آخر حکومت ہے کس کی …
طویل ترین حکمرانی کے بعد بھی عوام اپنے مسائل کا مستقل حل یہاں بھی نہ پاکر اس وقت شدید مایوسی کا شکار ہیں۔
یوں تو 1947ء سے سمجھ نہیں آرہا کہ اس ملک میں حکم کس کا چلتا ہے ۔! ملک کے پہلے گورنر جنرل و بابائے قوم قائد اعظم اور مادرِ ملت کے احکامات ہمیں ماڑی پور روڈ پر ٹھوکریں کھاتے نظر آئے، تو ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی پنڈی کی سڑکوں پر نڈھال نظر آئے ۔
ہوا میں مُکے لہرانے والے طاقتور حکمران ذوالفقار علی بھٹو زندان خانے میں ظلم کا نشانہ بننے کے بعد پھانسی کے پھندے پر جھولتے نظر آئے۔پھر ضیاء الحق چکلالہ کی ہواؤں میں اُڑتے رہے تو پنڈی میں شاندار اجتماع کے بیچوں بیچ دُخترِ مشرق اور چاروں صوبوں کی زنجیر جیسے القابات رکھنے والی بے نظیر بھٹو گولی کی نذر ہوتی نظر آئیں ۔ امیرالمومنین جیسی حیثیت اورپنجاب میں شیر بن کر ابھرنے والے نواز شریف جیل میں پہنچ کر ہر حکم مانتے نظر آئے تو سونامی کی طرح دہلانے والے عمران خان کی حکمرانی میں بھی سمجھ نہیں آرہا کہ یہاں حکم کس کا چل رہا ہے ؟
نہ جانے کیوں ملک کے موجودہ حالات 17ویں صدی کی مغل حکومت کی یاد دلاتے ہیں ۔ جس میں تخت پر تو اکبر ، جہانگیر و شاہ جہاں جیسے حکمران جلوہ افروز رہتے تھے لیکن حکم گہرام خان، مہابت خان اور مہا منگا جیسوں کا چلتا تھا ۔ ہمایوں کے بعد حکمران تو اکبر تھا مگر ریاست و لشکر پر حکم گہرام خان اور مہا منگا کا چلتا تھا۔لیکن اس لحاظ سے سب سے انوکھا کردار'نورجہاں' بالمعروف 'انارکلی' کا ہے ۔
بظاہر تو یہ مشہور ہے کہ انارکلی کو دیوار میں چنوا دیا گیا تھا لیکن یہ صرف ایک چھلاوا تھا ۔ دیوار کے عقب سے ایک سرنگ کے ذریعے انارکلی کو نکال کر ریاست کے ایک عملدار ''علی قلی خان بالمعروف شیر افگن خان'' سے شادی کروا کر بنگال کی طرف بھیج دیا گیا۔ اکبر کی وفات کے بعد جہانگیر نے نورجہاں کے شوہر کو مرواکراُس سے شادی کرلی ۔ اور یوں نورجہاں ہندوستانی تاریخ کی طاقتور ترین ملکہ ہندوستان بن گئی۔ پھر آہستہ آہستہ نورجہاں کا غریب باپ سلطنت کا وزیر اعظم ''عماد الدولہ '' اور بھائی ایک اعلیٰ عملدار ''آصف جاہ '' بن گیا۔ کہتے ہیں کہ شہنشاہ اکبر کا بیٹا جہانگیر عرف سلیم اوباش طبیعت کا مالک ایک ناکام حکمران تھا ۔
اس کی طرز و اُمور ِ حکمرانی سے رعایہ خوش نہیں تھی اور نہ ہی حکمرانی کی کوئی ترتیب عملداروں و امراء میں برقرار رہی تھی ۔ ایسے میں نورجہاں بادشاہ کے ساتھ تخت پر جلوہ افروز ہوئی ۔ پہلے تو پس پردہ اور اشاروں کنایوں اور مشوروں کے ذریعے نورجہاں حکومتی اُمور میں شامل رہی ۔ لیکن بعد میں علی الاعلان بادشاہ ملکہ کے احکامات و خواہشات پر اُمور چلانے لگا۔ نورجہاں نے ملک میں کئی اصلاحات متعارف کرائیں اورحکمرانی و ریاستی اُمور میں کافی بہتری آگئی ۔
