ایک سیلفی پلیز
مشہور شخصیات کے ساتھ تصاویر بنوانے کا جنون کبھی ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا، چاہے کتنی ہی بے عزتی کیوں نہ ہوجائے
لاہور:
''ارے ارے سر پلیز رکیے ناں! آخر ایک تصویر ہی ہوجائے، قسمت ہی ہے کہ آپ سے ملاقات ہو گئی ورنہ آپ کے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا۔ مجھے معلوم ہے سر آپ بہت مصروف رہتے ہیں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ سر، بہت مہربانی ۔''
یہ اور اسی طرح کے جملے کہتے ہوئے اکثر خواتین و حضرات درخواست سے منتوں پر اتر آتے ہیں۔ جیسا کہتے ہیں کہ ''ریں ریں'' کرنا۔ بس بالکل ریں ریں ہورہی ہوتی ہے۔ بات ایک ایسی سیلفی کی ہورہی ہے جس میں کوئی شخص مشہور ترین شخصیت کے گرد گھومتے ہوئے ان کے ساتھ تصویر بنوانے کی بالکل اسی طرح فرمائش کرتا ہے جس طرح شدید گرمیوں میں آئس کریم کے لیے بچے مائوں کے سامنے التجا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
خیر ماں تو ماں ہوتی ہے کہ وہ بچے کا بھرم رکھ لیتی ہے لیکن یہ مشہور شخصیات کے ساتھ تصاویر بنوانے کا جنون کبھی ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا، چاہے کتنی ہی بے عزتی کیوں نہ ہوجائے۔ مان لیا کہ نیا زمانہ آگیا اور اس دور کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں۔ اب تعلقات کی نوعیت صرف ہاتھوں کی انگلیوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ لوگ اب منہ نہیں کھولتے، کسی سے مل کر سلام دعا نہیں کرتے بلکہ ایک میسیج لکھ کر بلکہ لکھ کر تو کیا، فارورڈ میسیج کو پھر سے سینڈ کرکے رشتے داری نبھا لیتے ہیں۔ بلکہ کئی لوگ تو میں نے ایسے دیکھے کہ دور دور سے آپ کے بہت گن گائیں گے لیکن جب آپ سے بالمشافہ ملنے کا امکان ہو تو وہ اپنے کمرے میں ہی بند ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ اب چاہے اس پردہ نشینی کا مطلب تھکاوٹ ہو، بیزاری یا کچھ اور۔ ایسا باقاعدہ ہوتا ہے اور اس پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ جبکہ یہی افراد جب باہر جاتے ہیں تو خاص قسم کی بناوٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیلفیز کی درخواست کرتے ہیں اور اس قدر ڈھٹائی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں کہ اچھا بھلا تہذیب یافتہ بندہ اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔
بہت سے افراد اس قسم کے موسمی مداحوں سے عاجز دکھائی دیتے ہیں۔ یقین نہ ہو تو بولی ووڈ میں اداکاروں کا حال دیکھ لیجیے یا کسی موسیقی کے کنسرٹ اور کسی اچھے سیمینار پر ملاحظہ کیجیے کہ کس طرح ان نامور افراد کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے۔
اب یہاں دو قسم کی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک تو کچھ ایسے افراد ہوتے ہیں جنہیں واقعی نمایاں ہونے کا شوق ہوتا ہے۔ انھیں تو یقین ہی نہیں آتا کہ 'اف ہم تو بڑے ہی مشہور ہیں کہ لوگ ہم پر مر رہے ہیں، اس طرح کہ ایک ایک تصویر کے لیے ترلے کررہے ہیں'۔ اور دوسری طرف وہ حقیقی مشہور افراد ہوتے ہیں جنہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان افراد کا روز کا کام ہے، لہٰذا وہ اس طرح کی حرکتوں سے ذرا بھی متاثر بھی نہیں ہوتے اور کئی دفعہ ڈانٹ بھی دیتے ہیں۔
