بھولا بسرا مقام اور بھولی بسری آوازیں
ویسے تویہ پروگرام ریڈیوکاہے لیکن اس میں ایک فردحاجی محمداسلم خان کی اپنی دلچسپی، محنت بلکہ جنون ہی کا بنیادی کردار ہے۔
بڑا مزا آیا، ایک قدیم بھولا بسرا مقام اور وہاں قدیم بھولے بسرے گیتوں پر ایک خوبصورت پروگرام۔
کرشمہ دامن دل می کشدکہ جا ایں جاست
یہ مقام ''ہنڈ'' تھا۔ جو اب تو صوابی کا ایک گاؤں ہے لیکن اس گاؤں کے پہلو میں وہ آثار ہیں جو ایک زمانے میں اس خطے کے ایک حصے گندھارا پر حکومت کرنے والے حکمرانوں کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ حیرت بھی ہوتی ہے اور عبرت بھی۔ جب ہم ایک مقام پر بھولے بسرے لوگوں کی رہائش گاہوں کے کھنڈر، ان میں اسی دور کے عظیم لوگوں کے استعمال کے برتن، نشست گاہیں اور چیزیں دیکھتے ہیں۔ کیسے کیسے لوگ ہوں گے، کیاکیا دبدبے ہوں گے، زندگی کی کتنی سرگرمیاں ہوں گی جن کے اب صرف سائے باقی رہ گئے ہیں، وہ بھی کسی کو دکھائی نہ دینے والے۔
حکومت نے یہاں ایک ہنڈ پارک بنایا ہوا ہے جس میں جدید سہولیات اور انتظامات کے ساتھ ان آثار کو محفوظ کرنے والا ایک میوزیم بھی ہے۔ دور دور سے سیاح ان چیزوں اور آثار کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں اور مقامی لوگ یا قریبی شہروں کے لوگ یہاں پکنک اور مجلس آرائیوں کے لیے آتے ہیں۔
جس تقریب کا ہم ذکرکر رہے ہیں وہ اسی مقام پر اٹھارہ اپریل کو منعقد ہوئی اور مزے کی بات یہ تھی کہ اس بھولے بسرے مقام پر منعقدہ تقریب بھی بھولے بسرے گیتوں اور ان بھولی بسری آوازوں کے بارے میں تھی جو اپنے زمانے کے اسٹار اور لیجنڈ تھے۔ عوام جن کے پرستار تھے اور ان کے نغمے گونجاکرتے تھے۔ یہ ریڈیو پاکستان پشاور سے نشر ہونے والے پروگرام بھولی بسری آوازیں کی بیسویں سالگرہ کی تقریب یا شاید انیسیویں۔
ویسے تو یہ پروگرام ریڈیوکا ہے لیکن اس میں ایک فرد حاجی محمد اسلم خان کی اپنی دلچسپی، محنت بلکہ جنون ہی کا بنیادی کردار ہے۔ کیونکہ جب یہ پروگرام اسلم خان ہی کے آئیڈیا پر شروع ہوا تھا تو اس وقت ریڈیوپاکستان کے پاس ان بھولی بسری آوازوں کے صرف چند ہی ریکارڈ تھے۔
اسلم خان نے پروگرام کیا۔ بے شک اس میں ریڈیو کے پروڈیوسروں کی محنت اور دلچسپی بھی ایک اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن اسلم خان نے اسے ریڈیو کا نہیں اپنا پروگرام سمجھ کر بہت زیادہ محنت کی، وہ پروگرام میں عوام الناس سے اپیل کرتا تھا کہ اگر کسی کے پاس ایسے ریکارڈ اور بھولے بسرے گیت ہوں تو ہمارے ساتھ شئیر کریں تا کہ یہ ضایع ہونے سے بچ جائیں۔ لوگوں نے خاص طور پر کچھ پرانے بڑے بوڑھوں نے اس میں بھرپور حصہ لیا جن کے پاس یہ گراموفون ریکارڈز بھی اور ان کے قدر دان بھی تھے۔ پھر اسلم خان خیبر پختون خوا کے چپے چپے پھرتا رہا، اپنا خرچہ خود اٹھا کر ہر اس مقام پر پہنچ جاتا جہاں کچھ ''ملنے'' کی امید ہوتی۔ یوں تقریباً تین چار ہزار نغمے اور ریکارڈ دستیاب ہوئے، ریڈیو پر ''بھولی بسری آوازوں'' میں نشر بھی ہوتے رہے اور محفوظ بھی ہوتے رہے۔
