پاکستانی قوم کے اذہان میں مچلتا سوال۔۔۔ بحیرہ عرب سے تیل نکل آئے گا
تہہ سمندر کھدائی سے کامیابی بر آنے کی امید مگر ناکامی کا ڈر بھی حواس پہ سوار
DAMASCUS:
وطن عزیز میں چرچا ہے کہ بحیرہ عرب سے تیل وگیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے بھی بیان دے کر قوم کو خوش خبری سنائی۔ظاہر ہے،اگر یہ ذخیرہ دریافت ہو جائے تو پاکستان کی سنگین معاشی صورت حال کو بہتر بنانے میں فوری نہیں تو چار پانچ سال بعد ضرور مدد ملے گی۔
حقائق سے آشکارا ہے کہ تیل وگیس کا بڑا ذخیرہ ملنے کی پیش گوئی پوری بھی ہو سکتی ہے۔گیس اور پٹرول انسانی روزمرہ زندگی رواں دواں رکھنے کا بنیادی ذریعہ بن چکے۔ لہٰذا ان کی کمی یا مہنگا ہونے سے عوام کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔
پاکستان کو قدرت نے درج بالاتوانائی کے دونوں ذرائع سے نوازا ہے۔ لیکن ہمارا حکمران طبقہ اس قدرتی دولت سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکا۔یہی وجہ ہے ' پاکستان آج مجبور ہے کہ وہ ہر سال چودہ ارب ڈالر کا پٹرول اور گیس بیرون ممالک سے خریدتا رہے ۔لیکن یہی خریداری ہماری عالمی تجارت کو خسارے میں لے گئی۔پاکستان کو ہر سال عالمی تجارت میں اٹھارہ تا اکیس ارب ڈالر خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس خسارے کی وجہ سے بھی پاکستانی کرنسی کی قدر گرتی اور ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے۔
وطن عزیز میں ذخائر ِایندھن
2015ء میں امریکا کے ادارے ' یو ایس ایڈ کی مدد سے پاکستانی و امریکی ماہرین ارضیات اور شعبہ پٹرولیم کے سائنس دانوں نے پاکستان کے مختلف جغرافیائی علاقوں میں جدید آلات کے ذریعے تہہ زمین واقع چٹانوں پر تحقیق کی تھی۔ اس تحقیق سے انکشاف ہوا کہ پاکستان میں ''رسوبی چٹانوں'' (Sedimentary rocks) کی ایک قسم شیل (Shale) میں دس ہزار ارب کیوبک فٹ گیس اور دو ہزار تیئس ارب بیرل تیل موجود ہے۔ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ درج بالا میں سے ''بیس کھرب کیوبک فٹ گیس'' اور ''58ارب بیرل تیل'' روایتی ٹیکنالوجی کی مدد سے حاصل کرنا ممکن ہے۔
اس وقت پاکستان میں گیس کے معلوم ذخائر کی مقدار دو کھرب کیوبک فٹ تھی۔ جبکہ تیل کے ذخائر میں تقریباً 39 کروڑ بیرل تیل موجود تھا۔درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ پاکستان کی تہہ زمین میں تیل و گیس کے بھاری ذخائر موجود ہیں۔ یاد رہے' فی الوقت ونیزویلا تیل کے سب سے زیادہ ذخائر رکھتاہے جن میں تین کھرب بیرل تیل محفوظ ہے۔ اس کے بعد سعودی عرب (2.66 کھرب بیرل) ' کینیڈا (1.69 کھرب) ایران (1.58 کھرب) ' عراق (1.42 کھرب)' کویت(ایک کھرب) ' متحدو عرب امارات (97ارب) اور روس (80 ارب بیرل ) آتے ہیں۔ گویا 58 ارب بیرل تیل کے ساتھ پاکستان دنیا میں تیل کا نواں بڑا ذخیرہ رکھتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت ایندھن کے اس بے حساب قدرتی خزینے کو دریافت کرنے کی خاطر ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کر رہی؟ ماہرین اس سوال کے مختلف جوابات دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ حکمرانوں کا بیشتر وقت اپنے دور حکومت میں اپنی کرسیاں محفوظ رکھنے میں گزر جاتا ہے۔ لہٰذا وہ قومی ترقی کے لیے اہم اقدامات پر غور وفکر نہیں کر پاتے۔ دوم یہ کہ تیل و گیس کی کھوج لگانا بڑا مہنگا اور پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستان ترقی پذیر مملکت ہونے کے ناتے اس کھوج پر زر کثیر خرچ نہیں کر سکتا۔
