یہاں رنگین ایکسرے کی سہولت میسر ہے
پاکستان میں اگر صرف صحت کے شعبے کو ہی دیکھا جائے تو ہر افلاطون کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
جب نواز شریف چھ ہفتے کی طبی ضمانت پر رہا ہوئے تب سے یہ سوال سرکاری و میڈیائی سطح پر اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر میاں صاحب لندن میں علاج کروانے پر کیوں مصر ہیں۔کیا پاکستان میں ایسا کوئی جدید طبی مرکز نہیں جہاں میاں صاحب کا تسلی بخش علاج ہو سکے؟ تہتر برس میں کیا ایک بھی ایسی علاج گاہ کوئی بھی حکومت نہ بنا پائی جس کے ہوتے باہر جانے کا نہ سوچنا پڑے۔
آخر جب میاں صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں پاکستانیوں کے لیے ہیلتھ انشورنس کارڈ اسکیم کا اجرا کیا تو وہ کن اسپتالوں کے لیے تھی؟ اگر یہ اسپتال میاں صاحب اور اشرافیہ کے لیے مناسب نہیں تو عام آدمی بھی ان طبی سہولتوں پر کیوں اعتماد کرے ؟
ویسے میاں صاحب کا لندن میں علاج کے لیے اصرار اتنا غیر مناسب بھی نہیں۔لیاقت علی خان سے عمران خان تک کونسی ایسی سیاسی و عسکری سرکار گذری ہے جس نے تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حق تک عام آدمی کی رسائی کو ترجیح دی ؟ عالمی ادارہِ صحت کے مطابق ہر ملک کو اپنی کل قومی آدمی کا کم ازکم چار چار فیصد صحتِ عامہ اور تعلیمِ عامہ پر خرچ کرنا چاہیے۔بھلے آپ کو فلاحی مملکت کی تعمیر کرنا ہو یا سیکیورٹی اسٹیٹ بنانا ہو۔دونوں کے لیے صحت مند نسل چاہیے۔کوئی بتائے گا کہ پچھلے تہتر برس میں کس حکومت نے کسی بھی سال صحت اور تعلیم کا بجٹ بین الاقوامی معیار کے اعتبار سے بنایا ہو ؟
ہم اس ملک کو سرمایہ دار ملک بنانا چاہتے ہیں، سوشلسٹ ریاست بنانا چاہتے ہیں، اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں، کبھی چین ، کبھی ترکی ، کبھی ملایشیا بنانا چاہتے ہیں اور اب ریاستِ مدینہ کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ایسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جہاں اتنا روزگار ہو کہ یہاں کے لوگ باہر جانے کے بجائے باہر کے لوگ یہاں کمانے آئیں۔کبھی یہ سوچ سوچ کے آہیں بھرتے ہیں کہ انیس سو ساٹھ تک ہماری فی کس آمدنی جنوبی کوریا سے زیادہ تھی۔مگر ان میں سے کون سا ایسا ماڈل ہے جو بنیادی جہالت اور بنیادی امراض سے تحفظ کے بغیر کھڑا کر دیا گیا ہو ؟
بڑے بڑے خواب دیکھنے اور خواب میں ہی اوجِ ثریا چھونے والے پاکستان میں اگر صرف صحت کے شعبے کو ہی دیکھا جائے تو ہر افلاطون کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔صحت پر پاکستان اس وقت اپنی قومی آمدنی کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ کر رہا ہے۔
بلوچستان میں کوئٹہ جنرل اسپتال نے نہ صرف صوبے کے شمالی و مغربی اضلاع بلکہ جنوبی افغانستان کا بوجھ بھی اپنے کاندھے پر اٹھا رکھا ہے۔ملک کے سب سے بڑے شہر اور صنعتی انجن کراچی میں ڈھائی کروڑ شہریوں کے لیے سرکاری شعبے میں تین بڑے جنرل اسپتال اور دو اسپیشلائزڈ اسپتال ہیں۔ اور جنوبی بلوچستان اور جنوبی سندھ کے دیگر اضلاع کے مریضوں کا رخ بھی انھی اسپتالوں کی جانب ہے۔باقی بوجھ نجی اور نیم نجی علاج گاہوں یا خیراتی طبی مراکز کی طرف ہے۔معیار جائے بھاڑ میں، کراچی میں کوئی ایسا چھوٹے سے چھوٹا اسپتال نہیں جو خلقِ خدا سے خالی ہو۔
