سیاپا فروشی سے ایک قدم آگے
گزشتہ چند مہینوں سے مجھے یہ شک لاحق ہو گیا ہے کہ شیخ صاحب اب محض سیاپا فروشی تک محدود نہیں رہنا چاہتے۔
اپنے لال حویلی والے شیخ صاحب انقلابی منظر نامے سوچ کر انھیں موثر الفاظ کے استعمال کے ساتھ بھرپور انداز میں بیان کر سکتے ہیں۔ کامیاب کاروباری ہونا ان کا بچپن سے مقدر ٹھہر چکا تھا۔ اللہ نے ان پر مزید کرم فرمایا۔ ذاتی حیثیت میں ضرورت سے کہیں زیادہ خوش حال ہیں۔ ہر طرح کی راحت اور آسائش میسر ہے۔ بیوی بچوں کی فرمائشوں اور ضرورتوں کو پورا کرنے کی فکر سے بھی آزادہیں۔ ایک راحت بھری زندگی گزارنے کے باوجود شیخ صاحب کا تخلیقی ذہن ایک عام انسان کی مصیبتوں سے بھری زندگی کو خوب سمجھتا ہے۔ بھارت میں آرٹ فلموں کے عروج کے زمانے میں ''البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے'' نامی ایک فلم بنی تھی۔
اس فلم نے کمال مہارت سے روٹی روزگار کمانے اور اسے برقرار رکھنے سے جُڑی ذلتوں اور نااہل، بدعنوان اور بے حس حکمرانوں کی جانب سے عام آدمی کی زندگی کو ناقابلِ برداشت بنا دینے کی حقیقتوں کو بڑی شدت سے بیان کیا تھا۔ شیخ صاحب اس زمانے کے ''البرٹ پنٹو'' ہیں۔ ٹیلی وژن اسکرین پر بیٹھ جائیں تو سیاپا فروشی کے کامیاب ترین اینکروں کو بھی گہنا دیتے ہیں۔ ان کی سیاپا فروشی سے غریب آدمی کے دُکھوں کا مداوا تو نہیں ہوتا مگر وہ اس بات پر مطمئن ہو جاتا ہے کہ آخر کوئی تو ہے جو ان کے دُکھوں کو بڑے غم و غصہ کے ساتھ بیان کر دیتا ہے۔ شیخ صاحب کی ٹیلی وژن اسکرینوں کے حوالے سے Ratings فنِ ڈرامہ کے لیے بنیادی سمجھے جانے والے Catharsis کے تمام تقاضوں کو فطری انداز میں پورا کرنے کا منطقی نتیجہ ہے۔ ارسطو ان دنوں زندہ ہوتا تو اسے اپنی اس حوالے سے سب سے زیادہ مستند اور کارگر سمجھے جانے والی Poetica کا ایک خاص باب ہمارے ٹی وی ٹاک شوز کے بارے میں بھی لکھنا پڑتا اور شاید اسے اپنی بات سمجھانے کے لیے بارہا شیخ صاحب کے کچھ کلمات کے حوالے بھی دینا پڑتے۔
گزشتہ چند مہینوں سے البتہ مجھے یہ شک لاحق ہو گیا ہے کہ شیخ صاحب اب محض سیاپا فروشی تک محدود نہیں رہنا چاہتے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر تخت گرانے اور تاج اُچھالنے والے انقلاب کو برپا کرنے کی تمنا میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ان کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ وہ نہ تو لینن ہیں نہ امام خمینی۔ بولنا خوب جانتے ہیں لکھنا کچھ خاص نہیں۔ ان کے پاس بالشویک پارٹی جیسی منظم جماعت بھی موجود نہیں اور نہ ہی قم کے مدرسے سے جڑا مذہبی رہنمائوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک جو شہنشاہ ایران اور اس کی ساواک کے تمام تر جبر کے باوجود ایران کے بچھڑے ہوئے لوگوں اور طبقات کے دلوں کے ساتھ دھڑکتا رہا۔ فکری بنیادوں پر منظم سیاسی جماعت کے بغیر شیخ صاحب کو دوسرے لوگوں کے گرویدہ جوانوں کے گروہوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ سلالہ چوکی پر امریکی حملے کے بعد جب پاکستان نے اپنے زمینی راستوں کے ذریعے افغانستان میں متعین نیٹو افواج کی رسد پر پابندی لگائی تو اس پابندی کو طول دینے اور موثر بنائے رکھنے کے لیے ''دفاعِ پاکستان کونسل'' بنی۔