لہٰذا فنڈز کی عدم دستیابی کے سبب تیل وگیس کے نئے ذخیروں کی تلاش سست رفتاری سے جاری ہے۔ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں تیل و گیس درآمد کرنا منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ لہٰذا اس کاروبار سے ایک مافیا یا کارٹل وابستہ ہو چکا۔ اس کارٹل میں حکمران طبقے میں شامل طاقتور شخصیات بھی شامل ہیں۔ یہ شخصیات اپنے مفادات محفوظ رکھنے کی خاطر بھرپور کوشش کرتی ہیں کہ پاکستان میں تیل و گیس کے نئے کنووؤں کی دریافت کا کام سست رفتاری سے جاری رہے۔ ظاہر ہے اگر نئے کنوئیں ملنے سے پاکستان تیل و گیس کی پیداوار میں خود کفیل ہوا تو ان کا منافع بخش کاروبار تو ٹھپ ہو جائے گا۔
رسوبی چٹانوں کا تحفہ
یہ یاد رہے کہ دنیا بھر میں تیل و گیس اور کوئلے کے ذخائر عموماً رسوبی چٹانوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ چٹانیں پتھریلے ذرات' مٹی' نباتات اور جانداروں کی لاشوں کے ملاپ سے وجود میں آتی ہیں۔ انہیں تشکیل پاتے ہوئے کروڑوں سال لگ جاتے ہیں۔زمین کے نیچے پونے دو کلو میٹر تک عام طور پر رسوبی چٹانیں ہی پائی جاتی ہیں۔ زمین کے اوپر بھی بیشتر رقبہ انہی چٹانوں سے بنا ہوا ہے۔کروڑوں برسوں کے دوران ان چٹانوں کے درمیان پھنسا نباتاتی و حیوانی مواد (کاربن) ہی زبردست دباؤ اور درجہ حرارت کے سبب آخر تیل' گیس یا کوئلے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔پاکستان کا رقبہ آٹھ لاکھ تین ہزار نو سو چار مربع کلو میٹر ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق اس رقبے میں سے آٹھ لاکھ مربع کلو میٹر پر رسوبی چٹانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ چٹانیں سطح زمین پر واقع ہیں۔ نیچے دو کلو میٹر گہرائی تک بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ انہی رسوبی چٹانوں کے باعث ہی پاکستان میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہونے کا امکان ظاہر کیا جاتا ہے۔ گویا یہ چٹانیں پاکستان کے لیے عظیم تحفہ ہیں۔
تین پاکستانی ارضی خطے
ماہرین جغرافیہ و ارضیات نے رسوبی چٹانوں کے لحاظ سے پاکستان کی ارضی و بحری زمین کو تین بنیادی خطوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کا تعارف درج ذیل ہے۔
٭سندھ بیسن (Basin)...یہ خطہ کوہاٹ سے لے کر کراچی اور کیرتھر اور کوہ سلیمان کے پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ پاکستان میں رسوبی چٹانوں کا سب سے بڑا خطہ ہے۔ اس خطے کو تین ذیلی خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ تین ذیلی خطے بھی سات مزید چھوٹے خطے رکھتے ہیں۔پہلے خطے،''بالائی سندھ ذیلی خطے'' میں دو ذیلی خطے واقع ہیں، یعنی کوہاٹ بیسن اور پوٹھوہار بیسن۔ دوسرے''وسطی سندھ ذیلی خطے'' کے تین ذیلی خطے یا علاقے ہیں یعنی شمالی پنجاب بیسن، وسطی پنجاب بیسن اور سلیمان (پہاڑی) بیسن۔تیسرا ''نچلا سندھ ذیلی خطہ'' دو چھوٹے خطے رکھتا ہے، سندھ بیسن اور کیرتھر (پہاڑی) بیسن۔
٭بلوچستان بیسن...یہ خطہ پشین سے لے کر ایرانی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے تین بڑے حطے ہیں، پشین بیسن، بلوچستان بیسن اور مکران بیسن۔