یوں ایک سمجھدار خاتون نہ صرف اوباش شوہر کو کسی حد تک راہ راست پر لے آئی بلکہ ہندوستان کو مستقبل میں بھی شاہ جہاں جیسا ایک معتدل حکمران دینے کے لیے اپنی کمال ہوشیاری اور محلاتی سازشوں سے کام لیا کیونکہ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ بلا کی ذہین و حاضر دماغ ، شعرو سخن اور معاملہ فہمی کی حامل اور منصوبہ سازی میں کمال مہارت رکھتی تھی ۔آخری ایام میں وہ ''گوشہ نشینی''کی زندگی گذارتی رہی اور وہ ''سفید لباس '' پہنتی تھی ۔
ملک کے موجودہ حکمران اور حکومتی اُمور اور صورتحال بھی ہو بہو ویسی ہی ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں پھر بھی کم از کم پتا تو چلتا تھا کہ حکومت کس کی تھی اور حکم کس کا چلتا تھا۔ عوام پھر براہ ِ راست جہانگیر کے ہوتے ہوئے نورجہاں کے پاس عرضیاں لے کر جاتے تھے ،لیکن یہاں کی تو بات ہی نرالی ہے ، نہ حکومت کا پتا چلتا ہے اور نہ حکم کا ۔۔نہ حکمران کا پتا چلتا ہے اور نہ ''مشورہ دینے والی'' کا۔ نہ سیاسی جماعت کا نہ ریاستی ادارے کا ، نہ این جی او اور عدالتی نظام ہی کے درمیان فرق نظر آتا ہے اور نہ محکمہ تعلیم ، داخلہ و سلامتی کے ادارے کے درمیان تفاوت سمجھ آتا ہے اور تو اور یہاں تو عالمی بینک اور قومی بینک میں بھی فرق کا پتا نہیں چلتا ۔
پھر حفیظ شیخ صاحب کے بھی کیا کہنے ہیں ، وہ ماضی میں IMFکا حصہ رہے ہیں تو آج مملکت ِ خداداد کا حصہ ہیں ، لیکن سمجھ اب بھی نہیں آرہا کہ وہ فرائض پرانے عہدے کے نبھا رہے ہیں یا موجودہ عہدے کے ۔۔! 24وفاقی وزراء ، 5مشیر ، 13معاون ِ خصوصی اور5مملکتی وزراء کی حامل 47ارکان پر مشتمل وفاقی کابینہ کے ہوتے ہوئے بھی سلامتی اداروں کے ترجمان کو پی ٹی ایم کے اُمور سے توانائی و تعلیم اور کرپشن سمیت داخلی و خارجی اُمور تک سب پر خود ہی تحفظات، اظہارات و اعلانات کرنے پڑتے ہیں ۔ نہ اس کابینہ میں اُن کا کوئی ترجمان ہے اور شاید نہ ہی کسی کو وہ اہل سمجھتے ہیں ۔
حالانکہ ابھی کچھ روز قبل ہی وزارت ِ داخلہ ایک'' دبنگ'' آدمی کو دیے جانے پر داخلی مسائل حل ہونے کی بات بڑے زور شور سے کی جارہی تھی لیکن یہ کیا کہ وزارت داخلہ کو بھی پی ٹی ایم کی غداری اور مدارس و نصاب کی گڑبڑ کا پتہ نہ چل سکااور بالآخر قومی و ملکی مفاد میں کسی اور کو اس بات کا پتا لگانے اور حقائق کا اعلان کرنے کے لیے خود یہ ذمے داری اٹھانی پڑگئی ۔ یا شاید اُنہیں موجودہ حکومت اور کابینہ ارکان پر اعتماد نہیں رہا۔ جب اعتماد کا یہ حال ہوگا تو پھر کیسے حزب ِ اختلاف و ریاستی اکائیاں (صوبے) ، ادارے اور عوام اس سیٹ اپ کو اہل و حکمران تسلیم کریں گے؟
