فضلیت ماہ رمضان

انسان جب دن میں فاقہ کرتا ہے،کھانا پینا ترک کرتا ہے تواسے اپنے کانوں سے اچھا سننا آنکھوں سے حلال دیکھنا ضروری ہوتا ہے

mohsin014@hotmail.com

ماہ رمضان الکریم قمری سال کا نواں مہینہ ہے،اس ماہ میں طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک چند امور بمقصد قربت الہٰی ترک کیے جاتے ہیں ،اس میں کھانا اور پینا ترک ہوتا ہے، اس ترک عمل کا نا م روزہ ہے۔ قرآن حکیم میں سورۃ البقرہ میں آیت نمبر 186میں سحر اور افطارکا وقت بیان کیا گیا ہے۔''بلا تکلف اس کا سامان کرو،کھاؤ پیو، اس وقت تک تمہیں سفید خط(یعنی نور) صبح (صادق ) مہمیزہوجائے سیاہ خط سے (رات تک روزہ پورا کرو) عربی میں رمض کے معنٰی سخت دھوپ میں پتھرکے گرم ہوجانے کوکہتے ہیں ۔

اس مناسبت سے تپتی ہوئی زمین کو رمضا کہتے ہیں۔ جب مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو سخت گرمی کا مہینہ تھا۔اس نسبت سے روزوں کے مہینے کا نام رمضان پڑگیا۔ یہ ایسا تزکیہ نفس ہے جس میں سرکش نفس کو بے لگام ہونے سے بچانا ہوتا ہے۔ حقیقتا نفس ہی ہے ، جس پر شریعت کے مکافت نافذ ہوتے ہیں ۔ یہی وہ نفس ہے جس کو موت نہیں بلکہ موت کا مزہ چکھایا جائے گا ۔ یہی وہ نفس ہے جس سے حساب کتاب لیا جائے گا۔ اس لیے مالک دو جہاں پروردگار عالم نے تمام مسلمانوں پر سال میں تیس روزکے لیے روزہ فرض کیا۔

سرکار دوعالم ختمی المرتبت حبیب کبیریا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا ارشاد ہے '' تمہاری طرف اللہ کا مہینہ برکت، رحمت اور مغفرت کا پیغام لے کر بڑھ رہا ہے ۔ یہ وہ مہینہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مہینوں سے افضل ہے۔ اس کے دن تمام دنوں سے افضل اس کی راتیں تمام راتوں سے افضل اس کے لمحات تمام لمحات سے افضل ہیں'' اس مہینے کی راتوں میں ایک رات لیلۃ القدرکے نام سے موسوم ہے جس میں بجا لائے ہوئے اعمال وعبادت ہزار راتوں سے افضل ہیں۔ یہ ماہ رمضان وہ ماہ ہے جس میں توریت، زبور، انجیل اور قرآن مجید نازل ہوا ۔ ماہ رمضان روزوں کا فرض اس لیے بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن مجید کلام اللہ کی وہ فضلیت اس سے وابستگی کو قائم رکھتے ہوئے نزول قرآن کی یاد تازہ کی جائے۔ یہ اسلام کی شان ہے کہ وہ اپنے پیروں کاروں کو ایک نظم ونسق ، ایک تنظیم اور ایک ضابطہ میں رکھ کر بین المسلمین ایسی ہم آہنگی کو قائم رکھنا چاہتا ہے کہ ایک مسلمان دوسر ے مسلمان کا جز بن جائے۔

جس طرح ہمارے جسم کے اجزاء ایک دوسر ے سے مربوط ہیں اسی طرح ایک مسلم دوسر ے مسلم سے مربوط رہے، اسی فلسفہ کی بناء پر تمام عبادات میں اس عبادت کا درجہ بلند رکھا جس میں اجتماعی عبادت ہو۔ مثلاً نماز پنجگانہ کے اوقات معین کیے نماز تنہا ادائیگی کے مقابلے میں باجماعت نمازکا ثواب زیادہ رکھا۔ اس طرح روزے کو ایک خاص ماہ سے معین کرکے پوری مسلم قوم کو ایک ساتھ روزہ افطارکرنا اور ایک ساتھ سحرکرنے کا حکم دیا، قومی ملی نظم کو قائم کیا۔

