عمران خان کے لیے اقتدار آسان کیوں ہے

عمران خان کو اقتدار کو آسان سے آسان رکھنے کے لیے تبدیلی کے تمام خواب قربان کرنے ہوںگے۔

msuherwardy@gmail.com

مجھے نہیں معلوم کہ حکومت کرنا آسان ہے کہ نہیں۔ لیکن بہر حال عوام پر ظلم کرنا بہت آسان ہے بلکہ اس ملک میں رائج نظام حکومت میں عوام پر ظلم روکنا ایک مشکل کام ہے۔ جو حکمران عوام پر ظلم کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہے، اس کے لیے اقتدار کانٹوں کی سیج نہیں رہتی اور جو حکمران عوام کا دفاع کرنے کے لیے تیار رہے، اس کے لیے اقتدار کانٹوں کی سیج ہی رہتا ہے۔ اس پیمانے کے تناظر میں اگر اقتدار عمران خان کو آسان لگ رہا ہے ، تو مزید کیا کہا جاسکتا ہے۔

میں تحریک انصاف کا ناقد رہا ہوں۔ میں کبھی تبدیلی کے اس خواب کا قائل نہیں رہا۔ مجھے کبھی تبدیلی کے ان نعروں نے متاثر نہیں کیا۔ میں ان کو پہلے دن سے فریب سمجھتا تھا۔ اس لیے ایسا لکھتا بھی رہا۔ لیکن پھر بھی جب سے یہ حکومت آگئی ہے، جیسے بھی آگئی ہے اور اپوزیشن نے اس حکومت کو تسلیم کر لیا ہے، تب سے میری خواہش رہی ہے کہ کاش یہ حکومت کامیاب ہو جائے۔ جب سے اپوزیشن کی بڑی جماعت نے چپ کی سیاست شروع کی ہے، میرے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں رہی کہ میں اس حکومت کی کامیابی کی دعا کروں۔

جب سے اپوزیشن کی بڑی جماعت نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ اس حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔میرے پاس اس کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں کہ میں بھی اس کی کامیابی کا سوچنا شروع کر دوں۔ جب سے اپوزیشن کو مائنس کرنے کے اسکرپٹ پر کام شروع ہوا ہے، میرے پاس بھی اس حکومت سے امیدیں لگانے کے سواکوئی آپشن نہیں رہا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ میڈیا پرسنز ہی اس وقت اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھوک اور ننگ کے اس دور میں بھی میڈیا نے حکومت کو درست راستہ دکھانے کی ذمے داری اٹھائی ہوئی ہے۔ جب ن لیگ کے لیے شریف فیملی کے مقدمات عوامی مصائب سے زیادہ اہم ہو جائیں ، جب پی پی پی کے لیے بھی عوامی ایشوز سے زیادہ جعلی اکاؤنٹس کے مقدمات اہم ہو جائیں تو میں کیا کروں۔

نئے بجٹ کی آمد آمد ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈیل کی باز گشت ہے۔ عمران خان نئی معاشی ٹیم بھی میدان میں لے آئے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ عمران خان کس کو وزیر خزانہ لگاتے ہیں۔ کس کو چیئرمین ایف بی آر لگاتے ہیں۔ کس کو اسٹیٹ بینک کا گورنر لگاتے ہیں۔ مجھے اسد عمر سے کیا لینا دینا ۔ وہ کونسا عوام کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔وہ بھی مہنگائی کر رہے تھے۔ اگر اسد عمر کے آٹھ ماہ کو ہی دیکھا جائے تو روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی ہوئی۔ حالانکہ آئی ایم ایف سے کوئی معاہدہ بھی نہیں ہوا۔ آئی ایم ایف کی شرائط تو اب سامنے آرہی ہیں۔

گیس کی قیمت میں 140فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ حالانکہ آئی ایم ایف تو اب نئے اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ خداجانے پہلا اضافہ کس کے کہنے پر کیا گیا ہے۔ بجلی کے نرخوں پر اب دوبارہ نہیں بلکہ تیسری چوتھی بار اضافہ کرنے کی باز گشت ہے۔ کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ پہلے اسد عمر نے وہ تمام اضافے کس کے کہنے پر کیے تھے۔ روپے کی قدر مزید کم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ پہلے روپے کی قدرمیں کمی کس کے کہنے پر کی گئی تھی۔ اس لیے میرے لیے اسد عمر اور حفیظ شیخ میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ میرے لیے پرانے چیئرمین ایف بی آر اور نئے چیئرمین ایف بی آر میں بھی کوئی فرق نہیں۔ وہ بھی اشرافیہ کے لیے سوچ رہے تھے ۔ یہ بھی آئی ایم یف کے لیے سوچیں گے۔ میرے لیے اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر اور نئے گورنر میں بھی کوئی فرق نہیں۔ نہ وہ عوام کے لیے سوچ رہے تھے اور نہ انھوں نے عوام کے لیے سوچنا ہے۔


