مزدوروں کے مسائل اور یوم مئی
ڈھائی کروڑ مزدوروں کے دکھ ، مصائب وآلام کو قلم بیان کرنے سے قاصر ہے۔
سوا صدی سے زائد عرصہ بیت گیا، جب محنت کشوں نے اپنے لہوکا خراج دے کر سرمایہ داروں کی غلامی سے انکارکرتے ہوئے مزاحمتی تحریک شروع کی تھی، وہ آج بھی جاری وساری ہے۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری، غربت اور معاشی بدحالی کے باعث مزدوروں کی محنت کا استحصال پاکستان میں ہو رہا ہے۔
ڈھائی کروڑ مزدوروں کے دکھ ، مصائب وآلام کو قلم بیان کرنے سے قاصر ہے، کان کنی کے شعبے میں ہونیوالے المناک حادثات میں مزدوروں کا جان سے چلے جانا ہرآنکھ کو خون کے آنسو رلاتا ہے،گو پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانا قانونا منع اور جرم ہے لیکن آج بھی غریب پاکستانی بچے زندہ رہنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب یورپ کم ازکم اجرت کے معیار سے نکل کر معقول اجرت (Living Wages) کے معیار تک پہنچ چکا ہے اور ہم اب تک کم ازکم اجرت اور اوقات کار ہی طے نہیں کر پائے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں عارضی اور کنٹریکٹ لیبرکا دور دورہ ہے۔ یہ نظام سرکاری، نیم سرکاری اداروں،کارپوریشنز حتیٰ کہ کالج یونیورسٹیوںمیں بھی رائج ہے۔ روزانہ اجرت اور ٹھیکیداری نظام جو 1986ء کے بعد سے بتدریج فروغ پاتا آرہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فیکٹریاں اورکارخانے عملاً ہر قسم کی لیبرانسپکشن سے مبرا ہوچکے ہیں۔
جہاں ہیلتھ اور سیفٹی کے ملکی اور بین الاقوامی بنیادی اصولوں کو مجرمانہ حدتک نظر اندازکیا جارہا ہے، مثلاً کراچی میں علی انٹر پرائزکا حادثہ ہوا، جس میں ڈھائی سو سے زائد مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا ، شپ بریکنگ کا اتنا بڑا حادثہ ہوا جس میں کئی لوگ جان سے گئے،کانوں میں مسلسل حادثات ہو رہے ہیں۔ پھر گارمنٹس اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں روز ہی کوئی نا کوئی چھوٹا بڑا حادثہ پیش آرہا ہے۔
اس وقت وطن عزیز میں مزدوروں کی بڑی تعداد استحصال،جبری مشقت اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔95 فیصد ملازمین کو اپائنٹمنٹ لیٹر تک نہیں دیا جاتا اور جب ان کو نکالا جاتا ہے اور وہ کسی بھی لیبر ڈیپارٹمنٹ یا لیبر کورٹ میں جا کر یہ دعویٰ دائر کرنا چاہیں کہ ان کو غیر قانونی طور پر برخاست کیا گیا ہے تو وہ یہ بات ثابت ہی نہیں کر سکتے۔
اس کے علاوہ 97 فیصد فیکٹریاں ایسی ہیں جہاں مزدوروں کوکم سے کم مقررکی گئی اجرت تک نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں غیر ہنرمند مزدورکے لیے کم سے کم اجرت 15 ہزار مقرر ہے جو کہ نہیں دی جاتی۔ جب کہ ہنر مند افراد کے لیے اس سے زیادہ تنخواہ مقررکی گئی ہے لیکن ان کو غیرہنرمند مزدور وں کے لیے مقرر کردہ اجرت کے برابر تنخواہ دی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ کارخانوں میں نو، دس بلکہ 12 سے 15 گھنٹے بھی کام لیا جاتا ہے جب کہ مقررکردہ اوقات کار 8 گھنٹے ہیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار چھٹیوں کا بھی نظام نہیں اور مزدوروں کو اتوار کو بھی کام پر مجبورکیا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا مسائل کا جب ایک عام آدمی کو علم ہے تو نہ جانے کیوں حکومت کی آنکھیں بند ہیں۔ محنت کشوں کی ٹریڈ یونینزکا موقف ہے کہ ملک بھر کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ، ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ کے ذریعے کلریکل اور نان کلریکل کیڈرز میں غیر قانونی بھرتیاں کی جا رہی ہیں جوکہ نہ صرف ملک کے دستور میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،کم سے کم ویجز سے غیر ہنرمند تو ایک طرف ہنر مند محنت کشوں کو بھی جائز حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے،آئی ایل اوکنوینشن کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور یورپین یونین کے ساتھ کیے گئے جی ایس پی پلس کے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے ملک کو بین الاقوامی سطح پر رسوا کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے۔
