یہ لوگ سیلفی بناکر کمال کرتے ہیں
اسمارٹ فون نے ’’سیلفیانے‘‘ کے شوق کو جنون میں بدل ڈالا ہے۔
افریقی ملک کانگو میں ہے ''ویرنگوا نیشنل پارک'' جہاں ہزاروں جانور محفوظ اور آزاد زندگی گزار رہے ہیں، ان میں گوریلے بھی شامل ہیں۔
ایک خبر کے مطابق یہ گوریلے اپنے نگرانوں کے ساتھ خوشی خوشی تصاویر بنواتے ہیں بل کہ ان کی سیلفی میں شامل ہوتے ہوئے پوز بھی بناتے ہیں۔ اس خبر کی سُرخی ہے ''گوریلے بھی سیلفی کے شوقین نکلے۔'' اگر موبائل فون ان گوریلوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو یہ بھی اپنی سیلفی بنابنا کر دیکھ رہے ہوں گے۔
ڈارون کے نظریے کے مطابق گوریلے انسانوں کے اسلاف ہیں، تو پھر انھیں بھی آج کے انسان کی طرح سیلفی کا شوق کیوں نہ ہو!
سیلفی کا سلسلہ موبائل فون میں کیمرے کی سہولت سمانے کے بعد سے شروع ہوا ہے، اسمارٹ فون نے ''سیلفیانے'' کے شوق کو جنون میں بدل ڈالا ہے۔ جب تک یہ سہولت نہیں تھی لوگ آئینے میں خود کو دیکھ کر خود پر واری صدقے ہولیا کرتے تھے۔ آئینے کے بارے یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ سچ بولتا ہے، حالاں کہ صرف وہی آئینہ سچ بولتا ہے جو دوسرا دکھائے اور اس سچ بولتے آئینے کو دیکھ کر دیکھنے والے کا خون کھولتا ہے، جو آئینہ خود دیکھا جائے اس میں خود کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے لوگ اپنے حُسن سے بے خود ہوجاتے ہیں۔
آئینہ کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ اسے جیب میں ڈال کر باہر نہیں لے جایا جاسکتا، چناں چہ جہاں اپنا آئینہ میسر نہ ہو وہاں اپنا آپ دیکھنے کے لیے نسوار کی ڈبیا میں لگا شیشہ، کسی کی کار کا سائڈ مرر، دکانوں پر لگے تاریک شیشے اور دوسروں کی آنکھوں پر جمے کالے چشمے کام آتے تھے۔ اب موبائل فون نے اپنا عکس دیکھنا ہی نہیں اسے عظیم قومی ورثے کی طرح محفوظ کرنا بھی آسان کردیا ہے، اور اس عکس نے سیلفی کا نام پایا ہے۔
سیلفی کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ ''سیلفش'' سیلفی ہوتی ہے جس میں صرف صاحب سیلفی کا رُخ روشن نظر آرہا اور اس کے سوا سب کو ڈرا اور یہ عبرت دلا رہا ہوتا ہے کہ خود کو قریب سے دیکھنا کتنا خوف ناک ہوتا ہے، دوسری قسم کی سیلفی ''ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے'' کی عکاس ہوتی ہے۔۔۔۔ارے نہیں نہیں آپ غلط سمجھے۔۔۔۔یہ لکھتے ہوئے ہمارے ذہن میں بی بی قندیل بلوچ کی وہ سیلفی نہیں جس میں مفتی قوی اپنے سارے تقوے کے ساتھ جلوہ افروز ہیں، ہم ایسی تمام سیلفیوں کی بات کر رہے ہیں جن میں صاحب سیلفی اپنے منہ کے ساتھ دوسروں کا منہ لانے کی کوشش میں انھیں مطلوبہ زاویوں میں لاکر ان کے چہرے بگاڑ دیتا ہے، اور پھر اس سیلفی کو یوں فخریہ دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔۔ ایک میں ہوں کہ دیا سب کی ہی صورت کو بگاڑ۔۔۔۔۔
سیلفی لینا بعض لوگوں کے لیے سانس لینے کے مترادف ہے۔ لگتا ہے ان خواتین وحضرات کو کسی پر اعتبار ہو یا نہ ہو اپنے ذاتی منہ پر ذرا اعتبار نہیں، انھیں ہر کچھ دیر بعد لگتا ہے کہ شاید وہ ایک گھنٹے پہلے والا منہ نہیں رہا۔ اس امید پر کہ شاید وہ کترینہ کیف لگنے لگی ہوں یا سلمان خان کا روپ دھار چکے ہوں، اور دماغ کا یہ پیغام سُن کر کہ ''زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا'' وہ جھٹ اپنی سیلفی لے کر دیکھتے ہیں۔ خوشی ہو یا غمی سیلفی والوں کو۔۔۔۔تقریب کچھ تو بہرِ''خرافات'' چاہیے۔
سو کوئی بھی موقع ہو ان کا مسئلہ صرف یہ تاریخی ریکارڈ جمع کرنا ہوتا ہے کہ کس شادی، کس منگی اور کس میت میں یہ موجود تھے اور کیسے لگ رہے تھے، تاکہ مستقبل کے مورخ کو ان عظیم شخصیات کے بارے میں لکھتے ہوئے ذرا سی بھی پریشانی لاحق نہ ہو۔ دراصل اہل سیلفی وہ فلسفی ہیں جو ہمہ وقت خود پر روشنی ڈالتے اور اپنی تلاش میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے لیے سیلفی کتنی اہمیت رکھتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اگر داغ دہلوی آج زندگی ہوتے تو اپنا مشہور زمانہ شعر یوں کہتے:
بٹھا کے یار کو پہلو میں رات بھر اے داغ
یہ صرف سیلفی بنا کر کمال کرتے ہیں
ایک خبر کے مطابق یہ گوریلے اپنے نگرانوں کے ساتھ خوشی خوشی تصاویر بنواتے ہیں بل کہ ان کی سیلفی میں شامل ہوتے ہوئے پوز بھی بناتے ہیں۔ اس خبر کی سُرخی ہے ''گوریلے بھی سیلفی کے شوقین نکلے۔'' اگر موبائل فون ان گوریلوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو یہ بھی اپنی سیلفی بنابنا کر دیکھ رہے ہوں گے۔
ڈارون کے نظریے کے مطابق گوریلے انسانوں کے اسلاف ہیں، تو پھر انھیں بھی آج کے انسان کی طرح سیلفی کا شوق کیوں نہ ہو!
