لاپتہ افراد کیس سپریم کورٹ کا خفیہ ایجنسی کو چکوال سے گرفتار 2 بھائی پیش کرنے کا حکم
آئی ایس آئی اہلکاردونوں کو تھانے سے لے گئے تھے،سیشن جج کی انکوائری رپورٹ ،ذمے داروں کیخلاف کارروائی ہوگی،چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں لاپتہ افرادکے مقدمات کی سماعت کے دوران چکوال سے اٹھائے گئے 2 بھائیوں کے بارے میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چکوال کی انکوائری رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ عمر بخت اور عمر حیات کو آئی ایس آئی نے اٹھایا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ گواہوں اور واقعاتی شہادتوںکے بعد یہ ثابت ہو چکا کہ عمر بخت اور عمر حیات کوئلے کی کان میںکام کرتے تھے اور انھیں آئی ایس آئی کے اہلکار تھانہ چوآسیدن شاہ چکوال پولیس کی موجودگی میں لے گئے تھے۔ عدالت نے آئی ایس آئی کو حکم دیاکہ اگلی سماعت پر دونوں لاپتہ بھائیوںکو پیش کیا جائے، سیکریٹری دفاع کو معاملہ متعلقہ ادارے کے نوٹس میں لانے اور اٹارنی جنرل کو اس معاملے پر قانونی معاونت کی ہدایت کی گئی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جوادایس خواجہ اورجسٹس شیخ عظمت سعید نے سماعت کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے عدالت بار بارکہہ رہی تھی کہ معاملہ اس نہج تک نہ لایا جائے، جو لاپتہ لوگ ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں ان پر اگرکوئی الزام ہے تو مقدمہ چلایا جائے ورنہ چھوڑ دیا جائے لیکن اب ذمے داری کا تعین ہوگیا ہے، جو اہلکار اغوا کے ذمے دار ہیں ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ جسٹس جواد نے کہاکہ آئین مقدم ہے اگرکسی نے غلط کیا ہے تو سزا ملنی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک دیانت دار پولیس افسرکو سچائی کی سزا نہ دی جائے جو شخص عدالت کے ساتھ کھڑا ہو اور سچائی بیان کررہاہو اس کے ساتھ ایسے سلوک سے آئندہ کوئی اہلکار سچائی کی جرات نہیں کرسکے گا۔ عدالت نے مزید سماعت28اگست تک ملتوی کردی۔ لاہورسے لاپتہ مدثراقبال کی خفیہ ایجنسیوںکی تحویل میںہونے کی رپورٹ دینے والے اقوام متحدہ کے نمائندے کے شامل تفتیش نہ ہونے کا عدالت نے سخت نوٹس لیتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اقوام متحدہ کے نمائندے نے دارالحکومت میں بیٹھ کر پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ ایک غیر ملکی دفترکس طرح ہمارے قوانین کی خلاف ورزی کر سکتا ہے، کیا یہ ہمیں اپنا تابع سمجھتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ہم خود مختار ملک نہیں؟جسٹس جواد نے کہاکہ اقوام متحدہ نے خود اپنی رپورٹ میں شکایت کی اور اب ڈھٹائی کے ساتھ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اقوام متحدہ کے اہلکاروںکوکچھ سفارتی مراعات حاصل ہیں، عدالت نے اس موقف پر برہمی کا اظہارکیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اول تو وہ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی نہیںکر سکتے، اگرکوئی رعایت حاصل ہے تو اس کا دعویٰ وہ خودکریںگے، ہمارا لا افسر ان کی وکالت نہیں کرے گا۔ عدالت نے مزید سماعت 10 دن کیلیے ملتوی کر دی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ گواہوں اور واقعاتی شہادتوںکے بعد یہ ثابت ہو چکا کہ عمر بخت اور عمر حیات کوئلے کی کان میںکام کرتے تھے اور انھیں آئی ایس آئی کے اہلکار تھانہ چوآسیدن شاہ چکوال پولیس کی موجودگی میں لے گئے تھے۔ عدالت نے آئی ایس آئی کو حکم دیاکہ اگلی سماعت پر دونوں لاپتہ بھائیوںکو پیش کیا جائے، سیکریٹری دفاع کو معاملہ متعلقہ ادارے کے نوٹس میں لانے اور اٹارنی جنرل کو اس معاملے پر قانونی معاونت کی ہدایت کی گئی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جوادایس خواجہ اورجسٹس شیخ عظمت سعید نے سماعت کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے عدالت بار بارکہہ رہی تھی کہ معاملہ اس نہج تک نہ لایا جائے، جو لاپتہ لوگ ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں ان پر اگرکوئی الزام ہے تو مقدمہ چلایا جائے ورنہ چھوڑ دیا جائے لیکن اب ذمے داری کا تعین ہوگیا ہے، جو اہلکار اغوا کے ذمے دار ہیں ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ جسٹس جواد نے کہاکہ آئین مقدم ہے اگرکسی نے غلط کیا ہے تو سزا ملنی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک دیانت دار پولیس افسرکو سچائی کی سزا نہ دی جائے جو شخص عدالت کے ساتھ کھڑا ہو اور سچائی بیان کررہاہو اس کے ساتھ ایسے سلوک سے آئندہ کوئی اہلکار سچائی کی جرات نہیں کرسکے گا۔ عدالت نے مزید سماعت28اگست تک ملتوی کردی۔ لاہورسے لاپتہ مدثراقبال کی خفیہ ایجنسیوںکی تحویل میںہونے کی رپورٹ دینے والے اقوام متحدہ کے نمائندے کے شامل تفتیش نہ ہونے کا عدالت نے سخت نوٹس لیتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اقوام متحدہ کے نمائندے نے دارالحکومت میں بیٹھ کر پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ ایک غیر ملکی دفترکس طرح ہمارے قوانین کی خلاف ورزی کر سکتا ہے، کیا یہ ہمیں اپنا تابع سمجھتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ہم خود مختار ملک نہیں؟جسٹس جواد نے کہاکہ اقوام متحدہ نے خود اپنی رپورٹ میں شکایت کی اور اب ڈھٹائی کے ساتھ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اقوام متحدہ کے اہلکاروںکوکچھ سفارتی مراعات حاصل ہیں، عدالت نے اس موقف پر برہمی کا اظہارکیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اول تو وہ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی نہیںکر سکتے، اگرکوئی رعایت حاصل ہے تو اس کا دعویٰ وہ خودکریںگے، ہمارا لا افسر ان کی وکالت نہیں کرے گا۔ عدالت نے مزید سماعت 10 دن کیلیے ملتوی کر دی۔