لاہور سے ایڈنبرا تک
اب غالباً یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ ’’انڈہ برا‘‘ کی جگہ ’’ایڈنبرا‘‘ اور ’’میّت‘‘ کی جگہ ’’معیت‘‘ کہنا چاہ رہے تھے۔
ایڈنبرا سے میرا ذہن فوراً دو ناموں کی طرف منتقل ہوتا ہے ایک ملکہ برطانیہ کے شوہر پرنس فلپ ڈیوک آف ایڈنبرا اور دوسرے ہم سب کے پسندیدہ مزاح نگار شفیق الرحمن، البتہ اس تعلق کی وجوہات نہ صرف الگ الگ ہیں بلکہ بہت دلچسپ بھی ہیں ہمارے بچپن میں لاہور کے ایک میئر ہوا کرتے تھے جو اگرچہ ایک بھرپور شخصیت کے مالک تھے لیکن اُن کی انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں پر دسترس ایک جیسی تھی۔ کہتے ہیں کہ جب ملکہ برطانیہ ساٹھ کی دہائی میں سرکاری دورے پر پاکستان آئیں تو انھوں نے خطبہ استقبالیہ میں ایک ایسا جملہ کہا جس پر سامعین کو ہنسی روکنا محال ہوگیا جملہ کچھ یوں تھا۔
''ملکہ صاحبہ ڈیوک آف انڈہ برا کی میّت میں تشریف لائی ہیں ہم سب اُن کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں''
اب غالباً یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ ''انڈہ برا'' کی جگہ ''ایڈنبرا'' اور ''میّت'' کی جگہ ''معیت'' کہنا چاہ رہے تھے۔اب جہاں تک شفیق الرحمن کا اس واقعے اور شہر سے تعلق ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں انڈین آرمی کی طرف سے بطور سرجن ڈاکٹر کچھ عرصہ ایڈنبرا میں رہے اور اس کا ذکر اُن کی مختلف تحریروں میں بہت دلچسپ انداز میں ہوا ہے اور یوں ایڈنبرا ہمارے بچپن میں ہی لندن کے بعد انگلینڈ کا دوسرا شہر تھا جس کا نام انھیں آتا تھا، اس شہر کے حوالے سے انھوں نے جو دو باتیں ہمیں زبانی سنائیں اُن سے اپنے قارئین کو محروم رکھنا زیادتی ہوگی اس لیے میں اُن کی رُوح سے اجازت لیتے ہوئے انھیں رقم کرتا ہوں۔
انھوں نے بتایا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دنوں میں امریکی فوجی انگلستان میں آتے جاتے رہتے تھے وہاں کی لائبریریوں کے اکثر فرش لکڑی کے ہوا کرتے تھے اور لوگ وہاں بہت آہستگی سے چلتے اور دھیمی آواز میں بات کرتے تھے تاکہ دوسرے لوگ ڈسٹرب نہ ہوں۔
ایک امریکی فوجی ایسی ہی کسی لائبریری میں اپنے بھاری بوٹ زور زور سے مارتا ہوا اندر آیا اور اونچی آواز میں لائبریرین سے پوچھا ''تمہارا باتھ روم کدھر ہے مجھے پیشاب کرنا ہے''۔لائبریرین نے بڑی تمیز سے اُسے سلام کرتے ہوئے ایک طرف کو اشارہ کیا اور کہا اِدھر چلے جاؤ آخری دروازے پر تمہیں جنٹلمین (Gentalman) لکھا ہوا نظر آئے گا تم اس کی پرواہ نہ کرنا اور اندر چلے جانا۔
دوسری بات قدرے باریک ہے مگر اس کا اپنا ہی مزا ہے انھوں نے بتایا کہ جنگ کے دنوں میں تیزی سے ترقیاں ملنے کی وجہ سے بعض اوقات حوالدار رینک کے لوگ بھی میجر اور کرنل بن جاتے تھے۔ میدان جنگ کی حد تک تو معاملہ چل جاتا تھا لیکن اگر ان کو کبھی کسی معتبر یا کسی پیشہ ورانہ نوعیت کے شعبے میں لگا دیا جاتا تو ان کی تربیت کی کمی عجب عجب طرح کے گُل کھلاتی تھی مثلاً ایک ایسا ہی رنگروٹ سے ترقی پایا ہوا میجر اُن کے اسپتال میں ایڈمنسٹریٹو افسر لگا ہوا تھا اور ہر آدمی سے بدتمیزی کرتا تھا، ایک دن وہ ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر کو اپنے ساتھ کھڑا کرکے بلاوجہ ڈانٹ رہا تھا اتنے میں ایک باقاعدہ سینئر افسر وہاں سے گزرا اور یہ منظر دیکھ کر اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا،''مسٹر ڈیوس میرے خیال میں اپنی مردانگی دکھانے کا یہ سب سے نامردانہ طریقہ ہے جس سے تم کام لے رہے ہو''
