بانل دشتیاری بلوچی زبان کی معتبر شاعرہ

بانل دشتیاری نے ’’درد وغم کتنے جمع کیے تو دیوان کیا‘‘ کے مصداق ایک حیرت ناک جہت فکاہیہ کالم نگاری میں دکھائی۔

بانل دشتیاری جدید بلوچی شاعری میں ایک معتبر نام ہے ۔ میری خوش نصیبی ہے کہ وہ میری ماں تھیں ، جب تک زندہ رہیں مجھے خبر نہ ہوئی کہ فقر وفاقہ کی لذت کیا ہے اور بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کی ہم سے نسبت کون سی ہے۔

یہ دلچسپ اور قدرے حیرانی کی بات تھی جب بلوچی اور اردو زبان کے صاحب طرز شاعرعطا شاد نے کوئٹہ میں دوران انٹرویو اماں بانل کے ایک شعر پرکہا کہ ''نادر ! وہ آپ کی ماں ضرور تھیں مگر علامتی طور پر ہمارے سارے بلوچ شعرا کی ماں ہیں ۔'' یہ ایک بڑے شاعر اوردانشور کا ان کے بارے میں عاجزانہ اعتراف تھا۔ عطاشاد کو اماں کے اس شعر نے چونکا دیا تھا ۔

جامگوں زندے وتی دیما کو توں

برہنگی کارچے تئی چارگ نہ بیت

(ترجمہ: میں نے اپنا ملبوس حیات اس کی نذرکردیا کیونکہ تمہاری شمشیرکی برہنگی مجھ سے دیکھی نہ گئی۔)

یہ تو لطیف چوہدری صاحب کا حسن نظر ، بلوچی زبان وادب سے دلچسپی اور سخن نوازی تھی کہ مجھے اماں پرکچھ لکھنے کی ازراہ مروت ترغیب دے ڈالی۔ محترمہ زاہدہ حنا بھی سید ظہور شاہ ہاشمی اور بانل دشتیاری کے بارے میں اپنے گہرے اشتیاق کی بابت مجھے تاکید کرتی رہیں۔ لہذا کچھ باتیں اماں بانل دشتیاری کے بارے میں قارئین کی نذر کی جا رہی ہیں۔

بانل دشتیاری کا نام سیدہ ناز بی بی تھا وہ1925میں لیاری کے علاقے بغدادی سیفی لین میں پیدا ہوئیں،ان کے والد سید ملنگ شاہ ہاشمی (مدفون میوہ شاہ قبرستان) بلوچی زبان کے اولین بزرگ صوفی شاعر تھے ۔گھر پر اپنی والدہ بی بی شہناز سے قرآن کا ابتدائی درس لیا، وہ علاقے کی مشہور معلمہ ملّانی ذروک کے مدرسہ کی فارغ التحصیل بھی تھیں، وہ ملاّ ذروک کے نام سے جانی جاتی تھیں۔

ان کے مدرسے کی لیاری میں بڑی شہرت تھی، ان کی سخت گیری میں بھی درد مندی تھی اور یہ حقیقت ہے کہ جن بچیوں نے ملا ذروک کے مدرسے میں قرآن کی تعلیم حاصل کی وہ شخصی کردار، تربیت ، سلیقہ مندی، انکساری ،علم دوستی اور بندہ پروری میں منفرد رہیں، ان میں کئی طالبات بعد میں اپنے علاقے کے اسکولوں کی صدر مدرس کی حیثیت میں ریٹائر ہوئیں۔ اس زمانے کے سیاق وسباق میں لفظ ملاّ کی مرد وزن میں تخصیص نہ تھی ، چنانچہ کھڈا دریا باد میں حاجی ملا کا اسکول و مدرسہ اور ہشت چوک پر ملا عمر (طالبان والے نہیں) کا مدرسہ کسی جامعہ جیسی ساختیاتی وقار اور اسلامی تعلیمی اقدار کی آبیاری کے حسین سنگم سے کم نہ تھے۔ راقم خود بھی ملا ذروک کے مدرسے سے فیضیاب ہوا۔

مدرسے کی یہی وہ علمی سہولتیں تھیں جن سے اماں نے استفادہ کیا ۔ محلے کے اسکول سے رسمی تعلیم حاصل کی ۔ عمومی طور پر لیاری کے بیشتر علمی گھرانوں میں فارسی وعربی کا رواج تھا، پرائمری اسکولوں میں اسلامیات اور فارسی کی تعلیم لازمی تھی۔ اماں بانل نے گھر میں شیخ سعدی کی تصانیف گلستاں و بوستاں کا مطالعہ کیا، سندھی زبان سے شدھ بدھ پیدائشی تھی، گھر پیری مریدی کے حصار میں تھا، بوڑھی عورتیں بتاتی تھیں کہ ناز بی بی کا لوگوں کے دکھ درد سے قریبی رشتہ قدیمی تھا، فقیری ،درویشی اور ڈاؤن ٹو ارتھ رہنے کا جو ورثہ بابا ملنگ شاہ نے اماں اور خالہ مریم بی بی کو دیا اسے عمر بھر اپنی جان سے عزیز رکھا ۔