سیلفی کا سلسلہ موبائل فون میں کیمرے کی سہولت سمانے کے بعد سے شروع ہوا ہے، اسمارٹ فون نے ''سیلفیانے'' کے شوق کو جنون میں بدل ڈالا ہے۔ جب تک یہ سہولت نہیں تھی لوگ آئینے میں خود کو دیکھ کر خود پر واری صدقے ہولیا کرتے تھے۔ آئینے کے بارے یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ سچ بولتا ہے، حالاں کہ صرف وہی آئینہ سچ بولتا ہے جو دوسرا دکھائے اور اس سچ بولتے آئینے کو دیکھ کر دیکھنے والے کا خون کھولتا ہے، جو آئینہ خود دیکھا جائے اس میں خود کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے لوگ اپنے حُسن سے بے خود ہوجاتے ہیں۔
آئینہ کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ اسے جیب میں ڈال کر باہر نہیں لے جایا جاسکتا، چناں چہ جہاں اپنا آئینہ میسر نہ ہو وہاں اپنا آپ دیکھنے کے لیے نسوار کی ڈبیا میں لگا شیشہ، کسی کی کار کا سائڈ مرر، دکانوں پر لگے تاریک شیشے اور دوسروں کی آنکھوں پر جمے کالے چشمے کام آتے تھے۔ اب موبائل فون نے اپنا عکس دیکھنا ہی نہیں اسے عظیم قومی ورثے کی طرح محفوظ کرنا بھی آسان کردیا ہے، اور اس عکس نے سیلفی کا نام پایا ہے۔
سیلفی کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ ''سیلفش'' سیلفی ہوتی ہے جس میں صرف صاحب سیلفی کا رُخ روشن نظر آرہا اور اس کے سوا سب کو ڈرا اور یہ عبرت دلا رہا ہوتا ہے کہ خود کو قریب سے دیکھنا کتنا خوف ناک ہوتا ہے، دوسری قسم کی سیلفی ''ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے'' کی عکاس ہوتی ہے۔۔۔۔ارے نہیں نہیں آپ غلط سمجھے۔۔۔۔یہ لکھتے ہوئے ہمارے ذہن میں بی بی قندیل بلوچ کی وہ سیلفی نہیں جس میں مفتی قوی اپنے سارے تقوے کے ساتھ جلوہ افروز ہیں، ہم ایسی تمام سیلفیوں کی بات کر رہے ہیں جن میں صاحب سیلفی اپنے منہ کے ساتھ دوسروں کا منہ لانے کی کوشش میں انھیں مطلوبہ زاویوں میں لاکر ان کے چہرے بگاڑ دیتا ہے، اور پھر اس سیلفی کو یوں فخریہ دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔۔ ایک میں ہوں کہ دیا سب کی ہی صورت کو بگاڑ۔۔۔۔۔
سیلفی لینا بعض لوگوں کے لیے سانس لینے کے مترادف ہے۔ لگتا ہے ان خواتین وحضرات کو کسی پر اعتبار ہو یا نہ ہو اپنے ذاتی منہ پر ذرا اعتبار نہیں، انھیں ہر کچھ دیر بعد لگتا ہے کہ شاید وہ ایک گھنٹے پہلے والا منہ نہیں رہا۔ اس امید پر کہ شاید وہ کترینہ کیف لگنے لگی ہوں یا سلمان خان کا روپ دھار چکے ہوں، اور دماغ کا یہ پیغام سُن کر کہ ''زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا'' وہ جھٹ اپنی سیلفی لے کر دیکھتے ہیں۔ خوشی ہو یا غمی سیلفی والوں کو۔۔۔۔تقریب کچھ تو بہرِ''خرافات'' چاہیے۔
سو کوئی بھی موقع ہو ان کا مسئلہ صرف یہ تاریخی ریکارڈ جمع کرنا ہوتا ہے کہ کس شادی، کس منگی اور کس میت میں یہ موجود تھے اور کیسے لگ رہے تھے، تاکہ مستقبل کے مورخ کو ان عظیم شخصیات کے بارے میں لکھتے ہوئے ذرا سی بھی پریشانی لاحق نہ ہو۔ دراصل اہل سیلفی وہ فلسفی ہیں جو ہمہ وقت خود پر روشنی ڈالتے اور اپنی تلاش میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے لیے سیلفی کتنی اہمیت رکھتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اگر داغ دہلوی آج زندگی ہوتے تو اپنا مشہور زمانہ شعر یوں کہتے:
بٹھا کے یار کو پہلو میں رات بھر اے داغ
یہ صرف سیلفی بنا کر کمال کرتے ہیں