٭بحری (آف شور) بیسن...یہ خطہ پاکستان کے ساحلوں سے شروع ہوکر بحیرہ عرب کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے بحری قانون (The United Nations Convention on the Law of the Sea) کی رو سے بحیرہ عرب میں پاکستان کا خصوصی اکنامک زون (Exclusive economic zone) دو لاکھ چالیس ہزار مربع کلو میٹر (انسٹھ ہزار نو سو ساٹھ مربع میل) رکھتا ہے۔ اس رقبے کو دو ذیلی خطوں ''سندھ ماورائے ساحل'' (آف شور) اور ''مکران ماورائے ساحل'' میں تقسیم کیا گیا ہے۔
کھدائی کی تاریخ
تیل حاصل کرنے کی خاطر پہلا باقاعدہ کنواں 1848ء میں آذربائیجان میں کھودا گیا تھا۔ عام طور پر زیر زمین تیل و گیس کے ذخائر ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ اسی لیے کنواں کھودتے ہوئے عموماً تیل اور گیس، دونوں ہی دریافت ہوجاتے ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ ہندوستان میں بھی تیل کی تلاش کا قصہ خاصا پرانا ہے۔ ہوا یہ کہ ضلع میانوالی کے علاقے کنڈل میں تیل خود بخود سطح زمین پر نمودار ہوگیا۔ چناں چہ 1866ء میں وہاں کنواں کھود کر تیل نکالا جانے لگا۔ بعدازاں بلوچستان کے مقام کٹھن (مکران) میں تیل دریافت ہوا۔ وہاں تیرہ کنوئیں کھود کر 1885ء سے 1892ء تک پچیس ہزار بیرل تیل نکالا گیا۔
رفتہ رفتہ تیل کا کھوج لگانے والی ٹیکنالوجی ترقی کرتی گئی۔ کنواں کھودنے والے جدید آلات و اوزار بھی ایجاد ہوگئے۔ اس بنا پر رسوبی چٹانوں میں کھدائی کرکے تیل و گیس تلاش کرنے کی مہمات تیز ہوگئیں۔ 1915ء میں اٹک آئل کمپنی نے پنڈی گھیپ کے علاقے میں تیل دریافت کیا۔ وہاں 1954ء تک تقریباً چار سو کنوئیں کھودے گئے جن سے تیل نکلتا رہا۔
قیام پاکستان کے بعد تیل کا پہلا کنواں سوئی گیس فلیڈ، بلوچستان کے نزدیک کھودا گیا۔ تاہم اس علاقے میں صرف گیس کے ذخائر ہی مل سکے۔ بعدازاں 1961ء میں پوٹھوہار کے علاقے توت میں تیل دریافت ہوا اور وہاں مختلف کنوئیں کھودے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق علاقہ توت میں تب چھ کروڑ بیرل تیل موجود تھا۔
1970ء کے عشرے میں امریکی تیل کمپنیوں نے پہلی بار تیل و گیس دریافت کرنے کی خاطر بحیرہ عرب میں کنوئیں کھودے تاہم انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران مختلف پاکستانی صوبوں میں وقتاً فوقتاً تیل خصوصاً گیس کے ذخائر دریافت ہوتے رہے۔
2015ء میں یو ایس ایڈ کی تحقیقی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد تیل و گیس کی کھوج میں سرگرم بین الاقوامی کمپنیاں دوبارہ پاکستان میں دلچسپی لینے لگیں۔ چناں چہ پچھلے پانچ سال کے دوران 445 کنوئیں کھودے گئے۔ ان کے باعث تیل و گیس کے 16نئے ذخیرے دریافت ہوئے۔ یہ اہل پاکستان کے لیے ایک بڑی خوشخبری تھی۔
''کیکڑا ''کنواں
جنوری 2019ء سے بحیرہ عرب میں ایک اہم کنوئیں کی کھدائی شروع ہوئی۔ یہ مقام کراچی سے جنوب مغرب کی سمت دو تیس کلو میٹر دور ہے۔ یہ منصوبہ چار کمپنیوں کی مشترکہ تخلیق ہے۔ ان کمپنیوں میں پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ، آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی (پاکستان)، ای این آئی (اٹلی) اور ایگزون موبل (امریکا) شامل ہیں۔ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ کھدائی کے مقام پر تیل و گیس کا بھاری ذخیرہ موجود ہے۔ اس ذخیرہ میں تین تا آٹھ کھرب کیوبک فٹ قدرتی گیس اور ڈیڑھ ارب بیرل تیل موجود ہوسکتا ہے۔ ڈرلنگ کرنے والے خصوصی جہاز کے ذریعے یہ سطور قلمبند ہونے تک اس مقام پر کھدائی جاری ہے۔
