ن لیگ ابھی بھی شہباز شریف کے بیانیہ پر ہی قائم ہے
دوستوں کا خیال تھا کہ ن لیگ اپنی لمبی خاموشی توڑنے جا رہی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) میں کس کا بیانیہ چلے گا۔ یہ ایک عجیب بحث ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں حالیہ ہونے والی چند تبدیلیوں اور نواز شریف کو جیل واپس چھوڑنے جانے کے لیے ریلی سے دوستوں نے یہ اندازہ لگانا شروع کر دیا کہ ن لیگ کا بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے۔ دوستوں کا خیال تھا کہ ن لیگ اپنی لمبی خاموشی توڑنے جا رہی ہے۔ یہ بھی رائے بن گئی کہ نواز شریف کی ضمانت میں توسیع نہ ہونا ، شہباز شریف کا یک دم ملک سے باہر چلے جانا اور واپسی میں تاخیر اس بات کی نشانی سمجھی جا رہی ہے کہ بات چیت ٹوٹ گئی ہے۔
ایک عمومی رائے یہی بن رہی ہے کہ اب حمزہ شہباز کی ضمانت بھی منسوخ ہو جائے گی اور وہ بھی جیل چلے جائیں گے۔ نئی تنظیم سازی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ ن لیگ واپس ووٹ کو عزت دو ،خلائی مخلوق کے بیانیہ میں آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو چیلنج نہ کرنے کی پالیسی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں لندن سے شہباز شریف کی جانب سے پارلیمانی لیڈر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا عہدہ چھوڑنے کے اعلان نے بھی اس رائے اور سیاسی تجزیہ کو تقویت دے دی کہ شہباز شریف پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
لندن میں قیام بڑھانے کی خبروں نے ان کے جلا وطن ہونے کے تاثر کو بھی مضبوط کر دیا رہی سہی کسر تحریک انصاف نے بھاگ گیا کا شور مچا کر پوری کر دی۔ دوسری طرف یہ ماحول بن رہا تھا کہ مریم نواز اپنی خاموشی ختم کرنے جا رہی ہیں۔ نواز شریف کی جیل واپسی سے پہلے یک دم مریم نواز ٹوئٹر پر متحرک ہو گئیں۔ اور دوستوں کے اعداد و شمار کے مطابق انھوں نے چھ دنوں میں نوے سے زائد ٹوئٹ کر دیے۔
ایک عمومی رائے ہے کہ شہباز شریف اسٹبلشمنٹ اور ریاستی اداروں کے ساتھ مفاہمت کے بیانیہ کو لے کر چل رہے ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف محاذ آرائی کے بیانیہ کو لے کر چل رہے تھے۔ بیانیہ کے اس اختلاف میں شہباز شریف کے پاس کئی سنہری مواقعے تھے جب وہ اپنی راہیں جدا کر سکتے تھے لیکن شہباز شریف نے ایسا نہیں کیا۔ چند دوستوں کا خیال ہے کہ بہت بڑی غلطی کی ہے۔ چند کا خیال ہے کہ انھوں نے نہ کبھی پہلے بھائی کو چھوڑا تھا نہ اب چھوڑیں گے۔ البتہ سوچ کا اختلاف رکھنا شہباز شریف کا حق ہے۔ دوسری طرف حالات کی ستم ظریفی کو دیکھتے ہوئے نواز شریف نے شہباز شریف کی بات مان لی ہے اور محاذ آرائی کے بیانیہ کو چھوڑ کر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ نواز شریف کی خاموشی کی وجہ سے مریم نواز بھی خاموش ہو گئی ہیں۔ وہ لوگ بھی خاموش ہو گئے جو محاذ آرائی کے بیانیہ کو آگے بڑھا رہے تھے۔
اس خاموشی کی وجہ سے یہ تاثر بن گیا کہ ن لیگ کا بیانیہ تبدیل ہو گیا ہے۔ محاذ آرائی پر مفاہمت غالب آگئی ہے۔ خاموشی کی یہ سیاست شہباز شریف کی سیاست اور بیانیہ تصور کیا جا رہا ہے۔ پی پی پی کے جال میں نہ پھنسنے ، احتجاجی سیاست سے دوری اور آرام سے وقت گزارنے کی حکمت عملی کو شہباز شریف کی سوچ کی بالا دستی تصور کیا جا رہا تھا۔
لیکن نواز شریف کی جانب سے ریلی کی صورت میں جیل جانے پر دوستوں کو یہ خیال پیدا ہو گیا کہ شہباز شریف کا بیانیہ ختم ہو گیا ہے۔ مریم نواز کی جانب سے ریلی کی قیادت کے اعلان سے بھی یہی تصور لیا جا رہا تھا کہ بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے۔ لیکن ریلی نے ظاہر کر دیا ہے کہ کوئی بیانیہ تبدیل نہیں ہو رہا ہے۔
