امن کی راہ
ریٹزک ربین نے 1994 میں نوبل پرائز حاصل کیا تھا۔
ریٹزک ربین نے 1994 میں نوبل پرائز حاصل کرنے کے بعد اپنے خطبہ امن میں کہا، نوجوانی میں جب طلباء و طالبات ریاضی کے مسائل حل کرنے، انجیل کے اسرار و رمو ز جاننے اور اپنی پہلی محبت کو پروان چڑھانے کی کو شش کررہے ہوتے ہیں، میرے ہاتھ میں ایک بندوق تھما دی گئی تاکہ میں اپنا دفاع کرسکوں اور اگر اپنی جان کو خطر ے میں پائوں تو قتل کرسکوں۔ بندو ق حاصل کرنا میرا خواب نہیں تھا۔ میں تو ایک انجینئر بننا چاہتا تھا لیکن میں بندوق اٹھانے پر مجبور کردیا گیا۔ میں نے کئی دہائیوں تک فوج کو اپنی خدمات پیش کیں، میری سپہ سالاری میں وہ نوجوان مرد اور عورتیں جو زندہ رہنا چاہتے تھے، محبت کرنا چاہتے تھے، موت کی وادیوں میں اتر گئے۔ خواتین و حضرات! اب جب کہ میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہوں مجھے اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے اوپر سے ہوائی جہاز سے سفر کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ جہاز سے جو منظر دکھائی دیتا ہے وہ حیران کن ہے۔
گہری نیلی جھیلیں، گہرے سبز لہلہاتے کھیت، لق و دق صحرا، اونچے مٹیالے پہاڑ، چاروں طرف سفیدی کیے ہوئے سرخ چھتوں والے گھر اور ان کے ساتھ دور دور تک پھیلے ہوئے قبرستان۔ مشرقی وسطیٰ میں سیکڑوں قبرستان ہیں جو نہ صرف میری مادر وطن اسرائیل میں ہیں بلکہ ہمارے ہمسایہ ممالک شام، اردن، لبنان اور عراق میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ ہوائی جہاز کی کھڑکی سے ہزاروں کتبے دکھائی دیتے ہیں جو خاموش ہیں لیکن ان کی خاموشی چیخ چیخ کر اپنی بپتا ساری دنیا کو سناتی ہے۔ آج میں یہاں کھڑے ہو کر اپنے دوستوں اور دشمنوں سب کو سلام کرتا ہوں۔ میں ساری دنیا کی ساری جنگوں میں جان کی قربانی دینے والے سارے سپاہیوں کو اور ان کے عزیزوں کو جنھوں نے نہ مندمل ہونے والے زخم سہے، خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ آج کا انعام ان کے نام ہے اور صرف ان ہی کے نام ہے، ہمارے عوام نے ہمیں اس لیے اپنا رہنما چنا ہے کہ ہم ان کی زندگیوں کی حفاظت کریں۔ یہ ایک تکلیف دہ بات ہے لیکن حقیقت ہے کہ ان کی زندگیاں ہمارے ہاتھ میں ہیں۔
ان کی نظریں ہم پر جمی ہوئی ہیں اور ان کے دل ہم سے پوچھ رہے ہیں۔ کیا ہم انھیں امن کا پیغام دیں گے یا جنگ کا؟ کیا ہم انھیں قہقہوں کی نوید سنائیں گے یا آنسوئوں کی خبر دیں گے؟ ہر قوم کے رہنمائوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی قوم کو ایسے حالات مہیا کریں، جس کے سائے میں عوام آزادی سے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرسکیں، انھیں روٹی، کپڑا اور مکان کی فکر نہ ہو اور ان کی زندگی خطر ے میں نہ ہو۔ ہر ملک کی حکومت پر اپنے شہریوں کی زندگی کا تحفظ فرض ہے۔ عوام کی زندگی کے تحفظ کے لیے ہم اپنی قوم کے نوجوانوں کو فوج میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں اور پھر ان فوجیوں کے تحفظ کے لیے ہم ہوائی جہازوں اور ٹینکوں پر بڑی رقم خرچ کرتے ہیں، اس کے باوجود بہت سے فوجیوں اور عوام کی جانیں ضایع ہوجاتی ہیں۔
