بتاشوں پہ ناچنے والی۔۔۔۔
ایک ایسی دنیا جہاں پہنچ کر انسان خود کو دوسروں سے الگ اور منفرد سمجھنے لگتا ہے۔
شوبز کی دنیا، ستاروں کی دنیا، جگمگاتی کہکشاں کی دنیا۔۔۔۔ ایک ایسی دنیا جہاں پہنچ کر انسان خود کو دوسروں سے الگ اور منفرد سمجھنے لگتا ہے۔ لائٹ، کیمرا، زرق برق ملبوسات، چمکتے چہرے، رنگا رنگ ماحول، دنیا ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار، جیسے پرستان کا کوئی تھیٹر، جہاں پریاں ناچتی ہیں، اور یہ ناچتی گاتی پریاں میک اپ کی تہوں میں اصلی چہرے اور غم چھپائے پرستاروں کو یوں دیکھتی ہیں جیسے کوئی احسان کر دیا ہو۔ یہ دنیا صرف ان ہی کے لیے تخلیق کی گئی ہو۔۔۔۔ اور پھر جب بالوں پہ برف جمنے لگے، آنکھوں کی چمک ماند پڑنے لگے، ہاتھوں کی رگیں ابھر آئیں تو یہی پرستان تھیٹر ایک زوردار لات مار کر پیچھے پھینک دیتا۔ اور تب پتہ چلتا ہے کہ اصلی دنیا تو بڑی بے رحم ہے، یہ تو چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔ جو کچھ دیکھا تھا وہ تو بس ایک خواب تھا۔ آنکھ کھلی تو پورا وجود لہولہان تھا۔
آئینے جھوٹ نہیں بولتے۔ لیکن آئینوں کی سنتا کون ہے۔ حقیقت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ستاروں کے جھرمٹ میں رہنے والے جب آسمان سے زمین پہ گرتے ہیں تو اس تلخ حقیقت کو قبول نہیں کر پاتے۔ وقت مائع ہے، بہتا ہے اور برف کی طرح پگھلتا جاتا ہے۔ بھلا برف کو بھی کسی نے پگھلنے سے روکا ہے۔۔۔۔ پھر خواہ ''پرنس آف منروا'' ہو، پہلی رنگین فلم ''آن'' کی ہیروئن نادرہ ہو، وحید مراد ہو، خوبصورت چہرے اور سریلی آواز کی مالک ثریا ہو، پروین بوبی ہو، کوما میں پڑی شمیم آراء ہو، یا میڈم آزوری۔ سب زمانے کی ناقدری کا شکار اور اپنے عروج کے زمانے کی روشن قندیل کی تصویروں کے اسیر۔ میڈم آزوری کا ذکر میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں کیا تھا۔ غالباً 70ء کی دہائی کا زمانہ تھا جب میں نے انھیں دیکھا۔ گندمی رنگت کی پرکشش سی خاتون، اسکرٹ بلاؤز میں ملبوس، کٹے ہوئے بال، بھرا بھرا جسم، ساڑی بھی پہنتی تھیں۔ وہ ایک بہت بڑی اور گن ونتی ڈانسر تھیں، بڑی مشہور فلموں میں رقص کیا۔
میڈم آزوری کا اصلی نام اینیٹ تھا، لیکن گھر میں وہ ''اینا'' کہلاتی تھیں۔ یہ باپ کی طرف سے جرمن تھیں، لیکن ماں کی طرف سے انڈین عیسائی، یعنی اینگلو انڈین۔ مادری زبان ملیالم تھی۔ دادی اصل نسل جرمن تھیں، انھیں اپنے آریا ہونے پر بڑا فخر تھا۔ آزوری کو یہ نام فیضی رحیمین نے دیا تھا جو ایک معروف مصور تھے اور عطیہ فیضی کے شوہر تھے۔ مہاراجہ کوچین نے آزوری کے دادا کو جہاز سازی کے لیے جرمنی سے انڈیا بلوایا، تو وہ واپس نہیں گئے۔ اینا (آزوری) کے ڈیڈی انڈین میڈیکل سروس میں فوجی ڈاکٹر تھے، ممی برہمن تھیں۔ اینا نے مدراس اور لندن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 1929ء آل انڈیا ریڈیو کا پہلا اسٹیشن دھن راج محل بمبئی میں کھلا۔ جہاں افتتاحی پیانو اینا یعنی آزوری نے بجایا۔ جے جے اسکول آف آرٹ پینٹنگ کے سبق بھی لیے۔
