مسترد ہونے پر ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور ایوان میں شور شرابا کرتے ہوئے نیا بلدیاتی نظام نامنظور کے نعرے بھی لگائے۔
حکومت پنجاب کے مطابق منظور کردہ بل گورنرپنجاب کی منظوری بلدیاتی ادارے تحلیل ہونے کے بعد بلدیاتی اداروں کا ایک سال کے اندر انتخاب کروایا جائے گا، نئے انتخاب تک بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوں گے، بلدیاتی اداروں کو چالیس ارب کا بجٹ دیاجائے گا، جب کہ 22 ہزار ویلیج کونسل قائم ہوں گی ،138 تحصیل کونسل کے انتخاب ہوں گے۔
منظور ہونے والے نئے بل کے مسودے کے مطابق نئے نظا م میں ویلیج کونسل اور شہروں میں محلہ کونسل کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر ہوگا، تحصیل اور میونسپل کی سطح پر انتخاب جماعتی بنیادوں پر ہوگا، سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے لئے اپنے اپنے پینل دیں گی، بل کے تحت تحصیل اور ویلیج کونسل کا نظام قائم ہوگا۔ بل کی منظوری کے بعدضلع کونسل اور یونین کونسل کا نظام ختم ہو جائے گا، شہروں میں میونسپل اور محلہ کونسل جبکہ دیہات میں تحصیل اور ویلیج کونسل ہو گی، ویلیج کونسل اورمحلہ کونسل میں فری لسٹ الیکشن ہوگا، زیادہ ووٹ لینے والا چیئرمین ہوگا، زیادہ سے کم ووٹ کی طرف عہدوں کی بالترتیب نمائندگی ہوگی۔
بل کے متن میں تحریر ہے کہ لوکل گورنمنٹ تحصیل کونسل، ویلیج کونسل، نیبر ہڈ کونسل ، میونسپل کارپوریشن اور میٹروپولیٹن پر مشتمل ہوگا، پنجاب کے 9 ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کو میٹروپولیٹن کا درجہ دیاجائے گا، میٹروپولیٹن اسمبلی کی تعداد زیادہ سے زیادہ تعداد55اور کم سے کم 8 ہوگی، بلدیاتی انتخابات میں میئر اور اسپیکر کے لئے تعلیم کی شرط ختم کر دی گئی ہے، اور بلدیاتی اسمبلی کاسپیکر کنوئینر کہلائے گا۔
بل کے مطابق بلدیاتی اداروں کی مدت چار سال کر دی گئی ہے، بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی عمر کم سے کم 25 سال مقرر کی گئی ہے، اقلیتی علاقے میں اقلیتی نمائندہ ہی الیکشن لڑ سکے گا، نوجوانوں کی مخصوص نشستیں ختم کردی گئی ہیں، ویلج کونسل اور نیبرہڈ کونسل کی اسمبلیوں میں فیصلہ شو آف ہینڈ کے ذریعے ہو گا۔
بل کے متن کے مطابق بل نافذ العمل ہونے کے بعد بلدیاتی اداروں کے انتخابات ایک سال کےاندر کروائے جائیں گے، پہلے اور آخری سال مئیر ، ڈپٹی مئیراور چئیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں ہو سکے گا، بلدیاتی اداروں میں کوئی بھی ترقیاتی کام کروانے کےلئے قرارداد لانی ضروری ہو گی۔
ایکسپریس نیوزکے مطابق پنجاب اسمبلی نے نئے بلدیاتی نظام کا مسود ہ قانون منظور کرلیا ہے،اور منظور کردہ بل آج ہی گورنرپنجاب کو منظوری کے لئے بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے، گورنر کی منظوری اورگزٹ نوٹیفیکشن ہوتے ہی بلدیاتی ادارے تحلیل ہوجائیں گے۔
اپوزیشن نے بل کی منظوری کے خلاف ایوان کے اندر بنچوں پر کھڑے ہو کر بھرپور احتجاج کیا، ترامیم مسترد ہونے پر ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور ایوان میں شور شرابا کرتے ہوئے نیا بلدیاتی نظام نامنظور کے نعرے بھی لگائے۔
حکومت پنجاب کے مطابق منظور کردہ بل گورنرپنجاب کی منظوری بلدیاتی ادارے تحلیل ہونے کے بعد بلدیاتی اداروں کا ایک سال کے اندر انتخاب کروایا جائے گا، نئے انتخاب تک بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوں گے، بلدیاتی اداروں کو چالیس ارب کا بجٹ دیاجائے گا، جب کہ 22 ہزار ویلیج کونسل قائم ہوں گی ،138 تحصیل کونسل کے انتخاب ہوں گے۔
منظور ہونے والے نئے بل کے مسودے کے مطابق نئے نظا م میں ویلیج کونسل اور شہروں میں محلہ کونسل کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر ہوگا، تحصیل اور میونسپل کی سطح پر انتخاب جماعتی بنیادوں پر ہوگا، سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے لئے اپنے اپنے پینل دیں گی، بل کے تحت تحصیل اور ویلیج کونسل کا نظام قائم ہوگا۔ بل کی منظوری کے بعدضلع کونسل اور یونین کونسل کا نظام ختم ہو جائے گا، شہروں میں میونسپل اور محلہ کونسل جبکہ دیہات میں تحصیل اور ویلیج کونسل ہو گی، ویلیج کونسل اورمحلہ کونسل میں فری لسٹ الیکشن ہوگا، زیادہ ووٹ لینے والا چیئرمین ہوگا، زیادہ سے کم ووٹ کی طرف عہدوں کی بالترتیب نمائندگی ہوگی۔
بل کے متن میں تحریر ہے کہ لوکل گورنمنٹ تحصیل کونسل، ویلیج کونسل، نیبر ہڈ کونسل ، میونسپل کارپوریشن اور میٹروپولیٹن پر مشتمل ہوگا، پنجاب کے 9 ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کو میٹروپولیٹن کا درجہ دیاجائے گا، میٹروپولیٹن اسمبلی کی تعداد زیادہ سے زیادہ تعداد55اور کم سے کم 8 ہوگی، بلدیاتی انتخابات میں میئر اور اسپیکر کے لئے تعلیم کی شرط ختم کر دی گئی ہے، اور بلدیاتی اسمبلی کاسپیکر کنوئینر کہلائے گا۔
بل کے مطابق بلدیاتی اداروں کی مدت چار سال کر دی گئی ہے، بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی عمر کم سے کم 25 سال مقرر کی گئی ہے، اقلیتی علاقے میں اقلیتی نمائندہ ہی الیکشن لڑ سکے گا، نوجوانوں کی مخصوص نشستیں ختم کردی گئی ہیں، ویلج کونسل اور نیبرہڈ کونسل کی اسمبلیوں میں فیصلہ شو آف ہینڈ کے ذریعے ہو گا۔
بل کے متن کے مطابق بل نافذ العمل ہونے کے بعد بلدیاتی اداروں کے انتخابات ایک سال کےاندر کروائے جائیں گے، پہلے اور آخری سال مئیر ، ڈپٹی مئیراور چئیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں ہو سکے گا، بلدیاتی اداروں میں کوئی بھی ترقیاتی کام کروانے کےلئے قرارداد لانی ضروری ہو گی۔