موجودہ حکومت کی تو ایک ہی مثال کافی ہے کہ حکومت میں آنے سے قبل خان صاحب کہا کرتے تھے کہ ''مہنگائی بڑھ جائے تو سمجھو کہ حکمران چور اور کرپٹ ہیں ''۔ اب تو خود اُن پاک و صاف لوگوں کی حکومت ہے ، پھر کیوں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور اگر بڑھ رہی ہے تو اُس پر اِن کو کیا سمجھا جائے ؟ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ وہ شاید حقیقی معنوں میں خود کو حکمران نہیں سمجھتے ، اس لیے مہنگائی کے اس طوفان پر خود کو چور اور کرپٹ بھی نہیں سمجھتے ۔ایک بات تو اب واضح ہوچکی ہے کہ جب تک ملک میں سخت احتساب نہیں ہوگا یہ اُمور اسی طرح چہروں کی تبدیلی کے ساتھ حالات 'جوں کے توں 'کی طرح ہی چلتے رہیں گے۔
اس سے متعلق جمہوریت و ملکی اُمور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک تبھی ٹھیک ہوگا جب ملک میں بلا تفریق احتساب ہوگا اور اُس کے لیے سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ ساتھ سب کا یکساں احتساب ہونا چاہیے ۔ بات تو ٹھیک ہے ، مگر یہ کرے کون؟ کہتے ہیں کہ جمہوری ریاست میں تمام اداروں کا کردار آئین واضح کرتا ہے اور تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں ، پارلیمنٹ تمام فیصلے کرنے کا سپریم ادارہ ہوتا ہے اور باقی سب اُسی کے ماتحت ہوتے ہیں ۔
باقی کا تو پتا نہیں لیکن اس بات پر عوام کو یقین رہاہے، اسی لیے ہر مرتبہ Fixedانتخابات کا شور ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے رہے ہیں اور اپنے مسائل پارلیمنٹ کے ایوانوں میں لے جاتے رہے ہیں۔ لیکن ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی پارلیمنٹ کے احکامات چلتے نظر نہیں آرہے یا شاید چل رہے ہیں لیکن پتہ نہیں چل رہا۔جو بھی ہو موجودہ پارلیمنٹ میں عوام کے مسائل حل ہوتے محسوس نہیں ہورہے۔
حکمرانوں کی نااہلی، بدعنوانیوں اور کئی مواقع پر بے بسی اور معزولیوں کے باعث پارلیمنٹ اور جمہوری حکمرانوں پر عوام کے یقین بارہا ٹوٹنے کے بعد وہ مایوس ہوکر دیگر اداروں کی طرف دیکھنے لگے ۔
دوسری جانب یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے اور کبھی کبھی واقعتاً محسوس بھی ہونے لگتا ہے کہ عدالت کے احکامات ملک میں چلتے ہیں اور اس وجہ سے شہری اپنے مسائل کے حل کے لیے وہاں پہنچ جاتے ہیں اور اس بار بھی پہنچ گئے۔ پھر یکایک موبائیل ریٹس و ٹیکس، اسکول فیس اور مسنگ پرسنز کیس میں تاریخ پر تاریخ کی یہ طویل سماعتیں اس یقین کو بھی گمان میں بدل رہی ہیں ۔ پھر فوجی عدالتوں اور مختلف آپریشنز و ہنگامی حالات میں بحالی و فلاحی کاموں اور معاشی و کاروباری سرگرمیوں سمیت بیرونی کے ساتھ ساتھ داخلی مطلب ہر محاذ پر ملک کے دفاع کا ذمے اُٹھانے کے باعث عوام غیر جمہوری حکومتوں اور اداروں کو بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے پکارتے رہے ہیں ۔
