ڈینگی کی واپسی
مگر بالکل غیر متوقع طور پر دشمن نے ہمیں غافل پا کر ہم پر حملہ کر دیا اور پھر شور مچ گیا
ٹارزن کی واپسی اور عذرا کی واپسی تو ہمارے لیے ضرب المثل کا مقام حاصل کرچکی ہیں۔ مگر ڈینگی کی واپسی۔ ارے اس واپسی کی ہمیں کب توقع تھی۔ پچھلے برس کے ڈینگی حملوں نے ہمیں بد حال تو بہت کیا۔ مگر پھر اس کے خلاف مہم بھی زور شور سے چلی۔ اور جب اس موسم کے آغاز میں ہمیں ڈینگی کی طرف سے چوکنا رہنے کے لیے کہا گیا تو تھوڑے دن ہم چوکنے رہے لیکن جب ڈینگی کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو ہمیں یقین ہو گیا کہ ڈینگی نام کی بلا کا کام تمام ہو چکا ہے۔
مگر بالکل غیر متوقع طور پر دشمن نے ہمیں غافل پا کر ہم پر حملہ کر دیا اور پھر شور مچ گیا کہ ہوشیار خبر دار ڈینگی واپس آ گیا ہے۔ کتنے اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ ہمیں آپ کو اپنی خیر منانی چاہیے اور چوکنا رہنا چاہیے۔ کیونکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ اب جو ڈینگی مچھر کی واپسی ہوئی ہے تو یہ زیادہ خطرناک ہے۔ ڈینگی مچھر نے پچھلے برس پسپا ہونے کے بعد نئے سرے سے تیاری کی اور اپنے ڈنگ میں ایسا زہر بھر لیا ہے کہ اس کا توڑ مشکل ہے۔
پچھلے برس تو ہمارے ڈاکٹروں نے ڈینگی کو اس حد تک پسپا کر دیا تھا کہ وہ ہمارے دوست زاہد ڈار کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ وہ دو ڈھائی دن اسپتال میں رہ کر شفایاب ہو کر گھر واپس آ گئے۔ مگر اب وہ پھر پریشان ہیں۔ لیکن خیر اس مرتبہ ڈینگی کی طرف سے انھیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس مرتبہ انھیں اپنے اس جانے پہچانے مچھر کی طرف سے خطرہ لاحق ہے جسے ہم ملیریا کا مچھر کہتے ہیں۔ انھوں نے آ کر ہمیں بتایا کہ ڈاکٹر کہتا ہے کہ اصل میں تمہیں ملیریا کا بخار ہے اور اس کے بعد انھوں نے ہمارے پاس جو اردو کی ایک دو لغات رکھی تھیں ان کی ورق گردانی شروع کر دی۔ ہم نے تعجب سے پوچھا کہ لغت میں کیا دیکھ رہے ہو۔ بولے کہ ملیریا سے تو ایک زمانے سے ہماری آشنائی چلی آ رہی ہے۔ وہ تو ہماری بول چال میں رچ بس چکا ہے۔ اسے تو اردو لغت میں اب جگہ مل جانی چاہیے۔
ہم نے کہا کہ عزیز لغت بند کرو۔ اور اس بحث کو چھوڑ کہ ملیریا اردو کا لفظ بن چکا ہے یا ہنوز انگریزی کے روپ ہی میں اپنی کاروائی کیے چلا جا رہا ہے۔ تم جائو اور اپنے ملیریا کا علاج کرو۔ ملیریا تو ملیریا ہی رہے گا، بیشک وہ اردو کا جامہ پہن لے۔
مچھر تو مچھر ہی ہوتا ہے چاہے وہ انگریزی نام ملیریا کے جلو میں آئے یا ڈینگی کی صورت میں آئے اور وہ بھی بہرحال مچھر ہی تھا جو نمرود کی ناک میں گھسا تھا۔
نمرود جو خدا ہونے کا دعویدار تھا ایک مچھر سے مار کھا گیا۔ اے خدائی دعویدار نمرود، کیوں، خدائی ہو چکی بے بس۔ ایک مچھر نے تمہاری خدائی کا جنازہ نکال دیا۔
ویسے مچھر کی ایک صفت ایسی ہے جو آدمیوں میں بھی کم کم پائی جاتی ہے۔ اس کی اس صفت کی طرف استاد ذوق نے اشارہ کیا ہے؎
پشہ سے سیکھے شیوۂ مردانگی کوئی
جب حملہ کرنے آئے تو پہلے پکار دے
