سندھ کے 76 کالجز میں ریوائز بجٹ کے نام پر میگا اسکینڈل کا انکشاف

صرف 2017-18میں 15کروڑکی رقم ریوائزبجٹ کے نام پر ٹھکانے لگادی گئی، کراچی کے41سرکاری کالج شامل ہیں

کچھ سرکاری کالج تو ایسے ہیں جہاں اصل فرنیچراورمشینری کی قیمت سے زیادہ مینٹیننس کے نام پر خرچ کردیے گئے۔ فوٹو : فائل

سندھ کے سرکاری کالجوں میں 'ریوائز بجٹ' (نظرثانی ترمیم شدہ بجٹ)کے نام پر میگااسکینڈل کا انکشاف ہواہے.

متعلقہ اتھارٹیزکی منظوری کے بغیر یہ ریوائزبجٹ گزشتہ 3 مالی سال میں لیے گئے جس میں سب سے زیادہ رقم2017-18کے مالی سال میں حاصل کی گئی ہے اوراب تک محکمہ کالج ایجوکیشن کے علم میں کراچی سمیت سندھ کے مختلف ریجنزکے 76ایسے سرکاری کالج سامنے آچکے ہیں جہاں صرف مالی سال2017-18میں 15کروڑروپے کی رقم ریوائزبجٹ کے نام پر ٹھکانے لگادی گئی ہے جبکہ مذکورہ مالی سال کا اصل مختص شدہ بجٹ اس کے علاوہ ہے جس کے استعمال کے بعد ریوائزبجٹ محکمہ خزانہ سے حاصل کیاگیا 76میں سے بیشترایسے سرکاری کالج بھی شامل ہیں۔

جہاں طلبا کی انرولمنٹ محض درجنوں میں ہے ان کالجوں میں کراچی کے41سرکاری کالج شامل ہیں سندھ کے ان76سرکاری کالجوں نے مشینری،کمپیوٹرزاورفرنیچرکی مرمت اوربحالی کے نام پریہ ریوائز بجٹ ٹھکانے لگایاہے اورکچھ سرکاری کالج تو ایسے ہیں جہاں اصل فرنیچراورمشینری کی قیمت سے زیادہ مینٹینس کے نام پر خرچ کردیے گئے جبکہ درجنوں سرکاری کالجوں نے ایک سے دوسرے مالی سال میں سالانہ بجٹ میں کسی منطقی جواز اورانرولمنٹ میں کسی اضافے کے بغیرلاکھوں روپے اضافہ بھی کرایا۔

بیشترسرکاری کالج ایسے ہیں جنھوں نے ریوائز بجٹ کے نام پر ایک ہی مالی سال میں اصل بجٹ کے علاوہ20لاکھ سے55لاکھ روپے تک سرکاری خزانے سے حاصل کیے اوراپنے سالانہ بجٹ کوایک کروڑروپے سے اوپرلے گئے۔

کراچی کے سرکاری کالجوں میں گورنمنٹ کالج پنجابی کلب،گلشن معمار ڈگری کالج، گورنمنٹ انٹرسائنس کالج ملیرکینٹ، گورنمنٹ ڈگری کالج گلشن اقبال ، گورنمنٹ کالج کامرس اینڈاکنامکس (ایوننگ) اور پی ای سی ایچ ایس گرلز کالج کے علاوہ دیگرکالج اس فہرست میں شامل ہیں جبکہ سندھ کے دیگراضلاع کے کالجوں میں شہید بے نظیرآبادہی کے گورنمنٹ ایس ایس کالج، گورنمنٹ کالج دولت پور اور گورنمنٹ گرلز کالج بے نظیرآبادکے علاوہ گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج گوڑاباری بھی ان76کالجوں کاحصہ ہیں۔

کالجوں کی صورتحال کودیکھتے ہوئے خودان کالجوں کوکنٹرول کرنے والی اتھارٹی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کالجز سندھ بھی پیچھے نہیں رہااوراس کے دفترمیں ریوائزبجٹ کے نام پررواں سال 34لاکھ روپے لے کرمحض چندماہ میں خرچ کردیے گئے۔

حکومت سندھ کی غفلت ولاپرواہی کے سبب ریوائز بجٹ کے نام پر کروڑوں روپے لے کرٹھکانے لگانے کاکام ایک ایسے وقت میں ہواہے جب سندھ میں ڈائریکٹرجنرل کالجزسندھ کی انتہائی کلیدی اسامی ایک سال تک خالی رہی جبکہ اسی اثنا میں اس ادارے میں کوئی ڈائریکٹرفنانس تک موجودنہیں تھااورڈائریکٹوریٹ جنرل کالجز سندھ کے دفترکی ڈی ڈی اوشپ کاچارج گریڈ18کے ایک افسرعلی عباس ٹیپوکے پاس رہا۔