پھر یہ بمبئی میں کولاپہ میں ایک فلیٹ لے کر دو آسٹریلین لڑکیوں کے ساتھ رہنے لگیں اور فلموں میں رقص کرنے لگیں۔ جس پر والد بہت ناراض ہوئے۔ اسی دوران ان کی ملاقات عطیہ بیگم فیضی سے ہوئی جو آزوری کو اپنے ساتھ مہاراجہ پٹیالہ کے بیٹے کی شادی میں لے گئیں۔ وہاں مہارانی نے پوچھا۔۔۔۔ تلوار کی دھار پر ناچ سکتی ہو؟۔۔۔۔۔ آزوری نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا۔۔۔۔ ''یس یور ہائی نس'' حالانکہ اس کے فرشتے بھی اس فن سے ناواقف تھے۔ لیکن آزوری نے یہ ناچ دیکھا ضرور تھا۔ اسی وقت ایک جغادری سردار تلوار لے کر حاضر ہوا۔
اس نے اپنے خدا سے دعا کی اور جس رقص کو اس نے صرف تماشائی کی حیثیت سے دیکھا تھا، آنکھیں بند کر کے وہ ناچ شروع کر دیا اور کامیاب رہیں۔ سچ ہے جذبہ صادق ہو اور دل میں امنگ تو بہت سی انجانی منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ عطیہ فیضی دیکھ کر حیران رہ گئیں پھر انھوں نے آزوری کو باقاعدہ کتھک ناچ کی تربیت دلوائی۔ بتاشوں پر، تھالی پر اور تلوار کی دھار پر ناچ کتھک کی معراج ہے۔ کراچی میں پروین قاسم اور شمیم دو بڑی ماہر اور نامور رقاصائیں تھیں۔ میں نے دونوں کو تھالی پہ رقص کرتے دیکھا ہے۔ نہ تھالی گرتی تھی، نہ یہ دونوں لڑکھڑاتی تھیں۔ لیکن ضیاء الحق نے سب کچھ ختم کر دیا۔ زندگی میں اب صرف بم دھماکے اور خودکش بمبار باقی رہ گئے۔ فنون لطیفہ کا جنازہ بھی بڑی شان سے نکلا۔
مہاراجہ کے بیٹے کی شادی میں وائسرائے اور لیڈی ولنگٹن بھی شریک تھے اور ان کے ساتھ ان کا نوجوان دوست آنریبل ریمنڈ ولسن بھی تھا۔ ولسن گورنر مدراس کا بھانجا تھا۔ افریقہ میں اس کی ہیروں کی کان تھی۔ وہ آزوری کو دل دے بیٹھا اور باقاعدہ شادی کا خواستگار ہوا۔ لیکن یہ کیونکر ممکن تھا۔ وائسرائے نے منع کر دیا۔ عطیہ فیضی چونکہ مہاراجہ کی خاص مہمان تھیں، اس لیے وہ محل میں ٹھہری تھیں لیکن آزوری کو گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا تھا۔ وہیں پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک سینئر اداکارہ ببّو بھی ٹھہری ہوئی تھیں۔ یہ وہی ببّو تھیں جن کا نہایت قریبی تعلق امداد علی بھٹو سے تھا۔ ببّو انڈین فلموں کی بہت بڑی ہیروئن تھیں۔ ان کے دسترخوان پر روزانہ بے شمار لوگ کھانا کھاتے تھے اور وہ ہیرے جواہرات لگی جوتیاں پہنتی تھیں۔ پاکستان میں بھی کیریکٹر رول کیے لیکن آخری عمر بڑی دردناک اور کسمپرسی میں گزری۔ ببّو نے آزوری کو اپنے گھنگھرو دیے اور کہا کہ وہ گیسٹ ہاؤس چھوڑ کر فوراً اس کے پاس خیمے میں آ جائے، ورنہ بہت پچھتائے گی۔ آزوری کی سمجھ میں نہ آیا کہ ببّو کیوں ایسا کہہ رہی ہے۔ اسی رات مہاراجہ نے اپنے ملازم بھیج کر آزوری کو اغواء کرنے کی کوشش کی تو اس کی سمجھ میں ببّو کی بات آئی۔
