تنخواہ ملی نہ دیگر مراعات شہید پولیس افسروجوانوں کے ورثاء مصائب کا شکار
کیسز زیرالتواء، بچوںکی تعلیم اور گھر چلانا مشکل ہو گیا، وارثانِ شہدا
کمیوں و کوتاہیوں کے باوجود قانون کی بالادستی اور معاشرے سے جرائم کے خاتمے کے لیے پنجاب پولیس کی تاریخ لازوال قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے محکمہ پولیس میں ایک طرف جہاں اصلاحات کے حوالے سے کام ہو رہا ہے وہیں فرائض کی ادائیگی کے دوران جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے 4 اگست کو باقاعدہ طور پر یوم شہداء پولیس بھی منایا جاتا ہے۔ اسی طرح شہداء پیکیج کا بھی اعلان کیا گیا، جس کے تحت شہید کے ایک بیٹے کو محکمے میں ملازمت دینے سمیت 60 سال کی عمر تک مکمل تنخواہ اور اس کے بعد قانونی ورثہ کو مکمل پنشن کی فراہمی بھی شامل ہے۔
راولپنڈی میں بھی مارچ2018 ء سے لے کر مارچ 2019ء تک فرائض کی ادائیگی کے دوارن مختلف واقعات میں جرائم پیشہ عناصر سے مقابلہ کرتے ہوئے 8 پولیس افسران و اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ راولپنڈی پولیس نے ہر شہید ہونے والے آفیسر اور اہلکار کو بھرپور انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔
آئی جی پنجاب سے لے کر ماضی میں تعینات رہنے والے آر پی او راولپنڈی فیاض احمد دیو ہوں یا حالیہ تعینات آر پی او احمد اسحاق جہانگیر و سی پی او راولپنڈی عباس احسن سمیت ہر سطح پر ہر آفیسر نے مشکل وقت میں ورثاء کو ساتھ کھڑے رہنے کی یقین دہانی کرائی لیکن افسوسناک صورت حال اس وقت سامنے آئی، جب شہداء کے ورثاء کو یہ پتہ چلا کہ ان کے پیارے کو شہید قرار دینے کے کیسز تاحال زیرالتوا ہیں اور جب تک یہ کیس مکمل نہیں ہوتے اس وقت تک تنخواہ بھی بند رہے گی۔ اب شہداء کے ورثاء کسی طرح گزارا کر رہے ہیں، یہ وہ جانتے ہیں یا ان کا رب۔
راولپنڈی میں سال بھر کے دوران پیش آنے والے واقعات کاجائزہ لیا جائے تو کہوٹہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے کانسٹیبل محمد مظہر 23 مارچ 2018ء، سب انسپکڑ طارق سعید اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کشمیر روڈ کوٹلی ستیاں پر موجود تھے کہ چیکنگ کے دوران ایک گاڑی میں سوار پانچ افراد نے ان پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں محمد مظہر نے جام شہادت نوش کیا۔ جون 2018ء کے دوران ہی فرائض منصبی سرانجام دینے کے دوران گلستان کالونی کے رہائشی سٹی ٹریفک پولیس راولپنڈی کے ٹریفک وارڈن شاہد سرور نے اس وقت جام شہادت نوش کیا جب اقبال روڈ کمیٹی چوک کے قریب ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ہونے والی تلخ کلامی پر سوار عمران اور راجہ راعید نے فائرنگ کردی۔
تیسرے واقعہ میں کہوٹہ سے تعلق رکھنے والے پولیس کانسٹیبل محمد جمیل نے 24 جولائی 2018ء کو تھانہ پیرودھائی کے علاقے میں جرائم پیشہ عناصر سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہاد ت نوش کیا۔ چوتھا واقعہ یکم دسمبر 2018ء کو اس وقت پیش آیا، جب راولپنڈی تھانہ بنی میں تعینات ہیڈکانسٹیبل محمد عارف ساتھی اہلکاروں کے ہمراہ سید پور روڈ کالی ٹینکی پکٹ پر فرائض سرانجام دے رہے تھے کہ اصغرمال چوک کی جانب سے آنے والے موٹرسائیکل سواروں نے روکنے پر فائرنگ کردی، جس سے ہیڈکانسٹیبل محمد عارف اور کانسٹیبل واجد شدید زخمی ہوگئے اور بعدازاں محمد عارف زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔
پولیس اہلکار کی شہادت کا پانچواں واقعہ رواں سال کے آغاز کے دوران تھانہ واہ کینٹ کے علاقے میں پیش آیا۔ 10 جنوری 2019ء کو اے ایس ائی محمد ریاض منشیات فروشی کے گھناونے کاروبار میں ملوث ملزمان کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لئے ساتھی اہلکاروں کے ہمراہ چھاپہ مارنے گئے تو ملزمان سے آمنا سامنا ہوتے ہی قیصر رشید وغیرہ نے فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں اے ایس آئی محمد ریاض شہید ہو گئے جبکہ ملزمان منشیات چھوڑ کر فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوگئے۔ راولپنڈی پولیس کے افسران و اہلکاروں کی فرائض منصبی کی سرانجام دہی کے دوران جانوں کے نذرانے پیش کرکے لازال تاریخ رقم کرنے کا سلسلہ ابھی یہاں تھما نہیں۔
تھانہ صادق آباد کے علاقے میں 21 فروری 2019ء کو پتنگ بازی اور پتنگوں کی فروخت کی رو ک تھام کے لیے لگائی جانے والی پاپندی پر عملدرآمد کویقینی بنانے کے لئے ایک ساتھ تین پولیس افسران و اہلکاروں گوجرخان سے تعلق رکھنے والے کانسٹیبل محمد زعفران، ہیڈ کانسٹیبل ساجد محمود اور سب انسپکڑ محمد اکرم نے یکے بعد دیگر ے جام شہادت نوش کیا۔ مذکورہ واقعہ میں پیدل آنے والے مسلح ملزم نے سامنے سے آتی پولیس پارٹی پرفائرنگ کی تو تینوں افسر و اہلکار شہید ہو گئے۔
تنخواہ اور دیگر مراعات کی بندش کے حوالے سے ''ایکسپریس'' نے جام شہادت نوش کرنے والے سب انسپکڑ محمد اکرم کے بھائی محمد سفیان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ شہید سب انسپکڑ محمد اکرم کا بیٹا ایف اے پاس اور حافظ قرآن ہے۔ پہلے ہمیں کہاگیاکہ اس کو ا ے ایس آئی بھرتی کریںگے لیکن بعد میں یہ کہا جارہا ہے کہ بیٹے کوکمپیوٹر کورسز کروائیں اور چوہنگ (لاہور) جاکر محمد اکرم کے کاغذات بھی خود لے کر آئیں، پھر ٹیسٹ لیں گے۔ انھوں نے بتایاکہ محمد اکرم کی تنخواہ بھی نہیں ملی اور تمام تر صورت حال سے اہل خانہ پریشان ہیں۔
اسی طرح جام شہادت نوش کرنیوالے ہیڈکانسٹیبل ساجد محمود کے بھائی فیصل محمود نے بتایاکہ بھائی کی شہادت کے بعد صرف یہی کہا جارہا ہے کہ شہید ڈکلیئر کرنے کے حوالے سے کیس انڈر پراسزز ہے جبکہ تنخواہ وغیرہ بھی نہیں ملی اور تین بچوں کی تعلیمی اخراجات پورے کرنا بھی مسئلہ بن چکا ہے۔ کانسٹیبل جمیل احمد کے بھائی محمد طفیل سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ شہید کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، انہیں نہ تو تنخواہ مل رہی ہے اور نہ ہی مراعات، ورثاء گھر کا گزر اوقات والد کی پنشن پر کر رہے ہیں۔
کانسٹیبل زعفران کے لواحقین میں سے چوہدری شبیر نے بتایاکہ زعفران کی پانچ سالہ بیٹی اور ایک تین سالہ بیٹا ہے جبکہ محکمہ کی طرف سے انہیں کچھ نہیں دیا جا رہا۔ ادھر اس حوالے سے راولپنڈی پولیس کے آفیسر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایاکہ شہداء ڈکلیئر کرنے کے حوالے سے باقاعدہ طریقہ کار ہے، جس کے مطابق جس ضلع میں واقعہ ہوتا ہے تو وہاں کی ضلعی پولیس سربراہ کمیٹی کیس تیار کرکے آئی جی آفس لاہور بجھواتی ہے، پھر وہاں پر بھی اعلی سطح پر جائزہ لے کر تمام کیسز منظوری کے لیے صوبائی سطح پر قائم اعلی سطحی کمیٹی کو بجھوائے جاتے ہیں، جہاں سے حکومت منظوری دیتی ہے، جس کے بعد شہید ڈکلیئر ہونے والے پولیس آفیسر و اہلکارکے ورثاء کو تنخواہیں اور دیگر مراعات ملتی ہیں۔