لیکن ٹھہریئے ایڈنبرا پہنچنے سے پہلے ہمیں لاہور سے پی آئی اے کے طیارے میں بیٹھ کر مانچسٹر پہنچنا ہے جو ہمارے اس سفر کا پہلا پڑاؤ ہوگا۔ ایئر پورٹ پر غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ڈائریکٹر اور اس دورے کے منتظم برادر عزیز عامر محمود جعفری مقامی میزبانوں نذر عالم اور کاشف کے ساتھ استقبال کو موجود تھے، معلوم ہوا کہ عزیزی سید وصی شاہ اگلے دن براہ راست براستہ دبئی ایڈنبرا پہنچے گا جب کہ ہم یہ سفر بذریعہ کار کریں گے ،یورپ اور امریکا وغیرہ میں یہ بہت آسانی ہے کہ آپ کو دس منٹ کے اندر اندر کرائے پر من پسند گاڑی مل جاتی ہے جسے آپ متعلقہ آسان شرائط کو پورا کرنے کے بعددن رات اپنے تصرف میں رکھ سکتے ہیں، ہماری گاڑی سات سیٹوں والی تھی چنانچہ سامان وغیرہ رکھنے کے بعد بھی بہت سی جگہ بچی رہتی تھی۔
ایڈنبرا میں نذر کے بھائی فخر ہمارے منتظر تھے ان کے تیسرے بھائی طاہر موجودہ حکومت کے ایم این اے ہیں اور اس بہت محبت کرنے والے خاندان کا تعلق وہاڑی سے ہے انھوں نے جس طرح سے ہم مہمانوں کو سر آنکھوں پر بٹھائے رکھا اُس کی خوبصور ت یاد ایک خوشبو کی طرح اب تک ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہے۔
ایڈنبرا گلاسگو سے 40 منٹ کی مسافت پر ہے لیکن بوجوہ ہمارا پروگرام کچھ ایسا تھا کہ ہمیں وہاں سے اگلے دن واپس مانچسٹر آنا تھا اور چند گھنٹے بعد دوبارہ گلاسگو کا رُخ کرنا تھا یعنی ناک کو سر کے اُوپر سے گھما کر پکڑنا تھا۔اس راستے کے قرب و جوار میں نیو کاسل کا شہر بھی پڑتا تھا جہاں پچھلے دو دوروں میں برادرم طارق احمد اور اُن کے احباب سے بھی ملاقات رہی تھی جو اس بار انھی سفری گھمن گھیریوں کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکی، مانچسٹر میں برادرم مخدوم امجد شاہ اور عزیزی عبدالواحد سے بھی ملاقاتیں رہیں اور عزیزی نعیم حیدر بھی خاص طور پر برمنگھم سے ملنے کے لیے آیا کہ یہ تینوں دوست انگلستان کے حوالے سے ہمارے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
''ملکہ صاحبہ ڈیوک آف انڈہ برا کی میّت میں تشریف لائی ہیں ہم سب اُن کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں''
اب غالباً یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ ''انڈہ برا'' کی جگہ ''ایڈنبرا'' اور ''میّت'' کی جگہ ''معیت'' کہنا چاہ رہے تھے۔اب جہاں تک شفیق الرحمن کا اس واقعے اور شہر سے تعلق ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں انڈین آرمی کی طرف سے بطور سرجن ڈاکٹر کچھ عرصہ ایڈنبرا میں رہے اور اس کا ذکر اُن کی مختلف تحریروں میں بہت دلچسپ انداز میں ہوا ہے اور یوں ایڈنبرا ہمارے بچپن میں ہی لندن کے بعد انگلینڈ کا دوسرا شہر تھا جس کا نام انھیں آتا تھا، اس شہر کے حوالے سے انھوں نے جو دو باتیں ہمیں زبانی سنائیں اُن سے اپنے قارئین کو محروم رکھنا زیادتی ہوگی اس لیے میں اُن کی رُوح سے اجازت لیتے ہوئے انھیں رقم کرتا ہوں۔
انھوں نے بتایا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دنوں میں امریکی فوجی انگلستان میں آتے جاتے رہتے تھے وہاں کی لائبریریوں کے اکثر فرش لکڑی کے ہوا کرتے تھے اور لوگ وہاں بہت آہستگی سے چلتے اور دھیمی آواز میں بات کرتے تھے تاکہ دوسرے لوگ ڈسٹرب نہ ہوں۔
