بداعمالیوں کا انجام
ذخیرہ اندوزوں نے کوڑیوں کے مول مال خریدا اور اب موقع سے فائدہ اٹھا کر وہی مال ڈبل قیمت میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
آج پوری دنیا کے حالات نے ایک نیا رخ اختیارکرلیا ہے ، پہلے جن ملکوں میں جرائم کی شرح دوسرے ممالک سے کم تھی ، آج وہاں بھی دہشت گردی عروج پر ہے، سری لنکا، نیوزی لینڈ، امریکا اور برطانیہ کی مثالیں سامنے ہیں، جہاں چھریوں سے وار کیے جاتے ہیں، دھماکے اور فائرنگ کرکے معصوم لوگوں کو ہلاک کرنا معمولی بات بن گئی ہے۔
ہمارے اپنے ملک میں بھی دہشت گردی نے سر اٹھایا ہے۔ خودکش حملوں کی بھی شروعات ہوگئی ہے، کل ہی کی بات ہے، جب داتا دربارکے باہر پولیس گاڑی پر خودکش حملہ کیا گیا ۔ حملہ آور صبح پونے 9 بجے کے قریب ایلیٹ فورس کی گاڑی کے قریب خود کو اڑا کر جہنم رسید ہوگیا۔ 10 افراد شہید ہوگئے ان شہدا میں پولیس کے جوان بھی شامل تھے۔
اس کے علاوہ قدرتی آفات بھی نازل ہوتی رہتی ہیں یا پھر اچانک ہی تیز رفتار گاڑیوں کا الٹ جانا، آگ لگ جانا دو چار روز قبل کی ہی بات ہے جب نظارت میں آتشزدگی سے سیکڑوں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں جل کر خاکستر ہوگئیں، اسی دوران گاڑیوں کے سلنڈر اور ٹائر پھٹنے کی وجہ سے دھماکے ہوتے رہے اور پورا علاقہ اس صورتحال سے خوف و ہراس کی لپیٹ میں آ گیا، جھاڑیوں میں لگنے والی آگ نے شدت اختیار کر لی، اسی طرح گلستان جوہر میں واقع سپر اسٹور میں بھی ناگہانی مصیبت نازل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے سپر اسٹور اور چالیس فلیٹوں میں آگ کے اثرات نے دیواروں کو کمزور کردیا۔
سپر اسٹور جل کر راکھ ہوگیا اس طرح کروڑوں کا نقصان ہوا، یہ وہی سپر اسٹور تھا جہاں رات گئے تک چہل پہل اور بجلی کے قمقمے لوگوں کو متوجہ کرتے تھے، گاہکوں کا رش ہر دم رہتا تھا لیکن خاص بات بھی مشہور تھی کہ یہاں اشیا ضروریہ زیادہ قیمتوں پر فروخت کی جاتی تھیں بہت سے لوگ ایک بار جانے کے بعد دوبارہ قدم نہیں رکھتے تھے۔ اسی سڑک پر اس وقت دو بڑی عمارتیں نشان عبرت بنی ہوئی ہیں ایک دارالصحت اسپتال جہاں ننھی نشوہ موت کے منہ میں بے دردی کے ساتھ دھکیل دی گئی تھی ۔دارالصحت میں اس سے قبل بھی لاپرواہی اور غیر تربیت یافتہ عملے نے بہت سے بے قصور لوگوں کو اجل سے ہمکنار کیا ۔
ڈاکٹروں کے لالچ نے مسیحائی کے پیشے کو بری طرح بدنام کیا، اسی طرح تاجر حضرات نے محض دولت کی ہوس کے لیے معمولی چیزوں کو مہنگے داموں فروخت کرنے کی روایت ڈالی ہے، دکانیں اور مال خوبصورت بنائے گئے ہیں، شوکیس میں سجی ہوئی معمولی چیزیں اہمیت اختیار کر جاتی ہیں اور گاہک بہت آسانی کے ساتھ فریب میں آجاتا لیکن اللہ تو دیکھ رہا ہے وہ نیتوں کا پھل دیتا ہے، بددیانت لوگوں کے لیے سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔
ماہ رمضان میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حال ابتر ہے، ہر چیز مہنگی ترین ہے۔ ذخیرہ اندوزوں نے کوڑیوں کے مول مال خریدا اور اب موقع سے فائدہ اٹھا کر وہی مال ڈبل قیمت میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان بے ضمیر ذخیرہ اندوزوں کو قرآن و سنت کے قوانین کے تحت سخت سے سخت سزا دے۔ لیکن مظلوم سزا کے حقدار اور ظالم کو مکمل چھوٹ ہے، پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا تھا ۔ آج اس ملک میں دہشتگردی کیساتھ ساتھ بے حیائی عروج پر ہے شرم کا مقام یہ ہے کہ ماہ رمضان کے تقدس کا بھی خیال نہیں۔ شاید اسی لیے ہم تمام مسلمان تباہ و برباد ہیں اور اپنی بداعمالیوں کی بنا پر جہنم میں جانے کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔
اہل علم پچھلی قوموں پر آنے والے عذاب سے اچھی طرح واقف ہیں، لیکن جو ایمان کی روشنی سے دور چلے گئے ہیں اور اندھیروں کو اپنی منزل سمجھے جا رہے ہیں، وہ بے فکر ہیں اپنے انجام سے۔ دولت اور شہرت کی ہوس نے ان سے ان کی بصیرت کو چھین لیا ہے ۔ اس کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں دونوں سابق صدور اور حکومت کے اراکین اپنی فصل اپنے ہاتھوں سے کاٹنے پر مجبور ہوگئے ہیں، پیشیاں، مقدمے، جیل، لیکن اقتدار کی ہوس اپنی جگہ موجود ہے ملک خسارے میں ہے، غربت اور افلاس بڑھتی چلی جا رہی ہے، پٹرول اور مٹی کا تیل مہنگا ہوچکا ہے۔ اشیائے ضرورت کے دام بڑھتے جا رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی نہیں بلکہ جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو خزانہ خالی اور ملک مقروض تھا، یہ قرضہ پی ٹی آئی نے تو نہیں لیا تھا، اب اگر ذرا بھی اپنے وطن سے محبت ہے تو لوٹی ہوئی دولت واپس کردیں اور تائب ہوجائیں۔
حضرت صالح اور حضرت لوط کی قوموں نے بھی اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور پھر ان قوموں نے بھی سزا پائی اور نشان عبرت بن گئے جس طرح دوسری قوموں پر عذاب نازل ہوا ۔ اسی طرح عذاب نہ سہی امت مسلمہ شدید اذیت میں محض اپنے کرتوتوں اور اللہ کی نافرمانی کی بنا پر مبتلا ہے ایک ایک گھر سے چار چار جنازے اٹھائے جا رہے ہیں۔ ماں باپ کو ان کے اپنے بیٹے قتل کردیتے ہیں، اغوا، تشدد کی فضا پروان چڑھ چکی۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اور ثمود کی طرف بھیجا ان کے بھائی صالح کو، انھوں نے کہا اے قوم بندگی کرو اللہ تعالیٰ کی اور نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ تعالیٰ کے۔
ثمود وہ جماعت تھی جن کے پاس بکریاں اور اونٹ کثیر تعداد میں تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے باعث انھیں بھی عذاب نے جا لیا اور جب قوم عاد کو حق تعالیٰ نے اس دنیا سے غارت کیا تو اس کے بعد قوم ثمود اور ان کے ٹوٹے پھوٹے مکانوں پر قابض ہوگئی اور ان کو دوبارہ سے تعمیر کرلیا اور پھر اولاد اور کثرت مال نے انھیں متکبر کردیا۔ جب حضرت صالح علیہ السلام نے دین حق کی دعوت تھی تو انھوں نے شرائط عائد کردیں اور کہا اگر تم اللہ کی طرف سے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہو تو کوئی معجزہ دکھاؤ۔
حضرت صالح نے جواب دیا تم بتاؤ کون سا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو۔ قوم ثمود کے سرداروں نے مشورہ کیا اور کہا کہ تم اس پتھر سے ایک اونٹنی کو نکالو اور وہ اونٹنی اسی وقت بچہ اور دودھ دینا شروع کردے یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور کہا اے صالح! تم ان سے اقرار کرلو اور ان سے کہو کہ بغیر حکم خدا کے وہ اونٹنی کو نہ ماریں اور سوائے دودھ کے اس سے کچھ فائدہ حاصل نہ کریں ۔اللہ کے حکم کے مطابق حضرت صالح نے دعا کی مومنین نے آمین کہا اور اسی وقت ایک عجیب آواز پتھر سے نکلی اور پھر ایک خوبصورت اونٹنی نے اپنا جلوہ دکھایا۔