سیکریٹری محکمہ کالج ایجوکیشن کے علم میں اندرون سندھ کے کالجوں کے ریوائز بجٹ کے نام پر رقوم کی براہ راست وصولی کا معاملہ آیاتوسیکریٹری کالج ایجوکیشن پرویزسیہڑکی جانب سے ریجنل ڈائریکٹرکالجز سکھر پروفیسر کرن سنگھ کی سربراہی میں6مارچ 2019کوکمیٹی بنائی گئی۔


بتایاجارہاہے کہ اس کمیٹی کی تحقیقات ابھی جاری ہے۔ کمیٹی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ سرکاری کالجوںنے ریوائز بجٹ میں قانونی تقاضے پورے ہی نہیں کیے اورریوائز بجٹ کے حصول میں متعلقہ ریجنل ڈائریکٹرز، ڈائریکٹرکالجز سندھ اورسیکریٹری کالج ایجوکیشن کی منظوری شامل نہیں ہے یہ فنڈزکالجوں نے براہ راست محکمہ خزانہ سندھ سے حاصل کرلیے۔ اس سلسلے میں'ایکسپریس'کی جانب سے محکمہ کالج ایجوکیشن سے ملنے والی دستاویزات انتہائی دلچسپ اورچونکادینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ کراچی کے گورنمنٹ گرلزڈگری کالج پنجابی کلب کھارادرکی انرولمنٹ محض48 ہے اس کالج میں مالی سال 2017/18 میں ابتدا میں سالانہ بجٹ میں 54لاکھ 72ہزارروپے لیے گئے۔

جس کے بعد ریوائز بجٹ کے نام پر 38لاکھ روپے مزیدلیے گئے اورمجموعی طورپرکالج انتظامیہ محکمہ خزانہ سے 92لاکھ روپے لینے میں کامیاب رہی تاہم محض 38طلبا کے کالج میں رقم کہاں خرچ کردی گئی اس کاکوئی حساب نہیں ہے۔گورنمنٹ انٹرسائنس کالج ملیرکینٹ کراچی کی انتظامیہ نے 2017-18 میںپہلے 57لاکھ 66ہزارروپے کی رقم سالانہ بجٹ میں حاصل کی پھرریوائز بجٹ کے نام پر2017-18میںہی مزید34لاکھ روپے سے زائد حاصل کیے اورمجموعی طورپر90لاکھ روپے سے زائد کا بجٹ حاصل کیا، کالج کی انرولمنٹ 1718ہے۔

نواب شاہ کے گورنمنٹ ایس ایس کالج کی انتظامیہ نے مالی سال 2017-18میں پہلے 68لاکھ 98ہزارروپے کابجٹ لیاگیاجس کے بعد 55لاکھ روپے کے قریب مزیدرقم ریوائز بجٹ کے نام پر لی گئی اورایک ہی مالی سال میں اس کالج نے 1کروڑ24لاکھ 12ہزارروپے محکمہ خزانہ سے لیے جبکہ رواں مالی سال2018-19میں اسی کالج نے81لاکھ سے زائد کابجٹ حاصل کیاہے اس کالج میں محض 333طلبا زیرتعلیم ہیں۔ نواب شاہہی کے2مزیدسرکاری کالج گورنمنٹ کالج دولت پوراورگورنمنٹ گرلز کالج بینظیرآبادنے بھی 25لاکھ اور15لاکھ روپے ریوائزبجٹ کے نام پرحاصل کیے ان دونوں کالجوں کی انرولمنٹ بالترتیب 925اور 1484 ہے اسی طرح کراچی کے ایک معروف سرکاری کالج پی ای سی ایچ ایس گورنمنٹ کالج برائے خواتین کے گزشتہ 3 مالی سال کے اعدادوشمارانتہائی دلچسپ اورحیرت انگیز ہیں، کالج انتظامیہ نے مالی سال 2015-16میں 31لاکھ 51 ہزار روپے حاصل کیے پھراسی سال ریوائزبجٹ کے نام پر مزید 50لاکھ روپے سے زائد رقم حاصل کی۔

گلشن معمارکے گورنمنٹ گرلز کالج جے ایم بروہی گوٹھ کی انتظامیہ نے 24لاکھ روپے ریوائز بجٹ کے نام پر لیے ابتدا میں کالج نے85لاکھ25ہزارروپے کاسالانہ بجٹ حاصل کیاتاہم اسی مالی سال میں اپنے بجٹ کوایککروڑ10لاکھ روپے تک لیاگیااس کالج میں517طلبا انرولڈ ہیں۔ سرکاری اعدادوشمارکے مطابق ٹھٹھہ ڈسٹرکٹ میں قائم صرف292طلبہ کوتعلیم دینے والے گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج گوڑاباری نے پہلے 98لاکھ 54ہزارروپے کابجٹ حاصل کیااورازاں بعد10لاکھ روپے ریوائز بجٹ کے نام پر بھی حاصل کرلیے تاہم ایک ہی سال میں اس کالج میں ایککروڑروپے سے زائد کی یہ رقم کہاں خرچ ہوئی اس کاکوئی حساب موجودنہیں۔ واضح رہے کہ جب صوبائی محکمہ کالجز سندھ کوریوائز فنڈکے نام پرکی گئی اس کرپشن کاعلم ہواتوایک ماہ قبل ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ کی اسامی سے رٹائرہونے والے افسرپروفیسر سلیم غوری نے یہ معاملات سامنے آنے پر 16نومبر2018کو ایک"فنانشیل انسپکشن " کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے اس کانوٹیفکیشن جاری کیا۔

