منتخب اور غیر منتخب کی جنگ

بیروزگاری اور صحافت کی قدروں کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے مزید مشکل دکھائی دیتی ہے

Warza10@hotmail.com

LONDON/BRITISH PAEDOPHILE:
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کی قرارداد کو منظورکیا جا چکا ہے، جس سے خطے میں چین کے زائل سمجھے جانے والے اثرکو ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اس مشکل صورتحال میں خارجہ امورکی سطح پر پاکستان ایک ایسی کشمکش میں ڈال دیا گیا ہے جہاں سے نکلنا موجودہ حکومت کے لیے جہاں مشکل ہے وہیں اب مسعود اظہرکو اپنی حراست سے آزاد کرکے عالمی طاقتوں کے حوالے کرنا بھی ایک کڑا امتحان ہے ۔ اس گھمبیر صورتحال سے موجودہ حکومت کس طرح عالمی دباؤ سے خود کو بچا سکتی ہے، ایسی پیچیدہ صورتحال میں آزاد میڈیا اور اس کی آزاد سوچ ایک اہم کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے جو بد قسمتی سے موجودہ حکومت کے دور میں صحافیوں کی منظم انداز سے بیروزگاری اور صحافت کی قدروں کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے مزید مشکل دکھائی دیتی ہے۔

اس تناظر میں صحافت کے مرد آہن سینئر صحافی آئی اے رحمان کا '' عالمی صحافتی یوم'' کے موقعے پرکراچی یونین آف جرنلسٹس کی تقریب میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ن لیگ کے شعلہ بیان مقرر رہنما مشاہد اللہ کی موجودگی میں یہ بیانیہ بہت اہم ہے کہ'' موجودہ حکومت کسی طور صحافت اور صحافی کو اظہارکی آزادی دینے میں سنجیدہ نہیں جو از خود مملکت کے مضبوط اور غیر جانبدار بیانیے کے لیے مشکل سوال ہے۔''کراچی پریس کلب میں آئی اے رحمان کے یو جے کے صدر اشرف خان اور سیکریٹری احمد ملک کی خصوصی دعوت پر لاہور سے تشریف لائے تھے نے انکشاف کیا کہ'' موجودہ حکومت ایک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے صحافت کی تمام اصناف اور بطور خاص ''الیکٹرونک میڈیا'' کو کنٹرول کرنے کے نئے منصوبے پر عمل کروانے کی کوششوں میں نہ مصروف ہے بلکہ صحافتی اظہارکو مزید نوکر شاہی کے گورکھ دھندوں سے قید کرنے کی روش پر گامزن ہے۔

آئی اے رحمان کے یو جے اور دیگر معروف صحافیوں کی اس دلیل کو ن لیگ کے مشاہد اللہ سمیت پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری نے نہ صرف درست قرار دیا بلکہ وعدہ کیا کہ ان کی جماعتیں صحافت کی آزادی اور صحافتی حقوق کی جدوجہد اور مسائل سے دوچار بیروزگار صحافیوں کے شانہ بشانہ اپنا آئینی اور جمہوری حق استعمال کریں گی اور صحافت کے مقدس پیشے اور اس کے اظہارکی رائے کی آزادی کو بچانے کے واسطے ہر ممکن کوشش کریں گی ۔صحافتی آزادی کے عالمی یوم کے حوالے سے مذکورہ عزم نہ صرف ملک میں اظہار رائے کی سلامتی کے لیے ضروری ہے بلکہ آزادانہ تحریروتقریر کی آزادی دراصل ملک کے مضبوط بیانیے کے لیے ازحد ضروری ہے۔

اسی طور نواز شریف کی سیاست میں عدالتی پیچیدگیوں کی حقیقی صورتحال بھی عوام کے سامنے لانا سیاسی عمل میں درست اطلاعات فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شہباز شریف کے اہم عہدوں سے دستبرداری کو صحافتی تجزیوں سے گذارنا ملکی جمہوری آزادی کے لیے جہاں ضروری ہے وہیں سیاسی پیچیدگیوں کو عوام تک پہنچانا بھی صحافتی ذمے داری ہے تاکہ باوقار سیاست کی قدریں عوام میں پروان چڑھیں۔ بظاہر شہباز اور نوازشریف کی مشکلات کوکسی بھی روایت یا فائدہ حاصل کرنے کا شاخسانہ قرار دینا بھی کسی طور درست نہیں۔خطے کے بدلتے ہوئے نازک حالات اور معاشی کمزوری کہیں پاکستان کوکسی ناقابل تلافی نقصان کی جانب نہ دھکیل دیں،کیا ہم نے بحیثیت قوم اس کا سدباب کر لیا ہے؟


آزادی اظہار کے نہ ہونے سے ہمارے عوام اب تک خطے کی صورتحال سے نا واقف ہیں جوکسی طور درست نہیں،کیونکہ دوسری جانب مستقبل کی صورتحال پر عالمی سامراج قوتوں کے کردار اور پاکستان ہندوستان میں مستقبل کی معاشی ضرورتوں کی دوستی پر ابھی تک چین روس اور ایران نے اپنی '' بند مٹھی'' کھولی نہیں، البتہ ایران اور چین کے خیالات اور ان کی رائے معلوم کرنے میں پاکستان کی اشرافیہ اور وزیراعظم عمران خان کافی متحرک نظر آرہے ہیں، مگر چین اور قریبی افغانستان کسی طور پاکستان کی ممکنہ مدد یا اس کی مدد کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے، اس صورتحال میں دوسری جانب امریکی اتحاد کے اہم فریق جاپان اور جنوبی کوریا کا اعتماد بحال رکھنے کی کوششوں کا بیڑا شاہ محمود قریشی کو دیا جا چکا ہے ،گویا جاپان اچانک اتنا اہم قرار پاگیا کہ ملک کے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملک کے وزیرخارجہ کو نہیں بھیجا گیا۔