خیبر پختون خواہ اور کابل تک کے افغان علاقے میں جس کا کہیں اور علاج نہیں ہو پاتا وہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال یا حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کا رخ کرنے پر مجبور ہے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پمز اسپتال نے شمالی پنجاب سے آزاد کشمیر تک کے مریضوں کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ جب کہ سہولتیں، طبی عملے کی تعداد اور بجٹ محض اسلام آباد کی ضروریات کے مطابق ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ ایسا یوں ہے کہ کسی بھی حکومت نے صحت کی مربوط قومی پالیسی اور اس پر عمل درآمد کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبائی ذمے داری قرار پایا۔لیکن اس ترمیم کے نفاذ کے نو برس بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ کسی اسپتال کے قریب سے اٹھارویں ترمیم کا سایہ تک نہیں گذرا۔صحت کا شعبہ آج بھی قبل از اٹھارویں ترمیم کے دور میں سانس لے رہا ہے۔
جہاں تک کمیونٹی ہیلتھ کا معاملہ ہے تو عالمی مدد کے طفیل صرف دو بیماریوں سے موثر چھٹکارا پایا جا سکا۔جذام اور چیچک۔ مگر اس کی جگہ خراب پانی کے طفیل ہیپا ٹائٹس بی اور سی نے لے لی۔آلودگی، اشیا کے ناخالص پن اور زندگی کے ناقابل ِ برداشت دباؤ کے سبب شوگر، دل کی بیماریاں اور سرطان ادھیڑ عمری سے الٹا سفر کرتے کرتے اب جوان نسل اور بچوں کو بھی محاصرے میں لے چکے ہیں۔کیا کسی نے تین عشرے پہلے سنا تھا کہ کسی بارہ سالہ بچے کو دل کا دورہ پڑ گیا یا پندرہ برس کی عمر میں ٹائپ ٹو شوگر ہو گئی؟
لوگ پھر بھی جیسے کیسے پیسے پونجی جمع کر کے اپنی اور اپنے پیاروں کی دوا دارو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر ان پیسوں کے عوض جو دوا میں خریدتا ہوں اس کے بارے میں کیسے یقین آئے کہ جعلی ہے یا اصلی، یا اس پر جو لیبل لگا ہے وہ واقعی کسی ایکسپائرڈ دوا پر تو نہیں چڑھایا گیا۔اب سے دس برس پہلے وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے قومی اسمبلی میں کہا کہ پاکستان میں اس وقت جتنی دوائیں فروخت ہو رہی ہیں ان میں سے پچاس فیصد جعلی ہیں یا ان میں وہ پوٹینسی نہیں جو ہونی چاہیے۔ایسی خبر پر تو اوپر سے نیچے تک ایک ہنگامہ ہو جانا چاہیے تھا مگر آج تک ایک پتا بھی نہ ہلا۔
اور دوا اگر اصلی میسر بھی آ جائے تو اس کی کیا ضمانت کہ جو مسیحا اسے نسخے میں لکھ رہا ہے اس کی واقعی مریض کو ضرورت ہے یا مریض سے زیادہ یہ دوا بنانے والی فارماسوٹیکل کمپنی کو ضرورت ہے ؟
اس خلا کو کون پر کر رہا ہے؟ اتائی، نیم حکیم یا ڈاکٹر ڈھینگرے خان اے بی سی ڈی یا پھر جھاڑ پھونک کرنے والے اور چینی کھلا کے شوگر کا علاج کرنے والے اور منتر پڑھ کے ہر قسم کے کینسر کو چھومنتر کرنے والے۔اتائیوں کی اس قدر کمائی ہے کہ کئی ڈاکٹر بھی اپنی تعلیم بھول چکے ہیں۔
