’قادر خان‘ بولی وڈ کے ورسٹائل اداکار

جنہوں نے بہ طور آرٹسٹ بھی خود کو منوایا اور بہ طوراسکرپٹ رائٹر و مکالمہ نویس بھی اپنی منفرد پہچان بنائی

جنہوں نے بہ طور آرٹسٹ بھی خود کو منوایا اور بہ طوراسکرپٹ رائٹر و مکالمہ نویس بھی اپنی منفرد پہچان بنائی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

وہ قادر خان ہی تھے جو 22اکتوبر1937 کو افغانستان میں پیدا ہوئے اور 31 دسمبر 2018 کو اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

قادر خان بولی وڈ کی فلمی دنیا کے ایک ایسے فن کار تھے جن کے نام کے ساتھ متعدد شعبے لکھے گئے۔ وہ افغانستان میں پیدا ہوئے، مگر وہ انڈین، کینیڈین فن کار تھے۔ وہ ایک بہت اچھے اداکار ہونے کے ساتھ اسکرین پلے رائٹر بھی تھے اور ایک ماہر ڈائریکٹر بھی۔

قادر خان نے بہ طور اداکار 300 سے زیادہ فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی پہلی فلم ''داغ'' تھی جو 1973 میں پردۂ سیمیں کی زینت بنی تھی۔ اس فلم کے ہیرو راجیش کھنہ تھے اور قادر خان نے ان کے وکیل کا کردار نبھایا تھا۔ قادر خان بولی فلم انڈسٹری کے ایک کثیرالتحریر یا کثرت سے لکھنے والے اسکرین پلے رائٹر تھے جس نے 1970 کی دہائی سے لے کر 1999 تک ڈھیروں فلموں کے اسکرین پلے لکھ ڈالے تھے، ساتھ ہی انہوں نے 200 فلموں کے مکالمے (ڈائیلاگ) بھی لکھے تھے اور ان کے تحریر کردہ مکالمے فلم بینوں میں بہت مقبول ہوئے تھے۔

٭تعلیم اور بہ طور پروفیسر:

قادر خان نے اسماعیل یوسف کالج سے گریجویشن کیا جس کا الحاق بمبئی یونی ورسٹی سے تھا۔1970 کی دہائی میں فلم انڈسٹری میں داخل ہونے سے پہلے انہوں نے کچھ عرصے تک ایم ایچ صابو صدیق کالج آف انجینیئرنگ ممبئی میں بہ طور پروفیسر سول انجینیئرنگ پڑھایا بھی تھا اور ساری دنیا سے بہ طور ایک استاد اپنی مہارت کو تسلیم کرایا تھا۔

٭ابتدائی زندگی اور تعلیم:

قادر خان 1937 میں کابل، افغانستان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد عبدالرحمٰن کا تعلق قندھار سے تھا اور والدہ اقبال بیگم پشین ، بلوچستان سے تعلق رکھتی تھیں۔

قادر خان کے تین بھائی تھے: شمس الرحمن، فضل رحمٰن اور حبیب الرحمن۔ قادر خان کا تعلق کاکڑ قبیلے سے تھا اور وہ نسلی طور پر ایک پشتون تھے۔ ان کی پرورش ممبئی کے قریب واقع ایک علاقے کماتھی پورا میں ہوئی تھی۔ شروع میں تو ان کا داخلہ ایک مقامی میونسپل اسکول میں کرادیا گیا، اور اس کے بعد انہوں نے اسماعیل یوسف کالج میں داخلہ لے کر وہاں سے تعلیم حاصل کی جس کے بعد انہوں نے انجینئیرنگ میں گریجویشن کیا اور سول انجینئرنگ میں اسپیشلائزیشن بھی کی۔1970 اور 1975 کے درمیان قادر خان نے ممبئی کے ایم ایچ صابو صدیق کالج آف انجینئرنگ میں بہ طور سول انجینئر پروفیسر تعلیم بھی دی۔

اسی دوران قادر خان ایک ڈرامے ''تاش کے پتے'' میں پرفارم کررہے تھے تو اس دور کے معروف کامیڈیئن آغا نے ان کی پرفارمنس کو دیکھا تو دلیپ کمار سے کہا کہ آپ بھی اس ڈرامے میں اس نوجوان کا کام دیکھیں۔ دلیپ صاحب نے وہ ڈراما دیکھا تو اس سے بہت متاثر ہوئے، انہیں قادر خان کی اداکاری نے بہت متاثر کیا اور انہوں نے قادر خان کو اپنی آنے والی فلموں ''سگینہ'' اور ''بیراگ'' کے لیے سائن کرلیا۔

