کچھ آئے نہ آئے غصہ آتا ہے

پاکستانیوں کے غصے سے ڈر کے انھیں دسویں نمبر رکھا گیا ورنہ ہم سے زیادہ غصہ کس قوم کو آتا ہوگا۔

پاکستانیوں کے غصے سے ڈر کے انھیں دسویں نمبر رکھا گیا ورنہ ہم سے زیادہ غصہ کس قوم کو آتا ہوگا۔ فوٹو: فائل

امیرمینائی نے کہا تھا
تم کو آتا ہے پیار پر غصہ
مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے

شاعر نہ جانے کس مٹی کا بنا ہے، یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس سرزمین کی مٹی کا تو نہیں بنا، اس مٹی سے بننے والوں کو شاعر کے محبوب کی طرح کچھ آئے نہ آئے غصہ ضرور آتا ہے، اور اب تو یہ بات پایۂ تحقیق تک بھی پہنچ چکی ہے۔

مشہور زمانہ ادارے گیلپ نے مختلف ممالک کے باسیوں کے جذباتی رویوں سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے جس میں اقوام عالم میں غصے کا تناسب پیش کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں پاکستان دسویں نمبر پر جگمگا رہا ہے۔ ہمارے خیال میں پاکستانیوں کے غصے سے ڈر کے انھیں دسویں نمبر رکھا گیا ورنہ ہم سے زیادہ غصہ کس قوم کو آتا ہوگا۔ اگر مولانا الطاف حسین حالی ہمارا حال لکھتے تو یوں لکھتے:

کہیں دیر سے کھانا لانے پہ غصہ

کہیں پیٹ بھر کے نہ کھانے پہ غصہ

کہیں کار آگے بڑھانے پہ غصہ

کہیں لال بتی کے آنے پر غصہ

نہائے کوئی تو نہانے پہ غصہ


کوئی گھر پہ آئے تو آنے پہ غصہ

چلا کوئی جائے تو جانے پہ غصہ

صبح جلدی اُٹھنے اُٹھانے پہ غصہ

میاں چائے مانگے، پلانے پہ غصہ

کہے بیوی یہ لادو، لانے پہ غصہ

غصہ روزمرہ کی زندگی سے لے کر ہمارے شاعری، فلم، سیاست اور صحافت تک ہر جگہ اپنے جلوے دکھاتا ہے۔ شاعر کا اشتعال ۔۔۔''جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں، اس کنارے نوچ لوں اور اُس کنارے نوچ لوں، ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے نوچ لوں'' کے عزائم سامنے لاتا ہے، پھر غصہ بڑھتا ہے تو ''توڑدوں'' اور ''پھونک'' دوں کے ارادوں میں ڈھل جاتا ہے۔ خیر ہوئی کہ ہمارے شاعر خلاء چھوڑ جاتے ہیں خود خلاء میں نہیں جاتے ورنہ اب تک چاند تارے نوچ کر بلیک ہول میں پھینکے جاچکے ہوتے۔

شاعر بے چارہ محبت کرے یا غصہ دعوے ہی کر سکتا ہے، نہ تارے نوچ سکتا ہے نہ توڑ کر محبوب کی مانگ میں سجانے کے قابل ہے، مگر فلمی دنیا میں سب کر دکھایا جاتا ہے۔ یوں تو ہماری اردو فلموں میں بھی ہیرو کا غصہ ''سیٹ کے سیٹ'' پھونک ڈالتا ہے، لیکن اگر فلم پنجابی ہو تب تو یہ مسئلہ نہیں ہوتا کہ ہیرو کو غصہ آئے گا، وہاں تو پوری فلم میں ہیرو کا غصہ جاتا ہی نہیں۔ اُسے تو پیار لُٹاتی اور ناچتی گاتی ہیروئن پر بھی طیش آرہا ہوتا ہے کہ ایویں ٹائم ضائع کر رہی ہے ورنہ اب تک میں دس بارہ بندے پھڑکا چکا ہوتا۔

سیاست بہت تحمل اور برداشت مانگتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں ایسے سیاسی راہ نماؤں کی کمی نہیں جنھیں دیکھ کر لگتا ہے سیاست نہیں غصہ کر رہے ہیں۔ بہت سے سیاست دانوں کا طرزحکم رانی بتاتا ہے کہ وہ سیاست میں آئے ہی عوام پر غصہ اُتارنے کے لیے تھے۔ جب اُن کا غصہ اور عوام کے کپڑے اُتر جاتے ہیں تب کہیں جا کر وہ کُرسی سے اُترتے ہیں۔ جس طرح حصہ بہ قدر جُثہ کا اصول ہے، اسی طرح بعض سیاست دانوں کا غصہ بہ قدر حصہ ہوتا ہے۔ یعنی جتنا اقتدار میں حصہ اتنا ہی حکومت پر کم غصہ۔ کچھ کا غصہ ناک پر دھرا رہتا ہے، یہ دھرے دھرے یوں چپک جاتا ہے کا ناک رگڑ کر ہی اس سے چھٹکارا ملتا ہے۔

صحافت ٹھنڈے دماغ سے کرنے والا کام ہے، مگر دماغ ٹھنڈا ہو تو ریٹنگ بھی ٹھنڈی رہتی ہے، اس لیے انگارے اُگلنا پڑتے اور چنگاریاں برسانا پڑتی ہیں۔ اس معاملے میں بعض اینکر انسانی شکل میں آئل ٹینکر ہوتے ہیں جنھیں بس تیلی دکھانے کی دیر ہوتی ہے۔ تیلی اور سُرخ رومال دکھانے کے لیے چینل خصوصی طور پر ایک عدد نوجوان بھرتی کرتے ہیں، جو سنیئر صحافی کے عین سامنے یوں بیٹھا ہوتا یا بیٹھی ہوتی ہے جیسے کسی زمانے میں خواتین لکڑی والے چولہے کے سامنے بیٹھ کر آگ بھڑکاتی تھیں۔ اسی قبیل کے تجزیہ کار بھڑکنے میں خودکار ہوتے ہیں۔ اگرچہ احباب کے مشورے پر اس نوع کے اینکر اور تجزیہ کار غصہ پیتے ہیں، مگر مصیبت یہ ہے کہ صرف غصہ ہی نہیں پیتے، اس لیے پی کر غصہ اور بڑھ جاتا ہے، جسے وہ آن ایئر تھوکتے ہیں۔

اب آپ ہی بتائیے اتنی غصیلی قوم کو جو ووٹ بھی غصے میں دیتی ہو، غصہ ور اقوام کی فہرست میں دسویں نمبر پر رکھنا کہاں کا انصاف ہے!
Load Next Story