نئے بجٹ میں ٹیکسوں کی بھر مار کی بازگشت ہے۔ بجلی گیس مہنگی کی جا رہی ہے۔ سیلز ٹیکس لگایا جارہا ہے۔ عوام سے تمام سبسڈی واپس لی جا رہی ہے۔ مہنگائی بڑھائی جا رہی ہے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ان سے اقتدار مشکل نہیں آسان ہوجاتا ہے۔ا س لیے میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ حکومت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ اس حکومت کو اپنی کسی اپوزیشن سے کوئی چیلنج نہیں ہے۔ بیچاری اپوزیشن کے منہ میں تو زبان ہی نہیں رہی ہے۔ گونگی، لاغر اپوزیشن عمران خان کے لیے کوئی چیلنج نہیں۔ مقدمات میں پھنسی اپوزیشن کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔ سب اپنی اپنی جان بچانے کے چکر میں ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے لیے عوام پر مہنگائی کا بم کوئی اہم نہیں بلکہ اپنے مقدمات میں ضمانت اہم ہو گیا ہے۔ اپوزیشن کے لیے لندن میں علاج ایک بڑ ایشو ہے جب کہ عوام پر ظلم کم اہم ہے۔

میں منظر نامہ کو تبدیل کرتا ہوں تو شاید یہ سمجھنا آسان ہو جائے کہ حکومت کب اور کیوں مشکل ہو جاتی ہے۔ اگر عمران خان بجلی اور گیس مہنگی کرنے سے انکار کر دیں اور اس ضمن میں بجٹ خسارہ کہیں اور سے پورا کرنے کی کوشش شروع کر دیں۔ وہ پاکستان کے بجٹ میں سے ایسے کونے تلاش کرنے شروع کر دیں جہاں بجٹ میں کمی کر کے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی جائے تو اقتدار عمران خان کے لیے مشکل سے مشکل ہوتا جائے گا۔ اگر وہ عوام کے وسائل عوام پر خرچنے کی کوشش کریں گے تو اقتدار عمران خان کے لیے مشکل سے مشکل ہوتا جائے گا۔ اگر وہ اپنی مرضی کرنے کی کوشش کریں گے تو اقتدار عمران خان کے لیے مشکل سے مشکل ہوتا جائے گا۔ لیکن اگر وہ اقتدار کے لیے مفاہمت پر مفاہمت کرتے جائیں گے تو اقتدار آسان سے آسان ہو تا جائے گا۔اگر وہ ٹیم بدلنے کے لیے جھکتے جائیں گے تو مشکلیں آسان ہوتی جائیں گی۔ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کی بات مانتے رہیں گے توا قتدار آسان سے آسان ہوتا جائے گا۔ مسئلہ وہاں ہو گا جہاں عمران خان اپنی سوچ کے مطابق کام کرنے کی کوشش کریں گے۔

عمران خان کو اقتدار کو آسان سے آسان رکھنے کے لیے تبدیلی کے تمام خواب قربان کرنے ہوںگے۔ اقتدار کو آسان سے آسان کرنے کے لیے عوامی سوچ کے حامل تمام دوستوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ عوامی حمایت کے بجائے محلاتی سازشوں سے اقتدار کو بچانے اور برقرار رکھنے پر توجہ دینی ہوگی۔ عوام کے بجائے طاقت کے مراکز سے طاقت حاصل کرنا ہوگی۔ دو نہیں ایک پاکستان کے بجائے پاکستان کے اندر کئی پاکستان بنانے کے ایجنڈے کو جاری رکھنا ہوگا۔ تو اقتدار آسان سے آسان ہو تا جائے گا۔

عمران خان سمجھدار ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ اقتدار میں آنا مشکل نہیں۔ اس کو برقرار رکھنا مشکل ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ وہ کس طرح اقتدار میں آئے ہیں اور کس طرح اقتدار کو برقرار رکھنا ہے۔ عمران خان کو پتہ ہے کہ وہ بائیس سال عوام کے چکر میں پھنسے رہے اور انھیں کچھ نہیں ملا۔ جو لائے ہیں ان کے ایجنڈے کی تکمیل سے ہی یہ مشکل سے ملا اقتدار قائم رہے گا۔ اس لیے انھیں اقتدار آسان لگ رہا ہے۔ میری دعا ہے کہ اقتدار عمران خان کو مشکل لگنے لگ جائے۔ وہ عوام کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کریں گے تو مشکلات شروع ہوںگی۔
Load Next Story