مذکورہ بالاحقائق کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مزدورطبقہ اب بھی کئی بنیادی حقوق سے محروم ہے۔تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ گلی گلی آواز لگا کر اشیا فروخت کرنے والے، گھروں میں رنگ و روغن اور فرنیچر ٹھیک کرنے والے ملک کی معیشت میں اور روزگار کے مسائل حل کرنے میں تو اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان سہولتوں سے محروم ہوتے ہیں جو روایتی شعبہ جات میں کام کرنے والوں کو حاصل ہوتی ہیں۔
یہ ہمارے ملک کا وہ طبقہ ہے جس کا سارا دارومدار ان کی اپنی ہمت اور محنت پر ہے۔ اگر اسے کسی بیماری یا حادثے کا سامنا ہو تو اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔دراصل چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام ہمارے ملک میں سرے سے موجود نہیں ہے ، جو بھی نئی حکومت آتی ہے، اس کی ترجیحات میں مزدوروں کے حقوق شامل نہیں ہوتے ۔ ہماری ٹریڈ یونینزکو بہت کمزورکردیا گیا ہے کیونکہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں ہے ،جب بھی کوئی آمرانہ حکومت آئی اس نے ٹریڈ یونین پر حملہ کیا ہے۔
پاکستان میں 62 ملین کے قریب مزدور ہیں جن میں سے 70 فیصد ٹیکسٹائل،کاٹن اورگارمنٹس کے شعبوں میں کام میں کرکے ملکی برآمدات میں ستر فیصد حصہ ڈالنے کے باوجود بنیادی حقوق سے محروم ہیں ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام مسائل کا حل کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان کے مزدوروں کو بحیثیت انسان اپنی بقا اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک منظم ٹریڈ یونین اور مزدور تحریک کی اشد ضرورت ہے جو حالات کا مکمل ادراک رکھتی ہو اور وہ مزدوروں پر سرمایہ داروں کی جانب سے مہلک حملوں کا جواب دینے کی ٹھوس حکمت عملی رکھتی ہو۔ وقت کا تقاضا ہے کہ لیبر کلاس کے لیے ایسی خصوصی پالیسیاں بنائی جائیں جنھیں مکمل طور پر نافذکیا جاسکے کیونکہ یہی محنت کش لوگ دوسروں کے تو گھر بنا کر اْن کے خواب کی تکمیل کر دیتے ہیں مگر بدقسمتی سے خود ان کے اپنے گھر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔
پاکستان کے عوام کے سماجی و معاشی مسائل کا تقاضہ ہے کہ جاگیرداری، سرداری اور سرمایہ داری کے تسلط کو توڑا جائے۔ یہ سب خوش کن خواب ہیں جو شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے ہیں،کیونکہ موجودہ حکومت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود معیشت میں بہتری آنے کے بجائے صورتحال ابتر ہوئی ہے، بجلی اورگیس کے سنگین بحران کے باعث کارخانے اور صنعتی یونٹ شدید دباؤ کا شکار ہیں، ہزاروں مزدوروں کی بے روزگاری کے اثرات ان کے زیرکفالت لاکھوں افراد پر پڑ رہے ہیں ۔ حکومت نے اپنے انتخابی جلسوں اور منشور میں ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک یہ وعدہ ایفا ہوتے دکھائی نہیں دے رہا ۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال۔
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں کہ روشِ بندہ پروری کیا ہے
یہی وقت کی پکار ہے، مزدوروں کی مانگ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں پارلیمنٹ کی سطح پر اپناکردار ملک کے دستور کی روشنی میں ادا کرتے ہوئے محنت کشوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل مرتب کریں، تاکہ ملک بھر کے اداروں میں انصاف کی رٹ قائم ہو سکے۔ تحریک انصاف جو تبدیلی اور انصاف کی فراہمی کے نعرے پر برسراقتدار آئی ہے ۔
وزیراعظم عمران خان کی منظوری سے یوم مزدور پر ''مزدور کا احساس'' پروگرام باقاعدہ شروع کردیا گیا ہے۔ اس موقعے پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ معاشرے کے کمزور طبقوں، مزدوروں بشمول گھروں میں کام کرنے والے ورکرزکے حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔
وزیراعظم نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ یقیناً لائق تحسین ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ مزدور کی زندگی میں حقیقی طور پر تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ اصل چیلنج تو متعلقہ قوانین پر مکمل عملدرآمد میں ہے۔ ملک کے مزدوروں اور محنت کشوں کے دن بھی تب بدلیں گے، جب ملک میں موجود بد ترین طبقاتی کشمکش ختم ہوگی، جب پاکستان کے ہر کونے میں اہلِ وطن کو زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہوں گی۔