قادر خان انہی لمحات کو اپنے فلمی کیریئر کے آغاز کی بنیاد قرار دیتے رہے۔ واضح رہے کہ قادر خان تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھا کرتے تھے ، شاید یہی وجہ تھی کہ جب انہیں ''جوانی دیوانی'' کا اسکرپٹ لکھنے کی پیشکش کی گئی تو اس سے ان کے لیے بہ طور اسکرپٹ رائٹر کیریئر شروع کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ ہندی فلموں میں بہ طور رائٹر قادر خان کا کیریئر اس وقت شروع ہوا جب نریندر بیدی نے ان کا لکھا ہوا تھیٹر ڈرامہ دیکھا تو ان سے کہا کہ آپ میری فلم ''جوانی دیوانی'' کا اسکرپٹ، میرے اسکرپٹ رائٹر اندر راج آنند کے ساتھ مل کر لکھیں جس کے لیے اس زمانے میں قادر خان نے 1500 روپے بہ طور معاوضہ لیے تھے۔

٭کیریئر بہ طور اداکار:

قادر خان نے 300 سے بھی زیادہ ہندی اور اردو فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور 1970 کے عشرے سے لے کر اکیسویں صدی کے آغاز تک انہوں نے 250 سے زائد انڈین فلموں کے ڈائیلاگ یا مکالمے بھی لکھے۔

راجیش کھنہ کے بے حد اصرار پر من موہن ڈیسائی نے فلم ''روٹی'' کے ڈائیلاگ لکھنے کے لیے قادر خان کو اس زمانے میں ایک لاکھ اکیس ہزار روپے کی خطیر رقم پیش کی تھی جس کے پروڈیوسر خود راجیش کھنہ تھے۔

قادر خان، راجیش کھنہ، جیتیندر، فیروز خان، متھن چکرورتی، امتیابھ بچن، انیل کپور، گووندا کے ساتھ بہت کام کرتے تھے اور ان اداکاروں کے ساتھ فلم بین ان کے کام کو بہت پسند کرتے تھے۔ ان کے علاوہ انہوں نے تاتینائی راما راؤ، کے رگھوویندر راؤ، کے باپیاہ، نارائن راؤ ڈیسائی اور ڈیوڈ دھون کے ساتھ بھی کام کیے اور خوب شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔

قادر خان نے بولی وڈ کے دیگر معروف اور مقبول مزاحیہ اداکاروں کے ساتھ بھی جم کر کام کیا جن میں اسرانی، شکتی کپور اور جونی لیور شامل ہیں، مگر ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے ہر جگہ اپنی انفرادیت برقرار رکھی، کہیں کسی کو اپنے اوپر یا اپنے کام کے اوپر حاوی نہ ہونے دیا۔ انہوں نے امریش پوری، پریم چوپڑا اور انوپم کھیر کے ساتھ متعدد فلموں میں کام کیا تھا، لیکن اپنا وجود نمایاں رکھا تھا۔اگر ہم قادر خان کی اداکاری پر نظر ڈالیں تو وہ ہمیں فلموں کے مختلف شعبوں پر چھائے ہوئے نظر آئیں گے جن میں کامیڈی، ایکشن، رومانس، فیملی، سماجی اور سیاسی شعبے نمایاں ہیں۔

قادر خان نے فلم ''داغ'' کے ذریعے فلمی دنیا میں اینٹری دی جس میں انہوں نے راجیش کھنہ کے ساتھ ایک نمایاں رول کیا تھا جس میں انہوں نے ایک وکیل کا کردار کرکے فلم بینوں سے بڑی داد اور پذیرائی حاصل کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ قادر خان نے دوسری فلموں میں سپورٹنگ آرٹسٹ کے طور پر بھی خوب ڈٹ کر کام کیا تھا جن میں ''دل دیوانہ''، ''مقدر کا سکندر'' اور ''مسٹر نٹور لال'' شامل ہیں۔

1984 کے بعد قادر خان کو بہ طور سپورٹنگ ایکٹر (معاون اداکار) طویل رول بھی ملنے شروع ہوگئے جب انہیں ماسٹر جی، دھرم ادھیکاری، نصیحت، دوستی دشمنی، گھر سنسار، لوہا، انسانیت کے دشمن، انصاف کی پکار، خود غرض، شیرنی، خون بھری مانگ، سونے پہ سہاگا اور وردی جیسی فلمیں ملیں اور انہوں ان کے ساتھ بھرپور انصاف کیا۔

1988 سے انہوں نے اپنی ہی لکھی ہوئی فلموں میں کام کرکے مزید داد حاصل کی جن میں ''جیسی کرنی ویسی بھرنی''، ''بیوی ہو تو ایسی''، ''گھر ہو تو ایسا''، ''ہم ہیں کمال کے'' اور ''باپ نمبری تو بیٹا دس نمبری'' جیسی فلمیں شامل ہیں۔