ساری دنیا کے فوجی قبرستان اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ ان کے رہنما ان کی جانوں کی حفاظت نہ کرسکے۔ انسانی زندگی کا تحفظ نہ تو ہوائی جہازوں سے ہوسکتا ہے، نہ ٹینکوں سے اور نہ ہی قلعے بنانے سے۔ اس کا واحد طریقہ امن کی راہ اختیار کرنا ہے۔ انسانی تاریخ عمومی طور پر اور جدید تاریخ خصوصی طور پر اس حقیقت کی گواہ ہے کہ مختلف قوموں کے رہنمائوں نے اپنی عوام کو جنگ کی آگ کا ایندھن بنایا اور مختلف نظریاتی نظاموں کو جواز کے طور پر پیش کیا، اس المیے کی مثال نازی بھی ہیں اور فاشزم کے پیروکار بھی۔ ہم سب نے وہ تصویریں دیکھی ہیں جن میں معصوم بچے اور سہمی ہوئی عورتیں قتل گاہوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایسی تصویروں سے ہماری نسل کو اور آنے والی نسلوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ وہ تمام حکومتیں جنھوں نے انسانیت کا احترام نہیں کیا وہ اس دنیا سے نیست و نابود ہوگئیں، لیکن یہ حقیقت کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ زندگی کی حفاظت کے لیے بعض دفعہ ہمیں زندگی دائو پر بھی لگانی پڑتی ہے۔
بعض دفعہ عوام کے لیے اور کوئی راستہ نہیں رہتا کہ وہ اپنی زندگیوں کے دفاع کے لیے لڑیں اور یہ مشکل وقت ہر جمہوری ریاست پر آسکتا ہے۔ میری دعا ہے کہ جنگ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے اور ہم سب زندگی کا تہہ دل سے احترام کریں اور آئندہ خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہائیں۔ خواتین و حضرات! ہم زندگی کے اس موڑ پر آپہنچے ہیں جہاں ہم جنگ کو خیرباد کہہ کر امن تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور امن کے معمار جانتے ہیں کہ انھیں یہ عمارت ایک ایک اینٹ کرکے بنانی ہوگی اور وہ بھی بڑی احتیاط سے، کیونکہ اگر اس کی تعمیر میں غلطی ہوئی تو ساری عمارت دھڑام سے نیچے گر سکتی ہے، اور یہ عمارت ہمیں ہر حال میں تعمیر کرنی ہوگی چاہے ہمیں اس راستے میں امن کے دشمنوں کا مقابلہ بھی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ہمیں اس راہ میں استقامت اور مستقل مزاجی کا سامنا کرنا ہوگا۔ آخرکار ہم امن کی منزل پر پہنچ کر ہی دم لیں گے اور وہ منزل ہمارے بچوں کے لیے بلکہ ہمارے ہمسایہ ممالک کے بچوں اور ساری دنیا کے بچوں ؐکے لیے بھی ایک اچھا شگون ہوگا۔
میں یہاں صرف اکیلا ہی امن کا پیمبر نہیں ہوں۔ میرے ساتھ اور بھی بہت سے انسانیت کا احترام کرنیوالے انسان ہیں جو ایک امن کی نئی صبح کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ آج سے پہلے بہت سے شاعروں نے امن کے خواب دیکھے۔ امن کے خواب دیکھنے والوں میں یہودی قوم کے بہت سے سپوت شامل ہیں جن میں آئن اسٹائن، سپینوزا، میمونائڈز، فرائڈ اور کافکا سبھی شامل ہیں۔ مجھے ان جانوں کا دکھ ہے جو ہولوکاسٹ میں ضایع ہوگئیں، ان میں نجانے کتنے آئن اسٹائن اور فرائڈ موجود ہوں گے۔ افسوس صد افسوس، انسانیت کیسے کیسے انسانوں کی تخلیقات، کاوشوں اور تحفوں سے محروم رہ گئی۔ آج میں آنے والی نسلوں کا نمائندہ ہوں جو اس انعام کی مستحق ہوں گی، کیونکہ وہ امن کی تعمیر میں ہمارے خوابوں کو بڑھاوا دیں گے۔ میں اپنے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن میں مصر، اردن اور فلسطین کے شہری شامل ہیں اور خاص طور پر پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات کا جو ہمارے ساتھ مل کر نوبل کا امن کا انعام حاصل کررہے ہیں، وہ امن کی راہوں میں ہمارے ہمسفر ہیں۔
