میاں شہباز شریف کی سیاست
شہباز شریف اور ان کے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے سیاسی بیانئے میں واضح فرق نظر آ رہا ہے۔
میاں شہباز شریف ان دنوں علاج کی غرض سے لندن میں مقیم ہیں ، ان کی پاکستان سے روانگی کے وقت بھی پیشگوئیاں کی گئیں تھیں اور یہ پیشگوئیاں اب بھی زبان زد عام ہیں کہ میاں شہباز شریف طویل عرصے تک لندن میں قیام کریں گے، اس لیے انھوں نے قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا عہدہ چھوڑ دیا ہے اور اس عہدے پر مسلم لیگ نواز نے رانا تنویر کو چیئر مین نامزد کیا ہے۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ یہ وہی عہدہ ہے جو ایک طویل عرصہ تک صرف اس وجہ سے خالی رہا کہ حکومت کا یہ موقف تھا کہ شہباز شریف چونکہ عدالتوں میں بدعنوانی کے کیس بھگت رہے ہیں اس لیے اپوزیشن کی جانب سے ان کی جگہ کسی اور کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا جانا چاہیے لیکن اپوزیشن بضد رہی اور بالآ خر حکومت کو اپوزیشن کی شہباز شریف کی نامزدگی کی صورت میں کڑوی گولی کو قبول کرنا پڑی۔ اس نامزدگی پر بہت لے دے ہوئی ایک طرف تو شہباز شریف نیب میں مختلف مقدمات میں شامل تفتیش تھے تو دوسری طرف نیب کے نمایندوں کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کی عدالت میں طلب بھی کر لیا جاتا۔
یہ کھیل ابھی جاری تھا کہ یکایک نواز لیگ نے شہباز شریف سے کمیٹی کی چیئر مین شپ واپس لے کر دھماکہ کر دیا۔ ایک عمومی تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو پھر اس اہم عہدے کے لیے پہلے اتنا اصرار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
واقفان حال یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں شہباز شریف کو ان کے ڈاکٹرز اس بات کی اجازت نہیں دے رہے کہ وہ اپنی خراب صحت کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کریں۔ ان کے اہل خانہ جن میں ان کے چھوٹے صاحبزادے سلمان شہباز اور داماد جو پہلے سے ہی لندن میں مقیم ہیں وہ ان کو پاکستان واپسی کے سفر سے روک رہے ہیں ۔
معلوم یوں ہو رہا ہے کہ صورتحال کچھ ایسی بن رہی کہ شریف خاندان کا ایک حصہ تو لندن میں ہی مقیم رہے گا اور وہیں رہ کر اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ شریف خاندان کے خلاف مقدمات میں رعایتیں حاصل کی جائیں ۔ جہاں تک میں شہباز شریف کو جانتا ہوں وہ مقدمات اور مشکلات سے گھبرانے والے شخص نہیں ہیں بلکہ وہ عدالت میں اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں لیکن اگر ان کی صحت ان کے اس عزم کے آڑے آ گئی تو اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
دوسری طرف میاں شہباز شریف کی پبلک اکائونٹس کمیٹی سے اچانک علیحدگی نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے ۔ کیا پس پردہ کوئی ایسی ڈیل ہو چکی ہے جس کے تحت شریف خاندان وقتی طور پر سیاسی میدان سے آئوٹ کیا جا رہا ہے اور ان کی جگہ ماضی کی طرح ان کی دوسرے درجے کی قیادت پارٹی کی باگ دوڑ سنبھال رہی ہے ۔ میا ں نواز شریف بھی اپنی محدود ضمانتی عرصے کے دوران خاموش رہے ہیں ان کی سیاسی جانشین بیٹی کی جانب سے بھی حکومت پر تنقید سامنے نہیں آئی البتہ وہ اپنے ورکروں کے حوصلے بڑھانے کے لیے وقتاً فوقتاً بیان جاری کرتی رہی ہیں ۔
اب جب کہ میاں نواز شریف کی بیرون ملک علاج کی درخواست کو عدالت نے مسترد کر دیا ہے، اس پر ان کا کیا ردعمل سامنے آتا ہے اس کے بارے میں آیندہ چند دنوں میں معلوم ہو جائے گا۔ اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ میاں شہباز شریف کا موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے میں اپنا ایک الگ اور واضح موقف ہے اور ان کے اس موقف سے نواز شریف کی سربراہی میں شریف خاندان کو اتفاق نہیں ہے ۔ شہباز شریف حالات کو دیکھو اور اچھے وقت کا انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں اور انھوں نے اس پر عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