افسوس تو یہ بھی ہے کہ لوگ نہ صرف ان سیلفیز کے ذریعے نام نہاد شہرت کے پیچھے بھاگنے لگے ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان مشہور افراد کی زندگیاں بھی اجیرن کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں بچوں کے ایک رسالے کے ساتھ آٹو گراف بک مفت ملا کرتی تھی اور وہ سال میں ایک خاص شمارہ ہوا کرتا تھا۔ تمام بچوں کو اس کا بے حد انتظار رہتا تھا کہ آٹو گراف بک آئے گی تو اس رنگ برنگی کتاب میں اپنے استادوں اور بڑوں سے کوئی حکمت کی بات سیکھیں گے۔ ان سے کوئی جملہ لکھنے کی درخواست کریں گے۔
اور ایسا ہی ہوتا تھا، کیونکہ وہ الفاظ دلوں پر نقش ہوجاتے تھے۔ ہر بچہ وہ جملے نہ صرف سنبھال کر رکھتا تھا بلکہ کسی حد تک ان پر عمل کرنے کےلیے کوشاں بھی رہتا تھا۔ بات درست ہے کہ تصویر کا اثر الفاظ سے بھی زیادہ ہوتا ہے، لیکن افسوس ایسی سیلفیز نما تصویروں کا اثر مثبت کے بجائے منفی ہی پڑتا ہے۔
اب اس معاشرے کو کیا کہیں؟ جہاں کتاب کی اہمیت نہیں تو وہاں آٹو گراف کی اہمیت کیا ہوگی؟ سوال صرف اتنا ہے کہ جب ہمارا یہ ماننا ہے کہ ہم سب کی ایک انفرادیت ہے، ایک الگ پہچان ہے، خواہ وہ اپنے شعبے کے حوالے سے ہو یا ذاتی وجوہات کی بنا پر۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہم نام نہاد شہرت کےلیے اپنی انا کو بھی دائو پر لگائیں۔ کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہمیں اپنی شناخت، اپنی پہچان بنانے کےلیے بھی ان نامور شخصیات کا سہارا لینا ضروری ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''ارے ارے سر پلیز رکیے ناں! آخر ایک تصویر ہی ہوجائے، قسمت ہی ہے کہ آپ سے ملاقات ہو گئی ورنہ آپ کے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا۔ مجھے معلوم ہے سر آپ بہت مصروف رہتے ہیں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ سر، بہت مہربانی ۔''
یہ اور اسی طرح کے جملے کہتے ہوئے اکثر خواتین و حضرات درخواست سے منتوں پر اتر آتے ہیں۔ جیسا کہتے ہیں کہ ''ریں ریں'' کرنا۔ بس بالکل ریں ریں ہورہی ہوتی ہے۔ بات ایک ایسی سیلفی کی ہورہی ہے جس میں کوئی شخص مشہور ترین شخصیت کے گرد گھومتے ہوئے ان کے ساتھ تصویر بنوانے کی بالکل اسی طرح فرمائش کرتا ہے جس طرح شدید گرمیوں میں آئس کریم کے لیے بچے مائوں کے سامنے التجا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
خیر ماں تو ماں ہوتی ہے کہ وہ بچے کا بھرم رکھ لیتی ہے لیکن یہ مشہور شخصیات کے ساتھ تصاویر بنوانے کا جنون کبھی ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا، چاہے کتنی ہی بے عزتی کیوں نہ ہوجائے۔ مان لیا کہ نیا زمانہ آگیا اور اس دور کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں۔ اب تعلقات کی نوعیت صرف ہاتھوں کی انگلیوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ لوگ اب منہ نہیں کھولتے، کسی سے مل کر سلام دعا نہیں کرتے بلکہ ایک میسیج لکھ کر بلکہ لکھ کر تو کیا، فارورڈ میسیج کو پھر سے سینڈ کرکے رشتے داری نبھا لیتے ہیں۔ بلکہ کئی لوگ تو میں نے ایسے دیکھے کہ دور دور سے آپ کے بہت گن گائیں گے لیکن جب آپ سے بالمشافہ ملنے کا امکان ہو تو وہ اپنے کمرے میں ہی بند ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ اب چاہے اس پردہ نشینی کا مطلب تھکاوٹ ہو، بیزاری یا کچھ اور۔ ایسا باقاعدہ ہوتا ہے اور اس پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ جبکہ یہی افراد جب باہر جاتے ہیں تو خاص قسم کی بناوٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیلفیز کی درخواست کرتے ہیں اور اس قدر ڈھٹائی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں کہ اچھا بھلا تہذیب یافتہ بندہ اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔
بہت سے افراد اس قسم کے موسمی مداحوں سے عاجز دکھائی دیتے ہیں۔ یقین نہ ہو تو بولی ووڈ میں اداکاروں کا حال دیکھ لیجیے یا کسی موسیقی کے کنسرٹ اور کسی اچھے سیمینار پر ملاحظہ کیجیے کہ کس طرح ان نامور افراد کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے۔
اب یہاں دو قسم کی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک تو کچھ ایسے افراد ہوتے ہیں جنہیں واقعی نمایاں ہونے کا شوق ہوتا ہے۔ انھیں تو یقین ہی نہیں آتا کہ 'اف ہم تو بڑے ہی مشہور ہیں کہ لوگ ہم پر مر رہے ہیں، اس طرح کہ ایک ایک تصویر کے لیے ترلے کررہے ہیں'۔ اور دوسری طرف وہ حقیقی مشہور افراد ہوتے ہیں جنہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان افراد کا روز کا کام ہے، لہٰذا وہ اس طرح کی حرکتوں سے ذرا بھی متاثر بھی نہیں ہوتے اور کئی دفعہ ڈانٹ بھی دیتے ہیں۔
افسوس تو یہ بھی ہے کہ لوگ نہ صرف ان سیلفیز کے ذریعے نام نہاد شہرت کے پیچھے بھاگنے لگے ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان مشہور افراد کی زندگیاں بھی اجیرن کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں بچوں کے ایک رسالے کے ساتھ آٹو گراف بک مفت ملا کرتی تھی اور وہ سال میں ایک خاص شمارہ ہوا کرتا تھا۔ تمام بچوں کو اس کا بے حد انتظار رہتا تھا کہ آٹو گراف بک آئے گی تو اس رنگ برنگی کتاب میں اپنے استادوں اور بڑوں سے کوئی حکمت کی بات سیکھیں گے۔ ان سے کوئی جملہ لکھنے کی درخواست کریں گے۔
اور ایسا ہی ہوتا تھا، کیونکہ وہ الفاظ دلوں پر نقش ہوجاتے تھے۔ ہر بچہ وہ جملے نہ صرف سنبھال کر رکھتا تھا بلکہ کسی حد تک ان پر عمل کرنے کےلیے کوشاں بھی رہتا تھا۔ بات درست ہے کہ تصویر کا اثر الفاظ سے بھی زیادہ ہوتا ہے، لیکن افسوس ایسی سیلفیز نما تصویروں کا اثر مثبت کے بجائے منفی ہی پڑتا ہے۔
اب اس معاشرے کو کیا کہیں؟ جہاں کتاب کی اہمیت نہیں تو وہاں آٹو گراف کی اہمیت کیا ہوگی؟ سوال صرف اتنا ہے کہ جب ہمارا یہ ماننا ہے کہ ہم سب کی ایک انفرادیت ہے، ایک الگ پہچان ہے، خواہ وہ اپنے شعبے کے حوالے سے ہو یا ذاتی وجوہات کی بنا پر۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہم نام نہاد شہرت کےلیے اپنی انا کو بھی دائو پر لگائیں۔ کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہمیں اپنی شناخت، اپنی پہچان بنانے کےلیے بھی ان نامور شخصیات کا سہارا لینا ضروری ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