عادت بدلی جاسکتی ہے
بجلی کے بحران کے پیش نظر گزشتہ برسوں میں رات کو آٹھ بجے کاروباری مراکز کے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا
ISLAMABAD:
وہ عمل جو دہرایا جاتا ہے وہ عادت کا حصہ بن جاتا ہے۔ متعدد بار کوئی رویہ اپنالیا جائے تو وہ پختہ عادتیں بن جاتی ہیں۔ اگاتھاکرسٹی کے مطابق ''عادتیں عجیب ہوتی ہیں لوگ یہ تک نہیں جانتے کہ وہ ان میں مبتلا ہیں'' عادتیں غیر محسوس طریقے سے ہمارے مزاج کا حصہ بن جاتی ہیں۔ لیکن ناپسندیدہ عادات کا اگر وقت پر علم ہوجائے اور ہم ان کا پس منظر سمجھنے لگیں تو اپنے رویے پر قابو پایا جاسکتا ہے اور عادت بدلی جاسکتی ہے۔
ایک عادت خوامخواہ پریشان ہونے کی ہے۔ کوئی بھی پریشانی ذہن پر طاری ہوجائے تو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں محسوس نہیں ہوتیں اور مختلف عادات اپنالی جاتی ہیں جو اس پریشان کن صورت حال کو وقتی طور پر سنبھال لیتی ہیں۔ بہت سی عادتیں غیرارادی طور پر مزاج کا حصہ بنتی ہیں جیسے پلکیں جھپکنا، ناخن دانتوں سے کترنا، ہونٹ کاٹنا، زبان چباتے رہنا، بار بار بالوں کو سنوارنا علاوہ ازیں چائے یا کافی کا بے جا استعمال، سگریٹ نوشی، چھالیہ و پان چباتے رہنا بھی کسی بھی ناپسندیدہ صورت حال سے فرار کی کوشش ہوسکتے ہیں۔ بعض اوقات یہ غیر محسوس طور پر ذات کا حصہ بن جانے والی عادتیں دوسروں کے لیے پریشان کن صورت حال بن جاتی ہیں۔ یہ رویے اور عمل جو ایک انسان کے لیے سہولت اور اچھی وقت گزاری کا ذریعہ کہلاتے ہیں دوسروں کے لیے مشکلات کا سبب بن جاتے ہیں۔ جیسے وقت کا زیاں یا وقت کی قدر نہ کرنا ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔
کوئی زمانہ تھا کہ ہماری عادتیں وقت کی تابع ہوا کرتی تھیں۔ وقت کے دائرہ اختیار میں زندگی سمٹ کر چلتی ہے، مگر جیسے ہی الیکٹرانک میڈیا، کمپیوٹرز اور موبائل ہماری زندگیوں کا حصہ بنے ہیں، وقت کی تیز رفتاری کی شکایتیں سننے کو ملنے لگیں۔ وقت تو وہی ہے مگر قوم کے عادات و اطوار بدل گئے۔ انسان گھنٹوں مشینوں پر وقت صرف کرنے لگا۔ رات کو دیر تک ٹی وی اور کمپیوٹرز کا استعمال بڑھنے لگا۔ سونے اور جاگنے کے اوقات بدل گئے۔ آج کل صورت حال یہ ہے کہ رات کو جلدی سونا اور صبح سویرے اٹھنے والی عادت قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ اس عادت کے بدلنے سے مزاج بھی بدل گئے اور صحت بھی متاثر ہونے لگی۔ سونے اور جاگنے کے عمل کو ضابطے میں لانے کے لیے ایک نظام ہے جسے Circadian Rythem کہا جاتا ہے جو ہارمونز سے لے کر نیند کے عمل تک فعال کارکردگی دکھاتا ہے۔
روشنی میں ہی خاص ہارمونز جسم کو نیند کا سگنل دیتے ہیں۔ اس کے بعد نیند آجاتی ہے۔ اگر کمرے میں ہلکی روشنی ہوتی ہے تو نیند کی طرف ذہن مائل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی نیند کا فطری عمل متاثر ہوتا ہے ذہن کا مدافعتی نظام کمزور پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ ذہن کی کارکردگی غیر موثر ہوجاتی ہے۔ فیصلے کی قوت باقی نہیں رہتی۔ کولمبیا یونیورسٹی امریکا کی جدید تحقیق کے مطابق بے خوابی موٹاپے کا سبب بنتی ہے۔ جس کے مطابق دو اور چار گھنٹے کی نیند موٹاپے کا 73 فیصد امکان بڑھا دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ میں سال میں 350 اموات روڈ ایکسیڈنٹ میں واقع ہوتی ہیں جو بے خوابی کا شکار ڈرائیورز کی ڈرائیونگ کے دوران سو جانے کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں۔