اگر پورے سال میں تیس روزوں کوکسی بھی مہینے میں رکھنے کا حکم ہوتا تو ہم اجتماعی تزکیہ نفس سے محروم ہو جاتے۔ یہی وجہ ہے عید الفطر اور عید الاضحیٰ اور ایام حج کو بھی اجتماعی عبادت بنایا گیا۔اس طرح جب سارے مسلمان ایک ہی وقت میں مکّہ معظمہ میں جمع ہو کر فریضہ حج انجام دیتے ہیں تو پوری دنیا کے دوسرے لوگ اس لاکھوں کے مجمع کو دیکھ کر حیرت زدہ بھی ہوتے ہیں اور ان پر مسلمانوں کی ہیبت بھی طاری ہوتی ہے۔ اسلام کا فلسفہ یہی ہے کہ تمام ملت اسلامیہ میں یک رنگی ہو۔ اس میں انسیت بڑھتی ہے اور تلخی خوشگواریوں میں تبدیل ہوجاتی ہے۔


روزوں کا حکم یہ ہے رمضان کی پہلی کا چاند دیکھ کر روزے شروع کردو اور شوال کے چاند پر ختم کردو چونکہ روزہ ہمارے لیے تزکیہ نفس ہے اس لیے حکم ہے ''جب روزہ رکھو تو تمہارے کان، آنکھ، بال اور جسم کی کھال تک روزہ دار ہو اور تمہارے روزے کا دن بے روزہ والے دن کی مانند نہ ہونا چاہیے'' اس لیے مسلمانوں کا روزہ رات کے بجائے دن کا ہوتا ہے کیونکہ رات تو سونے میں کٹ جاتی ہے اور اس کے ساتھ خواہشات اور جذبات بھی ہوجاتے ہیں اس لیے خواہشات نفس کو روکنے کی ریاضت نہ ہوسکے گی۔ یہ ریاضیت دن ہی میں ممکن ہے۔

انسان جب دن میں فاقہ کرتا ہے،کھانا پینا ترک کرتا ہے تو اسے اپنے کانوں سے اچھا سننا آنکھوں سے حلال دیکھنا ضروری ہوتا ہے، اس طرح ہمارا جسم جو تکالیف اٹھاتا ہے۔اس کے نتیجے میں ہمارا نفس نکھرتا ہے اس کی سرکشی کم ہوتی ہے اور نفس میں طہارت اور پاکیزگی پیدا ہوتی ہے ۔ طاہر اور پاک نفس رضائے الہٰی پر عمل کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہے ، اس وجہ سے ایسا نفس قربت الہٰی کی منزل پاتا ہے۔اس ماہ رمضان میں آخری جمعہ جسے ہم جمعۃ الوداع کہتے وہ بھی بڑا اہم ہے ۔

جابر بن عبد اللہ انصاری صحابی رسولؐ اللہ سے فرماتے ہیں کہ میں ماہ رمضان میں جمعتہ الوداع کے دن پیغمبر اسلا مﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے مجھ سے فرمایا اے! جابر یہ رمضان کا آخر ی جمعہ ہے اسے وداع کرو۔ اور یہ کہو اے اللہ! اسے ہمارے روزوں کا آخری زمانہ نہ قرار دے۔ اگر اسے آخری قرار دیا تو ہمیں اپنی رحمت سے سر فرازکر اور محروم نہ کر۔ ماہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت یعنی پہلے دس روزے کہلاتے ہیں ۔ شیطان ابلیس قید ہوجاتا ہے اور پروردگار کی رحمت اس کی کریمی جوش میں ہوتی ہے، جب کہ دوسرا عشرہ مغفرت کا ہوتا ہے اگر مسلمان چاہے تو اپنی زندگی کے تمام گناہوں ، نافرمانیوں سے نجات کے لیے مغفرت طلب کرے۔ رب العالمین ہر گناہ کو معاف کردے گا۔