اللہ کی قدرت سے اس نے ایک بچہ دیا اس کے قریب ایک چشمہ اور چراگاہ پیدا ہوگئی ۔اونٹنی اس میں چرنے لگی چار سو سال تک قوم ثمود دودھ سے مکھن اور گھی جمع کرکے شہر جاکر بیچتے رہے اور وہ مالدار ہوگئے۔ ایک بار حضرت صالح نے اپنی قوم سے کہا کہ اس ماہ میں جس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اس سے ساری قوم تباہ ہوجائے گی یہ سننا تھا کہ 9 عورتوں نے اپنے نوزائیدہ بیٹوں کو جان سے مار ڈالا سوائے ایک عورت کے کہ وہ بیٹے کی تمنا کرتی تھی، جب اس کا بیٹا جس کا نام قدار تھا جوان ہوا بہت طاقتور تھا جسے دیکھ کر وہ نو عورتیں حضرت صالح سے بدگمان ہوگئیں اور بولیں صالح کی بات جھوٹی ثابت ہوئی اور ان کا ایمان حضرت صالح اور اونٹنی سے ہٹ گیا اور ایک قدار اور اس کے ساتھی مصدع اور ہر قبیلے سے ایک ایک شخص نے باہم متفق ہوکر اونٹنی کی گردن پر تیر مار کر زخمی کردیا، اونٹنی نے ان پر حملہ کیا تو سب بھاگے لیکن مصدع بن دہر ملعون نے پیچھے سے آکر اس کے پاؤں میں تلوار ماردی اونٹنی گر پڑی اس کے بعد تمام ملعونوں نے اسے جان سے مار ڈالا۔
اس کی سزا رب تعالیٰ نے یہ دی کہ حضرت جبرائیل نے ان کے گھروں کی دیواریں ہلا دیں، وہ لوگ اپنے گھروں سے بھاگے اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام کی چیخ نے ان کا کام تمام کردیا اور وہ خاک میں مل گئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے ترجمہ: ہم نے بھیجی ان پر ایک چنگھاڑ پھر رہ گئے جیسے دھنی ہوئی روئی گالے کی مانند اور کچھ بھی ان کا نام و نشان زمین پر نہ رہا۔ اسی طرح حضرت لوط کی قوم پر عذاب نازل ہوا اور قوم کفار کے شہرستان لوط کو اس طرح حضرت جبرائیل نے اپنے پَر کے ذریعے پلٹ دیا اور وہ اپنے انجام کو پہنچے۔ اللہ کا حکم نہ ماننے والے اپنی سزا ضرور کاٹیں گے ، تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی فرعون بننے کی کوشش کی اس کا انجام عبرت ناک ہوا۔ اللہ کے دربار میں سب کو حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے لیے وہ جواب دہ ہے۔
ہمارے اپنے ملک میں بھی دہشت گردی نے سر اٹھایا ہے۔ خودکش حملوں کی بھی شروعات ہوگئی ہے، کل ہی کی بات ہے، جب داتا دربارکے باہر پولیس گاڑی پر خودکش حملہ کیا گیا ۔ حملہ آور صبح پونے 9 بجے کے قریب ایلیٹ فورس کی گاڑی کے قریب خود کو اڑا کر جہنم رسید ہوگیا۔ 10 افراد شہید ہوگئے ان شہدا میں پولیس کے جوان بھی شامل تھے۔
اس کے علاوہ قدرتی آفات بھی نازل ہوتی رہتی ہیں یا پھر اچانک ہی تیز رفتار گاڑیوں کا الٹ جانا، آگ لگ جانا دو چار روز قبل کی ہی بات ہے جب نظارت میں آتشزدگی سے سیکڑوں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں جل کر خاکستر ہوگئیں، اسی دوران گاڑیوں کے سلنڈر اور ٹائر پھٹنے کی وجہ سے دھماکے ہوتے رہے اور پورا علاقہ اس صورتحال سے خوف و ہراس کی لپیٹ میں آ گیا، جھاڑیوں میں لگنے والی آگ نے شدت اختیار کر لی، اسی طرح گلستان جوہر میں واقع سپر اسٹور میں بھی ناگہانی مصیبت نازل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے سپر اسٹور اور چالیس فلیٹوں میں آگ کے اثرات نے دیواروں کو کمزور کردیا۔
