حیّیٰ علی الفلاح کی پکار
الحمدﷲ۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک کئی ایسے دوست اور تنظیمیں یاد آ رہی ہیں
چند دن پہلے مجھے مولانا محمد اسحق مرحوم و مغفور کے پنجابی زبان میں ریکارڈ شدہ کئی لیکچرز سُننے کی سعادت نصیب ہُوئی ہے ۔ ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔آپ اہلِ حدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے لیکن فراخ دل اور وسیع الذہن اتنے کہ امام احمد رضا خان بریلوی علیہ رحمہ کو ''اعلیٰ حضرت'' کے نام سے یاد کرتے اور اُن کی علمی فضیلت کو تہِ دل سے مانتے تھے۔
رمضان المبارک بارے اُن کا ایک خطبہ سُن کردل کی عجب حالت ہُوئی ۔ مولانا اسحق صاحب لیکچر مذکور میں بتاتے ہیں کہ اﷲ کے آخری نبی ﷺ یوں تو سارا سال ہی بے پناہ خیرات اور سخاوت فرماتے تھے لیکن رمضان کی آمد کے موقع پر تو سرکارِ دو عالمؐ کی فیاضیوں اور سخاوتوں کی کوئی حد ہی نہ رہتی تھی۔ اب پھر رمضان شریف کی آمد آمد ہے ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ ، گروہ اور جماعتیں جو اس با برکت مہینے کی سعادتوں کو سمیٹنے کے لیے بیقرار ہیں ۔ اہلِ پاکستان خیراتی اور فلاحی کاموں کے حوالے سے دُنیا بھر میں سرِفہرست شمار کیے جاتے ہیں۔
الحمدﷲ۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک کئی ایسے دوست اور تنظیمیں یاد آ رہی ہیں جو رمضان شریف میں خاموشی سے خود محتاجوں کے پاس پہنچ کر اُن کی دستگیری کرتے ہیں۔ برطانیہ میں بروئے کار ایک پاکستانی نژاد نوجوان کی ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹر نیشنل'' بھی ایسی ہی تنظیموں میں شمار ہوتی ہے جس نے اپنی تمام ممکنہ توانائیوں ، کوششوں اور جملہ وسائل کو بنی نوعِ انسان کے دکھ درد بانٹنے میں جھونک دیا ہے ۔ لوگ برطانیہ پہنچ کر ذاتی، مالی مفادات سمیٹنے میں مگن ہو جاتے ہیں اور عبدالرزاق ساجد برطانیہ پہنچ کر نیکیاں اور دعائیں سمیٹنے میں لگ گئے ۔
وہ پچھلے 13برس سے مسلسل اِسی دُھن میں مگن ہیں۔ ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل'' کے پرچم تلے انھوں نے اور اُن کی اہلیہ محترمہ نے زندگی بتا دی ہے ۔ اپنا تو شائد وہ کچھ نہیں بنا سکے لیکن محنت اور توجہ سے ایک ایسا ادارہ بنانے میں کامیاب ضرور ہُوئے ہیں جس کی اعانت کاری کا دائرہ اب پاکستان ، بنگلہ دیش اور برما کے ساتھ ساتھ افریقی ممالک تک پھیل چکا ہے۔پاکستان میں وہ طبقات جو غربت و عسرت کی وجہ سے آنکھوں کے شدید امراض کا علاج نہیں کروا سکتے، عبدالرزاق ساجد کے ادارے نے ایسے ہزاروں مریضوںکی دستگیری کی ہے۔ یوں تو سارا سال ہی وہ ضرورتمندوں کی خدمت میں جُتے رہتے ہیں لیکن رمضان شریف میں اُ ن کی خدمات کا حجم بڑھ اور دائرہ مزید پھیل جاتا ہے۔ ڈونیشنز دینے والے بھی اِسی مہینے اُن کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔
''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹر نیشنل'' دراصل معروف عالمِ دین اور مشہور سیاستدان حاجی حنیف طیب کے ایک چیریٹی ادارے '' المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی'' کے بطن سے برآمد ہُوئی ۔ خیر و فلاح سے جڑی یہ دونوں تنظیمیں مولانا شاہ احمد نورانی ؒ اور مولانا عبدالستار خان نیازی ؒسے محبت و عقیدت رکھتی ہیں۔ حاجی صاحب اور عبد الرزاق ساجد صاحب کو بھی اِسی محبت نے یک جان و دو قالب بنا رکھا ہے۔ حاجی حنیف طیب صاحب کی تنظیم کی عمر اب 36 سال ہو چکی ہے۔
حالیہ برسوں میں ساجد صاحب کی ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ ''نے برما اور بنگلہ دیش میں مظلوموں کی دستگیری کرنے میں نئی اور انوکھی مثالیں قائم کی ہیں ۔ ساجد صاحب اور اُن کی مذکورہ تنظیم شائد دُنیا کی پہلی چیریٹی آرگنائزیشن ہے جو برما کے مظلوم ، مقہور اور مہاجر مسلمانوں ( روہنگیا) کی مدد کرنے کے لیے سب سے پہلے میانمار اور بنگلہ دیش کے کاکسز بازار پہنچی ۔ ابھی مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی برما (میانمار) سے لاکھوں کی تعداد میں بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کا سلسلہ شروع بھی نہیں ہُوا تھا کہ عبدالرزاق ساجد برما کے دارالحکومت (رنگون) پہنچ گئے تھے۔ رنگون سے بہت دُور اُن جنگلوں میں روہنگیا کے پاس پہنچے جنہیں برمی آمر حکمرانوں نے جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ ساجد صاحب نے جان جوکھوں میں ڈال کر روہنگیا مسلمان مردوں ، عورتوں اور معصوم بچوںمیں خوراک کے تھیلے تقسیم کرنا شروع کیے۔ پینے کا صاف پانی بھی ساتھ لے گئے۔ بیماروں کے لیے ادویات بھی فراہم کیں ۔ وہ اب تک درجن بار برما جا چکے ہیں ۔
چونکہ اُن کے ہاتھ اور دل صاف ہیں ، اس لیے روہنگیا مسلمانوں کی بار بار مدد کرنے اور اُن کے علاقوں میں پہنچنے کے باوجود وہ سخت برمی انتظامیہ کی نظروں میں مشکوک قرار نہیں دیے گئے ۔ ساجد صاحب امداد و اعانت کی یہ ایڈونچرس داستانیں سناتے ہیں تو اُن کی آنکھیں کبھی اشکوں سے بھر آتی ہیں اور کبھی شکرانے کے طور پر مسرت سے چھلک اُٹھتی ہیں ۔ روہنگیا کی مدد کرنے کے لیے دو ایک بار ساجد صاحب کے ساتھ مشہور پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان سیاستدان لارڈ نذیر احمد صاحب بھی اُن کے ہمسفر بنے ۔
لاکھوںروہنگیا مسلمان مہاجر بن کر بنگلہ دیش کے ساحلی علاقے، کاکسز بازار ، پہنچنے لگے تو عبدالرزاق ساجد اور اُن کی تنظیم '' المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل'' بھی کا کسز بازار پہنچ گئے ۔ خور و نوش کا سامان، دوائیاں، سر چھپانے کے لیے ہزاروں خیمے ، پانی نکالنے کے لیے سیکڑوں ہینڈ پمپ، حاملہ خواتین کی زندگی بچانے والی ادویات ، بچوں کے لیے ابتدائی تعلیم کی کتابیں روہنگیا مسلمانوں کو فراہم کر چکے ہیں۔دُنیا توتیزی سے روہنگیا والوں کو بھُول رہی ہے ۔