ڈھائی کروڑ مزدوروں کے دکھ ، مصائب وآلام کو قلم بیان کرنے سے قاصر ہے، کان کنی کے شعبے میں ہونیوالے المناک حادثات میں مزدوروں کا جان سے چلے جانا ہرآنکھ کو خون کے آنسو رلاتا ہے،گو پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانا قانونا منع اور جرم ہے لیکن آج بھی غریب پاکستانی بچے زندہ رہنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب یورپ کم ازکم اجرت کے معیار سے نکل کر معقول اجرت (Living Wages) کے معیار تک پہنچ چکا ہے اور ہم اب تک کم ازکم اجرت اور اوقات کار ہی طے نہیں کر پائے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں عارضی اور کنٹریکٹ لیبرکا دور دورہ ہے۔ یہ نظام سرکاری، نیم سرکاری اداروں،کارپوریشنز حتیٰ کہ کالج یونیورسٹیوںمیں بھی رائج ہے۔ روزانہ اجرت اور ٹھیکیداری نظام جو 1986ء کے بعد سے بتدریج فروغ پاتا آرہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فیکٹریاں اورکارخانے عملاً ہر قسم کی لیبرانسپکشن سے مبرا ہوچکے ہیں۔
جہاں ہیلتھ اور سیفٹی کے ملکی اور بین الاقوامی بنیادی اصولوں کو مجرمانہ حدتک نظر اندازکیا جارہا ہے، مثلاً کراچی میں علی انٹر پرائزکا حادثہ ہوا، جس میں ڈھائی سو سے زائد مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا ، شپ بریکنگ کا اتنا بڑا حادثہ ہوا جس میں کئی لوگ جان سے گئے،کانوں میں مسلسل حادثات ہو رہے ہیں۔ پھر گارمنٹس اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں روز ہی کوئی نا کوئی چھوٹا بڑا حادثہ پیش آرہا ہے۔
اس وقت وطن عزیز میں مزدوروں کی بڑی تعداد استحصال،جبری مشقت اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔95 فیصد ملازمین کو اپائنٹمنٹ لیٹر تک نہیں دیا جاتا اور جب ان کو نکالا جاتا ہے اور وہ کسی بھی لیبر ڈیپارٹمنٹ یا لیبر کورٹ میں جا کر یہ دعویٰ دائر کرنا چاہیں کہ ان کو غیر قانونی طور پر برخاست کیا گیا ہے تو وہ یہ بات ثابت ہی نہیں کر سکتے۔
اس کے علاوہ 97 فیصد فیکٹریاں ایسی ہیں جہاں مزدوروں کوکم سے کم مقررکی گئی اجرت تک نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں غیر ہنرمند مزدورکے لیے کم سے کم اجرت 15 ہزار مقرر ہے جو کہ نہیں دی جاتی۔ جب کہ ہنر مند افراد کے لیے اس سے زیادہ تنخواہ مقررکی گئی ہے لیکن ان کو غیرہنرمند مزدور وں کے لیے مقرر کردہ اجرت کے برابر تنخواہ دی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ کارخانوں میں نو، دس بلکہ 12 سے 15 گھنٹے بھی کام لیا جاتا ہے جب کہ مقررکردہ اوقات کار 8 گھنٹے ہیں۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار چھٹیوں کا بھی نظام نہیں اور مزدوروں کو اتوار کو بھی کام پر مجبورکیا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا مسائل کا جب ایک عام آدمی کو علم ہے تو نہ جانے کیوں حکومت کی آنکھیں بند ہیں۔ محنت کشوں کی ٹریڈ یونینزکا موقف ہے کہ ملک بھر کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ، ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ کے ذریعے کلریکل اور نان کلریکل کیڈرز میں غیر قانونی بھرتیاں کی جا رہی ہیں جوکہ نہ صرف ملک کے دستور میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،کم سے کم ویجز سے غیر ہنرمند تو ایک طرف ہنر مند محنت کشوں کو بھی جائز حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے،آئی ایل اوکنوینشن کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور یورپین یونین کے ساتھ کیے گئے جی ایس پی پلس کے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے ملک کو بین الاقوامی سطح پر رسوا کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے۔
