بدترین سے بھی بدتر
دنیا میں ہر چیز، اصول اور شخص کی قیمت ہوتی ہے، اس کا حصہ اسے دے دیا جاتا ہے
جیسے کہتے ہیں ناں کہ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات؛ ویسے ہی ذرا ترمیم سے کہا جاسکتا ہے کہ ہے جرم جہالت کی سزا بدترین حالات۔
ہم کہاں آگئے؟ ہم کیسے سفاک اور بے رحم، خودغرض اور ظالم اور کیسی بے حس اشرافیہ اور ان کے پروردہ طاغوتوں میں گھر گئے ہیں؟ اس کی دو مثالیں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ کارپوریٹ ورلڈ میں بھی کارکنوں کا بہت استحصال کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کارپوریٹ اخلاقیات ہوتی ہیں اور کارکنوں اور مزدوروں کو مہذب اور باشعور معاشروں میں کچھ نہ کچھ سہولتیں دی ہی جاتی ہیں۔ گو ناپسندیدگی سے ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر قانون کا احترام کرنے والے معاشروں میں سفاک سے سفاک اور سرد مہر سرمایہ دار یا کمپنیاں بھی کچھ نہ کچھ ریلیف دینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ لیکن ہماری طرح کے معاشروں میں جہاں شرح تعلیم شرمناک ہو، قوم کی اکثریت ناخواندہ ہو، اپنے حقوق سے بے بہرہ ہو، اپنی تباہی و بربادی پر جیسے شاکر ہوچکی ہو، وہاں صورتحال بدترین سے بھی بدتر ہوجاتی ہے اور استحصال کے ایسے ایسے نظام وضع کرلیے جاتے ہیں جو بے رحمی کی حد تک غیر انسانی ہوتے ہیں۔
بجلی اور پانی آدمی کی چند بنیادی ضروریات میں سے دو بہت اہم ضرورتیں ہیں۔ پاکستان میں نہ کبھی بجلی کی ایسی قلت یا کمی تھی اور نہ ہی پانی کی اس طرح سے ہوشربا کمی تھی جیسا کہ پچھلے چند برسوں میں مشاہدہ کی جارہی ہے اور جس میں روز افزوں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ دراصل یار لوگوں نے، ان لوگوں نے جو ہر جائز و ناجائز ترکیب اختیار کرکے مال بنانا یا مٹی کو سونا کرنا جانتے ہیں، انہوں نے پہلے پہل بجلی پر توجہ دی اور ایک مرکزی نظام جوکہ بجلی کی تقسیم و ترسیل کا ذمے دار تھا اور اب بھی ہے، کو غیر موثر کرکے باقاعدہ قانونی راستہ اختیار کرکے نجکاری کے ذریعے بجلی کی نجی تقسیم کار کمپنیوں کا نظام وضع کیا اور اَن لمیٹڈ پرافٹ کا ایک ایسا چینل کھول لیا جو گویا سونے کی کان ہے۔ بجلی کے نظام کو تباہ کیا گیا اور متبادل برقی رو کے ذرائع یعنی یو پی ایس، جنریٹرز اور اب حالیہ زیادہ متعارف شدہ سولر پینلز کا اربوں کھربوں روپے کا بزنس شروع کیا گیا۔
دوسری جانب بلنگ کے نام پر عوام سے من مانی رقوم وصول کیے جانے کا سلسلہ الگ سے زبردست منافع بخش ہے۔ جس کی کہیں کوئی دادرسی، کوئی سنوائی نہیں۔ اگر ہم کے الیکٹرک کی بات کریں تو کیا آپ جانتے ہیں کہ ابراج کیپٹل نامی سرمایہ کار ادارے نے اسے برسوں پہلے، جب یہ کے ای ایس سی کہلاتا تھا، صرف1.4 بلین ڈالر میں خریدا تھا۔ جی ہاں ایک اعشاریہ چار بلین صرف؛ جو کے ای ایس سی کی اصل قیمت کا پانچ فیصد بھی نہیں تھا اور یہ ایک اعشاریہ چار بلین تو پہلے ہی سال خریداروں کو وصول ہوگئے ہوں گے۔ بعد میں تو بس نفع ہی نفع اور مزہ ہی مزہ لیا گیا اور لیا جارہا ہے۔ اور ہم جہالت کے مارے عوام کو سزا ہی سزا کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔ ابراج کیپٹل کے پاکستانی نژاد صدر اور چیئرمین عارف نقوی کی حالیہ انگلینڈ میں گرفتاری اور کروڑوں پونڈ کی بلند ترین ضمانت پر کچھ دن بعد رہائی کے دوران یہ سارے معاملات کھلنا شروع ہوئے ہیں۔ ورنہ کے الیکٹرک کی فروخت کے معاہدے پر گویا ایسی دبیز نقاب ہمارے اشرافیہ کے سیاہ گٹھ جوڑ سے پڑی ہوئی تھی جس کی کوئی بھی نقاب کشائی نہ کر پارہا تھا۔ یہ تو صرف کے الیکٹرک کا قصہ ہے، دیگر تقیسم کار کمپنیوں کا بھی ذرا تصور کرلیجیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کتنی بڑی گیم ہے۔
اب آئیے پانی کی طرف! یہاں بھی کچھ ایسی ہی کہانی کی گئی اور ترکیب لڑائی گئی ہے۔ گو کہ یہ سلسلہ بجلی کی نسبت ذرا نیا ہے، یعنی یہ ماسٹر پلان ابھی چند برس سے ہی روبہ عمل آنا شروع ہوا ہے اور اس کی کنجی بھی وہی مکروہ حیلہ ہے، یعنی طلب و رسد کا بڑا فرق پیدا کرنا اور متبادل نظام اور ذریعوں کو فروغ دینا۔
یہاں ایک بات شیئر کرتا چلوں کہ حدیث پاک کی ایک روایت کے مفہوم میں پانی کی تجارت کرنے کو مکروہ بیان کیا گیا ہے، لیکن اب تو شہروں میں اور خصوصاً بڑے شہروں میں پانی جس طرح اور جس معیار کا فروخت ہورہا ہے اور متعلقہ ادارے جس طرح آنکھیں موندے سو رہے ہیں، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جو چاہتا ہے وہ آر او پلانٹس لگاتا ہے اور پانی بیچنا شروع کردیتا ہے اور پانی کی مصنوعی طور پر قلت کی وجہ سے کاروبار چل پڑتا ہے۔ مگر اس کے کتنے خطرناک اثرات زیر زمیں پانی کے ذخائر پر اور لوگوں کی صحت پر مرتب ہورہے ہیں، اس کا اندازہ تو ماہرین ہی لگا سکتے ہیں۔ اکا دکا ایسی کوئی انتباہی آواز بلند بھی ہوتی ہے تو جہالت و کم علمی کے باعث توجہ حاصل نہیں کرپاتی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ اشرافیہ خاموشی سے اربوں کھربوں کمانے میں مصروف ہے۔ جو جو جہاں جہاں رکاوٹ بن سکتا یا کھیل خراب کرسکتا ہے، اسے اس مقولے پر عمل کرتے ہوئے کہ دنیا میں ہر چیز، اصول اور شخص کی قیمت ہوتی ہے، اس کا حصہ دے دیا جاتا ہے۔ بس پس رہے ہیں تو بے چارے عوام، میں اور آپ جیسے لوگ۔
تو صاحبو! یہ صرف دو شعبے ہیں جہاں ریاستی ادارے ماں کے بجائے سوتیلی ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے ان سرمایہ دار ٹھگوں کو روکنے کے بجائے ان کے ساتھ مل کر لوگوں کو لوٹ رہے ہیں اور اس قول پر تن من دھن سے عمل کررہے ہیں کہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ مطلب اس کا یہ کچھ بنتا ہے کہ جتنے عیش کرسکتا ہے کرلے کہ پھر یہ دنیا، یہ عالم دوبارہ کہاں۔