یہ اس زمانے کے ریکارڈز ہیں، جب ان ریکاڑڈز کو پشتو میں ''تورککوڑی'' یا صرف ککوڑی یعنی کالے ''بسکٹ'' یا ''حظائیاں'' کہا جاتا تھا۔ یہ ''لاکھ'' کے بنے ہوئے کالے رنگ کے ریکارڈز ہوتے تھے جو چابی سے چلنے والے گراموفون پر ایک سوئی کی مدد سے بجائے جاتے ہیں۔ ہم نے بھی وہ زمانہ دیکھا ہے جب اکا دکا لوگوں کے پاس یہ گراموفون اور ریکارڈ ہوتے تھے اور لوگ ان کو بڑی منت سماجت سے وی آئی پی ٹریٹمنٹ دے کر اپنے حجروں ڈیروں پر بلاتے تھے، مہان نوازی بھی کرتے تھے اور کچھ خرچہ بھی دیا کرتے تھے۔
ہم بچوں کو ایسے مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اس لیے ہم دروازوں کھڑکیوں سے آنکھ کان لگا کر لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ برصغیر میں بجلی کے آنے سے (1935ء) سے بھی پہلے کی بات ہے، دلی اور کلکتہ وغیرہ میں کچھ غیر ملکی کچھ پارسی اور کچھ ریکارڈ نگ کمپنیاں بیٹریوں کی مدد سے یہ ریکارڈز تیار کرتی تھیں۔ اکثر شاعر اور گانے والے یا موسیقار مستقل تنخواہ پر ملازم ہوتے تھے، ہمارے امیرحمزہ خان شنواری بھی ایک کمپنی سے بطور شاعر منسلک تھے اور ریکارڈ میں اگر مکالمے یا چھوٹے سے ڈرامے کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ بھی لکھا اور بولا کرتے تھے۔ جن ریکارڈنگ کمپنیوں کے ہمیں نام یاد ہیں ان میں ہز ماسٹرز وائس اور بانگا فون قابل ذکر تھیں۔ ریڈیو کے آنے پر ان گراموفون اور ریکارڈ کادور ختم ہو گیا۔ پھر اس کے بعد نئی نئی ایجادات کا سلسلہ جو اب تک چل رہا ہے۔
موسیقی میں بھی کئی تبدیلیاں آئیں، نئے نئے انسٹرومنٹ ایجاد ہوئے۔ لیکن ان پرانے''کالے ککوڑوں'' میں جو بات تھی وہ اپنی جگہ ایک انفرادیت رکھتی ہے، اس زمانے میں بڑے بڑے گائیک اور گائیکائیں پیدا ہوئیں جن کی آوازوں کے ریکارڈ ثبت ہوئے تھے۔ لیکن درمیانی زمانے میں یہ ریکارڈ تقریباً گم شدہ ہو گئے تھے، کم از کم ریڈیو یا کسی ادارے کے پاس نہ ان کو جمع کرنے اور محفوظ کرنے کا کوئی بندوبست تھا نہ خیال۔ دلی، بمبئی، کلکتہ میں شاید یا ان کمپنیوں کے ریکارڈز میں ہوں گے لیکن یہاں ہمارے صوبے میں اور خصوصاً پشتو کے ریکارڈز عدم پتہ تھے۔
اور یہ سہرا ریڈیو پاکستان پشاور ان کے چند پروڈیوسروں ڈائریکٹروں کے سر بھی جاتا ہے لیکن حاجی اسلم خان نے اپنی ڈیوٹی سے ہٹ کر جو محنت کی ہے، اس کاجواب نہیں ہے۔ پھر اس نے اپنی ان کاوشوں کوکتابی صورت بھی دی، اس کانام''تیرھیر آوازونہ'' یعنی '' بھولی بسری آوازیں'' ہے۔ اور یہ اس پروگرام یا پراجیکٹ کی نہ صرف سالگرہ تھی بلکہ بنوں، کوہاٹ، پشاور، مردان، صوابی اور سوات سے آنے والے قدردانوں نے حاجی اسلم خان کی دستاربندی اورتاج پوشی بھی کی۔ اور اس کے لیے''ہنڈ'' کے بھولے بسرے دارالحکومت کے سوا اور کوئی جگہ مناسب ہو ہی نہیں سکتی تھی ، اسلم خان کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں عمر کے ایک خاص مرحلے کے بڑے بڑے ثقہ اور قابل احترام ہستیاں شامل تھیں۔
