شامی حکومت پر زہریلی گیس کے استعمال کا الزام
سوال یہ ہے کہ کیا اب اسی بہانے شام پر بھی امریکی جارحیت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے.
شام میں اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت نے مخالفین پر زہریلی گیس کا استعمال شروع کر دیا اور سرکاری فوج کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ اپوزیشن نے اس حوالے سے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے جب کہ برطانیہ نے بھی اقوام متحدہ کے پاس جانے کا اعلان کیا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے شام میں کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال پر سخت صدمے اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری ایکشن کا عندیہ دیا ہے۔ شام میں مخالفین اور حکومت دونوں ایک دوسرے پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگاتے رہے ہیں تاہم اس مرتبہ کیمیاوی حملے میں ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکا نے عراق کے صدر صدام حسین پر بھی کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگا کر عراق پر حملے کی راہ ہموار کی تھی۔
اور بعد میں صدام کے کزن علی کو جسے کہ کیمیکل علی کی عرفیت دیدی گئی تھی، سرائے موت دیدی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب اسی بہانے شام پر بھی امریکی جارحیت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا شاید قبل از وقت ہو۔ مغربی میڈیا نے اپوزیشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے میں باغیوں پر سرکاری فوج نے کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کر دیا جس سے 1300 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ ایک عرب ٹی وی نے بھی اس سے ملتی جلتی خبر دی ہے جس کے مطابق بدھ کے صبح دمشق کے نواحی علاقہ الغوطہ پر شام کی فضائیہ نے زہریلی گیس سے عوام پر حملہ کر دیا۔ ہزار سے زائد ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ عرب ٹی وی نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں خواتین، بچوں اور نوجوانوں کو تڑپتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق دمشق کے نواحی علاقے عین ترما، زمالکا، اور جوبر میں زہریلی گیس پھینکی گئی۔ شام میں دو سال سے جاری خانہ جنگی میں زہریلی گیس کا یہ بدترین حملہ ہے، جس نے سیکڑوں افراد کو سسک سسک کر مرنے پر مجبور کر دیا۔ دمشق کے مضافات میں فوج نے باغیوں پر میزائل حملے کیے جس میں مہلک سیرین گیس استعمال کی گئی۔ عرب لیگ نے حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ معائنہ کاروں کو متاثرہ مقامات پر جانے دیا جائے۔ برطانوی وزیرِخارجہ ولیم ہیگ نے شامی حکومت سے اپیل کی ہے کہ فوری طور پر معائنہ کاروں کو اس علاقے تک رسائی دی جائے تا کہ معاملے کی تحقیقات کی جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ اس مسئلے کو اقوامِ متحدہ میں اٹھائے گا۔ شام کی حکومت نے حملے میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ایسی بے بنیاد خبروں سے اقوام متحدہ کے مشن کی انکوائری میں خلل ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا ہے، جب اقوام متحدہ کی معائنہ کار ٹیم شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے تحقیقات کرنے وہاں پہنچی ہوئی ہے۔ روس نے بھی شام کی طرف سے تردید کی حمایت کی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ شامی حکومت اور باغی دونوں اس تنازعے کے دوران ایک دوسرے پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ ابھی تک ان الزامات کی آزادانہ طور پر تصدیق ممکن نہیں ہو سکی۔ شام کے بارے میں عام خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس بڑی مقدار میں کیمیائی ہتھیار ہیں۔ ادھر فرانسیسی خبررساں ادارے نے بتایا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی نیا واقعہ پیش نہیں آیا۔ یہاں پر روزانہ کی بنیادی پر لڑائی ہو رہی ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ شام نے کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال کر کے ریڈ لائن عبور کی ہے جس کا نتیجہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ بہر حال شام کا بحران مزید گہرا ہوچکا ہے اور یہاں بھی لیبیا اور عراق کی تاریخ دہرائے جانے کا خدشہ ہے۔
اور بعد میں صدام کے کزن علی کو جسے کہ کیمیکل علی کی عرفیت دیدی گئی تھی، سرائے موت دیدی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب اسی بہانے شام پر بھی امریکی جارحیت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا شاید قبل از وقت ہو۔ مغربی میڈیا نے اپوزیشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے میں باغیوں پر سرکاری فوج نے کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کر دیا جس سے 1300 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ ایک عرب ٹی وی نے بھی اس سے ملتی جلتی خبر دی ہے جس کے مطابق بدھ کے صبح دمشق کے نواحی علاقہ الغوطہ پر شام کی فضائیہ نے زہریلی گیس سے عوام پر حملہ کر دیا۔ ہزار سے زائد ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ عرب ٹی وی نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں خواتین، بچوں اور نوجوانوں کو تڑپتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق دمشق کے نواحی علاقے عین ترما، زمالکا، اور جوبر میں زہریلی گیس پھینکی گئی۔ شام میں دو سال سے جاری خانہ جنگی میں زہریلی گیس کا یہ بدترین حملہ ہے، جس نے سیکڑوں افراد کو سسک سسک کر مرنے پر مجبور کر دیا۔ دمشق کے مضافات میں فوج نے باغیوں پر میزائل حملے کیے جس میں مہلک سیرین گیس استعمال کی گئی۔ عرب لیگ نے حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ معائنہ کاروں کو متاثرہ مقامات پر جانے دیا جائے۔ برطانوی وزیرِخارجہ ولیم ہیگ نے شامی حکومت سے اپیل کی ہے کہ فوری طور پر معائنہ کاروں کو اس علاقے تک رسائی دی جائے تا کہ معاملے کی تحقیقات کی جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ اس مسئلے کو اقوامِ متحدہ میں اٹھائے گا۔ شام کی حکومت نے حملے میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ایسی بے بنیاد خبروں سے اقوام متحدہ کے مشن کی انکوائری میں خلل ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا ہے، جب اقوام متحدہ کی معائنہ کار ٹیم شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے تحقیقات کرنے وہاں پہنچی ہوئی ہے۔ روس نے بھی شام کی طرف سے تردید کی حمایت کی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ شامی حکومت اور باغی دونوں اس تنازعے کے دوران ایک دوسرے پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ ابھی تک ان الزامات کی آزادانہ طور پر تصدیق ممکن نہیں ہو سکی۔ شام کے بارے میں عام خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس بڑی مقدار میں کیمیائی ہتھیار ہیں۔ ادھر فرانسیسی خبررساں ادارے نے بتایا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی نیا واقعہ پیش نہیں آیا۔ یہاں پر روزانہ کی بنیادی پر لڑائی ہو رہی ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ شام نے کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال کر کے ریڈ لائن عبور کی ہے جس کا نتیجہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ بہر حال شام کا بحران مزید گہرا ہوچکا ہے اور یہاں بھی لیبیا اور عراق کی تاریخ دہرائے جانے کا خدشہ ہے۔