آج پاکستانی سماج ارتقا کے اس موڑ پر کھڑا ہوا ہے جہاں ایک طرف کھائی ہے تو دوسری طرف گڑھا ہے۔ آج امن ہماری اولین آرزو ہے، اس وقت عسکریت اور انتہاپسندی کے سامنے ریاست بے بس ہے وہ شہریوں کے تحفظ اور ان کو انصاف فراہم کر نے میں ناکام ہے، ریاست اور شہریوں کے درمیان بداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ غربت، بھوک، جہالت، بیماریاں، مہنگائی، توانائی کا بحران، پانی کی قلت اور معاشی بحران وہ عذاب ہیں جن کا عوام دن رات سامنا کررہے ہیں، ان تمام معاملات میں بہتری کی کوئی امید کہیں سے نظر نہیں آرہی جب کہ ہماری سیاسی قیادت ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت کھینچا تانی زوروں پر ہے، پوائنٹ اسکورنگ کا کھیل عروج پر ہے۔ سارا زور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے لگایا جارہا ہے۔
پاکستان کے عوام اپنے قومی رہنمائوں سے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ذاتی پرخاش، پسند ناپسند، پارٹی تعصب سے بالاتر ہوکر قوم کو ان عذابوں سے نجات دلوانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ یہ کام کوئی ایک جماعت اکیلے نہیں کرسکتی، اس کے لیے ملک کی تمام سیاسی و جمہوری جماعتوں کو ایک ساتھ مل کر ایک زبان ہونا ہوگا اور فوری طور پر قومی ایجنڈا تشکیل دینا ہوگا۔ پاکستانی قوم نے ہمیشہ تمام سیاسی جماعتوں کا بھر پور ساتھ دیا ہے، ہر مشکل وقت میں ان کے شانہ بشانہ جدوجہد میں شریک رہے ہیں، اب قومی رہنمائوں کا بھی اولین فرض ہے کہ وہ دہشت گردی، انتہاپسندی، جہالت، غربت، جنونیت کے خلاف متحد ہوکر جنگ کا آغاز کردیں۔ ایک پرامن اور عدل پر مبنی سماج پاکستان کے عوام کا حق ہے۔ آئیں ہم مل کر امن کے لیے جنگ کریں، اپنے بچوں کے لیے، اپنی عورتوں کے لیے، اپنے بزرگوں کے لیے اور آنے والی نسل کے لیے۔
گہری نیلی جھیلیں، گہرے سبز لہلہاتے کھیت، لق و دق صحرا، اونچے مٹیالے پہاڑ، چاروں طرف سفیدی کیے ہوئے سرخ چھتوں والے گھر اور ان کے ساتھ دور دور تک پھیلے ہوئے قبرستان۔ مشرقی وسطیٰ میں سیکڑوں قبرستان ہیں جو نہ صرف میری مادر وطن اسرائیل میں ہیں بلکہ ہمارے ہمسایہ ممالک شام، اردن، لبنان اور عراق میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ ہوائی جہاز کی کھڑکی سے ہزاروں کتبے دکھائی دیتے ہیں جو خاموش ہیں لیکن ان کی خاموشی چیخ چیخ کر اپنی بپتا ساری دنیا کو سناتی ہے۔ آج میں یہاں کھڑے ہو کر اپنے دوستوں اور دشمنوں سب کو سلام کرتا ہوں۔ میں ساری دنیا کی ساری جنگوں میں جان کی قربانی دینے والے سارے سپاہیوں کو اور ان کے عزیزوں کو جنھوں نے نہ مندمل ہونے والے زخم سہے، خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ آج کا انعام ان کے نام ہے اور صرف ان ہی کے نام ہے، ہمارے عوام نے ہمیں اس لیے اپنا رہنما چنا ہے کہ ہم ان کی زندگیوں کی حفاظت کریں۔ یہ ایک تکلیف دہ بات ہے لیکن حقیقت ہے کہ ان کی زندگیاں ہمارے ہاتھ میں ہیں۔