لیکن طویل ترین حکمرانی کے بعد بھی عوام اپنے مسائل کا مستقل حل یہاں بھی نہ پاکر اس وقت شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ عوام پریشان ہیں کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کسے پکاریں ؟ کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں ؟ اُنہیں سمجھ نہیں آرہا، اس لیے وہ اپنی عرضی کبھی پارلیمنٹ لے جاتے ہیں تو کبھی عدالت کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں اور کبھی تو طاقتور اداروں کو اپیلیں کرتے رہتے ہیں ۔ اس لیے یہاں کی جو بھی ملک کی حکمران قوتیں ہیں، اُنہیں گذارش ہے کہ بس ایک کرم یہ کیا جائے کہ اس ملک کے کم عقل و سادہ لوح عوام کو یہ واضح کرکے سمجھایا جائے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے آیندہ درخواست کس کے نام لکھیں ؟
حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ عوام کو تو خیر سے یہاں کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا لیکن اس ریاست کے ستونوں کی حیثیت رکھنے والے اداروں بالخصوص پارلیمنٹ اور میڈیا کو تو کم از کم بتا دیں یا سمجھا دیں کہ حکومت کس کی ہے ۔! وہ خواہ مخواہ چینلوں اور اسمبلیوں میں دن دن بھر قومی اُمور و قومی مفاد میں گلے پھاڑ پھاڑ کر چیختے چلاتے اور یہاں تک کہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوتے ہیں ۔ اور ہاں اسپیکر جو ''رول '' ، ''اوور رول '' کے احکامات جاری کرتے رہتے ہیں ، اُن سب بیچاروں کو بھی بتا دیں کہ حکم تمہارا ، یہاں نہیں چلتا۔۔!کیونکہ واقعی میں اُنہیں یہ پتا نہیں چل رہا کہ آخر یہاں حکومت کس کی ہے اور حکم کون چلا رہا ہے ۔۔!
دوسری جانب جب ملکی حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ملک میں ہر شعبہ ،ہر ادارہ تباہ کُن صورتحال کا شکار نظر آتا ہے ۔ صوبوں میں ہم آہنگی تو رہی دور اُلٹا نفرت انتہا کو چُھو رہی ہے ، تعلیم ، صحت ، انفرا اسٹرکچر حتی ٰ کہ بنیادی سہولیات کی فراہمی تک کا نظام بھی ڈانواں ڈول ہے ۔ اسی طرح ملک کی معاشی تباہی کی ایک جھلک اسٹاک ایکسچینج کی موجودہ صورتحال سے واضح ہوتی ہے۔
حالت یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج کے لیے اپریل 2019کا مہینہ گذشتہ 14برس کی تاریخ کا بدترین مہینہ ثابت ہوا ہے ۔ اس ماہ کے دوران مارکیٹ میں کاروبار کی رفتار میں سُستی اور شیئرز کی قیمتیں گرنے سے سرمایہ کاروں کے 363ارب روپے ڈوب گئے ہیں ۔ملک میں مہنگائی کا طوفان عوام کو دبوچ چکا ہے لیکن اُ س کے باوجود آئی ایم ایف ہے کہ کڑی سے کڑی شرائط کے حکم صادر کررہا ہے اور حکومتی بے بس ٹیم رعایت رعایت کی التجائی صدائیں کرتی نظر آرہی ہے ۔
عوام سوال کر رہے ہیں کہ کیا یہاں IMFکا حکم چلتا ہے؟ اور وہ سوچ رہے ہیں کہ یوں باربارکبھی جمہوری اداروں کی طرف تو کبھی غیرجمہوری اداروں کی طرف جاتے رہیں یا پھر سب مل کر آئی ایم ایف (IMF) کے پاس جاکر درخواست دیں کہ مائی باپ ! ہم پراور ہمارے حال پر رحم کریں ، اِ ن بھاری ٹیکسوں کو عائد نہ کریں ، گیس ، بجلی و پیٹرولیم کے نرخ نہ بڑھائیں اور ترقیاتی اسکیموں کے لیے قرض پر بیاج وغیرہ کی شرح کچھ کم کریں تاکہ بس ہم ہی آپ کے مقروض و غلام رہیں ، ہماری نسلوں تک یہ کہانی نہ جائے ۔! !!
