اکانومی آف ماڈرن سندھ

آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی انتظامیہ اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد کی مستحق ہے۔

tauceeph@gmail.com

پروفیسر اعجاز اے قریشی زندگی بھر مشکل کام کرتے رہے ہیں ۔ ابھی ان کی کتاب ون یونٹ کی تاریخ کا ذکر بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ انھوں نے اس دفعہ ڈاکٹر عشرت حسین اور ندیم حسین کے ساتھ مل کر سندھ کی تاریخ ، جغرافیہ، اقتصادی صورتحال، تعلیم، صحت اور آبپاشی وغیرہ کے بارے میں ایک کتاب "The Economy of Modern Sindh" تخلیق کردی۔

آئین میں 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والے اختیارات کے بعد سندھ کی مجموعی صورتحال کو اس کتاب کے 462 صفحات میں سمو دیا گیا ہے۔ یہ کتاب 13 کے قریب عنوانات پر مشتمل ہے۔ پہلا عنوان سندھ کی زمین اور عوام سے متعلق ہے۔ اس عنوان میں سندھ کی تاریخی پس منظر اور جغرافیہ کو بیان کیا گیا ہے۔ سندھ کے دریاؤں کا ذکر کرتے ہوئے دریائے سندھ کے علاوہ دریائے حب اور دریائے ملیرکا ذکر کیا گیا ہے۔

جھیلوں منچھر ، کینجھر، ھالیجی، بھاڈور، ڈرگ اور ھالیجی جھیلوں کی گہرائی اور آبپاشی کے نظام میں ان جھیلوں کے پانی کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح سندھی زبان کی وسعت اور سندھی ادب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سندھیوں کے مذاہب اسلام، ہندو ازم، عیسائیت اور پارسی Zordastrianism کا ذکر کیا گیا ہے۔ سندھ کی 95 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے باقی 5 فیصد کا تعلق دیگر مذاہب سے ہے۔ سندھ کے انتظامی ڈھانچہ اور موئنجودڑو، Medieval اور آزادی کے بعد کی تاریخ کو بیان کیا گیا ہے۔کتاب کے دوسرے باب میں سندھ کی انتظامی اور اقتصادی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس باب میں معروف مؤرخ Sorley نے سندھ کی تاریخ کو یوں تقسیم کیا تھا: 1۔عرب دور، 2۔ محمود غزنوی سے متصل دور کے آغاز تک، 3۔ مغل دور، 4۔ کلہوڑا دور، 5 ۔ تالپور دور، 6۔ برطانیہ کا دور اور 7۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد سے اب تک کا دور۔ مصنفین کا کہنا ہے کہ مغل بادشاہ اکبرکے دور تک سندھ نیم خودمختار حیثیت کا حامل تھا مگر جب اکبر نے ٹھٹھہ کے حاکم مرزا جانی بیگ کو شکست دی تو سندھ ملتان صوبہ کا حصہ بن گیا جو مغل سلطنت میں شامل تھا ۔

17ویں صدی میں مغل دور میں انگریزوں نے سندھ میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ اس وقت ٹھٹھہ اہم تجارتی بندرگاہ تھا۔ کتاب میں تحریر کیا گیا ہے کہ 1843ء میں سندھ پر قبضہ کے بعد محکمہ انہار قائم کیا۔ اس کتاب میں سکھر بیراج کی تعمیر کے وقت حکومت پنجاب کے مؤقف کے بارے میں بمبئی حکومت نے سخت تشویش کا اظہار کیا۔ اس باب میں سندھ کی 28 بڑی نہروں کے نام ،ان کی تکمیل کی تاریخ اور اس منصوبہ پر ہونے والے اخراجات کو چارٹ کے ذریعے ظاہرکیا گیا ہے۔ اس طرح پبلک فنانس اور بلدیاتی اداروں کے عنوان سے باب میں بتایا گیا ہے کہ 19ویں صدی کے وسط تک صوبہ بلدیاتی اداروں اور ٹیکسوں کی وصولی کے معاملے میں پسماندہ رہا۔

انگریز حکومت نے 1863ء میں بمبئی ریزیڈنسی کے علاقے میں پہلی دفعہ مقامی فنڈز کا اجراء کیا۔ اس وقت پہلی دفعہ زمین کا مالیہ ایک آنہ فی ایکڑ مقررکیا گیا۔ یہ مالیہ وصول کرنے کی مکمل ذمے داری کلیکٹرز اور ان کے معاونین کی تھی، اس بناء پر یہ نظام زیادہ کامیاب نہیں ہوا۔ 1884ء بمبئی ایکٹ کے تحت یہ اسکیم دوبارہ نافذ کی گئی۔اب مالیہ کی وصولی کا معاملہ ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ اور تعلقہ بورڈ کے دائرہ میں شامل کیا گیا۔کتاب کا تیسرا باب سندھ کی آبادی سے متعلق ہے۔

کتاب میں تحریر کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں پہلی مردم شماری 19ویں صدی کے آخر میں ہوئی۔ اس وقت سندھ بمبئی کا حصہ تھا۔1891ء سے1941ء تک ہندوستان میں 6 مرتبہ مردم شماری ہوئی ۔اس باب کے آغاز پر ایک چارٹ کے ذریعے ان 6 مردم شماریوں کے نتائج درج کیے گئے ہیں ۔ برطانوی ہند حکومت نے 1935ء کا ایکٹ نافذ کیا۔ اس ایکٹ کے تحت 1936ء میں سندھ بمبئی سے علیحدہ صوبہ بن گیا۔ اس چارٹ کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ 1940ء میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی مگر 1941ء میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے جن میں پنجاب بھی شامل ہے سندھ میں ہجرت کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔


1947ء میں بڑے پیمانے پر مسلمان ہجرت کر کے سندھ میں آباد ہوئے جب کہ سندھ سے ہندو، یہودی، پارسی اور عیسائی باشندے دیگر صوبوں اور بیرون ممالک ہجرت کرگئے۔ اس باب میں تحریر کیا گیا ہے کہ 2017ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ پاکستان کا سب سے زیادہ اربنائزڈ Urbanized صوبہ ہے۔ اب سندھ کی شہری اور دیہی آبادی میں معمولی فرق ہے۔ 2017ء کی مردم شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کی 52 فیصد آبادی شہروں میں اور 48 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے۔

سندھ کی تعلیمی صورتحال کا ذکرکرتے ہوئے کتاب میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں 12.7 ملین بچوں میں سے 6ملین بچے (47%) پرائمری اور ہائی اسکول میں رجسٹرڈ ہیں۔ اس طرح پبلک اسکول سسٹم میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد 4 ملین ہے جب کہ 0.15 ملین اساتذہ ہیں۔ اس کتاب میںتحریرکیا گیا ہے کہ اساتذہ کی اکثریت کو سیاسی دباؤ کی بناء پر منتخب کیا جاتا تھا۔ یوں غیر حاضر اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ حکومت نے جب اسکولوں میں بائیومیٹرک کا نظام نافذ کیا تو بہت سے گھوسٹ اساتذہ کا پتہ چلا۔

مصنفین کا کہنا ہے کہ سندھ میں اصل مسئلہ فنڈز کی کمی نہیں ہے۔ تعلیمی بجٹ میں 1970ء سے اضافہ ہورہا ہے۔ سندھ میں دینی مداراس کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہ مدارس کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے خاص کشش رکھتے ہیں مگر ان مدارس کا نصاب فرسودہ اور رجعت پسندانہ ہے۔

مصنفین کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والی رقم میں اضافہ ہوا ہے مگر اسکول جانے والے طلبہ کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ سندھ میں شعبہ صحت کا تنقیدی جائزے میں کہا گیا ہے کہ سندھ پنجاب سے پیچھے ہے۔ مصنفین نے ایک چارٹ کے ذریعے اس مفروضہ کو ثابت کیا ہے۔ پنجاب میں مالی سال 2015-06ء میں صحت کے لیے بجٹ کا 11.5 فیصد حصہ مختص کیا گیا جب کہ سندھ میں 7 فیصد مختص ہوا۔ سندھ میں صحت کی سہولتوں کے تناظر میں شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان خاصا فرق ہے۔ اس کتاب کے مصنفین کا خیال ہے کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں خاص طور پر صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے مربوط اور Multi Sectoral Strategy کی ضرورت ہے۔

کتاب کے مصنفین نے لکھا ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ ہندو 1.3 ملین ایکڑ اراضی چھوڑ کر گئے تھے۔ اس زمین کے کچھ حصے پر طاقتور زمینداروں نے قبضہ کرلیا اور بہت سی زمین ایسے افراد کو دے دی گئی جن کا زراعت سے تعلق نہیں تھا۔ ان زمینوں کو حاصل کرنے والے بہت سے افراد بھارت سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ غیر حاضر زمینداروں کو زمینیں دینے، زراعت سے تعلق نہ رکھنے والے افراد کو زرعی زمینوں کی الاٹ منٹ، ہاریوں کے حقوق کے تحفظ نہ ہونے سے سندھ کی زراعت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے۔

ہجرت کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے فیصلے کے نتیجے میں ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی متروکہ املاک جو شہروں میں تھیں اور زرعی زمینیں بھی ہندوستان آنے والے مسلمانوں میں تقسیم کردی گئیں مگر کچھ زرعی زمینیں مقامی سندھی زمینداروں کو بھی الاٹ کی گئیں۔ ہندوستان سے آنے والے بیشتر مہاجرین شہروں میں آباد ہوئے اور غیر حاضر زمیندار بن گئے۔ اس طرح 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں زرعی اصلاحات نے زمینوں کی ملکیت کے رجحان پر کوئی خاص ضرب نہیں لگائی۔ اسی طرح توانائی اور معدنیات کے باب میں فراہم کردہ اعداد و شمار انتہائی معلوماتی ہیں، یوں پبلک فنائنس کے باب میں وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم قومی مالیاتی ایوارڈ کے مختلف فارمولوں کا انتہائی خوبصورتی کے ساتھ تجزیہ تحریر کیا گیا ہے۔

کتاب کے اختتامی باب میں مصنفین نے سندھ کی معیشت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگرچہ سندھ سب سے زیادہ اربنائزڈ صوبہ ہے اور شرح خواندگی میں بھی دیگر صوبوں سے آگے ہے، مگر سندھ میں فی کس آمدنی ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے مگر پنجاب نے اپنی اقتصادی صورتحال سندھ کے مقابلے میں بہترکرلی ہے۔ پروفیسر اعجاز قریشی، ڈاکٹر عشرت حسین اور نوجوان ریسرچر ندیم حسین نے تحقیق کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دستاویز بنا رکھی ہیں سندھ کی جامعات کو اس کتاب کا عرق ریزی سے جائزہ لینا چاہیے ۔

ان مصنفین نے یہ کتاب لکھ کر نہ صرف سندھ کی خدمت کی ہے بلکہ باقی صوبوں کے ماہرین کے لیے بھی راستہ ہموار کیا ہے ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی انتظامیہ اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد کی مستحق ہے۔ سندھ حکومت کو اس کتاب کے مندرجات پر غور کرنا چاہیے۔ پروفیسر اعجاز قریشی کا کہا ہے کہ اس کتاب کا سندھی اور اردو میں ترجمہ ہورہا ہے۔
Load Next Story