میںنے سول اسپتال رحیم یار خان کے اردگرد لیبارٹریوں کے ہجوم میں یہ بورڈ بھی پڑھا ''یہاں پر رنگین ایکسرے کی سہولت اور ایئر کنڈیشنڈ آئی سی یو دستیاب ہے''۔ میں نے جڑانوالہ سے گذرتے ہوئے دیکھا کہ ایک کلینک کے باہر سڑک کے کنارے قطار سے چارپائیاں بچھی ہیں اور ان پر وہ مریض لیٹے ہیں جن کے دماغ پر '' گرمی چڑھ گئی ہے''۔وہ طاقت پانے اور گرمی اتروانے کے لیے گلوکوز کی ڈرپ ذوق و شوق سے لگوا رہے ہیں۔کسی کو گلابی ڈرپ لگی ہوئی ہے، کسی کو سبز ، کسی کو نیلی اور کسی کو لال۔اﷲ جانے ان ڈرپس میں کون کون سی رنگ برنگی دوا ملائی گئی تھی مگر نیلی ڈرپ کا ریٹ زیادہ تھا اور ٹرانسپیرنٹ ڈرپ سب سے سستی تھی۔
اس ڈرپ تماشے سے دو سو گز پرے ایک ڈاکٹر صاحب اپنی دکان میں تنہا بیٹھے سٹیتھکو اسکوپ سے کھیل رہے تھے۔میں نے پوچھا آپ کے پاس اس وقت کوئی مریض نہیں، خیر تو ہے ؟ فرمایا کہ مریض کو اگر کہا جائے کہ تم صرف تین دن فلاں فلاں پرہیز کر لو ، آرام آ جا ئے گا تو وہ سمجھتا ہے کہ میں ڈاکٹر ہی نہیں۔یہ جو آپ کو رنگ برنگی ڈرپ لگواتے نظر آ رہے ہیں۔ان میں سے کئی مجھ سے ہی مایوس ہو کر اس کمپاؤنڈر کے پاس پہنچے ہیں جو پورے علاقے میں ڈاکٹر صاحب کے نام سے مال بھی کما رہا ہے اور عزت بھی ۔
سندھ کے ہیلتھ سیفٹی کمیشن کے سینئیر رکن ڈاکٹر منہاج قدوائی کے مطابق اس وقت صرف کراچی میں ساٹھ ہزار اور پورے سندھ میں دو لاکھ سے زائد اتائی موجود ہیں۔ باقی صوبوں کا اندازہ آپ خود کر لیجیے۔مگر سرکاری اسپتالوں کی تعداد اگر کہیں پچھلے دس برس میں کسی بھی ضلع میں ایک سے دو ہو گئی ہو تو اس فقیر کو بھی مطلع کیجیے گا
( میں اسپتالوں کے نام پر بننے والی عمارتوں کی بات نہیں کر رہا، چلتے ہوئے زندہ اسپتالوں کی گنتی پوچھ رہا ہوں)۔
آپ کے آرام میں مخل ہونے کی معافی۔آپ اطمینان سے ریاست ِ مدینہ بنائیے۔ابھی بہت وقت اور کئی نسلیں باقی ہیں۔ایک نہ ایک دن تو یہ پروجیکٹ مکمل ہو ہی جائے گا۔تب تک انصاف صحت کارڈ پر جی لیں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
آخر جب میاں صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں پاکستانیوں کے لیے ہیلتھ انشورنس کارڈ اسکیم کا اجرا کیا تو وہ کن اسپتالوں کے لیے تھی؟ اگر یہ اسپتال میاں صاحب اور اشرافیہ کے لیے مناسب نہیں تو عام آدمی بھی ان طبی سہولتوں پر کیوں اعتماد کرے ؟
ویسے میاں صاحب کا لندن میں علاج کے لیے اصرار اتنا غیر مناسب بھی نہیں۔لیاقت علی خان سے عمران خان تک کونسی ایسی سیاسی و عسکری سرکار گذری ہے جس نے تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حق تک عام آدمی کی رسائی کو ترجیح دی ؟ عالمی ادارہِ صحت کے مطابق ہر ملک کو اپنی کل قومی آدمی کا کم ازکم چار چار فیصد صحتِ عامہ اور تعلیمِ عامہ پر خرچ کرنا چاہیے۔بھلے آپ کو فلاحی مملکت کی تعمیر کرنا ہو یا سیکیورٹی اسٹیٹ بنانا ہو۔دونوں کے لیے صحت مند نسل چاہیے۔کوئی بتائے گا کہ پچھلے تہتر برس میں کس حکومت نے کسی بھی سال صحت اور تعلیم کا بجٹ بین الاقوامی معیار کے اعتبار سے بنایا ہو ؟
