جدت نے سرکنڈے سے بنی مصنوعات کی مانگ بڑھا دی
لوگ ہاتھ سے بنی تصاویر، رنگ برنگے فریموں و آئینوں کو ڈرائنگ رومز کی زینت بناتے ہیں
سرکنڈے سے بنی چھتیں اور دھوپ سے بچائو کیلیے کھڑکیوں اور دروازوں کی چٹائیاں بنانا دیہی علاقوں میں ایک عام سی بات ہے لیکن یہ کام کرنیوالوں نے وقت کے ساتھ اپنے کام میں جدت پیدا کی ہے، اب وہ مذکورہ روایتی مصنوعات کے علاوہ سرکنڈوں سے تیار کردہ رنگا رنگ فریم،تصاویر اور آئینے بھی تیار کر رہے ہیں جن کی مقبولیت دیہی علاقوں سے زیادہ شہروں میں تیزی سے ہوئی ہے۔
شہر کے لوگ ہاتھ سے بنی ان تصاویر یا رنگ برنگی فریموں اور آئینوں کو اپنے ڈرائنگ رومز کی زینت بناتے ہیں۔ اس سادہ اور خوبصورت فن کے کئی شاہکار نمونے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ریڈیو پاکستان اور ڈپٹی کمشنر ہائوس کی روڈ پر دیکھے جا سکتے ہیں، سندھ کے معروف جوگی قبیلے کے لوگ اس روڈ کے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر سرکنڈے سے مختلف قسم کی مصنوعات بناتے بھی ہیں تو وہیں فروخت بھی کرتے ہیں، اس کام میں ان کے ساتھ ان کے بچے اور خواتین بھی شامل ہوتے ہیں۔
مقامی صحافی منیر نارائی کے مطابق یہ لوگ بڑے عرصے سے یہاں یہ کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کام کرنے والے ایک جوگی شیوداس نے ایکسپریس کو بتایا کہ وہ یہ کام اپنے دادا پڑدادا کے زمانے سے کرتے آ رہے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ وہ یہاں پر قیام پاکستان سے قبل سے مقیم ہیں، اس وقت ان کے قبیلے کے تقریباً 50 کے قریب خاندان یہاں آباد ہیں، ان میں سے نصف فیصد کے پاس رہنے کیلیے جھونپڑیاں اور ایک کمرے کے گھر ہیں جبکہ باقی خاندان ریڈیو پاکستان کی دیوار کے ساتھ ہی رہتے ہیں، وہ دن میں یہاں اپنا کام کرتے ہیں اور رات میں وہیں سوتے ہیں۔
وہ اپنی تیار کردہ مصنوعات بھی وہیں پر فروخت کرتے ہیں، وہ سرکنڈے سے عام چٹائیاں بھی بناتے ہیں تو کھڑکیوں اور دروازوں کے کور بھی تیار کرتے ہیں، وہ یہ سرکنڈا صوبہ سندھ کے شہر سانگھڑ سے لاتے ہیں، ان کے علاوہ وہ رنگ برنگی فریم اور مختلف تصاویر تیار کرتے ہیں جن پر مخمل اور ریشم کا کام کیا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ یہ مخمل اور ریشم پنجاب کے شہر قصور سے منگاتے ہیں، اس کے علاوہ وہ گھروں میں زیر استعمال آئینوں کو ڈیکوریٹ کرکے فروخت کرتے ہیں، ان کو مخمل یا ریشمی کپڑے کا بارڈر دیا جاتا ہے اور انھیں مزید خوبصورت بنانے کیلیے ان پر کشیدہ کاری کی جاتی ہے جس میں موتی اور دیگر آرائشی اشیا استعمال کی جاتی ہے، اس طرح کا سامان انھیں حیدرآباد کے مارکیٹ سے باآسانی مل جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہری لوگ اس قسم کے آئینے اور فریم بڑے شوق سے خرید کر لے جاتے ہیں اور انھیں اپنے ڈرائنگ رومز میں سجاتے ہیں، بعض شہری لوگ شوقیہ طور پر اپنے گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں پر ان کی بنائی ہوئی چٹائیاں بھی لگاتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ یہ چٹائیاں بھی مختلف اقسام کی بنائی جاتی ہیں، ان میں سادہ چٹائیاں بھی ہوتی ہیں تو رنگین کشیدہ کاری کی ہوئی چٹائیاں بھی شامل ہیں، اسی طرح وہ چھتوں میں استعمال ہونے والی بڑی چٹائیاں بھی مختلف قسم کی تیار کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کی تیار کی گئیں چٹائیوں کی زیادہ فروخت ٹھٹہ، بدین اور حیدرآباد کے آس پاس کے علاقوں میں ہوتی ہے، ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ان کے قبیلے میں عام طور پر لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں مقیم ان کے تمام خاندانوں میں بمشکل چار یا پانچ لوگ پڑھے لکھے ہیں جنھوں نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی ہوئی ہے، شیوداس خود بھی ان پڑھ ہیں، وہ 5 بچوں کا باپ ہے جن میں 4 بیٹیاں شامل ہیں۔