ہوا میں مُکے لہرانے والے طاقتور حکمران ذوالفقار علی بھٹو زندان خانے میں ظلم کا نشانہ بننے کے بعد پھانسی کے پھندے پر جھولتے نظر آئے۔پھر ضیاء الحق چکلالہ کی ہواؤں میں اُڑتے رہے تو پنڈی میں شاندار اجتماع کے بیچوں بیچ دُخترِ مشرق اور چاروں صوبوں کی زنجیر جیسے القابات رکھنے والی بے نظیر بھٹو گولی کی نذر ہوتی نظر آئیں ۔ امیرالمومنین جیسی حیثیت اورپنجاب میں شیر بن کر ابھرنے والے نواز شریف جیل میں پہنچ کر ہر حکم مانتے نظر آئے تو سونامی کی طرح دہلانے والے عمران خان کی حکمرانی میں بھی سمجھ نہیں آرہا کہ یہاں حکم کس کا چل رہا ہے ؟
نہ جانے کیوں ملک کے موجودہ حالات 17ویں صدی کی مغل حکومت کی یاد دلاتے ہیں ۔ جس میں تخت پر تو اکبر ، جہانگیر و شاہ جہاں جیسے حکمران جلوہ افروز رہتے تھے لیکن حکم گہرام خان، مہابت خان اور مہا منگا جیسوں کا چلتا تھا ۔ ہمایوں کے بعد حکمران تو اکبر تھا مگر ریاست و لشکر پر حکم گہرام خان اور مہا منگا کا چلتا تھا۔لیکن اس لحاظ سے سب سے انوکھا کردار'نورجہاں' بالمعروف 'انارکلی' کا ہے ۔
بظاہر تو یہ مشہور ہے کہ انارکلی کو دیوار میں چنوا دیا گیا تھا لیکن یہ صرف ایک چھلاوا تھا ۔ دیوار کے عقب سے ایک سرنگ کے ذریعے انارکلی کو نکال کر ریاست کے ایک عملدار ''علی قلی خان بالمعروف شیر افگن خان'' سے شادی کروا کر بنگال کی طرف بھیج دیا گیا۔ اکبر کی وفات کے بعد جہانگیر نے نورجہاں کے شوہر کو مرواکراُس سے شادی کرلی ۔ اور یوں نورجہاں ہندوستانی تاریخ کی طاقتور ترین ملکہ ہندوستان بن گئی۔ پھر آہستہ آہستہ نورجہاں کا غریب باپ سلطنت کا وزیر اعظم ''عماد الدولہ '' اور بھائی ایک اعلیٰ عملدار ''آصف جاہ '' بن گیا۔ کہتے ہیں کہ شہنشاہ اکبر کا بیٹا جہانگیر عرف سلیم اوباش طبیعت کا مالک ایک ناکام حکمران تھا ۔
اس کی طرز و اُمور ِ حکمرانی سے رعایہ خوش نہیں تھی اور نہ ہی حکمرانی کی کوئی ترتیب عملداروں و امراء میں برقرار رہی تھی ۔ ایسے میں نورجہاں بادشاہ کے ساتھ تخت پر جلوہ افروز ہوئی ۔ پہلے تو پس پردہ اور اشاروں کنایوں اور مشوروں کے ذریعے نورجہاں حکومتی اُمور میں شامل رہی ۔ لیکن بعد میں علی الاعلان بادشاہ ملکہ کے احکامات و خواہشات پر اُمور چلانے لگا۔ نورجہاں نے ملک میں کئی اصلاحات متعارف کرائیں اورحکمرانی و ریاستی اُمور میں کافی بہتری آگئی ۔
یوں ایک سمجھدار خاتون نہ صرف اوباش شوہر کو کسی حد تک راہ راست پر لے آئی بلکہ ہندوستان کو مستقبل میں بھی شاہ جہاں جیسا ایک معتدل حکمران دینے کے لیے اپنی کمال ہوشیاری اور محلاتی سازشوں سے کام لیا کیونکہ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ بلا کی ذہین و حاضر دماغ ، شعرو سخن اور معاملہ فہمی کی حامل اور منصوبہ سازی میں کمال مہارت رکھتی تھی ۔آخری ایام میں وہ ''گوشہ نشینی''کی زندگی گذارتی رہی اور وہ ''سفید لباس '' پہنتی تھی ۔