شیخ صاحب کسی دینی مدرسے کے نہیں عیسائی مشنریوں کی طرف سے راولپنڈی میں قائم کیے گئے گارڈن کالج کے طالب علم رہے ہیں۔ ان کے دل میں مگر ''احراری'' جذبہ ہمیشہ سے فروزاں رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک چلی تو آپ بھی اس کے رضا کار ہو گئے۔ اس تحریک کے شورش کاشمیری ایک ساحر مقرر ہوا کرتے تھے۔ شیخ صاحب کو شورش کاشمیری کی طرح اُردو اور فارسی زبانوں اور ان کے ادب کے ذریعے پروان چڑھے استعاروں اور علامتوں کا ککھ پتہ نہ تھا۔ اسی لیے بس شورش کاشمیری کے شعلہ بیاں انداز کی محض نقالی سے آگے نہ بڑھ پائے۔ سیانے آدمی تھے۔ جبلی طورپر جانتے تھے کہ شعلہ بیانی جلسے تو گرماتی ہے مگر اقتدار تک نہیں پہنچاتی۔
اقتدار تک پہنچنے کے راستے منصوبہ بندی سے بنائے جاتے ہیں۔ چوہدری ظہور الہی اسی کام کے بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ اس لیے ان کے قریب ہو گئے۔ پھر جنرل ضیاء تشریف لائے۔ انھوں نے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی اور غیر سیاسی بلدیاتی نظام کے ذریعے نیک اور صالح سیاستدانوں کی ایک نئی کھیپ تیار کرنا شروع کر دی۔ شیخ صاحب راولپنڈی سے کونسلر منتخب ہوئے۔ اس شہر کے بڑے تگڑے مانے جانے والے میئر کے خلاف اپوزیشن میں بیٹھ کر دھواں دھار تقاریر فرماتے رہے۔ خدا جنت نصیب کرے شورش ملک صاحب کو جنہوں نے شیخ صاحب کو ان تقریروں کی وجہ سے پرنٹ میڈیا میں ایک مقامی اسٹار بنا دیا۔ اس کے بعد کی کہانی تو آپ سارے خوب جانتے ہیں۔
میرا مقصد تو فی الوقت اس بات پر زور دینا ہے کہ شیخ صاحب اب سیاپا فروشی سے اُکتا چکے ہیں۔ انھیں انقلاب برپا کرنا ہے۔ مگر ان کے پاس کوئی اپنا بنایا انقلابی لشکر نہیں ہے۔ کسی اور کے لگائے چھابے میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہیں اور اس ضمن میں آج کل ان کی نظریں ہمارے شہری متوسط طبقے کے ان پُرجوش نوجوانوں پر مرکوز ہیں جو عمران خان کی قیادت میں اس ملک میں ''تبدیلی'' لانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اگرچہ مجھے شبہ ہے کہ عمران خان کے اِردگرد جمع ''پرانی سیاست'' کے اسیر جاگیردار اور خوش حال وکیل اور دندان ساز وغیرہ انھیں اپنی جماعت کو Hijack کرنے نہیں دیں گے۔ کوشش کرنے میں لیکن کوئی حرج نہیں۔ جس وقت یہ کالم چھپے گا، ضمنی انتخابات کے نتائج آ چکے ہوں گے۔