اس جگہ 5500 فٹ گہرائی تک کھدائی کرنے کا پروگرام ہے۔ سمندر میں کھدائی زمین کی نسبت زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ اسی لیے کھدائی کا کام سست رفتاری سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ کھدائی کامیاب ثابت ہو اور متعلقہ جگہ سے تیل و گیس کا خزینہ برآمد ہوجائے۔ ایندھن کے اس خزانے کی بدولت پاکستان پھر اپنے معاشی بحران یہ قابو پاسکے گا۔
کھدائی کے اس عمل پر ساڑھے سات کروڑ تا آٹھ کروڑ ڈالر (پونے 11 ارب روپے تا ساڑھے گیارہ ارب روپے) خرچ آئے گا۔ یہ اخراجات چاروں کمپنیوں کے مابین تقسیم ہوں گے۔ تیل و گیس کی تلاش میں محو کمپنیاں اس خرچ کو ''ڈوبی سرمایہ کاری'' کہتی ہیں۔ وجہ یہ کہ کھدائی سے ایندھن دستیاب نہ ہو، تو رقم ضائع ہی جاتی ہے۔خوش قسمتی سے ''کیکڑا'' نامی اس کنوئیںسے تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت ہوگیا، تو پاکستان جلد اس سے ایندھن حاصل نہیں کرسکتا۔ اس جگہ تیس کروڑ ڈالر (تینتالیس ارب روپے) کی لاگت سے چار پانچ برس میں انفراسٹرکچر تعمیر ہوگا۔ اس کے بعد وہاں سے تیل و گیس نکالی جاسکے گی۔
بحیرہ عرب میں تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت ہونے کے بعد ایندھن کی کھوج لگانے والی دیگر عالمی کمپنیاں بھی پاکستان کا رخ کریں گی۔ اس طرح ملک بھر میں نئے کنوؤں کی کھدائی سے تیل و گیس کے مزید ذخائر منظر عام پر آنے کا امکان بڑھ جائے گا۔ یہ صورتحال یقینا معیشتِ پاکستان کے لیے اچھی خبر ہوگی جو قرضوں کے بوجھ تلے دب کر بے حال ہو چکی۔مذید براں یہ ذخائر رکھنے سے ملک کی بین الاقوامی اہمیت وحیثیت میں بھی اضافہ ہو گا۔
وطن عزیز میں چرچا ہے کہ بحیرہ عرب سے تیل وگیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے بھی بیان دے کر قوم کو خوش خبری سنائی۔ظاہر ہے،اگر یہ ذخیرہ دریافت ہو جائے تو پاکستان کی سنگین معاشی صورت حال کو بہتر بنانے میں فوری نہیں تو چار پانچ سال بعد ضرور مدد ملے گی۔
حقائق سے آشکارا ہے کہ تیل وگیس کا بڑا ذخیرہ ملنے کی پیش گوئی پوری بھی ہو سکتی ہے۔گیس اور پٹرول انسانی روزمرہ زندگی رواں دواں رکھنے کا بنیادی ذریعہ بن چکے۔ لہٰذا ان کی کمی یا مہنگا ہونے سے عوام کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔
پاکستان کو قدرت نے درج بالاتوانائی کے دونوں ذرائع سے نوازا ہے۔ لیکن ہمارا حکمران طبقہ اس قدرتی دولت سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکا۔یہی وجہ ہے ' پاکستان آج مجبور ہے کہ وہ ہر سال چودہ ارب ڈالر کا پٹرول اور گیس بیرون ممالک سے خریدتا رہے ۔لیکن یہی خریداری ہماری عالمی تجارت کو خسارے میں لے گئی۔پاکستان کو ہر سال عالمی تجارت میں اٹھارہ تا اکیس ارب ڈالر خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس خسارے کی وجہ سے بھی پاکستانی کرنسی کی قدر گرتی اور ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے۔
وطن عزیز میں ذخائر ِایندھن
