گدھ کہاں گئے

میرے دو ملنے والوں فاضل اور امین کی آپس میں گہری دوستی ہے۔

h.sethi@hotmail.com

میرے دو ملنے والوں فاضل اور امین کی آپس میں گہری دوستی ہے حالانکہ ایک کارخانہ دار اور اسکول ٹیچر کی فی زمانہ عزت اور مذاق کے رشتے کم ہی دکھائی دیں گے۔ ہم تینوں تقسیم ہند سے قبل ایک ہی اسکول کی پرائمری کلاس میں تھے اور پاکستان ہجرت کر کے اتفاقاً ایک ہی شہر میں آن بسے۔ تب فاضل اور امین کے آبائی دس دس مرلے کے مکان بھی آمنے سامنے تھے لیکن اب فاضل دس کنال کے مکان میں شہر کے امراء والے علاقے میں جب کہ امین اب بھی دس یا پندرہ مرلے کے مکان میں متوسط بستی کا مکین ہے لیکن کوئی ہفتہ خالی نہیں جاتا کہ وہ اکٹھے نہ پائے جاتے ہوں البتہ ان کی فیملیز کا آپس میں خاص تعلق یا میل جول نہیں ہے۔ کبھی کبھار میں بھی شامل ہو جاتا ہوں لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ان کی خوب نبھتی ہے اور شاید یہ بچپن کا جذباتی رشتہ ہے کیونکہ اب تو رشتہ دار بھی غربت اور امارت کے پیمانوں سے تعلق جوڑتے اور توڑتے ہیں۔

فاضل کے والد شروع ہی سے تیز طرار تھے، اس لیے پاکستان ہجرت کے بعد انھوں نے دو تین نقل مکانی پر خالی ہونے والے بڑے بڑے مکانوں کا قیمتی سامان ایک مکان میں منتقل کر کے محکمہ بحالیات میں ملازمت حاصل کر لی۔ انھوں نے کلیم داخل کر کے خود کو دس کنال کے مکان کا مالک ظاہر کیا اور اپنی چھوڑی ہوئی فرضی دس مربع اراضی اور بہت بڑے منافع بخش کارخانے کا کلیم بھی داخل اور منظور کروا لیا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ فاضل کے بزرگوں نے تو وہی کیا جو اور بہت سوں نے محکمہ بحالیات کے ساتھ اپنی بحالی کے لیے جعلسازی سے کیا لیکن اس کے ذہن کے کسی گوشے میں اپنا اور امین کا دس دس مرلے کا مکان ضرور محفوظ ہے جس نے اس کی امین کے ساتھ بچپن کی دوستی کو قائم رکھا ہوا ہے۔

محکمہ بحالیات' پھر بورڈ آف ریونیو' اس کے بعد نوٹیفائیڈ افسروں کے ذریعے جو اراضی اور عمارات کی لوٹ مار ہوئی وہ ان سیاسی لٹیروں کے بعد وردی والوں' اس کے بعد سوٹوں والے بیورو کریٹوں کے خمیر میں داخل ہوئی اور اب یہ حال کہ کارخانہ داروں اور کاروباریوں نے بجلی' گیس و ٹیکس چوری کے ذریعے اپنی باری لینا شروع کی ہوئی ہے۔ یہ کرپشن کا زہر اب ہر سطح پر یہاں تک کہ جعلی مال و گراں فروشی کی صورت میں جلوہ گر ہے۔ گداگر بھی اب پانچ روپے کے سکے پر قانع نہیں اور اللہ و رسولؐ کے نام پر کرنسی نوٹ کا تقاضا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بھیک دینے والے کو حاجی صاحب کہہ کر ایکسپلائٹ کرتا ہے۔


