قانون کے نفاذ کے لیے کسی کی منت سماجت کرنے کی ضرورت نہیں چیف جسٹس
زیارت کے واقعے پر بھی چیرمین پیمرا بے بس نظر آئے، ایسا نظام ہونا چاہیے کہ پیمرا خود نشریات بلاک کرسکے، چیف جسٹس
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اسلام آباد واقعہ کیس کی سماعت کے دوران چیرمین پیمرا کی جانب سے جواب جمع نہ کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جوابات عدالتوں میں نہیں آتے لیکن خبارات میں شائع ہوجاتے ہیں، دوسری جانب چیرمین پیمرا سکندر کے واقعے میں چینل کے آگے بے بس نظرآئے جب کہ قانون کے نفاذ کے لئے کسی کی منت سماجت کی ضرروت نہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اسلام آباد واقعے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتوں میں جواب نہیں آتے لیکن اخبارات میں شائع ہوجاتے ہیں، مجسٹریٹ کی مرضی کے بغیر پولیس کوئی کارروائی نہیں کرسکتی اور پیمرا کے قواعد کی روح سے میڈیا کو بھی ڈسٹرکٹ مجسریٹ نے کنٹرول کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سکندر کی بیوی کنول کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا نمبر کہاں سے ملا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ زیارت کے واقعے پر بھی چیرمین پیمرا بے بس نظر آئے، ایسا نظام ہونا چاہیے کہ پیمرا خود نشریات بلاک کرسکے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی پیمرا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سکندر کو اتنی تشہیر 15 سے 20 کروڑ روپے خرچ کر کے بھی نہ ملتی۔ پیمرا کے وکیل نے کہا کہ ٹی وی چینلز کو چیرمین پیمرا نے فون کیا اور نشریات روکنے کا کہا مگر عمل نہیں کیا گیا، پیمر ا کی ہدایت نہ ماننے پر ٹی وی چینل کے خلاف سخت کارروائی کریں گے مگر آرٹیکل 19 اے آڑے آتا ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے نفاذ کے لیے کسی کی منت سماجت کرنے کی ضرورت نہیں، فرقہ وارانہ واقعات کی ایسی کوریج نہیں ہونی چاہیے جس سے دہشت گردوں کو حوصلہ ملے اور عوام میں خوف پھیلے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لال مسجد اور اسلام واقعے میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا وجود نظر نہیں آیا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ پولیس اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ پولیس میں ایسی خواتین بھی شامل ہیں جو شارپ شوٹر ہیں۔
عدالت نے سیکریٹری انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کو اگلی سماعت پر ٹی وی چینلز کی نشریات کنٹرول کرنے کے طریقہ کار پر رپورٹ جمع کرانے اور حکومتی کمیٹی کو مجسٹریٹ کے کردار کو مزید مؤثر بنانے کی تجاویز دینے کی ہدایت کی، عدالت نے سیکریٹری داخلہ کی مجاز اتھارٹی کو عدالت کی تجویز سے آگاہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اسلام آباد واقعے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتوں میں جواب نہیں آتے لیکن اخبارات میں شائع ہوجاتے ہیں، مجسٹریٹ کی مرضی کے بغیر پولیس کوئی کارروائی نہیں کرسکتی اور پیمرا کے قواعد کی روح سے میڈیا کو بھی ڈسٹرکٹ مجسریٹ نے کنٹرول کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سکندر کی بیوی کنول کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا نمبر کہاں سے ملا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ زیارت کے واقعے پر بھی چیرمین پیمرا بے بس نظر آئے، ایسا نظام ہونا چاہیے کہ پیمرا خود نشریات بلاک کرسکے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی پیمرا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سکندر کو اتنی تشہیر 15 سے 20 کروڑ روپے خرچ کر کے بھی نہ ملتی۔ پیمرا کے وکیل نے کہا کہ ٹی وی چینلز کو چیرمین پیمرا نے فون کیا اور نشریات روکنے کا کہا مگر عمل نہیں کیا گیا، پیمر ا کی ہدایت نہ ماننے پر ٹی وی چینل کے خلاف سخت کارروائی کریں گے مگر آرٹیکل 19 اے آڑے آتا ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے نفاذ کے لیے کسی کی منت سماجت کرنے کی ضرورت نہیں، فرقہ وارانہ واقعات کی ایسی کوریج نہیں ہونی چاہیے جس سے دہشت گردوں کو حوصلہ ملے اور عوام میں خوف پھیلے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لال مسجد اور اسلام واقعے میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا وجود نظر نہیں آیا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ پولیس اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ پولیس میں ایسی خواتین بھی شامل ہیں جو شارپ شوٹر ہیں۔
عدالت نے سیکریٹری انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کو اگلی سماعت پر ٹی وی چینلز کی نشریات کنٹرول کرنے کے طریقہ کار پر رپورٹ جمع کرانے اور حکومتی کمیٹی کو مجسٹریٹ کے کردار کو مزید مؤثر بنانے کی تجاویز دینے کی ہدایت کی، عدالت نے سیکریٹری داخلہ کی مجاز اتھارٹی کو عدالت کی تجویز سے آگاہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کردی۔