ملک کے موجودہ حکمران اور حکومتی اُمور اور صورتحال بھی ہو بہو ویسی ہی ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں پھر بھی کم از کم پتا تو چلتا تھا کہ حکومت کس کی تھی اور حکم کس کا چلتا تھا۔ عوام پھر براہ ِ راست جہانگیر کے ہوتے ہوئے نورجہاں کے پاس عرضیاں لے کر جاتے تھے ،لیکن یہاں کی تو بات ہی نرالی ہے ، نہ حکومت کا پتا چلتا ہے اور نہ حکم کا ۔۔نہ حکمران کا پتا چلتا ہے اور نہ ''مشورہ دینے والی'' کا۔ نہ سیاسی جماعت کا نہ ریاستی ادارے کا ، نہ این جی او اور عدالتی نظام ہی کے درمیان فرق نظر آتا ہے اور نہ محکمہ تعلیم ، داخلہ و سلامتی کے ادارے کے درمیان تفاوت سمجھ آتا ہے اور تو اور یہاں تو عالمی بینک اور قومی بینک میں بھی فرق کا پتا نہیں چلتا ۔
پھر حفیظ شیخ صاحب کے بھی کیا کہنے ہیں ، وہ ماضی میں IMFکا حصہ رہے ہیں تو آج مملکت ِ خداداد کا حصہ ہیں ، لیکن سمجھ اب بھی نہیں آرہا کہ وہ فرائض پرانے عہدے کے نبھا رہے ہیں یا موجودہ عہدے کے ۔۔! 24وفاقی وزراء ، 5مشیر ، 13معاون ِ خصوصی اور5مملکتی وزراء کی حامل 47ارکان پر مشتمل وفاقی کابینہ کے ہوتے ہوئے بھی سلامتی اداروں کے ترجمان کو پی ٹی ایم کے اُمور سے توانائی و تعلیم اور کرپشن سمیت داخلی و خارجی اُمور تک سب پر خود ہی تحفظات، اظہارات و اعلانات کرنے پڑتے ہیں ۔ نہ اس کابینہ میں اُن کا کوئی ترجمان ہے اور شاید نہ ہی کسی کو وہ اہل سمجھتے ہیں ۔
حالانکہ ابھی کچھ روز قبل ہی وزارت ِ داخلہ ایک'' دبنگ'' آدمی کو دیے جانے پر داخلی مسائل حل ہونے کی بات بڑے زور شور سے کی جارہی تھی لیکن یہ کیا کہ وزارت داخلہ کو بھی پی ٹی ایم کی غداری اور مدارس و نصاب کی گڑبڑ کا پتہ نہ چل سکااور بالآخر قومی و ملکی مفاد میں کسی اور کو اس بات کا پتا لگانے اور حقائق کا اعلان کرنے کے لیے خود یہ ذمے داری اٹھانی پڑگئی ۔ یا شاید اُنہیں موجودہ حکومت اور کابینہ ارکان پر اعتماد نہیں رہا۔ جب اعتماد کا یہ حال ہوگا تو پھر کیسے حزب ِ اختلاف و ریاستی اکائیاں (صوبے) ، ادارے اور عوام اس سیٹ اپ کو اہل و حکمران تسلیم کریں گے؟
موجودہ حکومت کی تو ایک ہی مثال کافی ہے کہ حکومت میں آنے سے قبل خان صاحب کہا کرتے تھے کہ ''مہنگائی بڑھ جائے تو سمجھو کہ حکمران چور اور کرپٹ ہیں ''۔ اب تو خود اُن پاک و صاف لوگوں کی حکومت ہے ، پھر کیوں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور اگر بڑھ رہی ہے تو اُس پر اِن کو کیا سمجھا جائے ؟ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ وہ شاید حقیقی معنوں میں خود کو حکمران نہیں سمجھتے ، اس لیے مہنگائی کے اس طوفان پر خود کو چور اور کرپٹ بھی نہیں سمجھتے ۔ایک بات تو اب واضح ہوچکی ہے کہ جب تک ملک میں سخت احتساب نہیں ہوگا یہ اُمور اسی طرح چہروں کی تبدیلی کے ساتھ حالات 'جوں کے توں 'کی طرح ہی چلتے رہیں گے۔