مذکورہ بالاحقائق کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مزدورطبقہ اب بھی کئی بنیادی حقوق سے محروم ہے۔تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ گلی گلی آواز لگا کر اشیا فروخت کرنے والے، گھروں میں رنگ و روغن اور فرنیچر ٹھیک کرنے والے ملک کی معیشت میں اور روزگار کے مسائل حل کرنے میں تو اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان سہولتوں سے محروم ہوتے ہیں جو روایتی شعبہ جات میں کام کرنے والوں کو حاصل ہوتی ہیں۔
یہ ہمارے ملک کا وہ طبقہ ہے جس کا سارا دارومدار ان کی اپنی ہمت اور محنت پر ہے۔ اگر اسے کسی بیماری یا حادثے کا سامنا ہو تو اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔دراصل چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام ہمارے ملک میں سرے سے موجود نہیں ہے ، جو بھی نئی حکومت آتی ہے، اس کی ترجیحات میں مزدوروں کے حقوق شامل نہیں ہوتے ۔ ہماری ٹریڈ یونینزکو بہت کمزورکردیا گیا ہے کیونکہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں ہے ،جب بھی کوئی آمرانہ حکومت آئی اس نے ٹریڈ یونین پر حملہ کیا ہے۔
پاکستان میں 62 ملین کے قریب مزدور ہیں جن میں سے 70 فیصد ٹیکسٹائل،کاٹن اورگارمنٹس کے شعبوں میں کام میں کرکے ملکی برآمدات میں ستر فیصد حصہ ڈالنے کے باوجود بنیادی حقوق سے محروم ہیں ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام مسائل کا حل کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان کے مزدوروں کو بحیثیت انسان اپنی بقا اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک منظم ٹریڈ یونین اور مزدور تحریک کی اشد ضرورت ہے جو حالات کا مکمل ادراک رکھتی ہو اور وہ مزدوروں پر سرمایہ داروں کی جانب سے مہلک حملوں کا جواب دینے کی ٹھوس حکمت عملی رکھتی ہو۔ وقت کا تقاضا ہے کہ لیبر کلاس کے لیے ایسی خصوصی پالیسیاں بنائی جائیں جنھیں مکمل طور پر نافذکیا جاسکے کیونکہ یہی محنت کش لوگ دوسروں کے تو گھر بنا کر اْن کے خواب کی تکمیل کر دیتے ہیں مگر بدقسمتی سے خود ان کے اپنے گھر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔
پاکستان کے عوام کے سماجی و معاشی مسائل کا تقاضہ ہے کہ جاگیرداری، سرداری اور سرمایہ داری کے تسلط کو توڑا جائے۔ یہ سب خوش کن خواب ہیں جو شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے ہیں،کیونکہ موجودہ حکومت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود معیشت میں بہتری آنے کے بجائے صورتحال ابتر ہوئی ہے، بجلی اورگیس کے سنگین بحران کے باعث کارخانے اور صنعتی یونٹ شدید دباؤ کا شکار ہیں، ہزاروں مزدوروں کی بے روزگاری کے اثرات ان کے زیرکفالت لاکھوں افراد پر پڑ رہے ہیں ۔ حکومت نے اپنے انتخابی جلسوں اور منشور میں ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک یہ وعدہ ایفا ہوتے دکھائی نہیں دے رہا ۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال۔
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں کہ روشِ بندہ پروری کیا ہے
یہی وقت کی پکار ہے، مزدوروں کی مانگ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں پارلیمنٹ کی سطح پر اپناکردار ملک کے دستور کی روشنی میں ادا کرتے ہوئے محنت کشوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل مرتب کریں، تاکہ ملک بھر کے اداروں میں انصاف کی رٹ قائم ہو سکے۔ تحریک انصاف جو تبدیلی اور انصاف کی فراہمی کے نعرے پر برسراقتدار آئی ہے ۔
وزیراعظم عمران خان کی منظوری سے یوم مزدور پر ''مزدور کا احساس'' پروگرام باقاعدہ شروع کردیا گیا ہے۔ اس موقعے پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ معاشرے کے کمزور طبقوں، مزدوروں بشمول گھروں میں کام کرنے والے ورکرزکے حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔
وزیراعظم نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ یقیناً لائق تحسین ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ مزدور کی زندگی میں حقیقی طور پر تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ اصل چیلنج تو متعلقہ قوانین پر مکمل عملدرآمد میں ہے۔ ملک کے مزدوروں اور محنت کشوں کے دن بھی تب بدلیں گے، جب ملک میں موجود بد ترین طبقاتی کشمکش ختم ہوگی، جب پاکستان کے ہر کونے میں اہلِ وطن کو زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہوں گی۔