میاں شہباز شریف کی صلح جو شخصیت کی بدولت شریف خاندان کو ماضی میں کئی سہولتیں مل چکی ہیں اور اب بھی پس پردہ اگر کوئی معاملات چل رہے ہیں تو یہ ان کی سیاسی بصیرت کے سبب ہی ممکن ہو رہا ہے۔ شہباز شریف کبھی بھی مقتدر قوتوں سے ٹکرانے کے حق میں نہیں رہے بلکہ انھوں نے ہمیشہ ایک صلح جو کا کردار ہی ادا کیا ہے۔ اب بھی شریف خاندان کو اگر کوئی رعائت ملی تو اس کا مرکزی کردار شہباز شریف کی ذات ہی ہو گی کیونکہ میاں نواز شریف تو کسی صورت میں صلح کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ ٹکرائو کی سیاست کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس پر سختی سے قائم ہیں۔
میاں شہباز شریف کی سیاسی فہم و فراست کی بات کی جائے تو یہ بات روز روش کی طرح عیاں ہے کہ نواز لیگ کی حکومت کی کامیابی میں ان کا کلیدی کردار ہے ۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گزشتہ دس برس سے بلا شرکت غیرے حکمران رہے ہیں ، ان کی پارٹی مسلم لیگ نواز کا تمام تر دار و مدار صوبہ پنجاب کی سیاست پر ہے ۔ پنجاب سے ہی وہ جیت کر مرکز میں حکومت بنانے کے قابل ہوتے ہیں اور ابھی تک پنجاب میں ان کا ووٹ بینک محفوظ ہے اگرچہ لاہور سے دور دراز کے چند اضلاع میں ان کو گزشتہ انتخابات میں حمائت حاصل نہیں ہوئی تو وہ بھی ان کی اپنی پالیسیاں ہی تھیں جن کی وجہ سے لاہور سے دور رہنے والے ان سے بدظن ہو گئے کیونکہ ان کے اضلاع میں ترقیاقی کام نہیں ہوئے جس کا بدلہ انھوں نے عام انتخابات نواز لیگ کی مخالفت میں ووٹ ڈال کر لیا۔
بہر حال میاں شہباز شریف اور ان کے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے سیاسی بیانئے میں واضح فرق نظر آ رہا ہے۔ ایک بھائی صلح کی بات کرتا ہے تو دوسرا بھائی سیاست کے آخری دنوں میں کسی نظریئے کا پیرو کار نظر آتا ہے لیکن معلوم یوں ہوتا ہے کہ بڑے بھائی نے کسی بھی قسم کے مشورے کو ماننے کے بجائے اپنی نظریاتی سیاست کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس نظریاتی سیاست میں چھوٹے بھائی کی کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی ۔
میاں نواز شریف آنے والے دنوں میں ایک مختلف سیاست دان کے روپ میں نظر آئیں گے حالانکہ یہ وقت ان کی سیاست کے لیے موزوں نہیں، اس لیے ان کو فی الوقت سیاست سے دور رہ کر اپنے علاج معالجے پر توجہ دینی چاہیئے اور اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہیئے، اس سے قبل بھی وہ اسی طرح کے ملتے جلتے حالات کا شکار بن چکے ہیں لیکن وقت نے بدلنے میں دیر نہیں لگائی اور کل کے معتوب دوبارہ سے حکمران بن گئے تھے۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ یہ وہی عہدہ ہے جو ایک طویل عرصہ تک صرف اس وجہ سے خالی رہا کہ حکومت کا یہ موقف تھا کہ شہباز شریف چونکہ عدالتوں میں بدعنوانی کے کیس بھگت رہے ہیں اس لیے اپوزیشن کی جانب سے ان کی جگہ کسی اور کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا جانا چاہیے لیکن اپوزیشن بضد رہی اور بالآ خر حکومت کو اپوزیشن کی شہباز شریف کی نامزدگی کی صورت میں کڑوی گولی کو قبول کرنا پڑی۔ اس نامزدگی پر بہت لے دے ہوئی ایک طرف تو شہباز شریف نیب میں مختلف مقدمات میں شامل تفتیش تھے تو دوسری طرف نیب کے نمایندوں کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کی عدالت میں طلب بھی کر لیا جاتا۔
یہ کھیل ابھی جاری تھا کہ یکایک نواز لیگ نے شہباز شریف سے کمیٹی کی چیئر مین شپ واپس لے کر دھماکہ کر دیا۔ ایک عمومی تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو پھر اس اہم عہدے کے لیے پہلے اتنا اصرار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
واقفان حال یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں شہباز شریف کو ان کے ڈاکٹرز اس بات کی اجازت نہیں دے رہے کہ وہ اپنی خراب صحت کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کریں۔ ان کے اہل خانہ جن میں ان کے چھوٹے صاحبزادے سلمان شہباز اور داماد جو پہلے سے ہی لندن میں مقیم ہیں وہ ان کو پاکستان واپسی کے سفر سے روک رہے ہیں ۔
معلوم یوں ہو رہا ہے کہ صورتحال کچھ ایسی بن رہی کہ شریف خاندان کا ایک حصہ تو لندن میں ہی مقیم رہے گا اور وہیں رہ کر اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ شریف خاندان کے خلاف مقدمات میں رعایتیں حاصل کی جائیں ۔ جہاں تک میں شہباز شریف کو جانتا ہوں وہ مقدمات اور مشکلات سے گھبرانے والے شخص نہیں ہیں بلکہ وہ عدالت میں اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں لیکن اگر ان کی صحت ان کے اس عزم کے آڑے آ گئی تو اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