اسکول ماسٹر امین یا اس کے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والدین کے بارے میں شاید تاثر ہو کہ یہ نالائق یا قناعت پسند ہوں گے لیکن ان کی ترجیح ہی مختلف تھی۔ امین کے والدین نے مکان کے بدلے صرف مکان لیا اور اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ امین کے علاوہ دوسرے بچے پروفیشنل تعلیم حاصل کر کے خوشحال ہو گئے لیکن امین نے اسکول ٹیچر ہونا پسند کیا تا کہ مضبوط عمارت کی طرح بچوں کی تعلیمی بنیاد مضبوط و مستحکم ہو تا کہ تمام بچے اپنا کیریئر خود متعین کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں اسی لیے اس نے اپنے بچوں اور شاگردوں کی پرائمری اور مڈل کلاس تعلیم کو مستحکم کرنے کا مشن اپنے ذمے لیا۔ وہ ہر دو جگہ کامیاب رہا اور اس کا ایک بچہ ریاضی میں اور دوسرا معاشیات کے شعبے میں ریکارڈ ہولڈر ہو کر اسکالرشپ پر بیرون ملک یونیورسٹیوں میں ملک کا نام روشن کرنے میں منہمک ہے۔ اس نے ایسا معمار ہونا پسند کیا جس کا کام بنیادیں مضبوط کرنے تک محدود رہا۔ اسے امیر کبیر ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی نہ وہ امراء سے مرعوب ہوتا ہے۔ وہ اپنے دوست فاضل سے بھی برابری کی سطح پر ملتا ہے اور اپنے کام سے مطمئن ہے۔

محکمہ بحالیات نے بے شمار کنگلے دھوکے بازوں سے پارٹنر شپ کر کے انھیں امراء کی صفوں میں شامل کر دیا۔ یوں ملک میں کرپشن کا فلڈ گیٹ کھولنے میں ان کا نام اور کام بھلایا نہ جا سکے گا۔ بے شمار افراد اور خاندان جنھوں نے دو کمروں میں گزشتہ زندگی گزاری' کوٹھیوں اور بنگلوں کے اور جنھوں نے زمین کو صرف ایکڑوں میں دیکھا مربعوں کے مالک بن گئے۔ بے شمار محض بیان حلفی دے کر اور لاکھوں دو جھوٹے گواہوں کی شہادت پر زمین سے اٹھ کر آسمان پر تیرنے لگے اور اس وقت بھی سچے جھوٹے الاٹیوں کے ہزاروں مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں زیرالتوا اور زیرسماعت ہیں۔

جہاں بے شمار افراد محکمہ بحالیات کے توسط سے فیض یاب ہوئے وہیں اس کے الٹ حقائق موجود ہیں کہ بہت سے جینون افراد مختلف وجوہات کی بناء پر اپنی یا محکمے کی تکنیکی غلطی' فیملی میں اختلاف' لاعلمی' حماقت یا غلط مشورے کی بناء پر اپنے جائز حق سے محروم ہو گئے۔ زمان میاں کی فیملی بھی ایسے محرومین میں سے ایک ہے۔ موصوف کے پاس پاکستان ہجرت کے دن سے اب تک ذاتی مکان چھوڑیے' ایک مرلہ زمین نہیں۔ ان کے والد انڈیا میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ ان کے دو بیٹے تین بیٹیاں ہیں۔ پیلی بھیت نامی شہر میں ان کا بہت بڑا مکان اور زرعی اراضی بھی تھی۔ وہ تو انتقال کر گئے' بچے پاکستان آ گئے۔

ان کا شوق تھا کہ مکان میں ہر آسائش مہیا کی جائے یہاں تک کہ برطانیہ سے منگوا کر مکان کی چھت پر بلندی پر مرغ بادنما لگایا۔ اسی نسبت سے ان کا مکان مرغ والی کوٹھی کے نام سے جانا جاتا اور مشہور تھا۔ کافی جائیداد بھی پائی تھی لیکن پاکستان آ کر ایک بھائی کی خودسری سے فیملی میں پھوٹ پڑی اور وہ محکمہ بحالیات سے مکان زمین کچھ بھی حاصل نہ کر سکے۔ اب ان چار فیملی ممبر میں سے ایک زندہ ہے اور کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ قصہ مختصر محکمہ بحالیات نے جو خون بے شمار افراد کے منہ کو لگایا وہ ان کی اگلی نسلوں تک سرایت کر چکا ہے اور اب درختوں کی چوٹیوں یا فضاؤں کی بلندیوں پر گدھ نظر آنے بند ہو گئے ہیں۔
Load Next Story