مہاراجہ کے گُرگے دروازہ پیٹتے رہے لیکن آزوری نے اندر سے کنڈی لگا لی۔ آخر وہ چلے گئے۔ اور ان کے بعد فوراً ہی پھر ایک دستک سنائی دی، اسی کے ساتھ گیسٹ ہاؤس کے معمر جرمن منیجر نے سرگوشی میں آزوری کو پکارا۔ اور اسے وہاں سے نکال کر ریلوے اسٹیشن پہنچایا۔ پیچھے پیچھے مہاراجہ کے غنڈے دوسری موٹر میں پیچھا کر رہے تھے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح آزوری ویٹنگ روم کے غسل خانے میں چھپ گئی اور بوڑھے جرمن کی مدد سے وہ ریل میں سوار ہو کر دہلی پہنچی۔ جہاں ریمنڈ ولسن میڈنز ہوٹل دہلی میں اس کا منتظر تھا۔ آزوری دہلی سے سیدھی بمبئی گئی جہاں اس کا باپ بیمار تھا۔ ریمنڈ بھی اس کے پیچھے بمبئی آ گیا۔ وہ شادی کے لیے مصر تھا۔ اور آزوری کے پاپا یہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہے تھے کہ ان کی بیٹی کا مستقبل سنور جائے گا اور ریمنڈ کے باپ کے مرنے کے بعد وہ لیڈی ولسن کہلائے گی۔ لیکن ایسا ہونا ممکن نظر نہ آتا تھا۔ آزوری ریمنڈ کے ساتھ بنگلور چلی گئی۔ لیکن ریمنڈ کی ماں گورنر مدراس کو تار پہ تار بھیج رہی تھی کہ کسی طرح اس کے لڑکے کو سمجھائیں۔ اب آگے خود آزوری کی زبانی سنیے۔
''لیکن میں اس سے شادی نہیں کر سکتی تھی۔ برٹش ارسٹو کریسی ہمیشہ میری بے عزتی کرتی۔ میری اپنی سگی دادی خالص جرمن تھیں اور ہم لوگوں سے یعنی اپنے کالے پوتے پوتیوں سے بے پناہ تحقیر آمیز سلوک کرتی تھیں۔ بالآخر ریمنڈ انگلستان واپس چلا گیا اور وہاں اپنی ہی کلاس کی ایک لڑکی سے شادی کر لی۔'' اس واقعے نے آزوری کو توڑ کے رکھ دیا۔ پھر انھوں نے پوری توجہ کتھک سیکھنے پر لگا دی۔ بیگم عطیہ فیضی نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ انھوں نے گوالیار دربار کے مایہ ناز استاد بھورے خاں اور سلیمان خان کو آزوری کا استاد مقرر کیا اور اس فن میں انھوں نے وہ کمال حاصل کیا جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ خصوصاً کتھاکلی، بھارت ناٹیم، کتھک اور ہر قسم کے ناچ میں مہارت حاصل کی۔ 1947ء میں ریاست جھالاوار کے دیوان میر مقبول محمود سے شادی کر کے کراچی چلی آئیں۔ ونگ کمانڈر فیاض محمود ان کے دیور تھے اور ماری پور میں رہتے تھے۔ پاکستان آ کر انھوں نے شریف اور تعلیم یافتہ گھرانوں کی لڑکیوں کو رقص کی تعلیم دینی شروع کی۔ ''بھارت ناٹیم'' کا نام انھوں نے ''پاک رقص'' رکھا۔ پھر اپنے شوہر کی وفات کے بعد گوشہ نشین ہو گئیں۔