ان کی نظریں ہم پر جمی ہوئی ہیں اور ان کے دل ہم سے پوچھ رہے ہیں۔ کیا ہم انھیں امن کا پیغام دیں گے یا جنگ کا؟ کیا ہم انھیں قہقہوں کی نوید سنائیں گے یا آنسوئوں کی خبر دیں گے؟ ہر قوم کے رہنمائوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی قوم کو ایسے حالات مہیا کریں، جس کے سائے میں عوام آزادی سے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرسکیں، انھیں روٹی، کپڑا اور مکان کی فکر نہ ہو اور ان کی زندگی خطر ے میں نہ ہو۔ ہر ملک کی حکومت پر اپنے شہریوں کی زندگی کا تحفظ فرض ہے۔ عوام کی زندگی کے تحفظ کے لیے ہم اپنی قوم کے نوجوانوں کو فوج میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں اور پھر ان فوجیوں کے تحفظ کے لیے ہم ہوائی جہازوں اور ٹینکوں پر بڑی رقم خرچ کرتے ہیں، اس کے باوجود بہت سے فوجیوں اور عوام کی جانیں ضایع ہوجاتی ہیں۔
ساری دنیا کے فوجی قبرستان اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ ان کے رہنما ان کی جانوں کی حفاظت نہ کرسکے۔ انسانی زندگی کا تحفظ نہ تو ہوائی جہازوں سے ہوسکتا ہے، نہ ٹینکوں سے اور نہ ہی قلعے بنانے سے۔ اس کا واحد طریقہ امن کی راہ اختیار کرنا ہے۔ انسانی تاریخ عمومی طور پر اور جدید تاریخ خصوصی طور پر اس حقیقت کی گواہ ہے کہ مختلف قوموں کے رہنمائوں نے اپنی عوام کو جنگ کی آگ کا ایندھن بنایا اور مختلف نظریاتی نظاموں کو جواز کے طور پر پیش کیا، اس المیے کی مثال نازی بھی ہیں اور فاشزم کے پیروکار بھی۔ ہم سب نے وہ تصویریں دیکھی ہیں جن میں معصوم بچے اور سہمی ہوئی عورتیں قتل گاہوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایسی تصویروں سے ہماری نسل کو اور آنے والی نسلوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ وہ تمام حکومتیں جنھوں نے انسانیت کا احترام نہیں کیا وہ اس دنیا سے نیست و نابود ہوگئیں، لیکن یہ حقیقت کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ زندگی کی حفاظت کے لیے بعض دفعہ ہمیں زندگی دائو پر بھی لگانی پڑتی ہے۔
بعض دفعہ عوام کے لیے اور کوئی راستہ نہیں رہتا کہ وہ اپنی زندگیوں کے دفاع کے لیے لڑیں اور یہ مشکل وقت ہر جمہوری ریاست پر آسکتا ہے۔ میری دعا ہے کہ جنگ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے اور ہم سب زندگی کا تہہ دل سے احترام کریں اور آئندہ خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہائیں۔ خواتین و حضرات! ہم زندگی کے اس موڑ پر آپہنچے ہیں جہاں ہم جنگ کو خیرباد کہہ کر امن تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور امن کے معمار جانتے ہیں کہ انھیں یہ عمارت ایک ایک اینٹ کرکے بنانی ہوگی اور وہ بھی بڑی احتیاط سے، کیونکہ اگر اس کی تعمیر میں غلطی ہوئی تو ساری عمارت دھڑام سے نیچے گر سکتی ہے، اور یہ عمارت ہمیں ہر حال میں تعمیر کرنی ہوگی چاہے ہمیں اس راستے میں امن کے دشمنوں کا مقابلہ بھی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ہمیں اس راہ میں استقامت اور مستقل مزاجی کا سامنا کرنا ہوگا۔ آخرکار ہم امن کی منزل پر پہنچ کر ہی دم لیں گے اور وہ منزل ہمارے بچوں کے لیے بلکہ ہمارے ہمسایہ ممالک کے بچوں اور ساری دنیا کے بچوں ؐکے لیے بھی ایک اچھا شگون ہوگا۔