یہ ایک دن کی سیاسی حکمت عملی تھی اس کا مستقل بیانیہ سے کوئی تعلق نہیں۔ میرے دوست بھول جاتے ہیں کہ جب نواز شریف اور مریم نواز نے پوری جماعت کی مخالفت کے باوجود انتخابات سے پہلے لندن سے وطن واپس آنے کا اعلان کر دیا تھا تب بھی یہی خیال تھا کہ انتخابات میں شہباز شریف مفاہمت کے جس بیانیہ کو لے کر چل رہے ہیں وہ انتخابی مہم کے دوران ہی ختم ہو گیا ہے اور مفاہمت ہائی جیک ہو گئی ہے۔ شہباز شریف ہی نہیں پوری جماعت نہ صرف نواز شریف کی وطن واپسی کے خلاف تھی بلکہ اس موقع پر جلوس اور ریلی کو تو زہر قاتل سمجھ رہی تھی۔ سب کا موقف تھا کہ بنا بنایا الیکشن ہاتھ سے نکل جائے گا۔ تب بھی شہباز شریف نے ایک مربوط سیاسی حکمت عملی اور دانش سے مفاہمت کو نہ صرف بچایا بلکہ محاذ آرائی کو شکست دی۔ اب بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔ بس ایک دن کا شور تھا باقی شہباز شریف کا بیانیہ ہی ہے۔
نواز شریف کو جیل چھوڑنے جانے کے لیے پارٹی نے بہت زور لگا کر مناسب تعداد میں لوگ جمع کر لیے۔ پہلا روزہ تھا۔ سب کا خیال تھا کہ نواز شریف جیل جانے سے پہلے اپنے لیے آنے والے لوگوں سے ایک دھواں دھار خطاب کریں گے۔ جیل جانے سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے بیانیہ کی کم از کم وضاحت کر جائیں گے۔ دوستوں کی یہ بھی رائے تھی کہ نواز شریف سے پہلے مریم نواز بھی خطاب کریں گی۔لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ نواز شریف جیل جانے سے پہلے اپنے استقبال کے لیے آنے والوں کو نہ تو کوئی واضح لائن دے کر گئے ہیں۔ بلکہ کہا جائے تو اپنی خاموشی قائم رکھ کر گئے ہیں۔ مریم نواز نے بھی کوئی خطاب نہیں کیا ۔ بس ٹوئٹر پر ہی متحرک رہی ہیں۔ آنے والوں سے خطاب نہیں کیا گیا۔ جب لوگ آہی گئے تھے تو ان سے خطاب کیوں نہیں کیا گیا۔ جب خاموشی برقرار ہی رکھنی تھی تواس سیاسی شو کو کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اگر بیانیہ شہباز شریف کا ہی چلنا ہے تو انداز بھی شہباز شریف کا ہی چلائیں۔ یہ کیا ہے۔
اگر نواز شریف اور مریم نواز اس وقت شہباز شریف کی بات مان کر لندن میں ہی رک جاتے تو شاید ن لیگ کے لیے آج حالات بہت بہتر ہوتے۔ آج اسی پالیسی کی وجہ سے شہباز شریف اور پوری ن لیگ جکڑی ہوئی ہے۔ شہباز شریف اب اپنے لیے تو راستہ بنانے کی کوشش نہیں کر رہے وہ تو نواز شریف اور مریم کے لیے راستہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھیں اس دلدل سے نکالنے کے لیے سیاسی قربانیاں دی جا رہی ہیں۔ اگر شہباز شریف نے اپنے لیے کچھ کرنا ہوتا تو الیکشن سے پہلے راہیں جدا کر لیتے۔ کم از کم آج پنجاب میں اقتدار تو ہوتا ۔ باقی سب کی طرح ان کے لیے بھی آسانیاں ہوتیں۔ اس طرح مقدمات میں تو نہ پھنسے ہوتے۔ ان سے تو دوستوں کو گلہ ہی یہ ہے کہ وہ مفاہمت کی بات تو کرتے ہیں لیکن نواز شریف کو نہیں چھوڑتے۔ آج شہباز شریف اور ان کی اولاد نواز شریف سے وفاداری کی قیمت ادا کر رہی ہے۔
لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ ن لیگ ابھی بھی شہباز شریف کے بیانیہ پر قائم ہیں۔ یہ ایک دن کی حکمت عملی تھی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ نواز شریف خاموش ہی واپس جیل چلے گئے ہیں۔ مریم نواز نے بھی خاموشی برقرار رکھی ہے۔ ورنہ جاتی امرا سے گاڑی کے بجائے ٹرک پر سوار ہو کر نکلتے۔ سارے راستے خطاب کرتے۔ خوب دل کی بھڑاس نکالتے اور جیل چلے جاتے۔مریم نواز چھ دن میں نوے ٹوئٹ کرنے کے بجائے دس کارنر میٹنگ سے بھی خطاب کر سکی تھیں تاکہ زیادہ لوگ اکٹھے ہو جائیں۔ گاڑی کے بجائے ٹرک سے کوریج بھی بہتر ہونی تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کو سمجھیں۔ باقی اتنا شور کرنا اور ایک ریلی نکالنے سے کوئی طوفان نہیں آگیا۔ بس دل کی تسلی ہو گئی ہے۔