محلے اور دور دراز سے مرد و زن ، بوڑھے بچے بیمار دم کیے ہوئے پانی ، تعویذ اور دعاؤں کے لیے اماںکے پاس آتے، ان کا بچپن دکھی لوگوں کی کتھائیں سنتے ہوئے گزرا ، میں نے اماں کو لیاری کے درد وغم جمع کرتے ہوئے پایا ، ان کی زندگی اشکوں کی روانی کے لہو رلانے والے تجربات کو سہتے ہوئے ختم ہوئی۔ ان کے انتقال کا بہانہ کینسر کا مرض بنا ۔ دکھوں کی آبشار نے ان سے ایسے شعر کہلوائے جو غم واندوہ کی برستی ہوئی آگ سے زیادہ تپش آمیز تھے ۔ بابا ملنگ کے مریدوں کی بڑی تعداد لیاری ، اندرون سندھ اور بلوچستان میں آج بھی موجود ہے۔اماں بانل کی بڑی بہن مریم بی بی نے لیاری میں 40 برس تک کراچی بھر میں میلاد پڑھتے ہوئے گزار دی۔ دونوں بہنوں کا مسائل سے دوچار انسانی تناظر یکساں فکری تشویش سے جڑا ہوا تھا، گھنٹوں لوگوں کے مسائل سنتیں، اماں بانل کے غریب خانہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔

پریشانی کے ستائے لوگ اور دکھوں سے نڈھال مائیں اپنے بچوں کو لیے دروازہ پر دستک دیتیں، لیاری کے افتادگان خاک کے دکھ شیئر کرتے گزرے، غالبا اسی انٹر ایکشن کے دوران اماں کا مطالعہ شاہ جو رسالو، دیوان غالب، کلام اقبال سے ہوتا ہوا بلوچی شعر وادب سے جا ملا۔ انھیں مہمیز سید ہاشمی کے بلوچی کلام اور ریسرچ ورک سے ملی، اردو کلاسیک شاعری میں وہ میر کے غم و اندوہ سے آشنا ہوئیں ، فیض، فراز، منیر نیازی اور جوش کی انقلابی شاعری ساتھ میر گل خان نصیر، احمد جگر، ملک طوقی، اشرف سربازی، عبدالرحیم ظفر، مراد آوارانی، جی آر ملا، مبارک قاضی، بشیر بیدار، اکبر بارکزئی، مراد ساحر، صدیق آزات، ظفر علی ظفر، عابد آسکانی منصور بلوچ ، فاروق بلوچ اور نوجوان شعرا کو پڑھتی رہیں۔ سید ہاشمی کے کلام کی حافظ تھیں، یہی وجہ ہے کہ سید صاحب نے ایک بار بانل دشتیاری کی اولین شاعرانہ کاوش پرکہا تھا کہ اس پوئٹری پر بانل کا نام ہٹا کر میرا نام لکھ دیا جاتا تو مجھے یہ اپنا کلام ہی نظر آتا۔ یہ پہلا کلام بلوچی کا ہٹ سانگ بن گیا جسے معروف بلوچ گلوکار محمد جاڑک نے گایا تھا، موسیقی شفیع ستار نے ترتیب دی تھی، اس پہلی کوشش کے بول تھے

حاطرا تئی کا دلے درداں دلا داراں

گوں گماں دل گوشاں نوں من چہ کجا ناراں

(ترجمہ: آپ کی خاطر میں نے سارے درد دل میں جمع کرلیے، انھی غموں میں مصروف ہوں آہ کرنے کی فرصت کہاں)

یہ کلام جب صفحہ پر لکھا گیا تو اس کا مقطع بانل تھا جسے اماں نے نہ معلوم کیا سوچ کر قلم زد کرکے وہاں عادل لکھ دیا، شاید اس رومانی کلام میں وہ اپنا نام نہیں دینا چاہتی تھیں، مگر انھیںکیا خبر تھی کہ ان کی پہلی نظم لیاری میں شادی کی کسی تقریب میں تہلکہ مچادے گی، پھر یہی کلام ریڈیوکوئٹہ سے کئی بار نشر ہوا ، اور عادل کی وجہ سے کیسٹ اور ریکارڈ میں میرا نام درج ہوا، میں نے بعد میں فیس بک پر وضاحت کی کہ یہ کلام اماں بانل دشتیاری کی پہلی کوشش تھی جو ان کے باقی شاعری میں موجود نہیں۔ اماں کا دیگر کلام کئی بلوچ گلوکاروں نے گایا جن میں نصیر اور استاد نورل مشہور ہیں۔