حقیقتاً اس سے طلب توبہ کی جائے اس ماہ رمضان کا آخری مہینہ نجات یافتہ ہونے کے لیے اس عشرے میں اپنے گناہوں کے اقرار اور آیندہ گناہ نہ کرنے کا وعدہ اور جوگناہ کیے اس کے کفارہ کا خیال کرکے اس پورا کرے تو اس عشرے میں اسے نجات ملے گی۔ انسان کی کامیابی اس دنیا سے جاتے وقت نجات یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اس لیے ایک حدیث شریف میں کہا کہ دنیا مومن کے لیے قیدخانہ اورکافرکے لیے جنت ہے۔ یعنی جو قیدی ہوتا ہے وہ قید سے آزادی کی جدوجہدکرتا ہے،اسے جہاد کہتے ہیں اگر مومن ہے تو اس دنیا میں راحت نہیں بلکہ سلامتی کے ساتھ نجات چاہے گا۔ یہ ماہ رمضان الکریم ایسا مہینہ ہے جس میں مغفرت بھی، رحمت بھی اور نجات بھی ملتی ہے۔اس لیے ہمیں اپنے نفس کو سرکشی سے بچانے کے لیے روزوں کے ذریعے، جسم کی ریاضیت کے ذریعے نفس کو آلودگی سے پاک کریں اور اس ماہ رمضان میں اپنے اخلاق اطوارکا جائزہ لیں۔

ایک دوسرے کے حق کو بچایئے اور حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد جس میں والدین کے حقوق، پڑوس کے حقو ق ، بہن بھائی کے حقوق ، بزرگوں کے حقوق استاد اور عالموں کے حقوق ، تاجر اور آجرکے حقوق محتاج اور غنی کے حقوق ،کمزور اورطاقتوروں کے حقوق حاکم اور رعایا کے حقوق کا خیال رکھے کیونکہ یہ انسان اس دنیا میں حقوق اللہ اور حقوق العباد ہی کے لیے بھیجاگیا ہے ۔ جس نے خوش اسلوبی سے ان حقوق کو فرائض سمجھ کر پورا کیا ۔ وہ اس دنیا سے مومن بن کر وفات پائے گا ۔ اس مومن کی قبرکشادہ ہوگی۔

اسے جنت کی بشارت ہوگی۔اس کے جنازے میں شریک مومن کی بخشش ہوگی۔ وہ عالم برزخ میں خوش وخرم ، راحت سے اس دن کے انتظار میں بے چین ہوگا جو دن یوم الحساب کہلاتا ہے۔کیونکہ اس نے حقوق العباد اور حقوق اللہ کے ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کی ۔ایسا مومن اس ماہ رمضان میں جب اپنے مالک اپنے آقا اپنے پر وردگار سے دُعا کرتا ہے توکہتا ہے ۔ اے اللہ! اسے وہ جو (اپنے احسانات کا) بدلہ نہیں چاہتا بندوں کو (ان کے عمل کے مقابلہ میں) نپا تُلا اجر نہیں دیتا۔ تیری نعمتیں بغیرکسی سابقہ استحقاق کے ہیں اور تیرا عفوو درگزر تفصیل واحسان ہے تیرا سزا دینا عین عدل، تیرا فیصلہ خیر اور بہبودی کا حامل ہے۔ تو اگر دیتا ہے تو اپنی عطا کو منت گزار سے آلودہ نہیں کرتا اور اگر منع کردیتا ہے تو یہ ظلم اور زیادتی کی بناء پر نہیں ہوتا۔ جو شکر ادا کرتا ہے تو اس کے شکرکی جزا دیتا ہے ، حالانکہ تو ہی نے اسے حمد کی تعلیم دی ہے اور ایسے شخص کی پردہ پوشی کرتا ہے ، اگر چاہتا تو اسے رسوا کردیتا ۔ایسے شخص کو دیتا ہے اگر تو چاہتا نہ دیتا ۔ حالانکہ وہ دونوں تیری بارگاہ میں رسوا اور محروم کیے جانے کے قابل تھے مگر تو نے اپنے افعال کی بنیاد تفصیل و احسان پر رکھی ہے اپنے اقتدارکوعفو اور درگزرکی راہ پر لگایا ہے۔ جس کسی نے اپنے نفس پر ظلم کیا تو نے اسے مہلت دی۔ تو ان کے رجوع ہونے تک اپنے حکم کی بنا ء پر مہلت دیتا رہا اور توبہ کرتے تو اسے سزا دینے میں جلدی نہ کی۔ ہر روزہ دار اس طرح کی حمدو ثناء کرکے اپنے رب سے مغفرت، رحمت طلب کرسکتا ہے وہ بڑا کریم اور ہمارے گناہوں کو بخشنے والا ہے۔
Load Next Story