ایک عمومی رائے یہی بن رہی ہے کہ اب حمزہ شہباز کی ضمانت بھی منسوخ ہو جائے گی اور وہ بھی جیل چلے جائیں گے۔ نئی تنظیم سازی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ ن لیگ واپس ووٹ کو عزت دو ،خلائی مخلوق کے بیانیہ میں آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسٹبلشمنٹ کو چیلنج نہ کرنے کی پالیسی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں لندن سے شہباز شریف کی جانب سے پارلیمانی لیڈر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا عہدہ چھوڑنے کے اعلان نے بھی اس رائے اور سیاسی تجزیہ کو تقویت دے دی کہ شہباز شریف پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
لندن میں قیام بڑھانے کی خبروں نے ان کے جلا وطن ہونے کے تاثر کو بھی مضبوط کر دیا رہی سہی کسر تحریک انصاف نے بھاگ گیا کا شور مچا کر پوری کر دی۔ دوسری طرف یہ ماحول بن رہا تھا کہ مریم نواز اپنی خاموشی ختم کرنے جا رہی ہیں۔ نواز شریف کی جیل واپسی سے پہلے یک دم مریم نواز ٹوئٹر پر متحرک ہو گئیں۔ اور دوستوں کے اعداد و شمار کے مطابق انھوں نے چھ دنوں میں نوے سے زائد ٹوئٹ کر دیے۔
ایک عمومی رائے ہے کہ شہباز شریف اسٹبلشمنٹ اور ریاستی اداروں کے ساتھ مفاہمت کے بیانیہ کو لے کر چل رہے ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف محاذ آرائی کے بیانیہ کو لے کر چل رہے تھے۔ بیانیہ کے اس اختلاف میں شہباز شریف کے پاس کئی سنہری مواقعے تھے جب وہ اپنی راہیں جدا کر سکتے تھے لیکن شہباز شریف نے ایسا نہیں کیا۔ چند دوستوں کا خیال ہے کہ بہت بڑی غلطی کی ہے۔ چند کا خیال ہے کہ انھوں نے نہ کبھی پہلے بھائی کو چھوڑا تھا نہ اب چھوڑیں گے۔ البتہ سوچ کا اختلاف رکھنا شہباز شریف کا حق ہے۔ دوسری طرف حالات کی ستم ظریفی کو دیکھتے ہوئے نواز شریف نے شہباز شریف کی بات مان لی ہے اور محاذ آرائی کے بیانیہ کو چھوڑ کر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ نواز شریف کی خاموشی کی وجہ سے مریم نواز بھی خاموش ہو گئی ہیں۔ وہ لوگ بھی خاموش ہو گئے جو محاذ آرائی کے بیانیہ کو آگے بڑھا رہے تھے۔
اس خاموشی کی وجہ سے یہ تاثر بن گیا کہ ن لیگ کا بیانیہ تبدیل ہو گیا ہے۔ محاذ آرائی پر مفاہمت غالب آگئی ہے۔ خاموشی کی یہ سیاست شہباز شریف کی سیاست اور بیانیہ تصور کیا جا رہا ہے۔ پی پی پی کے جال میں نہ پھنسنے ، احتجاجی سیاست سے دوری اور آرام سے وقت گزارنے کی حکمت عملی کو شہباز شریف کی سوچ کی بالا دستی تصور کیا جا رہا تھا۔
لیکن نواز شریف کی جانب سے ریلی کی صورت میں جیل جانے پر دوستوں کو یہ خیال پیدا ہو گیا کہ شہباز شریف کا بیانیہ ختم ہو گیا ہے۔ مریم نواز کی جانب سے ریلی کی قیادت کے اعلان سے بھی یہی تصور لیا جا رہا تھا کہ بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے۔ لیکن ریلی نے ظاہر کر دیا ہے کہ کوئی بیانیہ تبدیل نہیں ہو رہا ہے۔
