سندھ میں گندم اور آٹے کے بحران کا خدشہ
گندم ہماری غذا کا لازمی جز ہے اوراس کے بغیرکھانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سندھ میں گندم کی قلت اور آٹے کی قیمتوں میں مزید اضافے سے ایک نیا بحران جنم لینے کی جانب ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں توجہ دلائی گئی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق سندھ کے پاس گندم کے صرف پانچ لاکھ ٹن کے ذخائر باقی رہ گئے ہیں، اور آنے والے دنوں میں آٹے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے گندم کی تازہ فصل پر انحصارکرنا پڑے گا۔
یہ رپورٹ چشم کشا ہے اور ارباب اختیار کو بہتر پلاننگ کی دعوت فکر دیتی ہے۔گندم ہماری غذا کا لازمی جز ہے اوراس کے بغیرکھانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔گوکہ وطن عزیز میں گندم کی پیداوار وافر مقدار میں ہوتی ہے لیکن افغانستان اسمگلنگ کے باعث اس کی قلت بھی ہوجاتی ہے۔ اس بار پنجاب میں تسلسل سے بارشوں کے باعث گندم کی فصل کو بیس فیصد تک نقصان پہنچا ہے، جس کے باعث سندھ سے گندم کی اضافی ترسیل پنجاب کو جا رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سندھ میں سیزن کے آغاز پر30روپے فی کلوگرام پرفروخت ہونے والی گندم کی قیمت 3روپے50 پیسے کے اضافے سے 33 روپے50 پیسے ہوگئی ہے ۔گزشتہ بیس دنوں میں سندھ سے مجموعی طورپر 2 لاکھ ٹن گندم کی منتقلی بھی سندھ میں آٹے کی قلت کا سبب بنی ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں سندھ حکومت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ گندم کی طلب و رسد میں عدم توازن کے مسئلے کو فلورز ملز مالکان کے ساتھ مل کر حل کریں اور ایسا میکنزم بنایا جائے گا کہ کسی بھی طورپر سندھ میں گندم اور آٹے کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ نہ ہوسکے اورکوئی نیا بحران نہ جنم لے ۔ ورنہ قیمتوں میں اضافے کا تمام تر بوجھ عوام پر منتقل ہوجائے گا جوکہ مہنگائی کے مارے عوام پر مزید ظلم کے مترادف ہوگا۔
یہ رپورٹ چشم کشا ہے اور ارباب اختیار کو بہتر پلاننگ کی دعوت فکر دیتی ہے۔گندم ہماری غذا کا لازمی جز ہے اوراس کے بغیرکھانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔گوکہ وطن عزیز میں گندم کی پیداوار وافر مقدار میں ہوتی ہے لیکن افغانستان اسمگلنگ کے باعث اس کی قلت بھی ہوجاتی ہے۔ اس بار پنجاب میں تسلسل سے بارشوں کے باعث گندم کی فصل کو بیس فیصد تک نقصان پہنچا ہے، جس کے باعث سندھ سے گندم کی اضافی ترسیل پنجاب کو جا رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سندھ میں سیزن کے آغاز پر30روپے فی کلوگرام پرفروخت ہونے والی گندم کی قیمت 3روپے50 پیسے کے اضافے سے 33 روپے50 پیسے ہوگئی ہے ۔گزشتہ بیس دنوں میں سندھ سے مجموعی طورپر 2 لاکھ ٹن گندم کی منتقلی بھی سندھ میں آٹے کی قلت کا سبب بنی ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں سندھ حکومت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ گندم کی طلب و رسد میں عدم توازن کے مسئلے کو فلورز ملز مالکان کے ساتھ مل کر حل کریں اور ایسا میکنزم بنایا جائے گا کہ کسی بھی طورپر سندھ میں گندم اور آٹے کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ نہ ہوسکے اورکوئی نیا بحران نہ جنم لے ۔ ورنہ قیمتوں میں اضافے کا تمام تر بوجھ عوام پر منتقل ہوجائے گا جوکہ مہنگائی کے مارے عوام پر مزید ظلم کے مترادف ہوگا۔