اس سے متعلق جمہوریت و ملکی اُمور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک تبھی ٹھیک ہوگا جب ملک میں بلا تفریق احتساب ہوگا اور اُس کے لیے سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ ساتھ سب کا یکساں احتساب ہونا چاہیے ۔ بات تو ٹھیک ہے ، مگر یہ کرے کون؟ کہتے ہیں کہ جمہوری ریاست میں تمام اداروں کا کردار آئین واضح کرتا ہے اور تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں ، پارلیمنٹ تمام فیصلے کرنے کا سپریم ادارہ ہوتا ہے اور باقی سب اُسی کے ماتحت ہوتے ہیں ۔
باقی کا تو پتا نہیں لیکن اس بات پر عوام کو یقین رہاہے، اسی لیے ہر مرتبہ Fixedانتخابات کا شور ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے رہے ہیں اور اپنے مسائل پارلیمنٹ کے ایوانوں میں لے جاتے رہے ہیں۔ لیکن ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی پارلیمنٹ کے احکامات چلتے نظر نہیں آرہے یا شاید چل رہے ہیں لیکن پتہ نہیں چل رہا۔جو بھی ہو موجودہ پارلیمنٹ میں عوام کے مسائل حل ہوتے محسوس نہیں ہورہے۔
حکمرانوں کی نااہلی، بدعنوانیوں اور کئی مواقع پر بے بسی اور معزولیوں کے باعث پارلیمنٹ اور جمہوری حکمرانوں پر عوام کے یقین بارہا ٹوٹنے کے بعد وہ مایوس ہوکر دیگر اداروں کی طرف دیکھنے لگے ۔
دوسری جانب یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے اور کبھی کبھی واقعتاً محسوس بھی ہونے لگتا ہے کہ عدالت کے احکامات ملک میں چلتے ہیں اور اس وجہ سے شہری اپنے مسائل کے حل کے لیے وہاں پہنچ جاتے ہیں اور اس بار بھی پہنچ گئے۔ پھر یکایک موبائیل ریٹس و ٹیکس، اسکول فیس اور مسنگ پرسنز کیس میں تاریخ پر تاریخ کی یہ طویل سماعتیں اس یقین کو بھی گمان میں بدل رہی ہیں ۔ پھر فوجی عدالتوں اور مختلف آپریشنز و ہنگامی حالات میں بحالی و فلاحی کاموں اور معاشی و کاروباری سرگرمیوں سمیت بیرونی کے ساتھ ساتھ داخلی مطلب ہر محاذ پر ملک کے دفاع کا ذمے اُٹھانے کے باعث عوام غیر جمہوری حکومتوں اور اداروں کو بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے پکارتے رہے ہیں ۔
لیکن طویل ترین حکمرانی کے بعد بھی عوام اپنے مسائل کا مستقل حل یہاں بھی نہ پاکر اس وقت شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ عوام پریشان ہیں کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کسے پکاریں ؟ کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں ؟ اُنہیں سمجھ نہیں آرہا، اس لیے وہ اپنی عرضی کبھی پارلیمنٹ لے جاتے ہیں تو کبھی عدالت کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں اور کبھی تو طاقتور اداروں کو اپیلیں کرتے رہتے ہیں ۔ اس لیے یہاں کی جو بھی ملک کی حکمران قوتیں ہیں، اُنہیں گذارش ہے کہ بس ایک کرم یہ کیا جائے کہ اس ملک کے کم عقل و سادہ لوح عوام کو یہ واضح کرکے سمجھایا جائے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے آیندہ درخواست کس کے نام لکھیں ؟
حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ عوام کو تو خیر سے یہاں کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا لیکن اس ریاست کے ستونوں کی حیثیت رکھنے والے اداروں بالخصوص پارلیمنٹ اور میڈیا کو تو کم از کم بتا دیں یا سمجھا دیں کہ حکومت کس کی ہے ۔! وہ خواہ مخواہ چینلوں اور اسمبلیوں میں دن دن بھر قومی اُمور و قومی مفاد میں گلے پھاڑ پھاڑ کر چیختے چلاتے اور یہاں تک کہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوتے ہیں ۔ اور ہاں اسپیکر جو ''رول '' ، ''اوور رول '' کے احکامات جاری کرتے رہتے ہیں ، اُن سب بیچاروں کو بھی بتا دیں کہ حکم تمہارا ، یہاں نہیں چلتا۔۔!کیونکہ واقعی میں اُنہیں یہ پتا نہیں چل رہا کہ آخر یہاں حکومت کس کی ہے اور حکم کون چلا رہا ہے ۔۔!
دوسری جانب جب ملکی حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ملک میں ہر شعبہ ،ہر ادارہ تباہ کُن صورتحال کا شکار نظر آتا ہے ۔ صوبوں میں ہم آہنگی تو رہی دور اُلٹا نفرت انتہا کو چُھو رہی ہے ، تعلیم ، صحت ، انفرا اسٹرکچر حتی ٰ کہ بنیادی سہولیات کی فراہمی تک کا نظام بھی ڈانواں ڈول ہے ۔ اسی طرح ملک کی معاشی تباہی کی ایک جھلک اسٹاک ایکسچینج کی موجودہ صورتحال سے واضح ہوتی ہے۔
حالت یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج کے لیے اپریل 2019کا مہینہ گذشتہ 14برس کی تاریخ کا بدترین مہینہ ثابت ہوا ہے ۔ اس ماہ کے دوران مارکیٹ میں کاروبار کی رفتار میں سُستی اور شیئرز کی قیمتیں گرنے سے سرمایہ کاروں کے 363ارب روپے ڈوب گئے ہیں ۔ملک میں مہنگائی کا طوفان عوام کو دبوچ چکا ہے لیکن اُ س کے باوجود آئی ایم ایف ہے کہ کڑی سے کڑی شرائط کے حکم صادر کررہا ہے اور حکومتی بے بس ٹیم رعایت رعایت کی التجائی صدائیں کرتی نظر آرہی ہے ۔
عوام سوال کر رہے ہیں کہ کیا یہاں IMFکا حکم چلتا ہے؟ اور وہ سوچ رہے ہیں کہ یوں باربارکبھی جمہوری اداروں کی طرف تو کبھی غیرجمہوری اداروں کی طرف جاتے رہیں یا پھر سب مل کر آئی ایم ایف (IMF) کے پاس جاکر درخواست دیں کہ مائی باپ ! ہم پراور ہمارے حال پر رحم کریں ، اِ ن بھاری ٹیکسوں کو عائد نہ کریں ، گیس ، بجلی و پیٹرولیم کے نرخ نہ بڑھائیں اور ترقیاتی اسکیموں کے لیے قرض پر بیاج وغیرہ کی شرح کچھ کم کریں تاکہ بس ہم ہی آپ کے مقروض و غلام رہیں ، ہماری نسلوں تک یہ کہانی نہ جائے ۔! !!