یہ ایک دن کی سیاسی حکمت عملی تھی اس کا مستقل بیانیہ سے کوئی تعلق نہیں۔ میرے دوست بھول جاتے ہیں کہ جب نواز شریف اور مریم نواز نے پوری جماعت کی مخالفت کے باوجود انتخابات سے پہلے لندن سے وطن واپس آنے کا اعلان کر دیا تھا تب بھی یہی خیال تھا کہ انتخابات میں شہباز شریف مفاہمت کے جس بیانیہ کو لے کر چل رہے ہیں وہ انتخابی مہم کے دوران ہی ختم ہو گیا ہے اور مفاہمت ہائی جیک ہو گئی ہے۔ شہباز شریف ہی نہیں پوری جماعت نہ صرف نواز شریف کی وطن واپسی کے خلاف تھی بلکہ اس موقع پر جلوس اور ریلی کو تو زہر قاتل سمجھ رہی تھی۔ سب کا موقف تھا کہ بنا بنایا الیکشن ہاتھ سے نکل جائے گا۔ تب بھی شہباز شریف نے ایک مربوط سیاسی حکمت عملی اور دانش سے مفاہمت کو نہ صرف بچایا بلکہ محاذ آرائی کو شکست دی۔ اب بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔ بس ایک دن کا شور تھا باقی شہباز شریف کا بیانیہ ہی ہے۔
نواز شریف کو جیل چھوڑنے جانے کے لیے پارٹی نے بہت زور لگا کر مناسب تعداد میں لوگ جمع کر لیے۔ پہلا روزہ تھا۔ سب کا خیال تھا کہ نواز شریف جیل جانے سے پہلے اپنے لیے آنے والے لوگوں سے ایک دھواں دھار خطاب کریں گے۔ جیل جانے سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے بیانیہ کی کم از کم وضاحت کر جائیں گے۔ دوستوں کی یہ بھی رائے تھی کہ نواز شریف سے پہلے مریم نواز بھی خطاب کریں گی۔لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ نواز شریف جیل جانے سے پہلے اپنے استقبال کے لیے آنے والوں کو نہ تو کوئی واضح لائن دے کر گئے ہیں۔ بلکہ کہا جائے تو اپنی خاموشی قائم رکھ کر گئے ہیں۔ مریم نواز نے بھی کوئی خطاب نہیں کیا ۔ بس ٹوئٹر پر ہی متحرک رہی ہیں۔ آنے والوں سے خطاب نہیں کیا گیا۔ جب لوگ آہی گئے تھے تو ان سے خطاب کیوں نہیں کیا گیا۔ جب خاموشی برقرار ہی رکھنی تھی تواس سیاسی شو کو کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اگر بیانیہ شہباز شریف کا ہی چلنا ہے تو انداز بھی شہباز شریف کا ہی چلائیں۔ یہ کیا ہے۔
اگر نواز شریف اور مریم نواز اس وقت شہباز شریف کی بات مان کر لندن میں ہی رک جاتے تو شاید ن لیگ کے لیے آج حالات بہت بہتر ہوتے۔ آج اسی پالیسی کی وجہ سے شہباز شریف اور پوری ن لیگ جکڑی ہوئی ہے۔ شہباز شریف اب اپنے لیے تو راستہ بنانے کی کوشش نہیں کر رہے وہ تو نواز شریف اور مریم کے لیے راستہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھیں اس دلدل سے نکالنے کے لیے سیاسی قربانیاں دی جا رہی ہیں۔ اگر شہباز شریف نے اپنے لیے کچھ کرنا ہوتا تو الیکشن سے پہلے راہیں جدا کر لیتے۔ کم از کم آج پنجاب میں اقتدار تو ہوتا ۔ باقی سب کی طرح ان کے لیے بھی آسانیاں ہوتیں۔ اس طرح مقدمات میں تو نہ پھنسے ہوتے۔ ان سے تو دوستوں کو گلہ ہی یہ ہے کہ وہ مفاہمت کی بات تو کرتے ہیں لیکن نواز شریف کو نہیں چھوڑتے۔ آج شہباز شریف اور ان کی اولاد نواز شریف سے وفاداری کی قیمت ادا کر رہی ہے۔
لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ ن لیگ ابھی بھی شہباز شریف کے بیانیہ پر قائم ہیں۔ یہ ایک دن کی حکمت عملی تھی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ نواز شریف خاموش ہی واپس جیل چلے گئے ہیں۔ مریم نواز نے بھی خاموشی برقرار رکھی ہے۔ ورنہ جاتی امرا سے گاڑی کے بجائے ٹرک پر سوار ہو کر نکلتے۔ سارے راستے خطاب کرتے۔ خوب دل کی بھڑاس نکالتے اور جیل چلے جاتے۔مریم نواز چھ دن میں نوے ٹوئٹ کرنے کے بجائے دس کارنر میٹنگ سے بھی خطاب کر سکی تھیں تاکہ زیادہ لوگ اکٹھے ہو جائیں۔ گاڑی کے بجائے ٹرک سے کوریج بھی بہتر ہونی تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کو سمجھیں۔ باقی اتنا شور کرنا اور ایک ریلی نکالنے سے کوئی طوفان نہیں آگیا۔ بس دل کی تسلی ہو گئی ہے۔