کامیڈی میں ان کی پہلی کوشش ''ہمت والا'' اور ''آج کا دور''تھی۔1989 کے بعد سے ان کی پہلی ترجیح کامیڈی تھی جن میں انہوں نے سکہ، کشن، کنہیا، ہم، گھر پریوار، بول رادھا بول کے ذریعے اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ''آنکھیں'' تک کامیڈی رولز کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے ساتھ انہوں نے 'تقدیر والا' 'میں کھلاڑی تو اناڑی'، 'دلھے راجہ' 'بابو' ، 'قلی نمبر 1' ، 'ساجن چلے سسرال'، 'سوریہ ونشم'، 'جدائی'، 'آنٹی نمبر 1' 'بڑے میاں چھوٹے میاں' ، 'راجہ بابو'، 'خوددار'، 'چھوٹے سرکار' ، 'گھر والی باہر والی'، 'ہیرو ہندوستانی'، 'صرف تم' اور 'اناڑی نمبر 1' میں بھی اپنی مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھاکر فلم بینوں سے بے پناہ داد وصول کی۔

2000 کی دہائی تک میں قادر خان نے متعدد فلموں میں ورسٹائل کردار نبھائے جن میں 'انکھیوں سے گولی مارے'، 'چلوعشق لڑائیں' ، 'سنو سسر جی'، ' یہ ہے جلوہ' اور 'مجھ سے شادی کروگی' شامل تھیں۔ قادر خان نے اپنی کامیڈی ٹی وی سیریز بہ عنوان ''ہنسنا مت'' شروع کی تو اسے بڑی پذیرائی ملی، یہ ٹی وی سیریز اسٹار پلس پر 2001 میں آن ایئر ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے انڈین ٹی وی پر اپنی کامیڈی سیریز ''ہائے پڑوسی۔۔۔۔ کون ہے دوشی'' کے ذریعے اپنی واپسی کو ممکن بنایا۔

ہم نے اوپر لکھا کہ راجیش کھنہ کی فلم ''روٹی''کے لیے قادر خان نے مکالمے لکھے تھے، اس کے علاوہ انہوں نے 'مہا چور'، 'چھیلا بابو'، 'دھرم کانٹا'، 'ففٹی ففٹی'، 'ماسٹرجی' اور 'نصیحت' کے لیے بھی مکالمے لکھے اور یہ تمام فلمیں باکس آفس پر ہٹ ہوئیں۔

اس کے علاوہ وہ دیگر فلمیں جو بہت کام یاب ثابت ہوئیں، ان میں درج ذیل شامل تھیں:

ہمت والا، جانی دوست، سرفروش، جسٹس چوہدری، فرض اور قانون، جیو اور جینے دو، تحفہ، قیدی اور حیثیت۔

قادر خان نے بہ طور اسکرین پلے رائٹر من موہن ڈیسائی اور پرکاش مہرا کی فلموں میں امیتابھ بچن کے ساتھ کام کیا۔ امیتابھ بچن کی وہ فلمیں جن کے ڈائیلاگ بہت مقبول ہوئے، وہ سبھی قادر خان نے لکھے تھے۔ قادرخان کی جنوبی ہندوستان کی فلموں میں بھی بڑی ڈیمانڈ تھی۔ وہاں کے کئی بڑے فلم ساز چاہتے تھے کہ قادر خان ان کی فلموں کے لیے مکالمے لکھیں۔

٭ذاتی زندگی:

قادر خان ممبئی میں رہتے تھے، مگر بعد میں جب وہ بیمار ہوگئے اور ان کے لیے یہاں رہنا ممکن نہیں رہا تو پھر وہ ٹورنٹو (کینیڈا) چلے گئے۔ ان کے تین بیٹوں میں سے سرفراز خان نے کئی فلموں میں اداکاری بھی کی تھی۔ بعد میں قادر خان نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرلی تھی۔

٭آخری وقت اور موت:

قادر خان اپنی عمر کے آخری حصے میں شدید بیمار ہوگئے تو28 دسمبر 2018 کو انہیں کینیڈا کے ایک اسپتال میں داخل کردیا گیا، اس وقت انہیں سانس نہیں آرہا تھا۔ ڈاکٹر ان کا علاج کرتے رہے، مگر وہ جاں بر نہ ہوسکے اور 31دسمبر 2018 کو اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ کینیڈا میں ہی انہیں سپرد خاک کیا گیا۔

٭ایوارڈز اور نام زدگیاں:

2013 میں قادر خان کو ہندی فلم انڈسٹری میں ان کی خدمات کے اعتراف میں ساہتیہ شرومنی ایوارڈ دیا گیا۔

26 جنوری2019 انڈین گورنمنٹ نے قادر خان کو بعد از مرگ پدم شری ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔

قادرخان کی زندگی۔۔۔ ایک نظر میں
پیدائش:22 اکتوبر1937
بہ مقام: کابل افغانستان
رحلت:31دسمبر 2018 (81سال کی عمر میں)
بہ مقام: ٹورنٹو، انٹاریو (کینیڈا)
شہریت: کینیڈین
بیوی: عذرا خان
بچے: سرفراز خان، شاہ نواز خان، قدروس خان
اعزاز: پدم شری (2019)
Load Next Story