کمیٹی کاچیئرمین ڈائریکٹرفنانس ڈائریکٹوریٹ آف کالجز سندھ پروفیسرصالح عباس رضوی کومقررکیاگیاجبکہ دیگر2اراکین میں پروفیسرمرادعلی راہیمواورپروفیسرارشدحسین صدیقی کوشامل کیاگیا۔ نوٹیفکیشن میں کہاگیاتھاکہ یہ کمیٹی "Cost centers"(کالجوں) کے مالی سال 2016 سے 2019 تک کے "Allocated budget"اور "Revised estimates"کی چھان بین کرکے ایسے کاسٹ سینٹرزکی نشاندہی کرے گی جہاں غیرمعمولی حد تک بجٹ لیے گئے ہیں کمیٹی اس بات کاتعین بھی کرے گی کہ آیایہ بجٹ سیکریٹری آفس کے ذریعے مناسب طریقہ کاراپناتے ہوئے لیے گئے ہیں یابراہ راست حاصل کیے گئے ہیں۔

کمیٹی نے اپنے کام کے آغاز پر سبکدوش ہونے والے ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ سلیم غوری کو21جنوری 2019کوایک خط لکھ کراس بات کاانکشاف کیاکہ ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹرعلی عباس ٹیپوجن کے پاس "ڈی ڈی اوشپ"کاچارج موجودہے وہ اپنی مدت میں ڈی ڈی اوشپ کامتعلقہ ریکارڈ اوربجٹ کے استعمال کی تفصیلات اورریکارڈ اس کمیٹی کوفراہم کریں تاہم متعلقہ ڈی ڈی اوکی جانب سے ریکارڈدیاگیااورنہ ہی کمیٹی کے ساتھ انھوں نے کوئیتعاون کیا۔ کمیٹی نے خط میں مزید انکشاف کیاہے کہ جب علی عباس ٹیپوسے کہاگیاکہ وہ بجٹ سے ہونے والے اخراجات کے تمام بلز اے جی سندھ کو بھجوانے سے قبل کمیٹی سے اس کی منظوری لیں گے تاہم اس ہدایت کے باوجودعلی عباس ٹیپو کی جانب سے کمیٹی کی تمام ہدایات کویکسرنظراندازکردیاگیا۔

"ایکسپریس"نے محکمہ کالج ایجوکیشن کے سربراہ سیکریٹری کالج ایجوکیشن پرویزسیہڑسے رابطہ کیاتوانھوں نے انکشاف کیاکہ ہم واضح طورپرمحکمہ خزانہ کولکھ کردے چکے ہیںکہ اب ہمیں ریوائز بجٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ تحقیقاتیکمیٹی کے رکن قائم مقام ریجنل ڈائریکٹرکالجزکراچی ماجدعلی کاکہناتھاکہ انھوں نے ٹیم کے ہمراہ نواب شاہ کے گورنمنٹ ڈگری کالج ، سچل کالج ،گورنمنٹ کالج سکرنڈاورگورنمنٹ کالج دولت پورکادورہ کیاان کالجوں نے متعلقہ معلومات لی گئی ہیں تاہم انکوائری بڑی ہے اس میں 2ماہ مزیدلگ سکتے ہیں۔ ریوائز بجٹ کے حصول کے موقع پر کراچی میں تعینات سابق ریجنل ڈائریکٹرکالجز کراچی پروفیسرمعشوق بلوچ سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیاگیاتواپنی بات چیت کی ابتدا میں انھوں نے ریوائزبجٹ کے حصول کادفاع کرتے ہوئے کہاکہ یہ عام بات ہے تنخواہیں بڑھ جاتی ہیں جس کے سبب کالجوں کوریوائز بجٹ لیناپڑتاہے۔

تاہم جب "ایکسپریس"نے ان سے استفسارکیاکہ مختصرانرولمنٹ اورمختصرفیکلٹی کے حامل کالجوں نے30/30لاکھ سے زائدکا ریوائز بجٹ کیسے لیا اورسیکریٹری کالج اورمحکمہ اس پر انکوائری کیوں کررہاہے خود ان کے دفترنے 23لاکھ روپے کاریوائزبجٹ لیاہے جس پر وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے ان کاکہناتھاکہ کمیٹی کوکام کرناچاہیے اس کی رپورٹ آنے دیں پھرمعلوم ہوگامعاملہ کیاہے۔
Load Next Story