ہم اس ملک کو سرمایہ دار ملک بنانا چاہتے ہیں، سوشلسٹ ریاست بنانا چاہتے ہیں، اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں، کبھی چین ، کبھی ترکی ، کبھی ملایشیا بنانا چاہتے ہیں اور اب ریاستِ مدینہ کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ایسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جہاں اتنا روزگار ہو کہ یہاں کے لوگ باہر جانے کے بجائے باہر کے لوگ یہاں کمانے آئیں۔کبھی یہ سوچ سوچ کے آہیں بھرتے ہیں کہ انیس سو ساٹھ تک ہماری فی کس آمدنی جنوبی کوریا سے زیادہ تھی۔مگر ان میں سے کون سا ایسا ماڈل ہے جو بنیادی جہالت اور بنیادی امراض سے تحفظ کے بغیر کھڑا کر دیا گیا ہو ؟
بڑے بڑے خواب دیکھنے اور خواب میں ہی اوجِ ثریا چھونے والے پاکستان میں اگر صرف صحت کے شعبے کو ہی دیکھا جائے تو ہر افلاطون کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔صحت پر پاکستان اس وقت اپنی قومی آمدنی کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ کر رہا ہے۔
بلوچستان میں کوئٹہ جنرل اسپتال نے نہ صرف صوبے کے شمالی و مغربی اضلاع بلکہ جنوبی افغانستان کا بوجھ بھی اپنے کاندھے پر اٹھا رکھا ہے۔ملک کے سب سے بڑے شہر اور صنعتی انجن کراچی میں ڈھائی کروڑ شہریوں کے لیے سرکاری شعبے میں تین بڑے جنرل اسپتال اور دو اسپیشلائزڈ اسپتال ہیں۔ اور جنوبی بلوچستان اور جنوبی سندھ کے دیگر اضلاع کے مریضوں کا رخ بھی انھی اسپتالوں کی جانب ہے۔باقی بوجھ نجی اور نیم نجی علاج گاہوں یا خیراتی طبی مراکز کی طرف ہے۔معیار جائے بھاڑ میں، کراچی میں کوئی ایسا چھوٹے سے چھوٹا اسپتال نہیں جو خلقِ خدا سے خالی ہو۔
خیبر پختون خواہ اور کابل تک کے افغان علاقے میں جس کا کہیں اور علاج نہیں ہو پاتا وہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال یا حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کا رخ کرنے پر مجبور ہے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پمز اسپتال نے شمالی پنجاب سے آزاد کشمیر تک کے مریضوں کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ جب کہ سہولتیں، طبی عملے کی تعداد اور بجٹ محض اسلام آباد کی ضروریات کے مطابق ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ ایسا یوں ہے کہ کسی بھی حکومت نے صحت کی مربوط قومی پالیسی اور اس پر عمل درآمد کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبائی ذمے داری قرار پایا۔لیکن اس ترمیم کے نفاذ کے نو برس بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ کسی اسپتال کے قریب سے اٹھارویں ترمیم کا سایہ تک نہیں گذرا۔صحت کا شعبہ آج بھی قبل از اٹھارویں ترمیم کے دور میں سانس لے رہا ہے۔
جہاں تک کمیونٹی ہیلتھ کا معاملہ ہے تو عالمی مدد کے طفیل صرف دو بیماریوں سے موثر چھٹکارا پایا جا سکا۔جذام اور چیچک۔ مگر اس کی جگہ خراب پانی کے طفیل ہیپا ٹائٹس بی اور سی نے لے لی۔آلودگی، اشیا کے ناخالص پن اور زندگی کے ناقابل ِ برداشت دباؤ کے سبب شوگر، دل کی بیماریاں اور سرطان ادھیڑ عمری سے الٹا سفر کرتے کرتے اب جوان نسل اور بچوں کو بھی محاصرے میں لے چکے ہیں۔کیا کسی نے تین عشرے پہلے سنا تھا کہ کسی بارہ سالہ بچے کو دل کا دورہ پڑ گیا یا پندرہ برس کی عمر میں ٹائپ ٹو شوگر ہو گئی؟