دوسری طرف میاں شہباز شریف کی پبلک اکائونٹس کمیٹی سے اچانک علیحدگی نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے ۔ کیا پس پردہ کوئی ایسی ڈیل ہو چکی ہے جس کے تحت شریف خاندان وقتی طور پر سیاسی میدان سے آئوٹ کیا جا رہا ہے اور ان کی جگہ ماضی کی طرح ان کی دوسرے درجے کی قیادت پارٹی کی باگ دوڑ سنبھال رہی ہے ۔ میا ں نواز شریف بھی اپنی محدود ضمانتی عرصے کے دوران خاموش رہے ہیں ان کی سیاسی جانشین بیٹی کی جانب سے بھی حکومت پر تنقید سامنے نہیں آئی البتہ وہ اپنے ورکروں کے حوصلے بڑھانے کے لیے وقتاً فوقتاً بیان جاری کرتی رہی ہیں ۔
اب جب کہ میاں نواز شریف کی بیرون ملک علاج کی درخواست کو عدالت نے مسترد کر دیا ہے، اس پر ان کا کیا ردعمل سامنے آتا ہے اس کے بارے میں آیندہ چند دنوں میں معلوم ہو جائے گا۔ اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ میاں شہباز شریف کا موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے میں اپنا ایک الگ اور واضح موقف ہے اور ان کے اس موقف سے نواز شریف کی سربراہی میں شریف خاندان کو اتفاق نہیں ہے ۔ شہباز شریف حالات کو دیکھو اور اچھے وقت کا انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں اور انھوں نے اس پر عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
میاں شہباز شریف کی صلح جو شخصیت کی بدولت شریف خاندان کو ماضی میں کئی سہولتیں مل چکی ہیں اور اب بھی پس پردہ اگر کوئی معاملات چل رہے ہیں تو یہ ان کی سیاسی بصیرت کے سبب ہی ممکن ہو رہا ہے۔ شہباز شریف کبھی بھی مقتدر قوتوں سے ٹکرانے کے حق میں نہیں رہے بلکہ انھوں نے ہمیشہ ایک صلح جو کا کردار ہی ادا کیا ہے۔ اب بھی شریف خاندان کو اگر کوئی رعائت ملی تو اس کا مرکزی کردار شہباز شریف کی ذات ہی ہو گی کیونکہ میاں نواز شریف تو کسی صورت میں صلح کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ ٹکرائو کی سیاست کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس پر سختی سے قائم ہیں۔
میاں شہباز شریف کی سیاسی فہم و فراست کی بات کی جائے تو یہ بات روز روش کی طرح عیاں ہے کہ نواز لیگ کی حکومت کی کامیابی میں ان کا کلیدی کردار ہے ۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گزشتہ دس برس سے بلا شرکت غیرے حکمران رہے ہیں ، ان کی پارٹی مسلم لیگ نواز کا تمام تر دار و مدار صوبہ پنجاب کی سیاست پر ہے ۔ پنجاب سے ہی وہ جیت کر مرکز میں حکومت بنانے کے قابل ہوتے ہیں اور ابھی تک پنجاب میں ان کا ووٹ بینک محفوظ ہے اگرچہ لاہور سے دور دراز کے چند اضلاع میں ان کو گزشتہ انتخابات میں حمائت حاصل نہیں ہوئی تو وہ بھی ان کی اپنی پالیسیاں ہی تھیں جن کی وجہ سے لاہور سے دور رہنے والے ان سے بدظن ہو گئے کیونکہ ان کے اضلاع میں ترقیاقی کام نہیں ہوئے جس کا بدلہ انھوں نے عام انتخابات نواز لیگ کی مخالفت میں ووٹ ڈال کر لیا۔
بہر حال میاں شہباز شریف اور ان کے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے سیاسی بیانئے میں واضح فرق نظر آ رہا ہے۔ ایک بھائی صلح کی بات کرتا ہے تو دوسرا بھائی سیاست کے آخری دنوں میں کسی نظریئے کا پیرو کار نظر آتا ہے لیکن معلوم یوں ہوتا ہے کہ بڑے بھائی نے کسی بھی قسم کے مشورے کو ماننے کے بجائے اپنی نظریاتی سیاست کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس نظریاتی سیاست میں چھوٹے بھائی کی کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی ۔
میاں نواز شریف آنے والے دنوں میں ایک مختلف سیاست دان کے روپ میں نظر آئیں گے حالانکہ یہ وقت ان کی سیاست کے لیے موزوں نہیں، اس لیے ان کو فی الوقت سیاست سے دور رہ کر اپنے علاج معالجے پر توجہ دینی چاہیئے اور اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہیئے، اس سے قبل بھی وہ اسی طرح کے ملتے جلتے حالات کا شکار بن چکے ہیں لیکن وقت نے بدلنے میں دیر نہیں لگائی اور کل کے معتوب دوبارہ سے حکمران بن گئے تھے۔