کیا خواجہ سعد رفیق ناراض ہیں
دونوں کو سیاست سے مائنس کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے
پاکستان مسلم لیگ (ن) ابھی تک ابہام کا شکار ہے۔ خواجہ سعد رفیق کا سوال درست ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ اس کا بیانیہ کیا ہے۔ ان کے اس سوال میں ہی سارے جواب ہیں ۔ میں نے کافی دن سوچا کہ خواجہ سعد رفیق نے یہ سوال کیوں کیا؟ سیاست میں سوال ایسے ہی نہیں پوچھے جاتے۔ سوال پوچھنے کے پیچھے کوئی حکمت ہوتی ہے، ایک ٹائمنگ ہوتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق کوئی ایسے سیاسی کارکن نہیں ہیں جو بے وقت غیر اہم سوال پوچھتے رہیں۔
کافی دن سوچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کہیں نہ کہیں خواجہ سعد رفیق ناراض ہیں۔ تھوڑے غور سے ان کی ناراضی کی وجوہات بھی سامنے آجاتی ہیں۔ ماضی کی ناراضیوں کی بعد میں بات کریں فی الحال ان عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جو ناراضی کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ سعد رفیق اپنے بھائی خواجہ سلمان کے ساتھ پابند سلاسل ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شریف فیملی کے بعد خواجہ سعد رفیق کے خاندان کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے جو پورا خاندان پابند سلاسل ہے۔ سعد رفیق اور خواجہ سلمان دونوں ہی نیب کا سامنا کر رہے ہیں۔
دونوں کو سیاست سے مائنس کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ خواجہ سعد رفیق آخر کیوں آج پابند سلاسل ہیں۔ ان پر اس سختی کیا وجوہات ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ان کا لوہے کے چنے والا بیان بہت چبھا تھا۔ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد خواجہ سعد رفیق ہی نواز شریف کو جی ٹی روڈ سے لانے میں سب سے متحرک تھے۔ مجھے کیوں نکالا کے بیانیہ کو پروان چڑھانے میں خواجہ سعد رفیق نے خود کو قربان کر دیا۔ نا اہلی سے قبل حالات کو گرمانے کے لیے خواجہ سعد رفیق نے ہی سب سے پہلے کارکنوں کے کنونشن شروع کیے تھے۔
بعد میں یہ سلسلہ پورے ملک میں شروع ہو گیا۔ اس وقت خواجہ سعد رفیق کو یہ مشورہ بھی دیا جارہا تھا کہ اتنا آگے جانے کی کیا ضرورت ہے۔ حالات دیکھیں۔ لیکن خواجہ سعد رفیق سیاسی کارکن ہیں، انھیں احتجاجی تحریکوں سے محبت ہے۔ جب نواز شریف نے لندن سے واپسی کا اعلان کیا تو لاہور میں وہ ہی متحرک تھے۔ رات گئے آخری ریلی ان کے ہی انتخابی حلقے میں تھی۔ اگر خواجہ سعد رفیق کو گرفتار نہ کیا جاتا تو مسلم لیگ (ن) میں اتنی خاموشی ممکن نہیں تھی ۔ اگر وہ آزاد ہوتے تو کچھ نہ کچھ کرتے۔ بہرحال خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کے جیل جانے کے حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے کچھ مرنے کا شوق بھی تھا۔
اب جب خواجہ سعد رفیق جیل پہنچ گئے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کہاں ہے۔ ان کے جیل جانے کے بعد انھیں وہ مقام نہیں دیا گیا جو انھیں دیا جانا چاہیے تھا۔ جیل جانے کے بعد حکومت نے بھی دہری حکمت عملی بنائی کیونکہ شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق دونوں جیل میں تھے۔ شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر تو جاری کر د یے جاتے تھے لیکن خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے جاتے تھے۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کی خوشی تو مناتی تھی لیکن بیچارے خواجہ سعد کے پروڈکشن آرڈر نہ جاری ہونے کا ذکر کم ہو جاتا۔ پھر شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بھی بنا دیا گیا۔ لیکن خواجہ سعد رفیق کا مسئلہ پیچھے چلا گیا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ خواجہ سعد رفیق کو پبلک اکاؤٹس کمیٹی کا ممبر بنا لیا جاتا تا کہ ان کے پروڈکشن آرڈر کا معاملہ حل ہو جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بعد شیخ رشید نے ریلوے میں خواجہ سعد رفیق کے کام کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا۔ تو ضرورت اس امر کی تھی کہ اپوزیشن انھیں قومی اسمبلی میں ریلوے کی قائمہ کمیٹی کا سربراہ بنا دیتی۔ شاید پی پی پی اس کے لیے تیار بھی تھی۔ اسی لیے ریلوے کی قائمہ کمیٹی مسلم لیگ (ن) کو دے دی گئی۔ اب سب کا خیال تھا کہ ریلوے کی قائمہ کمیٹی خواجہ سعد رفیق کو ملے گی اور وہ وہاں سے شیخ رشید کی تنقید کا جائزہ لیتے رہیں گے۔ لیکن ن لیگ کی مفاہمت کی سیاست میں اس کی گنجائش نہیں تھی۔ خواجہ سعد رفیق کو ریلوے کی قائمہ کمیٹی کے بجائے دوسری غیر اہم قائمہ کمیٹی کی سربراہی دے دی گئی۔ شاید ریلوے کی قائمہ کمیٹی خواجہ سعد کو نہ ملنے سے اپوزیشن اور ن لیگ کو فائدہ کم اور نقصان زیاد ہوا ہے۔ لیکن اس وقت نقصان اور فائدہ اہم نہیں ہے۔
نواز شریف کے واپس جیل جانے سے دو دن پہلے ن لیگ کے عرصہ دراز سے خالی تنظیمی عہدوں پر نامزدگیاں کر دی گئیں۔ نامزدگیاں بتا رہی تھیں کہ کس نے کی ہیں۔ یہ کس کی ٹیم ہے۔ لیکن حیرانی کی بات تو یہ بھی ہے کہ خواجہ سعد رفیق کو نائب صدر بنا دیا گیا ہے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے تیس نائب صدور میں سے ایک ہیں۔ ویسے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ مریم نواز کو بھی نائب صدر بنایا گیا ہے۔ لیکن انھیں تو نائب صدر بنا کر رسمی کا روائی پوری کی گئی ہے، دراصل انھیں قیادت دے دی گئی ہے۔ بہر حال اس ماحول میں جب خواجہ سعد رفیق کا پورا خاندان ایک مشکل میں ہے ،خواجہ سعد رفیق کو نائب صدر بنانا ایک طرح سے انھیں سیاسی طور پر نظر انداز کرنے کے ہی مترادف ہے، وہ اس سے بہتر عہدے کے حق دار تھے۔ انھیں تنظیمی و سیاسی کام کا وسیع تجربہ ہے۔
وہ کامیاب سیاسی تحریکیں چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اپوزیشن کی سیاست کا بھی انھیں وسیع تجربہ ہے۔ مشرف دور میں جب نواز شریف کا خاندان جلا وطن تھا تو مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر متحرک خواجہ سعد رفیق نے ہی رکھا تھا۔ لیکن تب بھی انھیں اس کام سے کوئی خاص نیک نامی نہیں ملی تھی۔ ویسے تو خواجہ سعد رفیق کو پنجاب کا صدر بھی بنایا جا سکتا تھا۔ انھیں مرکزی سیکریٹری جنرل بھی بنایا جا سکتا تھا۔ لیکن شاید مسلم لیگ (ن) کے اسکرپٹ میں ابھی اس کی ضرورت نہیں۔ ایسے میں خواجہ سعد رفیق کے دوستوں کا خیال ہے کہ انھیں نائب صدر بھی بننے سے انکارکر دینا چاہیے۔ اس سے کوئی طوفان نہیں آجائے گا۔ سعد کو نظرانداز کرنے کا عمل نیا نہیں ہے، جب شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا گیا تو سب کی وزارتیں بہتر کی گئیں لیکن سعد کی وزارت کو بہتر نہ کیا گیا کیونکہ ان کی ترقی کو تب بھی روکا گیا تھا۔ اس لیے یہ لڑائی نئی نہیں ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ خواجہ سعد رفیق کے رویہ سے تو ناراضی کا کوئی تاثر نہیں مل رہا۔ وہ تو ٹوئٹر پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ سوال بھی تو کر رہے ہیں۔ ان کے سوال ہی میں سب کچھ ہے۔مسلم لیگ (ن) میں سوال کرنے کی کوئی خاص روایت نہیں ہے لیکن خواجہ سعد رفیق کو جماعت کے اندر رہ کر لڑنے کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ چوہدری نثار علی خان نہیں ہیں کہ ناراض ہو کر علیحدہ ہو جائیں، وہ اس بار بھی اندر رہ کر لڑیں گے کیونکہ وہ ایک سیاسی ورکر ہیں اورڈرائنگ رومز کی سیاست کرنے والے نہیں۔