اس پر ہمیں صفدر میر کی ایک نظم یاد آ گئی۔
65ء کی جنگ کے موقعے پر وہ بہت جوش میں تھے۔ ایک نظم لکھی جس میں انھوں نے یہ مضمون بھی باندھا کہ بزدل دشمن نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا ہے۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ جنگ میں ایسی بزدلی جائز سمجھی جاتی ہے۔ شب خون جنگ جویوں ہی کی بزدلی کا کرشمہ ہے۔ مگر جب کوئی مرد جری ساری مصلحتوں کو طاق میں رکھ کر موت سے جا بھڑتا ہے تو ہم اسے احمق ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ زمرد خاں کو اس وقت اس سے بڑھ کر الزام دیا جا رہا ہے۔ اس کے دماغ میں جانے کیا سمائی یا شاید اس نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ لیا تھا کہ؎
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
وہ کتنے گھنٹوں ٹی وی پر یہ ڈرامہ دیکھتا رہا کہ ایک شخص ہتھیار بند ہو کر دندنا رہا ہے اور عقل کے پتلے مذاکرات کی تکنیک استعمال میں لا کر اسے رام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ ہے کہ اکڑا ہوا ہے۔ اس کی غیرت قومی نے جوش کھایا اور وہ موقعہ واردات پر پہنچ کر اس اکڑ باز پر جھپٹ پڑا۔ لیجیے منٹوں میں وہ سارا ڈرامہ ختم پیسہ ہضم۔ عاقل اور مردانِ دور اندیش منہ دیکھتے رہ گئے؎
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی
زمرد خاں بے خطر موت سے جا ٹکرایا اور فرزانوں کے طعنوں کی زد میں آ گیا۔
ویسے ہم اس معاملہ میں عاقلوں فرزانوں کے ہمنوا ہیں۔ سو کیا مضائقہ ہے کہ ڈینگی کے معاملہ میں بھی ایسی ہی ہوش مندی کا مظاہرہ کیا جائے۔ ڈینگی کی ذات چھوٹی سہی۔ صحیح کہ وہ کیا شے ہے۔ مچھر ہی تو ہے مگر مچھر وہ بلا ہے کہ نمرود کی خدائی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
پھر کیا کیا جائے۔ ارے کیا کیا جا سکتا ہے۔ کسی طور پر تو وہ قابو میں نہیں آ رہا۔ اسے رام کرنے کا ایک طریقہ ایک یار نے سمجھایا کہ اس سے مذاکرات کیے جائیں۔ کہنے لگا کہ میری بات کا یقین نہ آئے تو جا کر عمران خان سے پوچھ لیں۔ جماعت اسلامی کے مرد عاقل منور حسن سے پوچھ لیں۔
باقی معاملہ کی بات یہ ہے کہ جیسا کہ ہم اپنے پچھلے کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ اب ہم خانہ انوریؔ میں رہتے ہیں اور شاعر انوریؔ نے اپنے اس گھر کا وصف ہمیں بتا ہی رکھا ہے کہ دنیا کی ہر بلا خواہ آسمان سے اترے یا زمین سے پھوٹے یہ پوچھتی آتی ہے کہ انوریؔ کا گھر کہاں ہے۔ پچھلے تھوڑے عرصے میں کیا کیا بلائیں ہم پر نازل ہوئیں۔ خودکش حملہ۔ ایک حملہ، دوسرا حملہ، تیسرا حملہ اور ابھی ہم اس سے سنبھل نہ پائے تھے کہ برسات برستے برستے آپے سے باہر ہو گئی۔ ہم شہروں میں محفوظ رہے ہوں۔ مگر شہروں سے نکل کر دیکھو۔ چھوٹی بستیوں کا کیا حال ہوا اور تازہ خبر یہ ہے کہ برسات ابھی اور گل کھلائے گی اور جو اگلی بارشیں ہوں گی وہ بہت تباہی لائیں گی۔ ابھی تو بھادوں کا مہینہ چل رہا ہے۔ برسات کے پاس جاری رہنے کا اخلاقی جواز موجود ہے۔ بجلی کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اس کے حل کے لیے ہمیں تین سال اور انتظار کرنا ہے۔
