نجی اسکولز کا کاروبار نہیں چل رہا تو کوئی اور بزنس کر لیں چیف جسٹس
فیس میں غیر معمولی اضافے کے لیے اسکولز تین سال انتظار کریں، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فیس میں غیر معمولی اضافے کے لیے اسکولز تین سال انتظار کریں اور ان کا کاروبار نہیں چل رہا تو کوئی اور بزنس کر لیں۔
سپریم کورٹ میں اسکول فیس میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نجی اسکولوں میں آئے روز فنکشن ہوتے ہیں، بچے ان فنکشنز پر کبھی کیک تو کبھی دودھ لیکر جاتے ہیں، منگوائی گئی اشیاء ٹیچرز گھر لے جاتی ہیں، آج تک بچوں کو وہ اشیاء واپس نہیں ملیں جو ان سے منگوائی گئی ہوں۔
بچوں کے والدین نے روسٹر پر آکر کہا کہ نجی اسکولز میں ڈسپلن نہ ہونے کی وجہ سے بچے منشیات کے عادی ہو رہے ہیں اور ان اسکولز میں مغربی طرز زندگی کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے یہاں تک کہ ہیلووین پارٹیز بھی ہوتی ہیں۔
چیف جسٹس نے والدین سے کہا کہ آپ کو ماحول پسند نہیں تو بچوں کا اسکول بدل لیں، کسی نے زبردستی تو نجی اسکول میں پڑھانے کا نہیں کہا، آپ کو ہیلووین ، ویلنٹائن پارٹی اور کنسرٹ نہیں پسند تو اسکول چھڑوا دیں، عدالت نے اسکولز کے نظام کو نہیں بلکہ قانون کو دیکھنا ہے۔
والدین نے کہا کہ فیس میں سالانہ پانچ فیصد اضافہ مناسب ہے، اس سے زیادہ اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ والدین سمیت سب کے مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرینگے۔
چیف جسٹس نے اسکولز کے وکیل سے پوچھا کہ کیا ہیلووین پارٹی کیلئے بھی فیس سے الگ پیسے لئے جاتے ہیں؟۔ تو وکیل نے جواب دیا کہ ٹیوشن فیس کے ساتھ فیس اسٹرکچر میں سب کچھ شامل ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق واپس نہیں بلکہ ریگولیٹ کیے جا سکتے ہیں، تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، نجی اسکولز کو ریگولیٹ کرنا بھی ریاست کا کام ہے، اسکولز کو سالانہ پانچ فیصد سے زیادہ اضافہ چاہیے تو اپنا لائسنس سرنڈر کردے، نجی اسکولز کا کاروبار نہیں چل رہا تو چھوڑ کر اور بزنس کر لیں، ان اسکولوں میں جو ہوتا ہے سب معلوم ہے، یونیفارمز کتابوں پر الگ سے کمائی کی جاتی ہے، ان اسکولز کے نفع اربوں میں ہیں، نقصان اگر ہو بھی تو صرف نفع میں ہوتا ہے، فیس میں غیر معمولی اضافے کے لیے اسکولز تین سال انتظار کریں۔
سپریم کورٹ میں اسکول فیس میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نجی اسکولوں میں آئے روز فنکشن ہوتے ہیں، بچے ان فنکشنز پر کبھی کیک تو کبھی دودھ لیکر جاتے ہیں، منگوائی گئی اشیاء ٹیچرز گھر لے جاتی ہیں، آج تک بچوں کو وہ اشیاء واپس نہیں ملیں جو ان سے منگوائی گئی ہوں۔
بچوں کے والدین نے روسٹر پر آکر کہا کہ نجی اسکولز میں ڈسپلن نہ ہونے کی وجہ سے بچے منشیات کے عادی ہو رہے ہیں اور ان اسکولز میں مغربی طرز زندگی کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے یہاں تک کہ ہیلووین پارٹیز بھی ہوتی ہیں۔
چیف جسٹس نے والدین سے کہا کہ آپ کو ماحول پسند نہیں تو بچوں کا اسکول بدل لیں، کسی نے زبردستی تو نجی اسکول میں پڑھانے کا نہیں کہا، آپ کو ہیلووین ، ویلنٹائن پارٹی اور کنسرٹ نہیں پسند تو اسکول چھڑوا دیں، عدالت نے اسکولز کے نظام کو نہیں بلکہ قانون کو دیکھنا ہے۔
والدین نے کہا کہ فیس میں سالانہ پانچ فیصد اضافہ مناسب ہے، اس سے زیادہ اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ والدین سمیت سب کے مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرینگے۔
چیف جسٹس نے اسکولز کے وکیل سے پوچھا کہ کیا ہیلووین پارٹی کیلئے بھی فیس سے الگ پیسے لئے جاتے ہیں؟۔ تو وکیل نے جواب دیا کہ ٹیوشن فیس کے ساتھ فیس اسٹرکچر میں سب کچھ شامل ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق واپس نہیں بلکہ ریگولیٹ کیے جا سکتے ہیں، تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، نجی اسکولز کو ریگولیٹ کرنا بھی ریاست کا کام ہے، اسکولز کو سالانہ پانچ فیصد سے زیادہ اضافہ چاہیے تو اپنا لائسنس سرنڈر کردے، نجی اسکولز کا کاروبار نہیں چل رہا تو چھوڑ کر اور بزنس کر لیں، ان اسکولوں میں جو ہوتا ہے سب معلوم ہے، یونیفارمز کتابوں پر الگ سے کمائی کی جاتی ہے، ان اسکولز کے نفع اربوں میں ہیں، نقصان اگر ہو بھی تو صرف نفع میں ہوتا ہے، فیس میں غیر معمولی اضافے کے لیے اسکولز تین سال انتظار کریں۔