کافی دن سوچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کہیں نہ کہیں خواجہ سعد رفیق ناراض ہیں۔ تھوڑے غور سے ان کی ناراضی کی وجوہات بھی سامنے آجاتی ہیں۔ ماضی کی ناراضیوں کی بعد میں بات کریں فی الحال ان عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جو ناراضی کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ سعد رفیق اپنے بھائی خواجہ سلمان کے ساتھ پابند سلاسل ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شریف فیملی کے بعد خواجہ سعد رفیق کے خاندان کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے جو پورا خاندان پابند سلاسل ہے۔ سعد رفیق اور خواجہ سلمان دونوں ہی نیب کا سامنا کر رہے ہیں۔
دونوں کو سیاست سے مائنس کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ خواجہ سعد رفیق آخر کیوں آج پابند سلاسل ہیں۔ ان پر اس سختی کیا وجوہات ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ان کا لوہے کے چنے والا بیان بہت چبھا تھا۔ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد خواجہ سعد رفیق ہی نواز شریف کو جی ٹی روڈ سے لانے میں سب سے متحرک تھے۔ مجھے کیوں نکالا کے بیانیہ کو پروان چڑھانے میں خواجہ سعد رفیق نے خود کو قربان کر دیا۔ نا اہلی سے قبل حالات کو گرمانے کے لیے خواجہ سعد رفیق نے ہی سب سے پہلے کارکنوں کے کنونشن شروع کیے تھے۔
بعد میں یہ سلسلہ پورے ملک میں شروع ہو گیا۔ اس وقت خواجہ سعد رفیق کو یہ مشورہ بھی دیا جارہا تھا کہ اتنا آگے جانے کی کیا ضرورت ہے۔ حالات دیکھیں۔ لیکن خواجہ سعد رفیق سیاسی کارکن ہیں، انھیں احتجاجی تحریکوں سے محبت ہے۔ جب نواز شریف نے لندن سے واپسی کا اعلان کیا تو لاہور میں وہ ہی متحرک تھے۔ رات گئے آخری ریلی ان کے ہی انتخابی حلقے میں تھی۔ اگر خواجہ سعد رفیق کو گرفتار نہ کیا جاتا تو مسلم لیگ (ن) میں اتنی خاموشی ممکن نہیں تھی ۔ اگر وہ آزاد ہوتے تو کچھ نہ کچھ کرتے۔ بہرحال خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کے جیل جانے کے حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے کچھ مرنے کا شوق بھی تھا۔
اب جب خواجہ سعد رفیق جیل پہنچ گئے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کہاں ہے۔ ان کے جیل جانے کے بعد انھیں وہ مقام نہیں دیا گیا جو انھیں دیا جانا چاہیے تھا۔ جیل جانے کے بعد حکومت نے بھی دہری حکمت عملی بنائی کیونکہ شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق دونوں جیل میں تھے۔ شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر تو جاری کر د یے جاتے تھے لیکن خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے جاتے تھے۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کی خوشی تو مناتی تھی لیکن بیچارے خواجہ سعد کے پروڈکشن آرڈر نہ جاری ہونے کا ذکر کم ہو جاتا۔ پھر شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بھی بنا دیا گیا۔ لیکن خواجہ سعد رفیق کا مسئلہ پیچھے چلا گیا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ خواجہ سعد رفیق کو پبلک اکاؤٹس کمیٹی کا ممبر بنا لیا جاتا تا کہ ان کے پروڈکشن آرڈر کا معاملہ حل ہو جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بعد شیخ رشید نے ریلوے میں خواجہ سعد رفیق کے کام کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا۔ تو ضرورت اس امر کی تھی کہ اپوزیشن انھیں قومی اسمبلی میں ریلوے کی قائمہ کمیٹی کا سربراہ بنا دیتی۔ شاید پی پی پی اس کے لیے تیار بھی تھی۔ اسی لیے ریلوے کی قائمہ کمیٹی مسلم لیگ (ن) کو دے دی گئی۔ اب سب کا خیال تھا کہ ریلوے کی قائمہ کمیٹی خواجہ سعد رفیق کو ملے گی اور وہ وہاں سے شیخ رشید کی تنقید کا جائزہ لیتے رہیں گے۔ لیکن ن لیگ کی مفاہمت کی سیاست میں اس کی گنجائش نہیں تھی۔ خواجہ سعد رفیق کو ریلوے کی قائمہ کمیٹی کے بجائے دوسری غیر اہم قائمہ کمیٹی کی سربراہی دے دی گئی۔ شاید ریلوے کی قائمہ کمیٹی خواجہ سعد کو نہ ملنے سے اپوزیشن اور ن لیگ کو فائدہ کم اور نقصان زیاد ہوا ہے۔ لیکن اس وقت نقصان اور فائدہ اہم نہیں ہے۔
نواز شریف کے واپس جیل جانے سے دو دن پہلے ن لیگ کے عرصہ دراز سے خالی تنظیمی عہدوں پر نامزدگیاں کر دی گئیں۔ نامزدگیاں بتا رہی تھیں کہ کس نے کی ہیں۔ یہ کس کی ٹیم ہے۔ لیکن حیرانی کی بات تو یہ بھی ہے کہ خواجہ سعد رفیق کو نائب صدر بنا دیا گیا ہے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے تیس نائب صدور میں سے ایک ہیں۔ ویسے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ مریم نواز کو بھی نائب صدر بنایا گیا ہے۔ لیکن انھیں تو نائب صدر بنا کر رسمی کا روائی پوری کی گئی ہے، دراصل انھیں قیادت دے دی گئی ہے۔ بہر حال اس ماحول میں جب خواجہ سعد رفیق کا پورا خاندان ایک مشکل میں ہے ،خواجہ سعد رفیق کو نائب صدر بنانا ایک طرح سے انھیں سیاسی طور پر نظر انداز کرنے کے ہی مترادف ہے، وہ اس سے بہتر عہدے کے حق دار تھے۔ انھیں تنظیمی و سیاسی کام کا وسیع تجربہ ہے۔
وہ کامیاب سیاسی تحریکیں چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اپوزیشن کی سیاست کا بھی انھیں وسیع تجربہ ہے۔ مشرف دور میں جب نواز شریف کا خاندان جلا وطن تھا تو مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر متحرک خواجہ سعد رفیق نے ہی رکھا تھا۔ لیکن تب بھی انھیں اس کام سے کوئی خاص نیک نامی نہیں ملی تھی۔ ویسے تو خواجہ سعد رفیق کو پنجاب کا صدر بھی بنایا جا سکتا تھا۔ انھیں مرکزی سیکریٹری جنرل بھی بنایا جا سکتا تھا۔ لیکن شاید مسلم لیگ (ن) کے اسکرپٹ میں ابھی اس کی ضرورت نہیں۔ ایسے میں خواجہ سعد رفیق کے دوستوں کا خیال ہے کہ انھیں نائب صدر بھی بننے سے انکارکر دینا چاہیے۔ اس سے کوئی طوفان نہیں آجائے گا۔ سعد کو نظرانداز کرنے کا عمل نیا نہیں ہے، جب شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا گیا تو سب کی وزارتیں بہتر کی گئیں لیکن سعد کی وزارت کو بہتر نہ کیا گیا کیونکہ ان کی ترقی کو تب بھی روکا گیا تھا۔ اس لیے یہ لڑائی نئی نہیں ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ خواجہ سعد رفیق کے رویہ سے تو ناراضی کا کوئی تاثر نہیں مل رہا۔ وہ تو ٹوئٹر پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ سوال بھی تو کر رہے ہیں۔ ان کے سوال ہی میں سب کچھ ہے۔مسلم لیگ (ن) میں سوال کرنے کی کوئی خاص روایت نہیں ہے لیکن خواجہ سعد رفیق کو جماعت کے اندر رہ کر لڑنے کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ چوہدری نثار علی خان نہیں ہیں کہ ناراض ہو کر علیحدہ ہو جائیں، وہ اس بار بھی اندر رہ کر لڑیں گے کیونکہ وہ ایک سیاسی ورکر ہیں اورڈرائنگ رومز کی سیاست کرنے والے نہیں۔