تا تریاق از عراق آوردہ شود،
مارگزیدہ مردہ شود۔
تو بقول غالبؔ؎
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
اب بیٹھے بٹھائے ڈینگی کی بلا جسے اپنے حساب سے ہم دفع کر چکے تھے پھر نازل ہو گئی۔
مگر بالکل غیر متوقع طور پر دشمن نے ہمیں غافل پا کر ہم پر حملہ کر دیا اور پھر شور مچ گیا کہ ہوشیار خبر دار ڈینگی واپس آ گیا ہے۔ کتنے اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ ہمیں آپ کو اپنی خیر منانی چاہیے اور چوکنا رہنا چاہیے۔ کیونکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ اب جو ڈینگی مچھر کی واپسی ہوئی ہے تو یہ زیادہ خطرناک ہے۔ ڈینگی مچھر نے پچھلے برس پسپا ہونے کے بعد نئے سرے سے تیاری کی اور اپنے ڈنگ میں ایسا زہر بھر لیا ہے کہ اس کا توڑ مشکل ہے۔
پچھلے برس تو ہمارے ڈاکٹروں نے ڈینگی کو اس حد تک پسپا کر دیا تھا کہ وہ ہمارے دوست زاہد ڈار کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ وہ دو ڈھائی دن اسپتال میں رہ کر شفایاب ہو کر گھر واپس آ گئے۔ مگر اب وہ پھر پریشان ہیں۔ لیکن خیر اس مرتبہ ڈینگی کی طرف سے انھیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس مرتبہ انھیں اپنے اس جانے پہچانے مچھر کی طرف سے خطرہ لاحق ہے جسے ہم ملیریا کا مچھر کہتے ہیں۔ انھوں نے آ کر ہمیں بتایا کہ ڈاکٹر کہتا ہے کہ اصل میں تمہیں ملیریا کا بخار ہے اور اس کے بعد انھوں نے ہمارے پاس جو اردو کی ایک دو لغات رکھی تھیں ان کی ورق گردانی شروع کر دی۔ ہم نے تعجب سے پوچھا کہ لغت میں کیا دیکھ رہے ہو۔ بولے کہ ملیریا سے تو ایک زمانے سے ہماری آشنائی چلی آ رہی ہے۔ وہ تو ہماری بول چال میں رچ بس چکا ہے۔ اسے تو اردو لغت میں اب جگہ مل جانی چاہیے۔
ہم نے کہا کہ عزیز لغت بند کرو۔ اور اس بحث کو چھوڑ کہ ملیریا اردو کا لفظ بن چکا ہے یا ہنوز انگریزی کے روپ ہی میں اپنی کاروائی کیے چلا جا رہا ہے۔ تم جائو اور اپنے ملیریا کا علاج کرو۔ ملیریا تو ملیریا ہی رہے گا، بیشک وہ اردو کا جامہ پہن لے۔
مچھر تو مچھر ہی ہوتا ہے چاہے وہ انگریزی نام ملیریا کے جلو میں آئے یا ڈینگی کی صورت میں آئے اور وہ بھی بہرحال مچھر ہی تھا جو نمرود کی ناک میں گھسا تھا۔
نمرود جو خدا ہونے کا دعویدار تھا ایک مچھر سے مار کھا گیا۔ اے خدائی دعویدار نمرود، کیوں، خدائی ہو چکی بے بس۔ ایک مچھر نے تمہاری خدائی کا جنازہ نکال دیا۔
ویسے مچھر کی ایک صفت ایسی ہے جو آدمیوں میں بھی کم کم پائی جاتی ہے۔ اس کی اس صفت کی طرف استاد ذوق نے اشارہ کیا ہے؎
پشہ سے سیکھے شیوۂ مردانگی کوئی
جب حملہ کرنے آئے تو پہلے پکار دے
اس پر ہمیں صفدر میر کی ایک نظم یاد آ گئی۔