کرشمہ دامن دل می کشدکہ جا ایں جاست
یہ مقام ''ہنڈ'' تھا۔ جو اب تو صوابی کا ایک گاؤں ہے لیکن اس گاؤں کے پہلو میں وہ آثار ہیں جو ایک زمانے میں اس خطے کے ایک حصے گندھارا پر حکومت کرنے والے حکمرانوں کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ حیرت بھی ہوتی ہے اور عبرت بھی۔ جب ہم ایک مقام پر بھولے بسرے لوگوں کی رہائش گاہوں کے کھنڈر، ان میں اسی دور کے عظیم لوگوں کے استعمال کے برتن، نشست گاہیں اور چیزیں دیکھتے ہیں۔ کیسے کیسے لوگ ہوں گے، کیاکیا دبدبے ہوں گے، زندگی کی کتنی سرگرمیاں ہوں گی جن کے اب صرف سائے باقی رہ گئے ہیں، وہ بھی کسی کو دکھائی نہ دینے والے۔
حکومت نے یہاں ایک ہنڈ پارک بنایا ہوا ہے جس میں جدید سہولیات اور انتظامات کے ساتھ ان آثار کو محفوظ کرنے والا ایک میوزیم بھی ہے۔ دور دور سے سیاح ان چیزوں اور آثار کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں اور مقامی لوگ یا قریبی شہروں کے لوگ یہاں پکنک اور مجلس آرائیوں کے لیے آتے ہیں۔
جس تقریب کا ہم ذکرکر رہے ہیں وہ اسی مقام پر اٹھارہ اپریل کو منعقد ہوئی اور مزے کی بات یہ تھی کہ اس بھولے بسرے مقام پر منعقدہ تقریب بھی بھولے بسرے گیتوں اور ان بھولی بسری آوازوں کے بارے میں تھی جو اپنے زمانے کے اسٹار اور لیجنڈ تھے۔ عوام جن کے پرستار تھے اور ان کے نغمے گونجاکرتے تھے۔ یہ ریڈیو پاکستان پشاور سے نشر ہونے والے پروگرام بھولی بسری آوازیں کی بیسویں سالگرہ کی تقریب یا شاید انیسیویں۔
ویسے تو یہ پروگرام ریڈیوکا ہے لیکن اس میں ایک فرد حاجی محمد اسلم خان کی اپنی دلچسپی، محنت بلکہ جنون ہی کا بنیادی کردار ہے۔ کیونکہ جب یہ پروگرام اسلم خان ہی کے آئیڈیا پر شروع ہوا تھا تو اس وقت ریڈیوپاکستان کے پاس ان بھولی بسری آوازوں کے صرف چند ہی ریکارڈ تھے۔
اسلم خان نے پروگرام کیا۔ بے شک اس میں ریڈیو کے پروڈیوسروں کی محنت اور دلچسپی بھی ایک اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن اسلم خان نے اسے ریڈیو کا نہیں اپنا پروگرام سمجھ کر بہت زیادہ محنت کی، وہ پروگرام میں عوام الناس سے اپیل کرتا تھا کہ اگر کسی کے پاس ایسے ریکارڈ اور بھولے بسرے گیت ہوں تو ہمارے ساتھ شئیر کریں تا کہ یہ ضایع ہونے سے بچ جائیں۔ لوگوں نے خاص طور پر کچھ پرانے بڑے بوڑھوں نے اس میں بھرپور حصہ لیا جن کے پاس یہ گراموفون ریکارڈز بھی اور ان کے قدر دان بھی تھے۔ پھر اسلم خان خیبر پختون خوا کے چپے چپے پھرتا رہا، اپنا خرچہ خود اٹھا کر ہر اس مقام پر پہنچ جاتا جہاں کچھ ''ملنے'' کی امید ہوتی۔ یوں تقریباً تین چار ہزار نغمے اور ریکارڈ دستیاب ہوئے، ریڈیو پر ''بھولی بسری آوازوں'' میں نشر بھی ہوتے رہے اور محفوظ بھی ہوتے رہے۔