ان دو شعبوں کے علاوہ اور کن کن شعبوں میں کس کس طرح عوام کے خون پسینے کو نچوڑ کر مال بنایا جارہا ہے، اس سے اہلِ نظر خوب واقف ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہم کہاں آگئے؟ ہم کیسے سفاک اور بے رحم، خودغرض اور ظالم اور کیسی بے حس اشرافیہ اور ان کے پروردہ طاغوتوں میں گھر گئے ہیں؟ اس کی دو مثالیں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ کارپوریٹ ورلڈ میں بھی کارکنوں کا بہت استحصال کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کارپوریٹ اخلاقیات ہوتی ہیں اور کارکنوں اور مزدوروں کو مہذب اور باشعور معاشروں میں کچھ نہ کچھ سہولتیں دی ہی جاتی ہیں۔ گو ناپسندیدگی سے ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر قانون کا احترام کرنے والے معاشروں میں سفاک سے سفاک اور سرد مہر سرمایہ دار یا کمپنیاں بھی کچھ نہ کچھ ریلیف دینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ لیکن ہماری طرح کے معاشروں میں جہاں شرح تعلیم شرمناک ہو، قوم کی اکثریت ناخواندہ ہو، اپنے حقوق سے بے بہرہ ہو، اپنی تباہی و بربادی پر جیسے شاکر ہوچکی ہو، وہاں صورتحال بدترین سے بھی بدتر ہوجاتی ہے اور استحصال کے ایسے ایسے نظام وضع کرلیے جاتے ہیں جو بے رحمی کی حد تک غیر انسانی ہوتے ہیں۔
بجلی اور پانی آدمی کی چند بنیادی ضروریات میں سے دو بہت اہم ضرورتیں ہیں۔ پاکستان میں نہ کبھی بجلی کی ایسی قلت یا کمی تھی اور نہ ہی پانی کی اس طرح سے ہوشربا کمی تھی جیسا کہ پچھلے چند برسوں میں مشاہدہ کی جارہی ہے اور جس میں روز افزوں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ دراصل یار لوگوں نے، ان لوگوں نے جو ہر جائز و ناجائز ترکیب اختیار کرکے مال بنانا یا مٹی کو سونا کرنا جانتے ہیں، انہوں نے پہلے پہل بجلی پر توجہ دی اور ایک مرکزی نظام جوکہ بجلی کی تقسیم و ترسیل کا ذمے دار تھا اور اب بھی ہے، کو غیر موثر کرکے باقاعدہ قانونی راستہ اختیار کرکے نجکاری کے ذریعے بجلی کی نجی تقسیم کار کمپنیوں کا نظام وضع کیا اور اَن لمیٹڈ پرافٹ کا ایک ایسا چینل کھول لیا جو گویا سونے کی کان ہے۔ بجلی کے نظام کو تباہ کیا گیا اور متبادل برقی رو کے ذرائع یعنی یو پی ایس، جنریٹرز اور اب حالیہ زیادہ متعارف شدہ سولر پینلز کا اربوں کھربوں روپے کا بزنس شروع کیا گیا۔
دوسری جانب بلنگ کے نام پر عوام سے من مانی رقوم وصول کیے جانے کا سلسلہ الگ سے زبردست منافع بخش ہے۔ جس کی کہیں کوئی دادرسی، کوئی سنوائی نہیں۔ اگر ہم کے الیکٹرک کی بات کریں تو کیا آپ جانتے ہیں کہ ابراج کیپٹل نامی سرمایہ کار ادارے نے اسے برسوں پہلے، جب یہ کے ای ایس سی کہلاتا تھا، صرف1.4 بلین ڈالر میں خریدا تھا۔ جی ہاں ایک اعشاریہ چار بلین صرف؛ جو کے ای ایس سی کی اصل قیمت کا پانچ فیصد بھی نہیں تھا اور یہ ایک اعشاریہ چار بلین تو پہلے ہی سال خریداروں کو وصول ہوگئے ہوں گے۔ بعد میں تو بس نفع ہی نفع اور مزہ ہی مزہ لیا گیا اور لیا جارہا ہے۔ اور ہم جہالت کے مارے عوام کو سزا ہی سزا کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔ ابراج کیپٹل کے پاکستانی نژاد صدر اور چیئرمین عارف نقوی کی حالیہ انگلینڈ میں گرفتاری اور کروڑوں پونڈ کی بلند ترین ضمانت پر کچھ دن بعد رہائی کے دوران یہ سارے معاملات کھلنا شروع ہوئے ہیں۔ ورنہ کے الیکٹرک کی فروخت کے معاہدے پر گویا ایسی دبیز نقاب ہمارے اشرافیہ کے سیاہ گٹھ جوڑ سے پڑی ہوئی تھی جس کی کوئی بھی نقاب کشائی نہ کر پارہا تھا۔ یہ تو صرف کے الیکٹرک کا قصہ ہے، دیگر تقیسم کار کمپنیوں کا بھی ذرا تصور کرلیجیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کتنی بڑی گیم ہے۔
اب آئیے پانی کی طرف! یہاں بھی کچھ ایسی ہی کہانی کی گئی اور ترکیب لڑائی گئی ہے۔ گو کہ یہ سلسلہ بجلی کی نسبت ذرا نیا ہے، یعنی یہ ماسٹر پلان ابھی چند برس سے ہی روبہ عمل آنا شروع ہوا ہے اور اس کی کنجی بھی وہی مکروہ حیلہ ہے، یعنی طلب و رسد کا بڑا فرق پیدا کرنا اور متبادل نظام اور ذریعوں کو فروغ دینا۔
یہاں ایک بات شیئر کرتا چلوں کہ حدیث پاک کی ایک روایت کے مفہوم میں پانی کی تجارت کرنے کو مکروہ بیان کیا گیا ہے، لیکن اب تو شہروں میں اور خصوصاً بڑے شہروں میں پانی جس طرح اور جس معیار کا فروخت ہورہا ہے اور متعلقہ ادارے جس طرح آنکھیں موندے سو رہے ہیں، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جو چاہتا ہے وہ آر او پلانٹس لگاتا ہے اور پانی بیچنا شروع کردیتا ہے اور پانی کی مصنوعی طور پر قلت کی وجہ سے کاروبار چل پڑتا ہے۔ مگر اس کے کتنے خطرناک اثرات زیر زمیں پانی کے ذخائر پر اور لوگوں کی صحت پر مرتب ہورہے ہیں، اس کا اندازہ تو ماہرین ہی لگا سکتے ہیں۔ اکا دکا ایسی کوئی انتباہی آواز بلند بھی ہوتی ہے تو جہالت و کم علمی کے باعث توجہ حاصل نہیں کرپاتی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ اشرافیہ خاموشی سے اربوں کھربوں کمانے میں مصروف ہے۔ جو جو جہاں جہاں رکاوٹ بن سکتا یا کھیل خراب کرسکتا ہے، اسے اس مقولے پر عمل کرتے ہوئے کہ دنیا میں ہر چیز، اصول اور شخص کی قیمت ہوتی ہے، اس کا حصہ دے دیا جاتا ہے۔ بس پس رہے ہیں تو بے چارے عوام، میں اور آپ جیسے لوگ۔
تو صاحبو! یہ صرف دو شعبے ہیں جہاں ریاستی ادارے ماں کے بجائے سوتیلی ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے ان سرمایہ دار ٹھگوں کو روکنے کے بجائے ان کے ساتھ مل کر لوگوں کو لوٹ رہے ہیں اور اس قول پر تن من دھن سے عمل کررہے ہیں کہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ مطلب اس کا یہ کچھ بنتا ہے کہ جتنے عیش کرسکتا ہے کرلے کہ پھر یہ دنیا، یہ عالم دوبارہ کہاں۔
ان دو شعبوں کے علاوہ اور کن کن شعبوں میں کس کس طرح عوام کے خون پسینے کو نچوڑ کر مال بنایا جارہا ہے، اس سے اہلِ نظر خوب واقف ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