ایک امریکی فوجی ایسی ہی کسی لائبریری میں اپنے بھاری بوٹ زور زور سے مارتا ہوا اندر آیا اور اونچی آواز میں لائبریرین سے پوچھا ''تمہارا باتھ روم کدھر ہے مجھے پیشاب کرنا ہے''۔لائبریرین نے بڑی تمیز سے اُسے سلام کرتے ہوئے ایک طرف کو اشارہ کیا اور کہا اِدھر چلے جاؤ آخری دروازے پر تمہیں جنٹلمین (Gentalman) لکھا ہوا نظر آئے گا تم اس کی پرواہ نہ کرنا اور اندر چلے جانا۔
دوسری بات قدرے باریک ہے مگر اس کا اپنا ہی مزا ہے انھوں نے بتایا کہ جنگ کے دنوں میں تیزی سے ترقیاں ملنے کی وجہ سے بعض اوقات حوالدار رینک کے لوگ بھی میجر اور کرنل بن جاتے تھے۔ میدان جنگ کی حد تک تو معاملہ چل جاتا تھا لیکن اگر ان کو کبھی کسی معتبر یا کسی پیشہ ورانہ نوعیت کے شعبے میں لگا دیا جاتا تو ان کی تربیت کی کمی عجب عجب طرح کے گُل کھلاتی تھی مثلاً ایک ایسا ہی رنگروٹ سے ترقی پایا ہوا میجر اُن کے اسپتال میں ایڈمنسٹریٹو افسر لگا ہوا تھا اور ہر آدمی سے بدتمیزی کرتا تھا، ایک دن وہ ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر کو اپنے ساتھ کھڑا کرکے بلاوجہ ڈانٹ رہا تھا اتنے میں ایک باقاعدہ سینئر افسر وہاں سے گزرا اور یہ منظر دیکھ کر اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا،''مسٹر ڈیوس میرے خیال میں اپنی مردانگی دکھانے کا یہ سب سے نامردانہ طریقہ ہے جس سے تم کام لے رہے ہو''
لیکن ٹھہریئے ایڈنبرا پہنچنے سے پہلے ہمیں لاہور سے پی آئی اے کے طیارے میں بیٹھ کر مانچسٹر پہنچنا ہے جو ہمارے اس سفر کا پہلا پڑاؤ ہوگا۔ ایئر پورٹ پر غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ڈائریکٹر اور اس دورے کے منتظم برادر عزیز عامر محمود جعفری مقامی میزبانوں نذر عالم اور کاشف کے ساتھ استقبال کو موجود تھے، معلوم ہوا کہ عزیزی سید وصی شاہ اگلے دن براہ راست براستہ دبئی ایڈنبرا پہنچے گا جب کہ ہم یہ سفر بذریعہ کار کریں گے ،یورپ اور امریکا وغیرہ میں یہ بہت آسانی ہے کہ آپ کو دس منٹ کے اندر اندر کرائے پر من پسند گاڑی مل جاتی ہے جسے آپ متعلقہ آسان شرائط کو پورا کرنے کے بعددن رات اپنے تصرف میں رکھ سکتے ہیں، ہماری گاڑی سات سیٹوں والی تھی چنانچہ سامان وغیرہ رکھنے کے بعد بھی بہت سی جگہ بچی رہتی تھی۔
ایڈنبرا میں نذر کے بھائی فخر ہمارے منتظر تھے ان کے تیسرے بھائی طاہر موجودہ حکومت کے ایم این اے ہیں اور اس بہت محبت کرنے والے خاندان کا تعلق وہاڑی سے ہے انھوں نے جس طرح سے ہم مہمانوں کو سر آنکھوں پر بٹھائے رکھا اُس کی خوبصور ت یاد ایک خوشبو کی طرح اب تک ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہے۔
ایڈنبرا گلاسگو سے 40 منٹ کی مسافت پر ہے لیکن بوجوہ ہمارا پروگرام کچھ ایسا تھا کہ ہمیں وہاں سے اگلے دن واپس مانچسٹر آنا تھا اور چند گھنٹے بعد دوبارہ گلاسگو کا رُخ کرنا تھا یعنی ناک کو سر کے اُوپر سے گھما کر پکڑنا تھا۔اس راستے کے قرب و جوار میں نیو کاسل کا شہر بھی پڑتا تھا جہاں پچھلے دو دوروں میں برادرم طارق احمد اور اُن کے احباب سے بھی ملاقات رہی تھی جو اس بار انھی سفری گھمن گھیریوں کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکی، مانچسٹر میں برادرم مخدوم امجد شاہ اور عزیزی عبدالواحد سے بھی ملاقاتیں رہیں اور عزیزی نعیم حیدر بھی خاص طور پر برمنگھم سے ملنے کے لیے آیا کہ یہ تینوں دوست انگلستان کے حوالے سے ہمارے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