یہ اس زمانے کے ریکارڈز ہیں، جب ان ریکاڑڈز کو پشتو میں ''تورککوڑی'' یا صرف ککوڑی یعنی کالے ''بسکٹ'' یا ''حظائیاں'' کہا جاتا تھا۔ یہ ''لاکھ'' کے بنے ہوئے کالے رنگ کے ریکارڈز ہوتے تھے جو چابی سے چلنے والے گراموفون پر ایک سوئی کی مدد سے بجائے جاتے ہیں۔ ہم نے بھی وہ زمانہ دیکھا ہے جب اکا دکا لوگوں کے پاس یہ گراموفون اور ریکارڈ ہوتے تھے اور لوگ ان کو بڑی منت سماجت سے وی آئی پی ٹریٹمنٹ دے کر اپنے حجروں ڈیروں پر بلاتے تھے، مہان نوازی بھی کرتے تھے اور کچھ خرچہ بھی دیا کرتے تھے۔
ہم بچوں کو ایسے مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اس لیے ہم دروازوں کھڑکیوں سے آنکھ کان لگا کر لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ برصغیر میں بجلی کے آنے سے (1935ء) سے بھی پہلے کی بات ہے، دلی اور کلکتہ وغیرہ میں کچھ غیر ملکی کچھ پارسی اور کچھ ریکارڈ نگ کمپنیاں بیٹریوں کی مدد سے یہ ریکارڈز تیار کرتی تھیں۔ اکثر شاعر اور گانے والے یا موسیقار مستقل تنخواہ پر ملازم ہوتے تھے، ہمارے امیرحمزہ خان شنواری بھی ایک کمپنی سے بطور شاعر منسلک تھے اور ریکارڈ میں اگر مکالمے یا چھوٹے سے ڈرامے کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ بھی لکھا اور بولا کرتے تھے۔ جن ریکارڈنگ کمپنیوں کے ہمیں نام یاد ہیں ان میں ہز ماسٹرز وائس اور بانگا فون قابل ذکر تھیں۔ ریڈیو کے آنے پر ان گراموفون اور ریکارڈ کادور ختم ہو گیا۔ پھر اس کے بعد نئی نئی ایجادات کا سلسلہ جو اب تک چل رہا ہے۔
موسیقی میں بھی کئی تبدیلیاں آئیں، نئے نئے انسٹرومنٹ ایجاد ہوئے۔ لیکن ان پرانے''کالے ککوڑوں'' میں جو بات تھی وہ اپنی جگہ ایک انفرادیت رکھتی ہے، اس زمانے میں بڑے بڑے گائیک اور گائیکائیں پیدا ہوئیں جن کی آوازوں کے ریکارڈ ثبت ہوئے تھے۔ لیکن درمیانی زمانے میں یہ ریکارڈ تقریباً گم شدہ ہو گئے تھے، کم از کم ریڈیو یا کسی ادارے کے پاس نہ ان کو جمع کرنے اور محفوظ کرنے کا کوئی بندوبست تھا نہ خیال۔ دلی، بمبئی، کلکتہ میں شاید یا ان کمپنیوں کے ریکارڈز میں ہوں گے لیکن یہاں ہمارے صوبے میں اور خصوصاً پشتو کے ریکارڈز عدم پتہ تھے۔
اور یہ سہرا ریڈیو پاکستان پشاور ان کے چند پروڈیوسروں ڈائریکٹروں کے سر بھی جاتا ہے لیکن حاجی اسلم خان نے اپنی ڈیوٹی سے ہٹ کر جو محنت کی ہے، اس کاجواب نہیں ہے۔ پھر اس نے اپنی ان کاوشوں کوکتابی صورت بھی دی، اس کانام''تیرھیر آوازونہ'' یعنی '' بھولی بسری آوازیں'' ہے۔ اور یہ اس پروگرام یا پراجیکٹ کی نہ صرف سالگرہ تھی بلکہ بنوں، کوہاٹ، پشاور، مردان، صوابی اور سوات سے آنے والے قدردانوں نے حاجی اسلم خان کی دستاربندی اورتاج پوشی بھی کی۔ اور اس کے لیے''ہنڈ'' کے بھولے بسرے دارالحکومت کے سوا اور کوئی جگہ مناسب ہو ہی نہیں سکتی تھی ، اسلم خان کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں عمر کے ایک خاص مرحلے کے بڑے بڑے ثقہ اور قابل احترام ہستیاں شامل تھیں۔