سپر اسٹور جل کر راکھ ہوگیا اس طرح کروڑوں کا نقصان ہوا، یہ وہی سپر اسٹور تھا جہاں رات گئے تک چہل پہل اور بجلی کے قمقمے لوگوں کو متوجہ کرتے تھے، گاہکوں کا رش ہر دم رہتا تھا لیکن خاص بات بھی مشہور تھی کہ یہاں اشیا ضروریہ زیادہ قیمتوں پر فروخت کی جاتی تھیں بہت سے لوگ ایک بار جانے کے بعد دوبارہ قدم نہیں رکھتے تھے۔ اسی سڑک پر اس وقت دو بڑی عمارتیں نشان عبرت بنی ہوئی ہیں ایک دارالصحت اسپتال جہاں ننھی نشوہ موت کے منہ میں بے دردی کے ساتھ دھکیل دی گئی تھی ۔دارالصحت میں اس سے قبل بھی لاپرواہی اور غیر تربیت یافتہ عملے نے بہت سے بے قصور لوگوں کو اجل سے ہمکنار کیا ۔
ڈاکٹروں کے لالچ نے مسیحائی کے پیشے کو بری طرح بدنام کیا، اسی طرح تاجر حضرات نے محض دولت کی ہوس کے لیے معمولی چیزوں کو مہنگے داموں فروخت کرنے کی روایت ڈالی ہے، دکانیں اور مال خوبصورت بنائے گئے ہیں، شوکیس میں سجی ہوئی معمولی چیزیں اہمیت اختیار کر جاتی ہیں اور گاہک بہت آسانی کے ساتھ فریب میں آجاتا لیکن اللہ تو دیکھ رہا ہے وہ نیتوں کا پھل دیتا ہے، بددیانت لوگوں کے لیے سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔
ماہ رمضان میں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حال ابتر ہے، ہر چیز مہنگی ترین ہے۔ ذخیرہ اندوزوں نے کوڑیوں کے مول مال خریدا اور اب موقع سے فائدہ اٹھا کر وہی مال ڈبل قیمت میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان بے ضمیر ذخیرہ اندوزوں کو قرآن و سنت کے قوانین کے تحت سخت سے سخت سزا دے۔ لیکن مظلوم سزا کے حقدار اور ظالم کو مکمل چھوٹ ہے، پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا تھا ۔ آج اس ملک میں دہشتگردی کیساتھ ساتھ بے حیائی عروج پر ہے شرم کا مقام یہ ہے کہ ماہ رمضان کے تقدس کا بھی خیال نہیں۔ شاید اسی لیے ہم تمام مسلمان تباہ و برباد ہیں اور اپنی بداعمالیوں کی بنا پر جہنم میں جانے کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔
اہل علم پچھلی قوموں پر آنے والے عذاب سے اچھی طرح واقف ہیں، لیکن جو ایمان کی روشنی سے دور چلے گئے ہیں اور اندھیروں کو اپنی منزل سمجھے جا رہے ہیں، وہ بے فکر ہیں اپنے انجام سے۔ دولت اور شہرت کی ہوس نے ان سے ان کی بصیرت کو چھین لیا ہے ۔ اس کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں دونوں سابق صدور اور حکومت کے اراکین اپنی فصل اپنے ہاتھوں سے کاٹنے پر مجبور ہوگئے ہیں، پیشیاں، مقدمے، جیل، لیکن اقتدار کی ہوس اپنی جگہ موجود ہے ملک خسارے میں ہے، غربت اور افلاس بڑھتی چلی جا رہی ہے، پٹرول اور مٹی کا تیل مہنگا ہوچکا ہے۔ اشیائے ضرورت کے دام بڑھتے جا رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی نہیں بلکہ جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو خزانہ خالی اور ملک مقروض تھا، یہ قرضہ پی ٹی آئی نے تو نہیں لیا تھا، اب اگر ذرا بھی اپنے وطن سے محبت ہے تو لوٹی ہوئی دولت واپس کردیں اور تائب ہوجائیں۔
حضرت صالح اور حضرت لوط کی قوموں نے بھی اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور پھر ان قوموں نے بھی سزا پائی اور نشان عبرت بن گئے جس طرح دوسری قوموں پر عذاب نازل ہوا ۔ اسی طرح عذاب نہ سہی امت مسلمہ شدید اذیت میں محض اپنے کرتوتوں اور اللہ کی نافرمانی کی بنا پر مبتلا ہے ایک ایک گھر سے چار چار جنازے اٹھائے جا رہے ہیں۔ ماں باپ کو ان کے اپنے بیٹے قتل کردیتے ہیں، اغوا، تشدد کی فضا پروان چڑھ چکی۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اور ثمود کی طرف بھیجا ان کے بھائی صالح کو، انھوں نے کہا اے قوم بندگی کرو اللہ تعالیٰ کی اور نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ تعالیٰ کے۔
