غزہ کے محصوروں پر اسرائیلی طیاروں کی بمباری
اسرائیل کو سیلف ڈیفنس کا اگر اختیار دیا جا سکتا ہے تو نہتے فلسطینیوں کے دفاع کا کس کو حق دیا جائے گا۔
فلسطین کے انقلابی دانشور ایڈورڈ سعید نے غزہ کی پٹی کو ''اوپن ایئر پریزن'' یا کھلی جیل قرار دیا ہے جس کے گرد اسرائیل نے انتہائی سخت محاصرہ کر رکھا ہے اور محاصرے کو مزید سخت کرنے کی خاطر گاہے بگاہے توپیں اور ٹینک بھی بارڈر پر لگا دیے جاتے ہیں تاکہ نہتے محصور فلسطینیوں کو مزید دہشت زدہ کیا جا سکے اور اگر تب بھی کوئی کسر محسوس ہو تو پھر فضائی بمباری کا آپشن بھی اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔
یہ فضائی بمباری صرف نہتے فلسطینیوں پر ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی زد میں فلسطینیوں کے مکانات اور رہائش گاہیں بھی آ جاتی ہیں جن پر اسرائیلی حکام کا یہ حکم نا زل ہو جاتا ہے کہ مذکورہ عمارت دہشت گردوں کا ٹھکانا تھا اور وہاں سے حماس کی طرف سے اسرائیلی نئی آبادیوں پر مبینہ طور پر راکٹ حملے ہوتے ہیں اس لیے اس مکان کو اس کے مکینوں سمیت زمین بوس کر دیا گیا۔ بقول شاعر :
نہ منصفی نہ عدالت حساب صاف ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
اس سے قبل امریکا کے مشہور اخبار ' نیویارک ٹائمز' نے فلسطین کے ساتھ اسرائیلی سلوک کے حوالے سے ایک کارٹون شائع کیا تھا جس میں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کو ایک خونخوارجانور کے روپ میں دکھایا گیا، جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک یہودی پادری (یا ربی کی شکل میں سر پر مخصوص ٹوپی اوڑھے اس خونخوار جانور سے اپنے مطلب کے کام لے رہے ہیں، یعنی فلسطینیوں کی نا حق قتل و غارت کا کام۔
اسرائیل کا نہتے فلسطینیوں پر راکٹ بازی کا جو الزام ہے اسے اگر درست بھی مان لیا جائے مگر اس بے بس آبادی پر فضا سے بمباری کرنے کا آخر کیا جواز بنتا ہے۔ اسرائیل کو سیلف ڈیفنس کا اگر اختیار دیا جا سکتا ہے تو نہتے فلسطینیوں کے دفاع کا کس کو حق دیا جائے گا۔ اب گو غزہ کے محصوروں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کو دہشت گردی نہیں کہا جائے گا؟ جہاں تک امریکی صدر کی اسرائیل سے حمایت کا تعلق ہے تو وہ اس حوالے سے ہر حد کو توڑنے پر تلا ہوا ہے۔
پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ القدس منتقل کرنے کا اعلان کر کے سیکڑوں سال سے جاری تاریخی تقسیم کو درہم برہم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کے ساتھ ہی واشنگٹن میں فلسطینی اتھارٹی کا دفتر بند کر دیا، اور اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطینیوں کو دی جانے والی امداد بھی بند کر دی۔
یہ فضائی بمباری صرف نہتے فلسطینیوں پر ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی زد میں فلسطینیوں کے مکانات اور رہائش گاہیں بھی آ جاتی ہیں جن پر اسرائیلی حکام کا یہ حکم نا زل ہو جاتا ہے کہ مذکورہ عمارت دہشت گردوں کا ٹھکانا تھا اور وہاں سے حماس کی طرف سے اسرائیلی نئی آبادیوں پر مبینہ طور پر راکٹ حملے ہوتے ہیں اس لیے اس مکان کو اس کے مکینوں سمیت زمین بوس کر دیا گیا۔ بقول شاعر :
نہ منصفی نہ عدالت حساب صاف ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
اس سے قبل امریکا کے مشہور اخبار ' نیویارک ٹائمز' نے فلسطین کے ساتھ اسرائیلی سلوک کے حوالے سے ایک کارٹون شائع کیا تھا جس میں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کو ایک خونخوارجانور کے روپ میں دکھایا گیا، جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک یہودی پادری (یا ربی کی شکل میں سر پر مخصوص ٹوپی اوڑھے اس خونخوار جانور سے اپنے مطلب کے کام لے رہے ہیں، یعنی فلسطینیوں کی نا حق قتل و غارت کا کام۔
اسرائیل کا نہتے فلسطینیوں پر راکٹ بازی کا جو الزام ہے اسے اگر درست بھی مان لیا جائے مگر اس بے بس آبادی پر فضا سے بمباری کرنے کا آخر کیا جواز بنتا ہے۔ اسرائیل کو سیلف ڈیفنس کا اگر اختیار دیا جا سکتا ہے تو نہتے فلسطینیوں کے دفاع کا کس کو حق دیا جائے گا۔ اب گو غزہ کے محصوروں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کو دہشت گردی نہیں کہا جائے گا؟ جہاں تک امریکی صدر کی اسرائیل سے حمایت کا تعلق ہے تو وہ اس حوالے سے ہر حد کو توڑنے پر تلا ہوا ہے۔
پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ القدس منتقل کرنے کا اعلان کر کے سیکڑوں سال سے جاری تاریخی تقسیم کو درہم برہم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کے ساتھ ہی واشنگٹن میں فلسطینی اتھارٹی کا دفتر بند کر دیا، اور اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطینیوں کو دی جانے والی امداد بھی بند کر دی۔