اماں سے سوئیڈن کی اسکالر جانی اورکوئٹہ کی نور جبیں اور آمنہ نے کراچی میں آکر انٹرویو کیا۔ بانل دشتیاری کا شاعر بن جانا اپنے ابا ملنگ شاہ کے کلام سے انسیت کے باعث ہوا ، ان کا کلام محمد جاڑک ، لوگ فنکار فیض محمد بلوچ اور دیگر نے گایا ہے، بابا ملنگ شاہ کے ایک مشہور گیت کا مکھڑا تھا۔

من مراں قبرا منی گا چوک چاراہا کنے

گریوگے بدلا منی گا چاپ ونازینکاں کنے

(ترجمہ: میں مرجاؤں تو میری قبر چوراہے پر بنوائی جائے اور لوگ رونے دھونے کے بجائے جشن منائیں)


بانل دشتیاری کا زیادہ تر کلام حزنیہ ہے، ملال ،غم واندوہ اور دل سوز ترکیبوں سے لبریز مصرعے لہو رلاتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں

منی حالے مکان جستا منی دوست

گماں گرانیناں دل درشتا منی دوست

(ترجمہ: میرا حال کیاپوچھتے ہو ہمدم،دکھوں نے دل پیس کر رکھ دیا ہے۔)

تئی گلا و گوں دشمناں واللہ

تلوساں ،پلپٹاں مراں نہ کنا

(ترجمہ: آپ کا گلہ اور میں دشمنوں سے کروں !واللہ سینہ جل اٹھے،تڑپوں سسکوںاور مرجاؤں، کبھی نہیں کرونگی)

زرے زیرآپ بیت چولاں گوں بانل

امیتانی تیاب پرشتا منی دوست

(ترجمہ: امیدوںکا پل کیا ٹوٹا، موجیں بانل کو ساتھ لے کر تہہ آب چلی گئیں)

مروچی بوانت مسک ومہلبانی

اے کے گوستگ نزاناں میتگا چہ

(ترجمہ: آج فضا میں عجب مہک رچی بسی ہوئی ہے،

پتا نہیں کون گلی سے گزرا ہے۔)

قارئین کے لیے یہ انکشاف ہوگا کہ بانل دشتیاری نے ''درد وغم کتنے جمع کیے تو دیوان کیا'' کے مصداق ایک حیرت ناک جہت فکاہیہ کالم نگاری میں دکھائی، وہ پیرانہ سالی میں ''بلو کپوت'' یعنی نانی کپوت کے نام سے پندرہ روزہ جریدہ ''زمانہ'' بلوچی میں مسلسل مزاحیہ کالم لکھتی رہیں،اس جریدے کے مدیر اعلیٰ سابق سینیٹر سید فصیح اقبال تھے۔اماںنے اپنی ذات میں شاعری کا الم نامہ یکجا کیا مگر جن لوگوں سے ان کا سابقہ تھا وہ لاچار انسان تھے ، اماں ان کے دکھ سکھ کی سانجھی تھیں۔ اماں ان سے اور وہ اماں سے دکھ سکھ شیئر کرتے ہوئے حس مزاح کے لطیف لمحے بھی شیئر کرتے، مزاحیہ کالم بلو کپوت ان ہی مسکراہٹوں کا شہ پارہ ہے۔

بانل دشتیاری کینسرکے مرض میں 12 نومبر1992 بروز جمعرات دار فانی سے کوچ کرگئیں۔ موت سے کچھ ماہ پہلے انھوں نے کیسٹ میں بلوچی زہیروک ریکارڈ کیا۔ زہیروک نوحہ گری کی درد ناک صنف ہے، اماں کی آواز میں بلا کا سوز تھا۔ محلے کی عورتوں کا کہنا کہ تھا کیسٹ سن کر عورتیں اور مرد حضرات اشک بار ہوجاتے۔ میں جب لندن سے روزنامہ آواز انٹرنیشنل کی ڈمیاں چھوڑکرگھر واپس آیا تو اماں نزاع کے عالم میں تھیں ۔ دو دن بعد وہ ابدی نیند سوگئیں اور میری آج تک نیند اجڑی ہوئی ہے۔

صابر ظفر کا شعر ہے

ہم نے بانل تری عقیدت میں

سارے خطے کو دشتیارکیا
Load Next Story