حسینہ واجد بھی پھر سے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بن کر روہنگیاسے تقریباً غیر متعلق ہو چکی ہیں لیکن عبدالرزاق بھُولے ہیں نہ اُن کی تنظیم ۔ ابھی چند دن پہلے بھی وہ کاکسز بازار اور دُور ایک جزیرائی علاقے میں مہاجر روہنگیا مسلمانوں میں 20ہزار برطانوی پونڈ کی مالیت کا رمضان پیکیج تقسیم کرکے آئے ہیں۔ کہنے لگے:''ہم اُن بیچاروں اور بیکسوں کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ بس ایک معمولی سی خدمت ہے کہ کم از کم رمضان المبارک تو اُن کا نسبتاً آسانی سے گزر جائے۔'' انھوںنے مجھے بتایا کہ وہ اب تک برما اور کاکسز بازار میں روہنگیا مسلمانوں کی امداد کی مَد میں دس لاکھ پونڈ ( تقریبا 17کروڑ روپے) کا مختلف النوع سامان تقسیم کر چکے ہیں۔ اس امداد میںبرطانوی مسلمانوں کے عطیات کا مرکزی حصہ ہے ۔ عبدالرزاق ساجد صاحب نے اپنی تنظیم تلے اِس رمضان شریف کے لیے ایک نیا پروگرام شروع کیا ہے اور اسے ''حیّیٰ علی الفلاح'' کا نام دیاہے ۔ بہت سے لوگ فلاح کی اس پکار میں دامے درمے حصہ لے رہے ہیں ۔اُن کا کہنا ہے کہ حیٰ علی الفلاح کی یہ کال رمضان بھر جاری رہے گی۔
ساجد صاحب کی اعانتی مہمات ملائشیا تک بھی جا پہنچی ہیں ۔ چند ماہ پہلے ملائشیا میں سونامی آیا تو ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ'' کے چیئرمین سب سے پہلے خور و نوش کا سامان اور خیمے لے کر وہاں پہنچے۔ اپنے آبائی وطن ، پاکستان ،میں اُن کا ادارہ 88ہزار کی تعداد میں غریب آنکھوں کے مریضوں کو نئی روشنی دے کر اﷲکے حضور شکر بجا لا چکا ہے۔ساجد صاحب کہتے ہیں : انشاء اﷲ اگلے سال کے اختتام تک وہ پاکستان میںایک لاکھ تک ضرورتمند مریضوں کی آنکھوں کے آپریشن کروانے میں کامیاب ہو جائیںگے ۔ کراچی میں وہ بے آسرا خواتین کے لیے '' گوشہ سیدہ فاطمہ'' اور ضعیف و بے سہارامردوں کے لیے ''گوشہ سیدناامیر حمزہ'' تعمیر کروا چکے ہیں۔ دونوں گوشوں کی جملہ ذمے داریاں نبھانے کی کوشش کررہے ہیں۔اُن کے مالی تعاون سے کچھ غریب طلبا نے میڈیکل اور انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی ہے۔ عبدالرزاق ساجد صاحب کچھ نہیں چاہتے۔ رمضان المبارک میں بس اپنے اﷲکی رضا، دوستوں کی دعائیں اور تعاون چاہتے ہیں۔ ہماری دعائیں بھی اُن کے ساتھ ہیں ۔
رمضان المبارک بارے اُن کا ایک خطبہ سُن کردل کی عجب حالت ہُوئی ۔ مولانا اسحق صاحب لیکچر مذکور میں بتاتے ہیں کہ اﷲ کے آخری نبی ﷺ یوں تو سارا سال ہی بے پناہ خیرات اور سخاوت فرماتے تھے لیکن رمضان کی آمد کے موقع پر تو سرکارِ دو عالمؐ کی فیاضیوں اور سخاوتوں کی کوئی حد ہی نہ رہتی تھی۔ اب پھر رمضان شریف کی آمد آمد ہے ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ ، گروہ اور جماعتیں جو اس با برکت مہینے کی سعادتوں کو سمیٹنے کے لیے بیقرار ہیں ۔ اہلِ پاکستان خیراتی اور فلاحی کاموں کے حوالے سے دُنیا بھر میں سرِفہرست شمار کیے جاتے ہیں۔
الحمدﷲ۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک کئی ایسے دوست اور تنظیمیں یاد آ رہی ہیں جو رمضان شریف میں خاموشی سے خود محتاجوں کے پاس پہنچ کر اُن کی دستگیری کرتے ہیں۔ برطانیہ میں بروئے کار ایک پاکستانی نژاد نوجوان کی ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹر نیشنل'' بھی ایسی ہی تنظیموں میں شمار ہوتی ہے جس نے اپنی تمام ممکنہ توانائیوں ، کوششوں اور جملہ وسائل کو بنی نوعِ انسان کے دکھ درد بانٹنے میں جھونک دیا ہے ۔ لوگ برطانیہ پہنچ کر ذاتی، مالی مفادات سمیٹنے میں مگن ہو جاتے ہیں اور عبدالرزاق ساجد برطانیہ پہنچ کر نیکیاں اور دعائیں سمیٹنے میں لگ گئے ۔