پاکستان کی یہ مایہ ناز رقص کی دیوی جب قرۃ العین حیدر سے ملنے دلی گئی، تو اس وقت ان کی عمر بیاسی سال تھی۔ ایک اداس روح جو خلاؤں میں اپنا ماضی ڈھونڈتی تھی اور اسی میں زندہ تھی۔ ایک آرٹسٹ کی زندگی کا ماحصل۔۔۔۔ صرف گمنامی، تنہائی اور اداسی۔۔۔۔!! آزوری نے کئی یتیم کرسچن بچوں کو پالا اور ڈانس کی تعلیم دی۔ ان میں سے کئی نامور ڈانسر اور ڈانس ڈائریکٹر بنے جیسے سوریہ کمار، ککو، کرشنا کمار وغیرہ۔ بتاشوں، تھالی، انگوٹھے اور تلوار پہ ناچنے والی یہ بے چین روح جانے کب دنیا چھوڑ گئی، پتہ ہی نہ چلا۔ اس بے چین روح کے تین نام اینا، اینیٹ اور پھر آزوری۔۔۔۔ اور کوئی نہیں تو کم از کم ناہید صدیقی جیسی مایہ ناز آرٹسٹ کو ضرور چاہیے کہ وہ میڈم آزوری کا تعارف الحمراء آرٹس کونسل کے کسی پروگرام میں ضرور کرائیں ۔ آج آپ ماضی کے تابندہ ستاروں کے نام کوئی شام کریں گے تو آنے والے کل میں کوئی آپ کو بھی یاد رکھے گا۔
آئینے جھوٹ نہیں بولتے۔ لیکن آئینوں کی سنتا کون ہے۔ حقیقت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ستاروں کے جھرمٹ میں رہنے والے جب آسمان سے زمین پہ گرتے ہیں تو اس تلخ حقیقت کو قبول نہیں کر پاتے۔ وقت مائع ہے، بہتا ہے اور برف کی طرح پگھلتا جاتا ہے۔ بھلا برف کو بھی کسی نے پگھلنے سے روکا ہے۔۔۔۔ پھر خواہ ''پرنس آف منروا'' ہو، پہلی رنگین فلم ''آن'' کی ہیروئن نادرہ ہو، وحید مراد ہو، خوبصورت چہرے اور سریلی آواز کی مالک ثریا ہو، پروین بوبی ہو، کوما میں پڑی شمیم آراء ہو، یا میڈم آزوری۔ سب زمانے کی ناقدری کا شکار اور اپنے عروج کے زمانے کی روشن قندیل کی تصویروں کے اسیر۔ میڈم آزوری کا ذکر میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں کیا تھا۔ غالباً 70ء کی دہائی کا زمانہ تھا جب میں نے انھیں دیکھا۔ گندمی رنگت کی پرکشش سی خاتون، اسکرٹ بلاؤز میں ملبوس، کٹے ہوئے بال، بھرا بھرا جسم، ساڑی بھی پہنتی تھیں۔ وہ ایک بہت بڑی اور گن ونتی ڈانسر تھیں، بڑی مشہور فلموں میں رقص کیا۔
میڈم آزوری کا اصلی نام اینیٹ تھا، لیکن گھر میں وہ ''اینا'' کہلاتی تھیں۔ یہ باپ کی طرف سے جرمن تھیں، لیکن ماں کی طرف سے انڈین عیسائی، یعنی اینگلو انڈین۔ مادری زبان ملیالم تھی۔ دادی اصل نسل جرمن تھیں، انھیں اپنے آریا ہونے پر بڑا فخر تھا۔ آزوری کو یہ نام فیضی رحیمین نے دیا تھا جو ایک معروف مصور تھے اور عطیہ فیضی کے شوہر تھے۔ مہاراجہ کوچین نے آزوری کے دادا کو جہاز سازی کے لیے جرمنی سے انڈیا بلوایا، تو وہ واپس نہیں گئے۔ اینا (آزوری) کے ڈیڈی انڈین میڈیکل سروس میں فوجی ڈاکٹر تھے، ممی برہمن تھیں۔ اینا نے مدراس اور لندن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 1929ء آل انڈیا ریڈیو کا پہلا اسٹیشن دھن راج محل بمبئی میں کھلا۔ جہاں افتتاحی پیانو اینا یعنی آزوری نے بجایا۔ جے جے اسکول آف آرٹ پینٹنگ کے سبق بھی لیے۔
پھر یہ بمبئی میں کولاپہ میں ایک فلیٹ لے کر دو آسٹریلین لڑکیوں کے ساتھ رہنے لگیں اور فلموں میں رقص کرنے لگیں۔ جس پر والد بہت ناراض ہوئے۔ اسی دوران ان کی ملاقات عطیہ بیگم فیضی سے ہوئی جو آزوری کو اپنے ساتھ مہاراجہ پٹیالہ کے بیٹے کی شادی میں لے گئیں۔ وہاں مہارانی نے پوچھا۔۔۔۔ تلوار کی دھار پر ناچ سکتی ہو؟۔۔۔۔۔ آزوری نے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا۔۔۔۔ ''یس یور ہائی نس'' حالانکہ اس کے فرشتے بھی اس فن سے ناواقف تھے۔ لیکن آزوری نے یہ ناچ دیکھا ضرور تھا۔ اسی وقت ایک جغادری سردار تلوار لے کر حاضر ہوا۔