2015ء میں امریکا کے ادارے ' یو ایس ایڈ کی مدد سے پاکستانی و امریکی ماہرین ارضیات اور شعبہ پٹرولیم کے سائنس دانوں نے پاکستان کے مختلف جغرافیائی علاقوں میں جدید آلات کے ذریعے تہہ زمین واقع چٹانوں پر تحقیق کی تھی۔ اس تحقیق سے انکشاف ہوا کہ پاکستان میں ''رسوبی چٹانوں'' (Sedimentary rocks) کی ایک قسم شیل (Shale) میں دس ہزار ارب کیوبک فٹ گیس اور دو ہزار تیئس ارب بیرل تیل موجود ہے۔ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ درج بالا میں سے ''بیس کھرب کیوبک فٹ گیس'' اور ''58ارب بیرل تیل'' روایتی ٹیکنالوجی کی مدد سے حاصل کرنا ممکن ہے۔
اس وقت پاکستان میں گیس کے معلوم ذخائر کی مقدار دو کھرب کیوبک فٹ تھی۔ جبکہ تیل کے ذخائر میں تقریباً 39 کروڑ بیرل تیل موجود تھا۔درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ پاکستان کی تہہ زمین میں تیل و گیس کے بھاری ذخائر موجود ہیں۔ یاد رہے' فی الوقت ونیزویلا تیل کے سب سے زیادہ ذخائر رکھتاہے جن میں تین کھرب بیرل تیل محفوظ ہے۔ اس کے بعد سعودی عرب (2.66 کھرب بیرل) ' کینیڈا (1.69 کھرب) ایران (1.58 کھرب) ' عراق (1.42 کھرب)' کویت(ایک کھرب) ' متحدو عرب امارات (97ارب) اور روس (80 ارب بیرل ) آتے ہیں۔ گویا 58 ارب بیرل تیل کے ساتھ پاکستان دنیا میں تیل کا نواں بڑا ذخیرہ رکھتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت ایندھن کے اس بے حساب قدرتی خزینے کو دریافت کرنے کی خاطر ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کر رہی؟ ماہرین اس سوال کے مختلف جوابات دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ حکمرانوں کا بیشتر وقت اپنے دور حکومت میں اپنی کرسیاں محفوظ رکھنے میں گزر جاتا ہے۔ لہٰذا وہ قومی ترقی کے لیے اہم اقدامات پر غور وفکر نہیں کر پاتے۔ دوم یہ کہ تیل و گیس کی کھوج لگانا بڑا مہنگا اور پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستان ترقی پذیر مملکت ہونے کے ناتے اس کھوج پر زر کثیر خرچ نہیں کر سکتا۔
لہٰذا فنڈز کی عدم دستیابی کے سبب تیل وگیس کے نئے ذخیروں کی تلاش سست رفتاری سے جاری ہے۔ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں تیل و گیس درآمد کرنا منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ لہٰذا اس کاروبار سے ایک مافیا یا کارٹل وابستہ ہو چکا۔ اس کارٹل میں حکمران طبقے میں شامل طاقتور شخصیات بھی شامل ہیں۔ یہ شخصیات اپنے مفادات محفوظ رکھنے کی خاطر بھرپور کوشش کرتی ہیں کہ پاکستان میں تیل و گیس کے نئے کنووؤں کی دریافت کا کام سست رفتاری سے جاری رہے۔ ظاہر ہے اگر نئے کنوئیں ملنے سے پاکستان تیل و گیس کی پیداوار میں خود کفیل ہوا تو ان کا منافع بخش کاروبار تو ٹھپ ہو جائے گا۔
رسوبی چٹانوں کا تحفہ
یہ یاد رہے کہ دنیا بھر میں تیل و گیس اور کوئلے کے ذخائر عموماً رسوبی چٹانوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ چٹانیں پتھریلے ذرات' مٹی' نباتات اور جانداروں کی لاشوں کے ملاپ سے وجود میں آتی ہیں۔ انہیں تشکیل پاتے ہوئے کروڑوں سال لگ جاتے ہیں۔زمین کے نیچے پونے دو کلو میٹر تک عام طور پر رسوبی چٹانیں ہی پائی جاتی ہیں۔ زمین کے اوپر بھی بیشتر رقبہ انہی چٹانوں سے بنا ہوا ہے۔کروڑوں برسوں کے دوران ان چٹانوں کے درمیان پھنسا نباتاتی و حیوانی مواد (کاربن) ہی زبردست دباؤ اور درجہ حرارت کے سبب آخر تیل' گیس یا کوئلے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔پاکستان کا رقبہ آٹھ لاکھ تین ہزار نو سو چار مربع کلو میٹر ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق اس رقبے میں سے آٹھ لاکھ مربع کلو میٹر پر رسوبی چٹانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ چٹانیں سطح زمین پر واقع ہیں۔ نیچے دو کلو میٹر گہرائی تک بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ انہی رسوبی چٹانوں کے باعث ہی پاکستان میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر ہونے کا امکان ظاہر کیا جاتا ہے۔ گویا یہ چٹانیں پاکستان کے لیے عظیم تحفہ ہیں۔