65ء کی جنگ کے موقعے پر وہ بہت جوش میں تھے۔ ایک نظم لکھی جس میں انھوں نے یہ مضمون بھی باندھا کہ بزدل دشمن نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا ہے۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ جنگ میں ایسی بزدلی جائز سمجھی جاتی ہے۔ شب خون جنگ جویوں ہی کی بزدلی کا کرشمہ ہے۔ مگر جب کوئی مرد جری ساری مصلحتوں کو طاق میں رکھ کر موت سے جا بھڑتا ہے تو ہم اسے احمق ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ زمرد خاں کو اس وقت اس سے بڑھ کر الزام دیا جا رہا ہے۔ اس کے دماغ میں جانے کیا سمائی یا شاید اس نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ لیا تھا کہ؎
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
وہ کتنے گھنٹوں ٹی وی پر یہ ڈرامہ دیکھتا رہا کہ ایک شخص ہتھیار بند ہو کر دندنا رہا ہے اور عقل کے پتلے مذاکرات کی تکنیک استعمال میں لا کر اسے رام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ ہے کہ اکڑا ہوا ہے۔ اس کی غیرت قومی نے جوش کھایا اور وہ موقعہ واردات پر پہنچ کر اس اکڑ باز پر جھپٹ پڑا۔ لیجیے منٹوں میں وہ سارا ڈرامہ ختم پیسہ ہضم۔ عاقل اور مردانِ دور اندیش منہ دیکھتے رہ گئے؎
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی
زمرد خاں بے خطر موت سے جا ٹکرایا اور فرزانوں کے طعنوں کی زد میں آ گیا۔
ویسے ہم اس معاملہ میں عاقلوں فرزانوں کے ہمنوا ہیں۔ سو کیا مضائقہ ہے کہ ڈینگی کے معاملہ میں بھی ایسی ہی ہوش مندی کا مظاہرہ کیا جائے۔ ڈینگی کی ذات چھوٹی سہی۔ صحیح کہ وہ کیا شے ہے۔ مچھر ہی تو ہے مگر مچھر وہ بلا ہے کہ نمرود کی خدائی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
پھر کیا کیا جائے۔ ارے کیا کیا جا سکتا ہے۔ کسی طور پر تو وہ قابو میں نہیں آ رہا۔ اسے رام کرنے کا ایک طریقہ ایک یار نے سمجھایا کہ اس سے مذاکرات کیے جائیں۔ کہنے لگا کہ میری بات کا یقین نہ آئے تو جا کر عمران خان سے پوچھ لیں۔ جماعت اسلامی کے مرد عاقل منور حسن سے پوچھ لیں۔
باقی معاملہ کی بات یہ ہے کہ جیسا کہ ہم اپنے پچھلے کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ اب ہم خانہ انوریؔ میں رہتے ہیں اور شاعر انوریؔ نے اپنے اس گھر کا وصف ہمیں بتا ہی رکھا ہے کہ دنیا کی ہر بلا خواہ آسمان سے اترے یا زمین سے پھوٹے یہ پوچھتی آتی ہے کہ انوریؔ کا گھر کہاں ہے۔ پچھلے تھوڑے عرصے میں کیا کیا بلائیں ہم پر نازل ہوئیں۔ خودکش حملہ۔ ایک حملہ، دوسرا حملہ، تیسرا حملہ اور ابھی ہم اس سے سنبھل نہ پائے تھے کہ برسات برستے برستے آپے سے باہر ہو گئی۔ ہم شہروں میں محفوظ رہے ہوں۔ مگر شہروں سے نکل کر دیکھو۔ چھوٹی بستیوں کا کیا حال ہوا اور تازہ خبر یہ ہے کہ برسات ابھی اور گل کھلائے گی اور جو اگلی بارشیں ہوں گی وہ بہت تباہی لائیں گی۔ ابھی تو بھادوں کا مہینہ چل رہا ہے۔ برسات کے پاس جاری رہنے کا اخلاقی جواز موجود ہے۔ بجلی کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اس کے حل کے لیے ہمیں تین سال اور انتظار کرنا ہے۔
تا تریاق از عراق آوردہ شود،
مارگزیدہ مردہ شود۔
تو بقول غالبؔ؎
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
اب بیٹھے بٹھائے ڈینگی کی بلا جسے اپنے حساب سے ہم دفع کر چکے تھے پھر نازل ہو گئی۔