میں یہاں صرف اکیلا ہی امن کا پیمبر نہیں ہوں۔ میرے ساتھ اور بھی بہت سے انسانیت کا احترام کرنیوالے انسان ہیں جو ایک امن کی نئی صبح کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ آج سے پہلے بہت سے شاعروں نے امن کے خواب دیکھے۔ امن کے خواب دیکھنے والوں میں یہودی قوم کے بہت سے سپوت شامل ہیں جن میں آئن اسٹائن، سپینوزا، میمونائڈز، فرائڈ اور کافکا سبھی شامل ہیں۔ مجھے ان جانوں کا دکھ ہے جو ہولوکاسٹ میں ضایع ہوگئیں، ان میں نجانے کتنے آئن اسٹائن اور فرائڈ موجود ہوں گے۔ افسوس صد افسوس، انسانیت کیسے کیسے انسانوں کی تخلیقات، کاوشوں اور تحفوں سے محروم رہ گئی۔ آج میں آنے والی نسلوں کا نمائندہ ہوں جو اس انعام کی مستحق ہوں گی، کیونکہ وہ امن کی تعمیر میں ہمارے خوابوں کو بڑھاوا دیں گے۔ میں اپنے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن میں مصر، اردن اور فلسطین کے شہری شامل ہیں اور خاص طور پر پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات کا جو ہمارے ساتھ مل کر نوبل کا امن کا انعام حاصل کررہے ہیں، وہ امن کی راہوں میں ہمارے ہمسفر ہیں۔
آج پاکستانی سماج ارتقا کے اس موڑ پر کھڑا ہوا ہے جہاں ایک طرف کھائی ہے تو دوسری طرف گڑھا ہے۔ آج امن ہماری اولین آرزو ہے، اس وقت عسکریت اور انتہاپسندی کے سامنے ریاست بے بس ہے وہ شہریوں کے تحفظ اور ان کو انصاف فراہم کر نے میں ناکام ہے، ریاست اور شہریوں کے درمیان بداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ غربت، بھوک، جہالت، بیماریاں، مہنگائی، توانائی کا بحران، پانی کی قلت اور معاشی بحران وہ عذاب ہیں جن کا عوام دن رات سامنا کررہے ہیں، ان تمام معاملات میں بہتری کی کوئی امید کہیں سے نظر نہیں آرہی جب کہ ہماری سیاسی قیادت ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت کھینچا تانی زوروں پر ہے، پوائنٹ اسکورنگ کا کھیل عروج پر ہے۔ سارا زور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے لگایا جارہا ہے۔
پاکستان کے عوام اپنے قومی رہنمائوں سے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ذاتی پرخاش، پسند ناپسند، پارٹی تعصب سے بالاتر ہوکر قوم کو ان عذابوں سے نجات دلوانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ یہ کام کوئی ایک جماعت اکیلے نہیں کرسکتی، اس کے لیے ملک کی تمام سیاسی و جمہوری جماعتوں کو ایک ساتھ مل کر ایک زبان ہونا ہوگا اور فوری طور پر قومی ایجنڈا تشکیل دینا ہوگا۔ پاکستانی قوم نے ہمیشہ تمام سیاسی جماعتوں کا بھر پور ساتھ دیا ہے، ہر مشکل وقت میں ان کے شانہ بشانہ جدوجہد میں شریک رہے ہیں، اب قومی رہنمائوں کا بھی اولین فرض ہے کہ وہ دہشت گردی، انتہاپسندی، جہالت، غربت، جنونیت کے خلاف متحد ہوکر جنگ کا آغاز کردیں۔ ایک پرامن اور عدل پر مبنی سماج پاکستان کے عوام کا حق ہے۔ آئیں ہم مل کر امن کے لیے جنگ کریں، اپنے بچوں کے لیے، اپنی عورتوں کے لیے، اپنے بزرگوں کے لیے اور آنے والی نسل کے لیے۔