وہ پچھلے 13برس سے مسلسل اِسی دُھن میں مگن ہیں۔ ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل'' کے پرچم تلے انھوں نے اور اُن کی اہلیہ محترمہ نے زندگی بتا دی ہے ۔ اپنا تو شائد وہ کچھ نہیں بنا سکے لیکن محنت اور توجہ سے ایک ایسا ادارہ بنانے میں کامیاب ضرور ہُوئے ہیں جس کی اعانت کاری کا دائرہ اب پاکستان ، بنگلہ دیش اور برما کے ساتھ ساتھ افریقی ممالک تک پھیل چکا ہے۔پاکستان میں وہ طبقات جو غربت و عسرت کی وجہ سے آنکھوں کے شدید امراض کا علاج نہیں کروا سکتے، عبدالرزاق ساجد کے ادارے نے ایسے ہزاروں مریضوںکی دستگیری کی ہے۔ یوں تو سارا سال ہی وہ ضرورتمندوں کی خدمت میں جُتے رہتے ہیں لیکن رمضان شریف میں اُ ن کی خدمات کا حجم بڑھ اور دائرہ مزید پھیل جاتا ہے۔ ڈونیشنز دینے والے بھی اِسی مہینے اُن کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔
''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹر نیشنل'' دراصل معروف عالمِ دین اور مشہور سیاستدان حاجی حنیف طیب کے ایک چیریٹی ادارے '' المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی'' کے بطن سے برآمد ہُوئی ۔ خیر و فلاح سے جڑی یہ دونوں تنظیمیں مولانا شاہ احمد نورانی ؒ اور مولانا عبدالستار خان نیازی ؒسے محبت و عقیدت رکھتی ہیں۔ حاجی صاحب اور عبد الرزاق ساجد صاحب کو بھی اِسی محبت نے یک جان و دو قالب بنا رکھا ہے۔ حاجی حنیف طیب صاحب کی تنظیم کی عمر اب 36 سال ہو چکی ہے۔
حالیہ برسوں میں ساجد صاحب کی ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ ''نے برما اور بنگلہ دیش میں مظلوموں کی دستگیری کرنے میں نئی اور انوکھی مثالیں قائم کی ہیں ۔ ساجد صاحب اور اُن کی مذکورہ تنظیم شائد دُنیا کی پہلی چیریٹی آرگنائزیشن ہے جو برما کے مظلوم ، مقہور اور مہاجر مسلمانوں ( روہنگیا) کی مدد کرنے کے لیے سب سے پہلے میانمار اور بنگلہ دیش کے کاکسز بازار پہنچی ۔ ابھی مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی برما (میانمار) سے لاکھوں کی تعداد میں بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کا سلسلہ شروع بھی نہیں ہُوا تھا کہ عبدالرزاق ساجد برما کے دارالحکومت (رنگون) پہنچ گئے تھے۔ رنگون سے بہت دُور اُن جنگلوں میں روہنگیا کے پاس پہنچے جنہیں برمی آمر حکمرانوں نے جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ ساجد صاحب نے جان جوکھوں میں ڈال کر روہنگیا مسلمان مردوں ، عورتوں اور معصوم بچوںمیں خوراک کے تھیلے تقسیم کرنا شروع کیے۔ پینے کا صاف پانی بھی ساتھ لے گئے۔ بیماروں کے لیے ادویات بھی فراہم کیں ۔ وہ اب تک درجن بار برما جا چکے ہیں ۔
چونکہ اُن کے ہاتھ اور دل صاف ہیں ، اس لیے روہنگیا مسلمانوں کی بار بار مدد کرنے اور اُن کے علاقوں میں پہنچنے کے باوجود وہ سخت برمی انتظامیہ کی نظروں میں مشکوک قرار نہیں دیے گئے ۔ ساجد صاحب امداد و اعانت کی یہ ایڈونچرس داستانیں سناتے ہیں تو اُن کی آنکھیں کبھی اشکوں سے بھر آتی ہیں اور کبھی شکرانے کے طور پر مسرت سے چھلک اُٹھتی ہیں ۔ روہنگیا کی مدد کرنے کے لیے دو ایک بار ساجد صاحب کے ساتھ مشہور پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان سیاستدان لارڈ نذیر احمد صاحب بھی اُن کے ہمسفر بنے ۔