دیکھنا ہو گا کہ عمران خان ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اگر واقعی وہ ان انتخابات کے بارے میں ایک اور وائٹ پیپر تیار کرنے کے بجائے ''سڑکوں پر میچ'' کھیلنے پر تل گئے تو کم از کم ان کی جانب سے چلائی گئی تحریکِ انقلاب کے راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہروں میں قائم سیکٹرز کے شیخ صاحب از خود کمانڈر ہو جائیں گے۔ دمادم مست قلندر تو ہو جانے دیجیے۔ پھر شیخ صاحب ہوں گے اور ان کے کمالات۔ بس یہ دُعا مانگیے کہ ''دفاعِ پاکستان کونسل'' کی طرح تحریک انصاف کی جانب سے چلائی گئی ممکنہ احتجاجی تحریک بھی چائے کی پیالی سے اُٹھا ایک اور طوفان ثابت نہ ہو۔
اس فلم نے کمال مہارت سے روٹی روزگار کمانے اور اسے برقرار رکھنے سے جُڑی ذلتوں اور نااہل، بدعنوان اور بے حس حکمرانوں کی جانب سے عام آدمی کی زندگی کو ناقابلِ برداشت بنا دینے کی حقیقتوں کو بڑی شدت سے بیان کیا تھا۔ شیخ صاحب اس زمانے کے ''البرٹ پنٹو'' ہیں۔ ٹیلی وژن اسکرین پر بیٹھ جائیں تو سیاپا فروشی کے کامیاب ترین اینکروں کو بھی گہنا دیتے ہیں۔ ان کی سیاپا فروشی سے غریب آدمی کے دُکھوں کا مداوا تو نہیں ہوتا مگر وہ اس بات پر مطمئن ہو جاتا ہے کہ آخر کوئی تو ہے جو ان کے دُکھوں کو بڑے غم و غصہ کے ساتھ بیان کر دیتا ہے۔ شیخ صاحب کی ٹیلی وژن اسکرینوں کے حوالے سے Ratings فنِ ڈرامہ کے لیے بنیادی سمجھے جانے والے Catharsis کے تمام تقاضوں کو فطری انداز میں پورا کرنے کا منطقی نتیجہ ہے۔ ارسطو ان دنوں زندہ ہوتا تو اسے اپنی اس حوالے سے سب سے زیادہ مستند اور کارگر سمجھے جانے والی Poetica کا ایک خاص باب ہمارے ٹی وی ٹاک شوز کے بارے میں بھی لکھنا پڑتا اور شاید اسے اپنی بات سمجھانے کے لیے بارہا شیخ صاحب کے کچھ کلمات کے حوالے بھی دینا پڑتے۔
گزشتہ چند مہینوں سے البتہ مجھے یہ شک لاحق ہو گیا ہے کہ شیخ صاحب اب محض سیاپا فروشی تک محدود نہیں رہنا چاہتے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر تخت گرانے اور تاج اُچھالنے والے انقلاب کو برپا کرنے کی تمنا میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ان کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ وہ نہ تو لینن ہیں نہ امام خمینی۔ بولنا خوب جانتے ہیں لکھنا کچھ خاص نہیں۔ ان کے پاس بالشویک پارٹی جیسی منظم جماعت بھی موجود نہیں اور نہ ہی قم کے مدرسے سے جڑا مذہبی رہنمائوں کا ایک مضبوط نیٹ ورک جو شہنشاہ ایران اور اس کی ساواک کے تمام تر جبر کے باوجود ایران کے بچھڑے ہوئے لوگوں اور طبقات کے دلوں کے ساتھ دھڑکتا رہا۔ فکری بنیادوں پر منظم سیاسی جماعت کے بغیر شیخ صاحب کو دوسرے لوگوں کے گرویدہ جوانوں کے گروہوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ سلالہ چوکی پر امریکی حملے کے بعد جب پاکستان نے اپنے زمینی راستوں کے ذریعے افغانستان میں متعین نیٹو افواج کی رسد پر پابندی لگائی تو اس پابندی کو طول دینے اور موثر بنائے رکھنے کے لیے ''دفاعِ پاکستان کونسل'' بنی۔