تین پاکستانی ارضی خطے
ماہرین جغرافیہ و ارضیات نے رسوبی چٹانوں کے لحاظ سے پاکستان کی ارضی و بحری زمین کو تین بنیادی خطوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کا تعارف درج ذیل ہے۔
٭سندھ بیسن (Basin)...یہ خطہ کوہاٹ سے لے کر کراچی اور کیرتھر اور کوہ سلیمان کے پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ پاکستان میں رسوبی چٹانوں کا سب سے بڑا خطہ ہے۔ اس خطے کو تین ذیلی خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ تین ذیلی خطے بھی سات مزید چھوٹے خطے رکھتے ہیں۔پہلے خطے،''بالائی سندھ ذیلی خطے'' میں دو ذیلی خطے واقع ہیں، یعنی کوہاٹ بیسن اور پوٹھوہار بیسن۔ دوسرے''وسطی سندھ ذیلی خطے'' کے تین ذیلی خطے یا علاقے ہیں یعنی شمالی پنجاب بیسن، وسطی پنجاب بیسن اور سلیمان (پہاڑی) بیسن۔تیسرا ''نچلا سندھ ذیلی خطہ'' دو چھوٹے خطے رکھتا ہے، سندھ بیسن اور کیرتھر (پہاڑی) بیسن۔
٭بلوچستان بیسن...یہ خطہ پشین سے لے کر ایرانی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے تین بڑے حطے ہیں، پشین بیسن، بلوچستان بیسن اور مکران بیسن۔
٭بحری (آف شور) بیسن...یہ خطہ پاکستان کے ساحلوں سے شروع ہوکر بحیرہ عرب کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے بحری قانون (The United Nations Convention on the Law of the Sea) کی رو سے بحیرہ عرب میں پاکستان کا خصوصی اکنامک زون (Exclusive economic zone) دو لاکھ چالیس ہزار مربع کلو میٹر (انسٹھ ہزار نو سو ساٹھ مربع میل) رکھتا ہے۔ اس رقبے کو دو ذیلی خطوں ''سندھ ماورائے ساحل'' (آف شور) اور ''مکران ماورائے ساحل'' میں تقسیم کیا گیا ہے۔
کھدائی کی تاریخ
تیل حاصل کرنے کی خاطر پہلا باقاعدہ کنواں 1848ء میں آذربائیجان میں کھودا گیا تھا۔ عام طور پر زیر زمین تیل و گیس کے ذخائر ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ اسی لیے کنواں کھودتے ہوئے عموماً تیل اور گیس، دونوں ہی دریافت ہوجاتے ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ ہندوستان میں بھی تیل کی تلاش کا قصہ خاصا پرانا ہے۔ ہوا یہ کہ ضلع میانوالی کے علاقے کنڈل میں تیل خود بخود سطح زمین پر نمودار ہوگیا۔ چناں چہ 1866ء میں وہاں کنواں کھود کر تیل نکالا جانے لگا۔ بعدازاں بلوچستان کے مقام کٹھن (مکران) میں تیل دریافت ہوا۔ وہاں تیرہ کنوئیں کھود کر 1885ء سے 1892ء تک پچیس ہزار بیرل تیل نکالا گیا۔
رفتہ رفتہ تیل کا کھوج لگانے والی ٹیکنالوجی ترقی کرتی گئی۔ کنواں کھودنے والے جدید آلات و اوزار بھی ایجاد ہوگئے۔ اس بنا پر رسوبی چٹانوں میں کھدائی کرکے تیل و گیس تلاش کرنے کی مہمات تیز ہوگئیں۔ 1915ء میں اٹک آئل کمپنی نے پنڈی گھیپ کے علاقے میں تیل دریافت کیا۔ وہاں 1954ء تک تقریباً چار سو کنوئیں کھودے گئے جن سے تیل نکلتا رہا۔