لاکھوںروہنگیا مسلمان مہاجر بن کر بنگلہ دیش کے ساحلی علاقے، کاکسز بازار ، پہنچنے لگے تو عبدالرزاق ساجد اور اُن کی تنظیم '' المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل'' بھی کا کسز بازار پہنچ گئے ۔ خور و نوش کا سامان، دوائیاں، سر چھپانے کے لیے ہزاروں خیمے ، پانی نکالنے کے لیے سیکڑوں ہینڈ پمپ، حاملہ خواتین کی زندگی بچانے والی ادویات ، بچوں کے لیے ابتدائی تعلیم کی کتابیں روہنگیا مسلمانوں کو فراہم کر چکے ہیں۔دُنیا توتیزی سے روہنگیا والوں کو بھُول رہی ہے ۔
حسینہ واجد بھی پھر سے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بن کر روہنگیاسے تقریباً غیر متعلق ہو چکی ہیں لیکن عبدالرزاق بھُولے ہیں نہ اُن کی تنظیم ۔ ابھی چند دن پہلے بھی وہ کاکسز بازار اور دُور ایک جزیرائی علاقے میں مہاجر روہنگیا مسلمانوں میں 20ہزار برطانوی پونڈ کی مالیت کا رمضان پیکیج تقسیم کرکے آئے ہیں۔ کہنے لگے:''ہم اُن بیچاروں اور بیکسوں کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ بس ایک معمولی سی خدمت ہے کہ کم از کم رمضان المبارک تو اُن کا نسبتاً آسانی سے گزر جائے۔'' انھوںنے مجھے بتایا کہ وہ اب تک برما اور کاکسز بازار میں روہنگیا مسلمانوں کی امداد کی مَد میں دس لاکھ پونڈ ( تقریبا 17کروڑ روپے) کا مختلف النوع سامان تقسیم کر چکے ہیں۔ اس امداد میںبرطانوی مسلمانوں کے عطیات کا مرکزی حصہ ہے ۔ عبدالرزاق ساجد صاحب نے اپنی تنظیم تلے اِس رمضان شریف کے لیے ایک نیا پروگرام شروع کیا ہے اور اسے ''حیّیٰ علی الفلاح'' کا نام دیاہے ۔ بہت سے لوگ فلاح کی اس پکار میں دامے درمے حصہ لے رہے ہیں ۔اُن کا کہنا ہے کہ حیٰ علی الفلاح کی یہ کال رمضان بھر جاری رہے گی۔
ساجد صاحب کی اعانتی مہمات ملائشیا تک بھی جا پہنچی ہیں ۔ چند ماہ پہلے ملائشیا میں سونامی آیا تو ''المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ'' کے چیئرمین سب سے پہلے خور و نوش کا سامان اور خیمے لے کر وہاں پہنچے۔ اپنے آبائی وطن ، پاکستان ،میں اُن کا ادارہ 88ہزار کی تعداد میں غریب آنکھوں کے مریضوں کو نئی روشنی دے کر اﷲکے حضور شکر بجا لا چکا ہے۔ساجد صاحب کہتے ہیں : انشاء اﷲ اگلے سال کے اختتام تک وہ پاکستان میںایک لاکھ تک ضرورتمند مریضوں کی آنکھوں کے آپریشن کروانے میں کامیاب ہو جائیںگے ۔ کراچی میں وہ بے آسرا خواتین کے لیے '' گوشہ سیدہ فاطمہ'' اور ضعیف و بے سہارامردوں کے لیے ''گوشہ سیدناامیر حمزہ'' تعمیر کروا چکے ہیں۔ دونوں گوشوں کی جملہ ذمے داریاں نبھانے کی کوشش کررہے ہیں۔اُن کے مالی تعاون سے کچھ غریب طلبا نے میڈیکل اور انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی ہے۔ عبدالرزاق ساجد صاحب کچھ نہیں چاہتے۔ رمضان المبارک میں بس اپنے اﷲکی رضا، دوستوں کی دعائیں اور تعاون چاہتے ہیں۔ ہماری دعائیں بھی اُن کے ساتھ ہیں ۔