حکومت کی طرف سے شہدا کے ورثاء کی آسانی کے لئے بڑے بڑے پیکیجز کے اعلانات بلاشبہ ایک احسن اقدام ہے، لیکن ان پر عملدرآمد کے لئے بنائے جانے والے عمل کو اتنا مشکل بنا کر شہداء کے ورثاء کو مزید مصائب کا شکار کیا جانا درست امر نہیں، لہذا اس عمل کو آسان بنایا جائے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے محکمہ پولیس میں ایک طرف جہاں اصلاحات کے حوالے سے کام ہو رہا ہے وہیں فرائض کی ادائیگی کے دوران جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے 4 اگست کو باقاعدہ طور پر یوم شہداء پولیس بھی منایا جاتا ہے۔ اسی طرح شہداء پیکیج کا بھی اعلان کیا گیا، جس کے تحت شہید کے ایک بیٹے کو محکمے میں ملازمت دینے سمیت 60 سال کی عمر تک مکمل تنخواہ اور اس کے بعد قانونی ورثہ کو مکمل پنشن کی فراہمی بھی شامل ہے۔
راولپنڈی میں بھی مارچ2018 ء سے لے کر مارچ 2019ء تک فرائض کی ادائیگی کے دوارن مختلف واقعات میں جرائم پیشہ عناصر سے مقابلہ کرتے ہوئے 8 پولیس افسران و اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ راولپنڈی پولیس نے ہر شہید ہونے والے آفیسر اور اہلکار کو بھرپور انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔
آئی جی پنجاب سے لے کر ماضی میں تعینات رہنے والے آر پی او راولپنڈی فیاض احمد دیو ہوں یا حالیہ تعینات آر پی او احمد اسحاق جہانگیر و سی پی او راولپنڈی عباس احسن سمیت ہر سطح پر ہر آفیسر نے مشکل وقت میں ورثاء کو ساتھ کھڑے رہنے کی یقین دہانی کرائی لیکن افسوسناک صورت حال اس وقت سامنے آئی، جب شہداء کے ورثاء کو یہ پتہ چلا کہ ان کے پیارے کو شہید قرار دینے کے کیسز تاحال زیرالتوا ہیں اور جب تک یہ کیس مکمل نہیں ہوتے اس وقت تک تنخواہ بھی بند رہے گی۔ اب شہداء کے ورثاء کسی طرح گزارا کر رہے ہیں، یہ وہ جانتے ہیں یا ان کا رب۔
راولپنڈی میں سال بھر کے دوران پیش آنے والے واقعات کاجائزہ لیا جائے تو کہوٹہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے کانسٹیبل محمد مظہر 23 مارچ 2018ء، سب انسپکڑ طارق سعید اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کشمیر روڈ کوٹلی ستیاں پر موجود تھے کہ چیکنگ کے دوران ایک گاڑی میں سوار پانچ افراد نے ان پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں محمد مظہر نے جام شہادت نوش کیا۔ جون 2018ء کے دوران ہی فرائض منصبی سرانجام دینے کے دوران گلستان کالونی کے رہائشی سٹی ٹریفک پولیس راولپنڈی کے ٹریفک وارڈن شاہد سرور نے اس وقت جام شہادت نوش کیا جب اقبال روڈ کمیٹی چوک کے قریب ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ہونے والی تلخ کلامی پر سوار عمران اور راجہ راعید نے فائرنگ کردی۔
تیسرے واقعہ میں کہوٹہ سے تعلق رکھنے والے پولیس کانسٹیبل محمد جمیل نے 24 جولائی 2018ء کو تھانہ پیرودھائی کے علاقے میں جرائم پیشہ عناصر سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہاد ت نوش کیا۔ چوتھا واقعہ یکم دسمبر 2018ء کو اس وقت پیش آیا، جب راولپنڈی تھانہ بنی میں تعینات ہیڈکانسٹیبل محمد عارف ساتھی اہلکاروں کے ہمراہ سید پور روڈ کالی ٹینکی پکٹ پر فرائض سرانجام دے رہے تھے کہ اصغرمال چوک کی جانب سے آنے والے موٹرسائیکل سواروں نے روکنے پر فائرنگ کردی، جس سے ہیڈکانسٹیبل محمد عارف اور کانسٹیبل واجد شدید زخمی ہوگئے اور بعدازاں محمد عارف زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔
پولیس اہلکار کی شہادت کا پانچواں واقعہ رواں سال کے آغاز کے دوران تھانہ واہ کینٹ کے علاقے میں پیش آیا۔ 10 جنوری 2019ء کو اے ایس ائی محمد ریاض منشیات فروشی کے گھناونے کاروبار میں ملوث ملزمان کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لئے ساتھی اہلکاروں کے ہمراہ چھاپہ مارنے گئے تو ملزمان سے آمنا سامنا ہوتے ہی قیصر رشید وغیرہ نے فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں اے ایس آئی محمد ریاض شہید ہو گئے جبکہ ملزمان منشیات چھوڑ کر فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوگئے۔ راولپنڈی پولیس کے افسران و اہلکاروں کی فرائض منصبی کی سرانجام دہی کے دوران جانوں کے نذرانے پیش کرکے لازال تاریخ رقم کرنے کا سلسلہ ابھی یہاں تھما نہیں۔
تھانہ صادق آباد کے علاقے میں 21 فروری 2019ء کو پتنگ بازی اور پتنگوں کی فروخت کی رو ک تھام کے لیے لگائی جانے والی پاپندی پر عملدرآمد کویقینی بنانے کے لئے ایک ساتھ تین پولیس افسران و اہلکاروں گوجرخان سے تعلق رکھنے والے کانسٹیبل محمد زعفران، ہیڈ کانسٹیبل ساجد محمود اور سب انسپکڑ محمد اکرم نے یکے بعد دیگر ے جام شہادت نوش کیا۔ مذکورہ واقعہ میں پیدل آنے والے مسلح ملزم نے سامنے سے آتی پولیس پارٹی پرفائرنگ کی تو تینوں افسر و اہلکار شہید ہو گئے۔
تنخواہ اور دیگر مراعات کی بندش کے حوالے سے ''ایکسپریس'' نے جام شہادت نوش کرنے والے سب انسپکڑ محمد اکرم کے بھائی محمد سفیان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ شہید سب انسپکڑ محمد اکرم کا بیٹا ایف اے پاس اور حافظ قرآن ہے۔ پہلے ہمیں کہاگیاکہ اس کو ا ے ایس آئی بھرتی کریںگے لیکن بعد میں یہ کہا جارہا ہے کہ بیٹے کوکمپیوٹر کورسز کروائیں اور چوہنگ (لاہور) جاکر محمد اکرم کے کاغذات بھی خود لے کر آئیں، پھر ٹیسٹ لیں گے۔ انھوں نے بتایاکہ محمد اکرم کی تنخواہ بھی نہیں ملی اور تمام تر صورت حال سے اہل خانہ پریشان ہیں۔
اسی طرح جام شہادت نوش کرنیوالے ہیڈکانسٹیبل ساجد محمود کے بھائی فیصل محمود نے بتایاکہ بھائی کی شہادت کے بعد صرف یہی کہا جارہا ہے کہ شہید ڈکلیئر کرنے کے حوالے سے کیس انڈر پراسزز ہے جبکہ تنخواہ وغیرہ بھی نہیں ملی اور تین بچوں کی تعلیمی اخراجات پورے کرنا بھی مسئلہ بن چکا ہے۔ کانسٹیبل جمیل احمد کے بھائی محمد طفیل سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ شہید کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، انہیں نہ تو تنخواہ مل رہی ہے اور نہ ہی مراعات، ورثاء گھر کا گزر اوقات والد کی پنشن پر کر رہے ہیں۔
کانسٹیبل زعفران کے لواحقین میں سے چوہدری شبیر نے بتایاکہ زعفران کی پانچ سالہ بیٹی اور ایک تین سالہ بیٹا ہے جبکہ محکمہ کی طرف سے انہیں کچھ نہیں دیا جا رہا۔ ادھر اس حوالے سے راولپنڈی پولیس کے آفیسر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایاکہ شہداء ڈکلیئر کرنے کے حوالے سے باقاعدہ طریقہ کار ہے، جس کے مطابق جس ضلع میں واقعہ ہوتا ہے تو وہاں کی ضلعی پولیس سربراہ کمیٹی کیس تیار کرکے آئی جی آفس لاہور بجھواتی ہے، پھر وہاں پر بھی اعلی سطح پر جائزہ لے کر تمام کیسز منظوری کے لیے صوبائی سطح پر قائم اعلی سطحی کمیٹی کو بجھوائے جاتے ہیں، جہاں سے حکومت منظوری دیتی ہے، جس کے بعد شہید ڈکلیئر ہونے والے پولیس آفیسر و اہلکارکے ورثاء کو تنخواہیں اور دیگر مراعات ملتی ہیں۔
حکومت کی طرف سے شہدا کے ورثاء کی آسانی کے لئے بڑے بڑے پیکیجز کے اعلانات بلاشبہ ایک احسن اقدام ہے، لیکن ان پر عملدرآمد کے لئے بنائے جانے والے عمل کو اتنا مشکل بنا کر شہداء کے ورثاء کو مزید مصائب کا شکار کیا جانا درست امر نہیں، لہذا اس عمل کو آسان بنایا جائے۔