خارجہ صورتحال پر نظر رکھنے والے اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ خارجی امور میں کسی ملک کے دورے سے پہلے اس ملک یعنی ایران کے حوالے سے یہ موقف لینا کہ'' ہم مصدقہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اوڑمارہ بلوچستان میں دہشت گردی ایرانی بارڈرکے استعمال سے ہوئی، جسے روکنا ایران کی ذمے داری ہے۔''واضح کرتا ہے کہ ایران کو خوبصورتی سے تنبیہ کے ساتھ بتا دیا گیا ہے کہ مستقبل میں خطے کے معاشی کنٹرول کی جنگ میں پاکستان ممکنہ طور پر افغان جہاد کے پرانے فریق امریکی سامراج کا اتحادی ہی رہے گا۔

پاکستان کے تناظر میں ہم اب تک پیچیدہ داخلی صورتحال کا شکار ہیں جس میں کسی طور بہتری کے آثار نظر نہیں آتے بلکہ سیاسی حکومتوں کی حیثیت اور ووٹ کے تقدس کو بار بار'' طاقت'' کے ہتھوڑے مارنے کی روش برقرار ہے جس کا شاخسانہ موجودہ حکومت میں منتخب افراد کی خراب کارکردگی کا بہانہ بنا کر طاقت کے غیر منتخب ستونوں کی تعیناتی ہے، جس میں اتصیلات سے مراسم کی بنا پر 800ملین کا نقصان پہنچانے اور منافع بخش ڈھائی کھرب کے اثاثے کی مالک کراچی الیکٹرک کو صرف 15 ارب میں فروخت کرنے اور ڈاکٹر حفیظ شیخ کو لانا ہے، جنھیں ان کی تعیناتی کی اطلاع دبئی میں پہنچائی گئی، جب کہ دوسری جانب نوٹیفیکیشن اس وقت تک جاری نہ ہوا جب تک حفیظ شیخ کو لانے والوں نے طاقت کے سرخیلوں سے دو شرائط پر آمادگی نہ لی کہ ان کی پالیسی میں کوئی دخل اندازی نہیں کرے گا اور دوم کہ حفیظ شیخ ملکی خزانے کی پالیسی میں کسی کو جواب دہ نہ ہوگا۔منتخب اور غیر منتخب افراد کے قضیئے کا حکومت نے مخصوص میڈیا افراد(صحافی نہیں) کے روبرو دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اعلیٰ سطح کے قابل افراد کو لا کر ملکی حالات کو بہتر کرنا چاہتی ہے جس میں منتخب سے زیادہ صلاحیت پیش نظر ہے۔اب وزیراعظم کا یہ بیانیہ ووٹ کی اہمیت کو کس طرح بڑھاتا ہے۔ یہ ازخود مستقبل کے جمہوری اور عوامی کردار کو واضح کرنے میں ایک سوال ہے۔

اس دلچسپ ملکی اور عالمی سیاست میں پاکستان کی معیشت کہاں کھڑی ہوگی اورکس طرح ووٹ دینے والے عوام کے معاشی تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا؟جب کہ اسی دوران مدارس کی ریفارم اور قبائلی علاقے میں تسلط کی ایک اہم کوشش کے طور پر نیا شوشہ دراصل مستقبل کے پرانے ممکنہ اتحاد کی راہ میں آسانیاں پیدا کرنے کا اہم داؤ ہے، جسے '' غداری'' سے زیادہ افغان سرحد پر اس کمزور کنٹرول کا ہے جو ممکنہ طور پر طاقتور اتحادی اپنی مرضی کا چاہتے ہیں۔

اس پیچیدہ صورتحال میں یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب سنجیدگی سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ بات قابل بھی ذکر ہے کہ خطے کو'' عالمی قوتوں کے ممکنہ اثر'' کو زائل کرنے یا عوام کو بھٹکانے کی کوششوں میں '' خطے میں معاشی طور پر چین روس اور ایران کے ممکنہ اتحاد سے دور رکھنے کی کوشش مسلسل جاری ہے'' اور جاری رکھی جائے گی ،جس کے لیے ''سی پیک'' کی ممکنہ ترقی کو '' بریک '' لگانے کا کام غیر محسوساتی طور پر چلایا جاتا رہے گا'' تاکہ عالمی سامراجی قوتوں کے ایما پر اس اتحاد کے ممکنہ اتحادی پاکستان و بھارت کے مضبوط رشتوں کے جال میں عوامی فلاح کا لولی پوپ دیا جاتا رہے ، تاکہ اصل میں خطے میں امریکا اور برطانیہ اپنے پنجے بہتر انداز سے گاڑسکیں اور اس پر کام شروع کیا جاچکا ہے جس کو حکومتی بیانات میں دیکھا جا سکتا ہے۔اس تناظر میں خطے اور خاص طور پر سندھ کے دارالحکومت کراچی کو اپنے مفاد میں کرنے کی عالمی ڈاکٹرائن Geopolitic پرکام جاری ہے جس پر آیندہ کی نشست میں بات ہوگی۔
Load Next Story