ثمود وہ جماعت تھی جن کے پاس بکریاں اور اونٹ کثیر تعداد میں تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے باعث انھیں بھی عذاب نے جا لیا اور جب قوم عاد کو حق تعالیٰ نے اس دنیا سے غارت کیا تو اس کے بعد قوم ثمود اور ان کے ٹوٹے پھوٹے مکانوں پر قابض ہوگئی اور ان کو دوبارہ سے تعمیر کرلیا اور پھر اولاد اور کثرت مال نے انھیں متکبر کردیا۔ جب حضرت صالح علیہ السلام نے دین حق کی دعوت تھی تو انھوں نے شرائط عائد کردیں اور کہا اگر تم اللہ کی طرف سے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہو تو کوئی معجزہ دکھاؤ۔
حضرت صالح نے جواب دیا تم بتاؤ کون سا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو۔ قوم ثمود کے سرداروں نے مشورہ کیا اور کہا کہ تم اس پتھر سے ایک اونٹنی کو نکالو اور وہ اونٹنی اسی وقت بچہ اور دودھ دینا شروع کردے یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور کہا اے صالح! تم ان سے اقرار کرلو اور ان سے کہو کہ بغیر حکم خدا کے وہ اونٹنی کو نہ ماریں اور سوائے دودھ کے اس سے کچھ فائدہ حاصل نہ کریں ۔اللہ کے حکم کے مطابق حضرت صالح نے دعا کی مومنین نے آمین کہا اور اسی وقت ایک عجیب آواز پتھر سے نکلی اور پھر ایک خوبصورت اونٹنی نے اپنا جلوہ دکھایا۔
اللہ کی قدرت سے اس نے ایک بچہ دیا اس کے قریب ایک چشمہ اور چراگاہ پیدا ہوگئی ۔اونٹنی اس میں چرنے لگی چار سو سال تک قوم ثمود دودھ سے مکھن اور گھی جمع کرکے شہر جاکر بیچتے رہے اور وہ مالدار ہوگئے۔ ایک بار حضرت صالح نے اپنی قوم سے کہا کہ اس ماہ میں جس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اس سے ساری قوم تباہ ہوجائے گی یہ سننا تھا کہ 9 عورتوں نے اپنے نوزائیدہ بیٹوں کو جان سے مار ڈالا سوائے ایک عورت کے کہ وہ بیٹے کی تمنا کرتی تھی، جب اس کا بیٹا جس کا نام قدار تھا جوان ہوا بہت طاقتور تھا جسے دیکھ کر وہ نو عورتیں حضرت صالح سے بدگمان ہوگئیں اور بولیں صالح کی بات جھوٹی ثابت ہوئی اور ان کا ایمان حضرت صالح اور اونٹنی سے ہٹ گیا اور ایک قدار اور اس کے ساتھی مصدع اور ہر قبیلے سے ایک ایک شخص نے باہم متفق ہوکر اونٹنی کی گردن پر تیر مار کر زخمی کردیا، اونٹنی نے ان پر حملہ کیا تو سب بھاگے لیکن مصدع بن دہر ملعون نے پیچھے سے آکر اس کے پاؤں میں تلوار ماردی اونٹنی گر پڑی اس کے بعد تمام ملعونوں نے اسے جان سے مار ڈالا۔
اس کی سزا رب تعالیٰ نے یہ دی کہ حضرت جبرائیل نے ان کے گھروں کی دیواریں ہلا دیں، وہ لوگ اپنے گھروں سے بھاگے اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام کی چیخ نے ان کا کام تمام کردیا اور وہ خاک میں مل گئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے ترجمہ: ہم نے بھیجی ان پر ایک چنگھاڑ پھر رہ گئے جیسے دھنی ہوئی روئی گالے کی مانند اور کچھ بھی ان کا نام و نشان زمین پر نہ رہا۔ اسی طرح حضرت لوط کی قوم پر عذاب نازل ہوا اور قوم کفار کے شہرستان لوط کو اس طرح حضرت جبرائیل نے اپنے پَر کے ذریعے پلٹ دیا اور وہ اپنے انجام کو پہنچے۔ اللہ کا حکم نہ ماننے والے اپنی سزا ضرور کاٹیں گے ، تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی فرعون بننے کی کوشش کی اس کا انجام عبرت ناک ہوا۔ اللہ کے دربار میں سب کو حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے لیے وہ جواب دہ ہے۔