شیخ صاحب کسی دینی مدرسے کے نہیں عیسائی مشنریوں کی طرف سے راولپنڈی میں قائم کیے گئے گارڈن کالج کے طالب علم رہے ہیں۔ ان کے دل میں مگر ''احراری'' جذبہ ہمیشہ سے فروزاں رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک چلی تو آپ بھی اس کے رضا کار ہو گئے۔ اس تحریک کے شورش کاشمیری ایک ساحر مقرر ہوا کرتے تھے۔ شیخ صاحب کو شورش کاشمیری کی طرح اُردو اور فارسی زبانوں اور ان کے ادب کے ذریعے پروان چڑھے استعاروں اور علامتوں کا ککھ پتہ نہ تھا۔ اسی لیے بس شورش کاشمیری کے شعلہ بیاں انداز کی محض نقالی سے آگے نہ بڑھ پائے۔ سیانے آدمی تھے۔ جبلی طورپر جانتے تھے کہ شعلہ بیانی جلسے تو گرماتی ہے مگر اقتدار تک نہیں پہنچاتی۔
اقتدار تک پہنچنے کے راستے منصوبہ بندی سے بنائے جاتے ہیں۔ چوہدری ظہور الہی اسی کام کے بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ اس لیے ان کے قریب ہو گئے۔ پھر جنرل ضیاء تشریف لائے۔ انھوں نے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی اور غیر سیاسی بلدیاتی نظام کے ذریعے نیک اور صالح سیاستدانوں کی ایک نئی کھیپ تیار کرنا شروع کر دی۔ شیخ صاحب راولپنڈی سے کونسلر منتخب ہوئے۔ اس شہر کے بڑے تگڑے مانے جانے والے میئر کے خلاف اپوزیشن میں بیٹھ کر دھواں دھار تقاریر فرماتے رہے۔ خدا جنت نصیب کرے شورش ملک صاحب کو جنہوں نے شیخ صاحب کو ان تقریروں کی وجہ سے پرنٹ میڈیا میں ایک مقامی اسٹار بنا دیا۔ اس کے بعد کی کہانی تو آپ سارے خوب جانتے ہیں۔
میرا مقصد تو فی الوقت اس بات پر زور دینا ہے کہ شیخ صاحب اب سیاپا فروشی سے اُکتا چکے ہیں۔ انھیں انقلاب برپا کرنا ہے۔ مگر ان کے پاس کوئی اپنا بنایا انقلابی لشکر نہیں ہے۔ کسی اور کے لگائے چھابے میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہیں اور اس ضمن میں آج کل ان کی نظریں ہمارے شہری متوسط طبقے کے ان پُرجوش نوجوانوں پر مرکوز ہیں جو عمران خان کی قیادت میں اس ملک میں ''تبدیلی'' لانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اگرچہ مجھے شبہ ہے کہ عمران خان کے اِردگرد جمع ''پرانی سیاست'' کے اسیر جاگیردار اور خوش حال وکیل اور دندان ساز وغیرہ انھیں اپنی جماعت کو Hijack کرنے نہیں دیں گے۔ کوشش کرنے میں لیکن کوئی حرج نہیں۔ جس وقت یہ کالم چھپے گا، ضمنی انتخابات کے نتائج آ چکے ہوں گے۔
دیکھنا ہو گا کہ عمران خان ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اگر واقعی وہ ان انتخابات کے بارے میں ایک اور وائٹ پیپر تیار کرنے کے بجائے ''سڑکوں پر میچ'' کھیلنے پر تل گئے تو کم از کم ان کی جانب سے چلائی گئی تحریکِ انقلاب کے راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہروں میں قائم سیکٹرز کے شیخ صاحب از خود کمانڈر ہو جائیں گے۔ دمادم مست قلندر تو ہو جانے دیجیے۔ پھر شیخ صاحب ہوں گے اور ان کے کمالات۔ بس یہ دُعا مانگیے کہ ''دفاعِ پاکستان کونسل'' کی طرح تحریک انصاف کی جانب سے چلائی گئی ممکنہ احتجاجی تحریک بھی چائے کی پیالی سے اُٹھا ایک اور طوفان ثابت نہ ہو۔