کراچی گندگی کا ڈھیر بنا ہے زمینوں پر قبضے دوبارہ شروع ہوگئے سپریم کورٹ
کے ایم سی اور کے الیکٹرک کے درمیان واجبات کی ادائیگی سے متعلق تنازع کا حل پیش کرنے کی ہدایت
سپریم کورٹ نے بلدیہ عظمیٰ کراچی (کے ایم سی) اور کے الیکٹرک کے درمیان واجبات کی ادائیگی سے متعلق تنازع کا حل پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو کے ایم سی اور کے الیکٹرک کے درمیان واجبات کی ادائیگی کے تنازعہ سے متعلق سماعت ہوئی۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کے ایم سی بجلی کے بل ادا نہیں کر سکتی تو بجلی کاٹ دینی چاہیے، ویسے بھی کے ایم سی کے ہونے یا نہ ہونے سے شہر میں کیا فرق پڑتا ہے، عباسی شہید اسپتال کی حالت سے واقف ہیں، مریض لاوارث اور ڈاکٹرز اے سی میں بیٹھ کر مزے کرتے ہیں، ان افسران کو اے سی تو کیا بغیر بجلی کے رکھا جانا چاہیے، سرکاری اسپتالوں میں تو دوائی دینے والا تک اے سی استعمال کرتا ہے۔
سندھ حکومت کے وکیل نے کہا کہ کے الیکٹرک کو 10 کروڑ روپے دینے کے لیے اکاؤنٹینٹ جنرل کو خط لکھ دیا۔ تاہم کے الیکٹرک کے وکیل نے موقف اپنایا ہمیں ابھی تک 10 کروڑ نہیں ملے۔۔ اس پر عدالت نے قرار دیا کہ حل یہی ہے کہ کے الیکٹرک کے ایم سی کی بجلی بند کر دے، بدلے میں کے ایم سی کے الیکٹرک کی تنصیبات باہر نکال پھینکے۔
عدالت نے آبزوریشن دی جو بجلی کا بل نہیں دے سکتا تو بجلی کاٹ دیں، سندھ حکومت بھی بل ادا نہیں کرتی تو سب سے پہلے سندھ اسمبلی کی بجلی کاٹیں، ویسے کے ایم سی نے شہریوں کے مفاد کے لیے کون سا کام کیا ہوتا ہے، اسی شہر میں رہتے ہیں سب معلوم ہے کوئی اسٹریٹ لائٹ نہیں جلتی، کارکردگی کچھ نہیں اور اربوں کی بجلی خرچ کردی جاتی ہے، شہریوں کی تکالیف سے ان افسران کا کیا تعلق۔
عدالت نے آئندہ سیشن تک سندھ حکومت کو حکم دیا کہ کے الیکٹرک کو واجبات کی قسط ادا کی جائے اور فریقین کو ہدایت کی کہ واجبات کے تنازع کا حل تجویز کیا جائے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ شہر گندگی کا ڈھیر بنا ہوا ہے، زمینوں پر دوبارہ قبضے ہونا شروع ہوگئے، ایمپریس مارکیٹ کے کچھ حصے پر اب بھی قبضہ ہے، 2 روز قبل مارکیٹ کا خود جائزہ لے کر آیا ہوں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو کے ایم سی اور کے الیکٹرک کے درمیان واجبات کی ادائیگی کے تنازعہ سے متعلق سماعت ہوئی۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کے ایم سی بجلی کے بل ادا نہیں کر سکتی تو بجلی کاٹ دینی چاہیے، ویسے بھی کے ایم سی کے ہونے یا نہ ہونے سے شہر میں کیا فرق پڑتا ہے، عباسی شہید اسپتال کی حالت سے واقف ہیں، مریض لاوارث اور ڈاکٹرز اے سی میں بیٹھ کر مزے کرتے ہیں، ان افسران کو اے سی تو کیا بغیر بجلی کے رکھا جانا چاہیے، سرکاری اسپتالوں میں تو دوائی دینے والا تک اے سی استعمال کرتا ہے۔
سندھ حکومت کے وکیل نے کہا کہ کے الیکٹرک کو 10 کروڑ روپے دینے کے لیے اکاؤنٹینٹ جنرل کو خط لکھ دیا۔ تاہم کے الیکٹرک کے وکیل نے موقف اپنایا ہمیں ابھی تک 10 کروڑ نہیں ملے۔۔ اس پر عدالت نے قرار دیا کہ حل یہی ہے کہ کے الیکٹرک کے ایم سی کی بجلی بند کر دے، بدلے میں کے ایم سی کے الیکٹرک کی تنصیبات باہر نکال پھینکے۔
عدالت نے آبزوریشن دی جو بجلی کا بل نہیں دے سکتا تو بجلی کاٹ دیں، سندھ حکومت بھی بل ادا نہیں کرتی تو سب سے پہلے سندھ اسمبلی کی بجلی کاٹیں، ویسے کے ایم سی نے شہریوں کے مفاد کے لیے کون سا کام کیا ہوتا ہے، اسی شہر میں رہتے ہیں سب معلوم ہے کوئی اسٹریٹ لائٹ نہیں جلتی، کارکردگی کچھ نہیں اور اربوں کی بجلی خرچ کردی جاتی ہے، شہریوں کی تکالیف سے ان افسران کا کیا تعلق۔
عدالت نے آئندہ سیشن تک سندھ حکومت کو حکم دیا کہ کے الیکٹرک کو واجبات کی قسط ادا کی جائے اور فریقین کو ہدایت کی کہ واجبات کے تنازع کا حل تجویز کیا جائے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ شہر گندگی کا ڈھیر بنا ہوا ہے، زمینوں پر دوبارہ قبضے ہونا شروع ہوگئے، ایمپریس مارکیٹ کے کچھ حصے پر اب بھی قبضہ ہے، 2 روز قبل مارکیٹ کا خود جائزہ لے کر آیا ہوں۔