لوگ پھر بھی جیسے کیسے پیسے پونجی جمع کر کے اپنی اور اپنے پیاروں کی دوا دارو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر ان پیسوں کے عوض جو دوا میں خریدتا ہوں اس کے بارے میں کیسے یقین آئے کہ جعلی ہے یا اصلی، یا اس پر جو لیبل لگا ہے وہ واقعی کسی ایکسپائرڈ دوا پر تو نہیں چڑھایا گیا۔اب سے دس برس پہلے وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے قومی اسمبلی میں کہا کہ پاکستان میں اس وقت جتنی دوائیں فروخت ہو رہی ہیں ان میں سے پچاس فیصد جعلی ہیں یا ان میں وہ پوٹینسی نہیں جو ہونی چاہیے۔ایسی خبر پر تو اوپر سے نیچے تک ایک ہنگامہ ہو جانا چاہیے تھا مگر آج تک ایک پتا بھی نہ ہلا۔
اور دوا اگر اصلی میسر بھی آ جائے تو اس کی کیا ضمانت کہ جو مسیحا اسے نسخے میں لکھ رہا ہے اس کی واقعی مریض کو ضرورت ہے یا مریض سے زیادہ یہ دوا بنانے والی فارماسوٹیکل کمپنی کو ضرورت ہے ؟
اس خلا کو کون پر کر رہا ہے؟ اتائی، نیم حکیم یا ڈاکٹر ڈھینگرے خان اے بی سی ڈی یا پھر جھاڑ پھونک کرنے والے اور چینی کھلا کے شوگر کا علاج کرنے والے اور منتر پڑھ کے ہر قسم کے کینسر کو چھومنتر کرنے والے۔اتائیوں کی اس قدر کمائی ہے کہ کئی ڈاکٹر بھی اپنی تعلیم بھول چکے ہیں۔
میںنے سول اسپتال رحیم یار خان کے اردگرد لیبارٹریوں کے ہجوم میں یہ بورڈ بھی پڑھا ''یہاں پر رنگین ایکسرے کی سہولت اور ایئر کنڈیشنڈ آئی سی یو دستیاب ہے''۔ میں نے جڑانوالہ سے گذرتے ہوئے دیکھا کہ ایک کلینک کے باہر سڑک کے کنارے قطار سے چارپائیاں بچھی ہیں اور ان پر وہ مریض لیٹے ہیں جن کے دماغ پر '' گرمی چڑھ گئی ہے''۔وہ طاقت پانے اور گرمی اتروانے کے لیے گلوکوز کی ڈرپ ذوق و شوق سے لگوا رہے ہیں۔کسی کو گلابی ڈرپ لگی ہوئی ہے، کسی کو سبز ، کسی کو نیلی اور کسی کو لال۔اﷲ جانے ان ڈرپس میں کون کون سی رنگ برنگی دوا ملائی گئی تھی مگر نیلی ڈرپ کا ریٹ زیادہ تھا اور ٹرانسپیرنٹ ڈرپ سب سے سستی تھی۔
اس ڈرپ تماشے سے دو سو گز پرے ایک ڈاکٹر صاحب اپنی دکان میں تنہا بیٹھے سٹیتھکو اسکوپ سے کھیل رہے تھے۔میں نے پوچھا آپ کے پاس اس وقت کوئی مریض نہیں، خیر تو ہے ؟ فرمایا کہ مریض کو اگر کہا جائے کہ تم صرف تین دن فلاں فلاں پرہیز کر لو ، آرام آ جا ئے گا تو وہ سمجھتا ہے کہ میں ڈاکٹر ہی نہیں۔یہ جو آپ کو رنگ برنگی ڈرپ لگواتے نظر آ رہے ہیں۔ان میں سے کئی مجھ سے ہی مایوس ہو کر اس کمپاؤنڈر کے پاس پہنچے ہیں جو پورے علاقے میں ڈاکٹر صاحب کے نام سے مال بھی کما رہا ہے اور عزت بھی ۔
سندھ کے ہیلتھ سیفٹی کمیشن کے سینئیر رکن ڈاکٹر منہاج قدوائی کے مطابق اس وقت صرف کراچی میں ساٹھ ہزار اور پورے سندھ میں دو لاکھ سے زائد اتائی موجود ہیں۔ باقی صوبوں کا اندازہ آپ خود کر لیجیے۔مگر سرکاری اسپتالوں کی تعداد اگر کہیں پچھلے دس برس میں کسی بھی ضلع میں ایک سے دو ہو گئی ہو تو اس فقیر کو بھی مطلع کیجیے گا
( میں اسپتالوں کے نام پر بننے والی عمارتوں کی بات نہیں کر رہا، چلتے ہوئے زندہ اسپتالوں کی گنتی پوچھ رہا ہوں)۔
آپ کے آرام میں مخل ہونے کی معافی۔آپ اطمینان سے ریاست ِ مدینہ بنائیے۔ابھی بہت وقت اور کئی نسلیں باقی ہیں۔ایک نہ ایک دن تو یہ پروجیکٹ مکمل ہو ہی جائے گا۔تب تک انصاف صحت کارڈ پر جی لیں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)