ہمارے شہروں میں زیادہ تر راتیں جاگتی اور دن بے خوابی سے بوجھل گزرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بجلی کا بھی زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ بجلی کے بحران کے پیش نظر گزشتہ برسوں میں رات کو آٹھ بجے کاروباری مراکز کے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جو لوگوں کو گراں گزرا تھا۔ خاص طور پر بزنس کمیونٹی نے اس فیصلے کو اپنی دیرینہ عادت (رات کو جاگنے اور دوپہر تک سونے) کے خلاف پایا۔ ہمارے شہروں میں لوگ رات کو دیر تک شاپنگ کے عادی ہیں اور دکانیں دن کو بارہ بجے سے پہلے نہیں کھلتیں۔ ہماری ایک دوست جو انڈیا اور سری لنکا کے وزٹ کے بعد پاکستان واپس آئیں تو حیرت سے کہنے لگیں کہ انڈیا میں لوگ علی الصبح جاگ جاتے ہیں۔ دکانیں جلدی کھل جاتی ہیں اور لوگ یہ کوشش کرتے ہیں کہ رات میں جلدی سوجائیں۔
سری لنکا میں جب آٹھ بجے شاپنگ کے لیے پہنچیں تو دکانیں بند ہورہی تھیں۔ دکاندار نے انھیں بتایا کہ وہ لوگ بجلی کو بچانے کے لیے سولر انرجی پر انحصار کرتے ہیں اور صبح چھ بجے لوگ کام کے لیے نکل جاتے ہیں۔ دکانیں و ریستوران صبح جلدی کھل جاتے ہیں۔ یہ سن کر احساس ہوا کہ ہم اپنی بگڑی ہوئی عادات کی وجہ سے ایشیا کی دوسری قوموں سے کس قدر پیچھے کھڑے ہیں۔ لوگ اکثر قصور وار حکومت کے اداروں کو ٹھہراتے ہیں مگر وہ خود مسائل کے حل کے لیے نہ تو تعاون کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے مزاج میں لچک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رات کو جلدی سونے اور صبح جلدی اٹھنے اور کام پر جانے سے بجلی کے بحران سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے اور ایک ہشاش بشاش تازہ دم دن بہتر کام کی کارکردگی کے ساتھ گزارا جاسکتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سی ناپسندیدہ عادات ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں جو دیمک کی طرح سماج کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ کوئی بھی قوم اخلاقی قدروں کی پاسداری اور مثبت رویے کی وجہ سے دنیا میں اپنی پہچان کرواتی ہے۔ لفظ و عمل کی یکجہتی سے قوموں کی تقدیر وابستہ ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں قول و فعل میں بہت تضاد پایا جاتا ہے وہ انتظامی و معاشرتی طور پر منتشر رہتے ہیں اور وہاں بھی مسئلے کا حل نہیں مل پاتا۔ دنیا کے بہت سے ملک ایسے ہیں جو جھوٹ، بے ایمانی و غیبت کو برا سمجھتے ہیں۔ ان ملکوں میں خوشحالی، ترقی و یکجہتی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔
جھوٹ بولنے کی عادت بھی خوب ہے۔ کچھ معاشرے جھوٹ کی بنا پر ترقی افروز ہوتے ہیں مگر جھوٹ کے ساتھ ایک بے چینی اور جھوٹ کے پکڑے جانے کا خوف بھی بولنے والے کے ذہن پر مسلط رہتا ہے۔ جھوٹ کی کڑیاں اگر مضبوط ہوں تو وہ کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طالب علم نقل کو محنت پر ترجیح دیتا ہے۔ اسی طرح ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، رشوت و بے ایمانی بھی جھوٹ کی مختلف قسمیں ہیں۔ جن معاشروں میں جھوٹ وجود کی بقا کی ضمانت بن جائے اور برائی کو تحفظ عطا کرنے کی ڈھال فراہم کرنے کا ذریعہ کہلانے لگے تو وہاں نہ چاہتے ہوئے بھی جھوٹ سے مفاہمت کرنی پڑتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جھوٹ سے حاصل کردہ منافع وقتی مگر اس کے نقصانات بے شمار ہیں۔ سب سے بڑا نقصان اجتماعی طور پر قوم کے تشخص کے مسخ ہونے کا ہے۔
کسی بھی قوم کا امیج جب ہر طرح سے برا ہونے لگے مگر وہ پھر بھی خوش فہمی و خوش گمانی میں مبتلا ہو تو اصلاح کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔ جھوٹ جیسی ناپسندیدہ اور نقصان دہ عادت سے نجات پانے کے لیے ذاتی تجزیے کی صلاحیت اور خود احتسابی کا رجحان چاہیے۔ کیونکہ غلط بیانی سلوپوائزن کی طرح ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی جھوٹ ہماری زندگیوں کو براہ راست یا بالواسطہ متاثر کر رہا ہوتا ہے۔ اکثر بلاوجہ اور بلاسبب بھی جھوٹ بولے جاتے ہیں جو بناوٹ، بھرم، خودنمائی و اناپرستی کے اردگرد مضبوط حصار قائم کردیتے ہیں۔ یہ خودنمائی و تصنع بھی ہمارے معاشرتی اقدار کا حصہ بن چکے ہیں۔ جن کی وجہ سے دوستی، رشتوں و ناتوں میں دراڑیں پڑتی جارہی ہیں۔ انسان، اشیا سے کتنی ہی محبت کیوں نہ کرے مگر اسے زندگی کے سفر میں لوگوں کے ساتھ اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ سچائی دیے بغیر جواب میں ہمیں نہ تو اچھے دوست ملتے ہیں اور نہ ہی ہمسفر۔
وہ عمل جو دہرایا جاتا ہے وہ عادت کا حصہ بن جاتا ہے۔ متعدد بار کوئی رویہ اپنالیا جائے تو وہ پختہ عادتیں بن جاتی ہیں۔ اگاتھاکرسٹی کے مطابق ''عادتیں عجیب ہوتی ہیں لوگ یہ تک نہیں جانتے کہ وہ ان میں مبتلا ہیں'' عادتیں غیر محسوس طریقے سے ہمارے مزاج کا حصہ بن جاتی ہیں۔ لیکن ناپسندیدہ عادات کا اگر وقت پر علم ہوجائے اور ہم ان کا پس منظر سمجھنے لگیں تو اپنے رویے پر قابو پایا جاسکتا ہے اور عادت بدلی جاسکتی ہے۔
ایک عادت خوامخواہ پریشان ہونے کی ہے۔ کوئی بھی پریشانی ذہن پر طاری ہوجائے تو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں محسوس نہیں ہوتیں اور مختلف عادات اپنالی جاتی ہیں جو اس پریشان کن صورت حال کو وقتی طور پر سنبھال لیتی ہیں۔ بہت سی عادتیں غیرارادی طور پر مزاج کا حصہ بنتی ہیں جیسے پلکیں جھپکنا، ناخن دانتوں سے کترنا، ہونٹ کاٹنا، زبان چباتے رہنا، بار بار بالوں کو سنوارنا علاوہ ازیں چائے یا کافی کا بے جا استعمال، سگریٹ نوشی، چھالیہ و پان چباتے رہنا بھی کسی بھی ناپسندیدہ صورت حال سے فرار کی کوشش ہوسکتے ہیں۔ بعض اوقات یہ غیر محسوس طور پر ذات کا حصہ بن جانے والی عادتیں دوسروں کے لیے پریشان کن صورت حال بن جاتی ہیں۔ یہ رویے اور عمل جو ایک انسان کے لیے سہولت اور اچھی وقت گزاری کا ذریعہ کہلاتے ہیں دوسروں کے لیے مشکلات کا سبب بن جاتے ہیں۔ جیسے وقت کا زیاں یا وقت کی قدر نہ کرنا ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔
کوئی زمانہ تھا کہ ہماری عادتیں وقت کی تابع ہوا کرتی تھیں۔ وقت کے دائرہ اختیار میں زندگی سمٹ کر چلتی ہے، مگر جیسے ہی الیکٹرانک میڈیا، کمپیوٹرز اور موبائل ہماری زندگیوں کا حصہ بنے ہیں، وقت کی تیز رفتاری کی شکایتیں سننے کو ملنے لگیں۔ وقت تو وہی ہے مگر قوم کے عادات و اطوار بدل گئے۔ انسان گھنٹوں مشینوں پر وقت صرف کرنے لگا۔ رات کو دیر تک ٹی وی اور کمپیوٹرز کا استعمال بڑھنے لگا۔ سونے اور جاگنے کے اوقات بدل گئے۔ آج کل صورت حال یہ ہے کہ رات کو جلدی سونا اور صبح سویرے اٹھنے والی عادت قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ اس عادت کے بدلنے سے مزاج بھی بدل گئے اور صحت بھی متاثر ہونے لگی۔ سونے اور جاگنے کے عمل کو ضابطے میں لانے کے لیے ایک نظام ہے جسے Circadian Rythem کہا جاتا ہے جو ہارمونز سے لے کر نیند کے عمل تک فعال کارکردگی دکھاتا ہے۔
روشنی میں ہی خاص ہارمونز جسم کو نیند کا سگنل دیتے ہیں۔ اس کے بعد نیند آجاتی ہے۔ اگر کمرے میں ہلکی روشنی ہوتی ہے تو نیند کی طرف ذہن مائل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی نیند کا فطری عمل متاثر ہوتا ہے ذہن کا مدافعتی نظام کمزور پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ ذہن کی کارکردگی غیر موثر ہوجاتی ہے۔ فیصلے کی قوت باقی نہیں رہتی۔ کولمبیا یونیورسٹی امریکا کی جدید تحقیق کے مطابق بے خوابی موٹاپے کا سبب بنتی ہے۔ جس کے مطابق دو اور چار گھنٹے کی نیند موٹاپے کا 73 فیصد امکان بڑھا دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ میں سال میں 350 اموات روڈ ایکسیڈنٹ میں واقع ہوتی ہیں جو بے خوابی کا شکار ڈرائیورز کی ڈرائیونگ کے دوران سو جانے کی وجہ سے رونما ہوتی ہیں۔
ہمارے شہروں میں زیادہ تر راتیں جاگتی اور دن بے خوابی سے بوجھل گزرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بجلی کا بھی زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ بجلی کے بحران کے پیش نظر گزشتہ برسوں میں رات کو آٹھ بجے کاروباری مراکز کے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جو لوگوں کو گراں گزرا تھا۔ خاص طور پر بزنس کمیونٹی نے اس فیصلے کو اپنی دیرینہ عادت (رات کو جاگنے اور دوپہر تک سونے) کے خلاف پایا۔ ہمارے شہروں میں لوگ رات کو دیر تک شاپنگ کے عادی ہیں اور دکانیں دن کو بارہ بجے سے پہلے نہیں کھلتیں۔ ہماری ایک دوست جو انڈیا اور سری لنکا کے وزٹ کے بعد پاکستان واپس آئیں تو حیرت سے کہنے لگیں کہ انڈیا میں لوگ علی الصبح جاگ جاتے ہیں۔ دکانیں جلدی کھل جاتی ہیں اور لوگ یہ کوشش کرتے ہیں کہ رات میں جلدی سوجائیں۔
سری لنکا میں جب آٹھ بجے شاپنگ کے لیے پہنچیں تو دکانیں بند ہورہی تھیں۔ دکاندار نے انھیں بتایا کہ وہ لوگ بجلی کو بچانے کے لیے سولر انرجی پر انحصار کرتے ہیں اور صبح چھ بجے لوگ کام کے لیے نکل جاتے ہیں۔ دکانیں و ریستوران صبح جلدی کھل جاتے ہیں۔ یہ سن کر احساس ہوا کہ ہم اپنی بگڑی ہوئی عادات کی وجہ سے ایشیا کی دوسری قوموں سے کس قدر پیچھے کھڑے ہیں۔ لوگ اکثر قصور وار حکومت کے اداروں کو ٹھہراتے ہیں مگر وہ خود مسائل کے حل کے لیے نہ تو تعاون کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے مزاج میں لچک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رات کو جلدی سونے اور صبح جلدی اٹھنے اور کام پر جانے سے بجلی کے بحران سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے اور ایک ہشاش بشاش تازہ دم دن بہتر کام کی کارکردگی کے ساتھ گزارا جاسکتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سی ناپسندیدہ عادات ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں جو دیمک کی طرح سماج کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ کوئی بھی قوم اخلاقی قدروں کی پاسداری اور مثبت رویے کی وجہ سے دنیا میں اپنی پہچان کرواتی ہے۔ لفظ و عمل کی یکجہتی سے قوموں کی تقدیر وابستہ ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں قول و فعل میں بہت تضاد پایا جاتا ہے وہ انتظامی و معاشرتی طور پر منتشر رہتے ہیں اور وہاں بھی مسئلے کا حل نہیں مل پاتا۔ دنیا کے بہت سے ملک ایسے ہیں جو جھوٹ، بے ایمانی و غیبت کو برا سمجھتے ہیں۔ ان ملکوں میں خوشحالی، ترقی و یکجہتی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔
جھوٹ بولنے کی عادت بھی خوب ہے۔ کچھ معاشرے جھوٹ کی بنا پر ترقی افروز ہوتے ہیں مگر جھوٹ کے ساتھ ایک بے چینی اور جھوٹ کے پکڑے جانے کا خوف بھی بولنے والے کے ذہن پر مسلط رہتا ہے۔ جھوٹ کی کڑیاں اگر مضبوط ہوں تو وہ کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طالب علم نقل کو محنت پر ترجیح دیتا ہے۔ اسی طرح ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، رشوت و بے ایمانی بھی جھوٹ کی مختلف قسمیں ہیں۔ جن معاشروں میں جھوٹ وجود کی بقا کی ضمانت بن جائے اور برائی کو تحفظ عطا کرنے کی ڈھال فراہم کرنے کا ذریعہ کہلانے لگے تو وہاں نہ چاہتے ہوئے بھی جھوٹ سے مفاہمت کرنی پڑتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جھوٹ سے حاصل کردہ منافع وقتی مگر اس کے نقصانات بے شمار ہیں۔ سب سے بڑا نقصان اجتماعی طور پر قوم کے تشخص کے مسخ ہونے کا ہے۔
کسی بھی قوم کا امیج جب ہر طرح سے برا ہونے لگے مگر وہ پھر بھی خوش فہمی و خوش گمانی میں مبتلا ہو تو اصلاح کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔ جھوٹ جیسی ناپسندیدہ اور نقصان دہ عادت سے نجات پانے کے لیے ذاتی تجزیے کی صلاحیت اور خود احتسابی کا رجحان چاہیے۔ کیونکہ غلط بیانی سلوپوائزن کی طرح ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی جھوٹ ہماری زندگیوں کو براہ راست یا بالواسطہ متاثر کر رہا ہوتا ہے۔ اکثر بلاوجہ اور بلاسبب بھی جھوٹ بولے جاتے ہیں جو بناوٹ، بھرم، خودنمائی و اناپرستی کے اردگرد مضبوط حصار قائم کردیتے ہیں۔ یہ خودنمائی و تصنع بھی ہمارے معاشرتی اقدار کا حصہ بن چکے ہیں۔ جن کی وجہ سے دوستی، رشتوں و ناتوں میں دراڑیں پڑتی جارہی ہیں۔ انسان، اشیا سے کتنی ہی محبت کیوں نہ کرے مگر اسے زندگی کے سفر میں لوگوں کے ساتھ اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ سچائی دیے بغیر جواب میں ہمیں نہ تو اچھے دوست ملتے ہیں اور نہ ہی ہمسفر۔