اس نے اپنے خدا سے دعا کی اور جس رقص کو اس نے صرف تماشائی کی حیثیت سے دیکھا تھا، آنکھیں بند کر کے وہ ناچ شروع کر دیا اور کامیاب رہیں۔ سچ ہے جذبہ صادق ہو اور دل میں امنگ تو بہت سی انجانی منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ عطیہ فیضی دیکھ کر حیران رہ گئیں پھر انھوں نے آزوری کو باقاعدہ کتھک ناچ کی تربیت دلوائی۔ بتاشوں پر، تھالی پر اور تلوار کی دھار پر ناچ کتھک کی معراج ہے۔ کراچی میں پروین قاسم اور شمیم دو بڑی ماہر اور نامور رقاصائیں تھیں۔ میں نے دونوں کو تھالی پہ رقص کرتے دیکھا ہے۔ نہ تھالی گرتی تھی، نہ یہ دونوں لڑکھڑاتی تھیں۔ لیکن ضیاء الحق نے سب کچھ ختم کر دیا۔ زندگی میں اب صرف بم دھماکے اور خودکش بمبار باقی رہ گئے۔ فنون لطیفہ کا جنازہ بھی بڑی شان سے نکلا۔
مہاراجہ کے بیٹے کی شادی میں وائسرائے اور لیڈی ولنگٹن بھی شریک تھے اور ان کے ساتھ ان کا نوجوان دوست آنریبل ریمنڈ ولسن بھی تھا۔ ولسن گورنر مدراس کا بھانجا تھا۔ افریقہ میں اس کی ہیروں کی کان تھی۔ وہ آزوری کو دل دے بیٹھا اور باقاعدہ شادی کا خواستگار ہوا۔ لیکن یہ کیونکر ممکن تھا۔ وائسرائے نے منع کر دیا۔ عطیہ فیضی چونکہ مہاراجہ کی خاص مہمان تھیں، اس لیے وہ محل میں ٹھہری تھیں لیکن آزوری کو گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا تھا۔ وہیں پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک سینئر اداکارہ ببّو بھی ٹھہری ہوئی تھیں۔ یہ وہی ببّو تھیں جن کا نہایت قریبی تعلق امداد علی بھٹو سے تھا۔ ببّو انڈین فلموں کی بہت بڑی ہیروئن تھیں۔ ان کے دسترخوان پر روزانہ بے شمار لوگ کھانا کھاتے تھے اور وہ ہیرے جواہرات لگی جوتیاں پہنتی تھیں۔ پاکستان میں بھی کیریکٹر رول کیے لیکن آخری عمر بڑی دردناک اور کسمپرسی میں گزری۔ ببّو نے آزوری کو اپنے گھنگھرو دیے اور کہا کہ وہ گیسٹ ہاؤس چھوڑ کر فوراً اس کے پاس خیمے میں آ جائے، ورنہ بہت پچھتائے گی۔ آزوری کی سمجھ میں نہ آیا کہ ببّو کیوں ایسا کہہ رہی ہے۔ اسی رات مہاراجہ نے اپنے ملازم بھیج کر آزوری کو اغواء کرنے کی کوشش کی تو اس کی سمجھ میں ببّو کی بات آئی۔
مہاراجہ کے گُرگے دروازہ پیٹتے رہے لیکن آزوری نے اندر سے کنڈی لگا لی۔ آخر وہ چلے گئے۔ اور ان کے بعد فوراً ہی پھر ایک دستک سنائی دی، اسی کے ساتھ گیسٹ ہاؤس کے معمر جرمن منیجر نے سرگوشی میں آزوری کو پکارا۔ اور اسے وہاں سے نکال کر ریلوے اسٹیشن پہنچایا۔ پیچھے پیچھے مہاراجہ کے غنڈے دوسری موٹر میں پیچھا کر رہے تھے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح آزوری ویٹنگ روم کے غسل خانے میں چھپ گئی اور بوڑھے جرمن کی مدد سے وہ ریل میں سوار ہو کر دہلی پہنچی۔ جہاں ریمنڈ ولسن میڈنز ہوٹل دہلی میں اس کا منتظر تھا۔ آزوری دہلی سے سیدھی بمبئی گئی جہاں اس کا باپ بیمار تھا۔ ریمنڈ بھی اس کے پیچھے بمبئی آ گیا۔ وہ شادی کے لیے مصر تھا۔ اور آزوری کے پاپا یہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہے تھے کہ ان کی بیٹی کا مستقبل سنور جائے گا اور ریمنڈ کے باپ کے مرنے کے بعد وہ لیڈی ولسن کہلائے گی۔ لیکن ایسا ہونا ممکن نظر نہ آتا تھا۔ آزوری ریمنڈ کے ساتھ بنگلور چلی گئی۔ لیکن ریمنڈ کی ماں گورنر مدراس کو تار پہ تار بھیج رہی تھی کہ کسی طرح اس کے لڑکے کو سمجھائیں۔ اب آگے خود آزوری کی زبانی سنیے۔
''لیکن میں اس سے شادی نہیں کر سکتی تھی۔ برٹش ارسٹو کریسی ہمیشہ میری بے عزتی کرتی۔ میری اپنی سگی دادی خالص جرمن تھیں اور ہم لوگوں سے یعنی اپنے کالے پوتے پوتیوں سے بے پناہ تحقیر آمیز سلوک کرتی تھیں۔ بالآخر ریمنڈ انگلستان واپس چلا گیا اور وہاں اپنی ہی کلاس کی ایک لڑکی سے شادی کر لی۔'' اس واقعے نے آزوری کو توڑ کے رکھ دیا۔ پھر انھوں نے پوری توجہ کتھک سیکھنے پر لگا دی۔ بیگم عطیہ فیضی نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ انھوں نے گوالیار دربار کے مایہ ناز استاد بھورے خاں اور سلیمان خان کو آزوری کا استاد مقرر کیا اور اس فن میں انھوں نے وہ کمال حاصل کیا جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ خصوصاً کتھاکلی، بھارت ناٹیم، کتھک اور ہر قسم کے ناچ میں مہارت حاصل کی۔ 1947ء میں ریاست جھالاوار کے دیوان میر مقبول محمود سے شادی کر کے کراچی چلی آئیں۔ ونگ کمانڈر فیاض محمود ان کے دیور تھے اور ماری پور میں رہتے تھے۔ پاکستان آ کر انھوں نے شریف اور تعلیم یافتہ گھرانوں کی لڑکیوں کو رقص کی تعلیم دینی شروع کی۔ ''بھارت ناٹیم'' کا نام انھوں نے ''پاک رقص'' رکھا۔ پھر اپنے شوہر کی وفات کے بعد گوشہ نشین ہو گئیں۔
پاکستان کی یہ مایہ ناز رقص کی دیوی جب قرۃ العین حیدر سے ملنے دلی گئی، تو اس وقت ان کی عمر بیاسی سال تھی۔ ایک اداس روح جو خلاؤں میں اپنا ماضی ڈھونڈتی تھی اور اسی میں زندہ تھی۔ ایک آرٹسٹ کی زندگی کا ماحصل۔۔۔۔ صرف گمنامی، تنہائی اور اداسی۔۔۔۔!! آزوری نے کئی یتیم کرسچن بچوں کو پالا اور ڈانس کی تعلیم دی۔ ان میں سے کئی نامور ڈانسر اور ڈانس ڈائریکٹر بنے جیسے سوریہ کمار، ککو، کرشنا کمار وغیرہ۔ بتاشوں، تھالی، انگوٹھے اور تلوار پہ ناچنے والی یہ بے چین روح جانے کب دنیا چھوڑ گئی، پتہ ہی نہ چلا۔ اس بے چین روح کے تین نام اینا، اینیٹ اور پھر آزوری۔۔۔۔ اور کوئی نہیں تو کم از کم ناہید صدیقی جیسی مایہ ناز آرٹسٹ کو ضرور چاہیے کہ وہ میڈم آزوری کا تعارف الحمراء آرٹس کونسل کے کسی پروگرام میں ضرور کرائیں ۔ آج آپ ماضی کے تابندہ ستاروں کے نام کوئی شام کریں گے تو آنے والے کل میں کوئی آپ کو بھی یاد رکھے گا۔