انھوں نے بھی اپنے کسی بچے کو تعلیم نہیں دلوائی، انھوں نے بتایا کہ اس کام میں انھیں اتنے زیادہ پیسے نہیں ملتے لیکن ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور ہنر بھی نہیں ہے، اتنا ملتا ہے کہ بس گزارہ ہو جاتا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ ایک بڑی چٹائی کے ایک ہزار سے 1500روپے مل جاتے ہیں جبکہ چھوٹی چٹائی پانچ چھ سو روپے میں فروخت ہوجاتی ہے، انھوں نے بتایا کہ انھیں دیوالی اور اپنے دیگر خاص دنوں میں بھی کام کرنا پڑتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ برساتوں اور زیادہ گرمی اور سردی کے دوران ان کا کام متاثر ہوتا ہے کیونکہ وہ کھلے آسمان کے تلے کام کرتے ہیں، ایسے حالات میں انھیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شہر کے لوگ ہاتھ سے بنی ان تصاویر یا رنگ برنگی فریموں اور آئینوں کو اپنے ڈرائنگ رومز کی زینت بناتے ہیں۔ اس سادہ اور خوبصورت فن کے کئی شاہکار نمونے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ریڈیو پاکستان اور ڈپٹی کمشنر ہائوس کی روڈ پر دیکھے جا سکتے ہیں، سندھ کے معروف جوگی قبیلے کے لوگ اس روڈ کے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر سرکنڈے سے مختلف قسم کی مصنوعات بناتے بھی ہیں تو وہیں فروخت بھی کرتے ہیں، اس کام میں ان کے ساتھ ان کے بچے اور خواتین بھی شامل ہوتے ہیں۔
مقامی صحافی منیر نارائی کے مطابق یہ لوگ بڑے عرصے سے یہاں یہ کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کام کرنے والے ایک جوگی شیوداس نے ایکسپریس کو بتایا کہ وہ یہ کام اپنے دادا پڑدادا کے زمانے سے کرتے آ رہے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ وہ یہاں پر قیام پاکستان سے قبل سے مقیم ہیں، اس وقت ان کے قبیلے کے تقریباً 50 کے قریب خاندان یہاں آباد ہیں، ان میں سے نصف فیصد کے پاس رہنے کیلیے جھونپڑیاں اور ایک کمرے کے گھر ہیں جبکہ باقی خاندان ریڈیو پاکستان کی دیوار کے ساتھ ہی رہتے ہیں، وہ دن میں یہاں اپنا کام کرتے ہیں اور رات میں وہیں سوتے ہیں۔
وہ اپنی تیار کردہ مصنوعات بھی وہیں پر فروخت کرتے ہیں، وہ سرکنڈے سے عام چٹائیاں بھی بناتے ہیں تو کھڑکیوں اور دروازوں کے کور بھی تیار کرتے ہیں، وہ یہ سرکنڈا صوبہ سندھ کے شہر سانگھڑ سے لاتے ہیں، ان کے علاوہ وہ رنگ برنگی فریم اور مختلف تصاویر تیار کرتے ہیں جن پر مخمل اور ریشم کا کام کیا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ یہ مخمل اور ریشم پنجاب کے شہر قصور سے منگاتے ہیں، اس کے علاوہ وہ گھروں میں زیر استعمال آئینوں کو ڈیکوریٹ کرکے فروخت کرتے ہیں، ان کو مخمل یا ریشمی کپڑے کا بارڈر دیا جاتا ہے اور انھیں مزید خوبصورت بنانے کیلیے ان پر کشیدہ کاری کی جاتی ہے جس میں موتی اور دیگر آرائشی اشیا استعمال کی جاتی ہے، اس طرح کا سامان انھیں حیدرآباد کے مارکیٹ سے باآسانی مل جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہری لوگ اس قسم کے آئینے اور فریم بڑے شوق سے خرید کر لے جاتے ہیں اور انھیں اپنے ڈرائنگ رومز میں سجاتے ہیں، بعض شہری لوگ شوقیہ طور پر اپنے گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں پر ان کی بنائی ہوئی چٹائیاں بھی لگاتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ یہ چٹائیاں بھی مختلف اقسام کی بنائی جاتی ہیں، ان میں سادہ چٹائیاں بھی ہوتی ہیں تو رنگین کشیدہ کاری کی ہوئی چٹائیاں بھی شامل ہیں، اسی طرح وہ چھتوں میں استعمال ہونے والی بڑی چٹائیاں بھی مختلف قسم کی تیار کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کی تیار کی گئیں چٹائیوں کی زیادہ فروخت ٹھٹہ، بدین اور حیدرآباد کے آس پاس کے علاقوں میں ہوتی ہے، ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ان کے قبیلے میں عام طور پر لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں مقیم ان کے تمام خاندانوں میں بمشکل چار یا پانچ لوگ پڑھے لکھے ہیں جنھوں نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی ہوئی ہے، شیوداس خود بھی ان پڑھ ہیں، وہ 5 بچوں کا باپ ہے جن میں 4 بیٹیاں شامل ہیں۔
انھوں نے بھی اپنے کسی بچے کو تعلیم نہیں دلوائی، انھوں نے بتایا کہ اس کام میں انھیں اتنے زیادہ پیسے نہیں ملتے لیکن ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور ہنر بھی نہیں ہے، اتنا ملتا ہے کہ بس گزارہ ہو جاتا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ ایک بڑی چٹائی کے ایک ہزار سے 1500روپے مل جاتے ہیں جبکہ چھوٹی چٹائی پانچ چھ سو روپے میں فروخت ہوجاتی ہے، انھوں نے بتایا کہ انھیں دیوالی اور اپنے دیگر خاص دنوں میں بھی کام کرنا پڑتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ برساتوں اور زیادہ گرمی اور سردی کے دوران ان کا کام متاثر ہوتا ہے کیونکہ وہ کھلے آسمان کے تلے کام کرتے ہیں، ایسے حالات میں انھیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