قیام پاکستان کے بعد تیل کا پہلا کنواں سوئی گیس فلیڈ، بلوچستان کے نزدیک کھودا گیا۔ تاہم اس علاقے میں صرف گیس کے ذخائر ہی مل سکے۔ بعدازاں 1961ء میں پوٹھوہار کے علاقے توت میں تیل دریافت ہوا اور وہاں مختلف کنوئیں کھودے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق علاقہ توت میں تب چھ کروڑ بیرل تیل موجود تھا۔
1970ء کے عشرے میں امریکی تیل کمپنیوں نے پہلی بار تیل و گیس دریافت کرنے کی خاطر بحیرہ عرب میں کنوئیں کھودے تاہم انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران مختلف پاکستانی صوبوں میں وقتاً فوقتاً تیل خصوصاً گیس کے ذخائر دریافت ہوتے رہے۔
2015ء میں یو ایس ایڈ کی تحقیقی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد تیل و گیس کی کھوج میں سرگرم بین الاقوامی کمپنیاں دوبارہ پاکستان میں دلچسپی لینے لگیں۔ چناں چہ پچھلے پانچ سال کے دوران 445 کنوئیں کھودے گئے۔ ان کے باعث تیل و گیس کے 16نئے ذخیرے دریافت ہوئے۔ یہ اہل پاکستان کے لیے ایک بڑی خوشخبری تھی۔
''کیکڑا ''کنواں
جنوری 2019ء سے بحیرہ عرب میں ایک اہم کنوئیں کی کھدائی شروع ہوئی۔ یہ مقام کراچی سے جنوب مغرب کی سمت دو تیس کلو میٹر دور ہے۔ یہ منصوبہ چار کمپنیوں کی مشترکہ تخلیق ہے۔ ان کمپنیوں میں پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ، آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی (پاکستان)، ای این آئی (اٹلی) اور ایگزون موبل (امریکا) شامل ہیں۔ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ کھدائی کے مقام پر تیل و گیس کا بھاری ذخیرہ موجود ہے۔ اس ذخیرہ میں تین تا آٹھ کھرب کیوبک فٹ قدرتی گیس اور ڈیڑھ ارب بیرل تیل موجود ہوسکتا ہے۔ ڈرلنگ کرنے والے خصوصی جہاز کے ذریعے یہ سطور قلمبند ہونے تک اس مقام پر کھدائی جاری ہے۔
اس جگہ 5500 فٹ گہرائی تک کھدائی کرنے کا پروگرام ہے۔ سمندر میں کھدائی زمین کی نسبت زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ اسی لیے کھدائی کا کام سست رفتاری سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ کھدائی کامیاب ثابت ہو اور متعلقہ جگہ سے تیل و گیس کا خزینہ برآمد ہوجائے۔ ایندھن کے اس خزانے کی بدولت پاکستان پھر اپنے معاشی بحران یہ قابو پاسکے گا۔
کھدائی کے اس عمل پر ساڑھے سات کروڑ تا آٹھ کروڑ ڈالر (پونے 11 ارب روپے تا ساڑھے گیارہ ارب روپے) خرچ آئے گا۔ یہ اخراجات چاروں کمپنیوں کے مابین تقسیم ہوں گے۔ تیل و گیس کی تلاش میں محو کمپنیاں اس خرچ کو ''ڈوبی سرمایہ کاری'' کہتی ہیں۔ وجہ یہ کہ کھدائی سے ایندھن دستیاب نہ ہو، تو رقم ضائع ہی جاتی ہے۔خوش قسمتی سے ''کیکڑا'' نامی اس کنوئیںسے تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت ہوگیا، تو پاکستان جلد اس سے ایندھن حاصل نہیں کرسکتا۔ اس جگہ تیس کروڑ ڈالر (تینتالیس ارب روپے) کی لاگت سے چار پانچ برس میں انفراسٹرکچر تعمیر ہوگا۔ اس کے بعد وہاں سے تیل و گیس نکالی جاسکے گی۔
بحیرہ عرب میں تیل و گیس کا ذخیرہ دریافت ہونے کے بعد ایندھن کی کھوج لگانے والی دیگر عالمی کمپنیاں بھی پاکستان کا رخ کریں گی۔ اس طرح ملک بھر میں نئے کنوؤں کی کھدائی سے تیل و گیس کے مزید ذخائر منظر عام پر آنے کا امکان بڑھ جائے گا۔ یہ صورتحال یقینا معیشتِ پاکستان کے لیے اچھی خبر ہوگی جو قرضوں کے بوجھ تلے دب کر بے حال ہو چکی۔مذید براں یہ ذخائر رکھنے سے ملک کی بین الاقوامی اہمیت وحیثیت میں بھی اضافہ ہو گا۔