نیوزی لینڈ تا سوری نام
مسائل تب مکمل حل ہونگے جب دنیا ایک ہوجائے گی۔
عالمی سامراج اور مقامی سرمایہ دار 1493ء سے لے کر آج تک مختلف سامراجی ہتھکنڈوں اور طریقوں سے پسماندہ انسانوں کا استحصال کرتا آ رہا ہے۔ ہسپانوی سامراج کا سرغنہ اور قاتل کولمبس نے 1493 میں امریکا پر حملہ کیا اور وہاں کے لا کھوں انسانوں کا قتل عام کیا۔ سونے کے حصول کے لیے مقامی آبادی کے نومولود بچوں کو ہسپانوی کتوں کو ان کے والدین کے سامنے خوراک بنایا گیا۔
کون سا ایسا خطہ، ملک یا علاقہ امریکہ کا ہے جہاں ہسپانوی ، پرتگالی ، ڈچ اور برطانوی سامراج نے حملہ کرکے مقامی آبادی کا قتل عام نہ کیا ہو۔ لاکھوں انسانوں کو زندہ جلایا گیا ۔ مغربی افریقی غلاموں کو زراعت کی کاشت کے لیے افریقہ سے امریکہ خاص کر لاطینی امریکہ لایا گیا ۔ ان کی لڑکیوں سے زبردستی شادی کرکے یورپی نسل کو پھیلایا گیا ۔اس وقت امریکہ میں اوسطاً ہر ملک میں تقریباً 2 فیصد سے زیادہ مقامی آبادی نہیں ہے۔
لاطینی امریکہ کا انتہائی مغربی ملک سوری نام جہاں اب بھی 30فیصد لوگ ہندوستانی ہیں جن کی زبان ہندی اور اردو ہے۔ گنے کی کاشت کروانے کے لیے ہندوستان سے سوری نام لے جایا گیا تھا ، یہاں تقریباً دو صدی تک مقامی آبادی حملہ آور قاتلوں سے لڑتی رہی اور آخرکار ان کا قتل عام ہوا ۔جنوبی افریقہ ، مڈا گاسکر اور مارشس وغیرہ کی آدھی آبادی ہندوستانی ہے۔ بلکہ مارشس اور ماڈگاسکرکی قومی زبان فرنچ کے ساتھ ساتھ ہندی بھی ہے۔
لاطینی امریکہ سمیت جہاں جہاں یورپی سامراج نے قبضہ کیا اور قتل عام کیا وہاں کی مقامی آبادی کے مذاہب وثقافت کو تہ وبالا کیا۔ اسی طرح برطانوی اور ڈچ سامراج آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مقامی آبادی کا دو صدیوں 1642-1870تک قتل عام کرتا رہا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈکی مقامی آبادی میں جو سیاہ لوگ تھے اب وہاں چار فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ جبراً مقامی آبادی کی لڑکیوں کو ریپ کیا اور یورپی نسل بڑھائی۔آج آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی تقریباً ساری آبادی برطانوی نسل میں بدل گئی ہے۔
کینیڈا میں آج بھی قدیم آبادی کو فرسٹ سٹیزن کہا جاتا ہے،ان کے بچوں کو چرچوں میں رکھا جاتا ہے، زبردستی انھیں عیسائی بنایا جاتا ہے اور انھیں ان کی اپنی زبان میں بات کر نے کی اجازت نہیں۔اس پر 2018میں کینیڈا کی قدیم آبادی سے دیکھائوے کے لیے ٹی وی چینلز پرکینیڈا کے وزیر اعظم نے ان سے معا فی مانگی تھی ۔ جاپان کے مشرقی ملک فیوجی کی 50 فیصد آبادی ہندوستانی ہے جنھیں جاپانی سامراج ہندوستان سے غلام بنا کر زرعی کاشت کے لیے لے گئے تھے۔
کچھ یہی صورتحال ہمارے اندرون ملک میں بھی ہے۔ سوئی گیس، سوئی بلوچستان سے دریافت ہوئی ۔ سارے ملک میں ترسیل ہوتی ہے لیکن گیس کی ریالٹی بلوچ غریب لوگوں کو دینے کی بجائے سرداروں کو دی گئی ۔ نگر پارکر سندھ میں قیمتی پتھر گرینائٹ دریافت ہوا جس کی ریالٹی ایسے لوگوں کو دی گئی جن کا تعلق نگر پارکر سے تھا ہی نہیں۔ اب گزشتہ دنوں بلاول بھٹو نے تھری عوام کو بہت کچھ دینے کا اعلان کیا اور تھرکے عوام کوکوئلے کی دریافت میں حصہ دینے کی بات بھی کی ۔ مگر تھر سے کوئلے کی بجلی 660 میگا واٹ فیصل آباد اور دوسرے علاقوں کو فراہم کی جائے گی مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ فیصل آباد کے پاور لومز اور ٹیکسٹائل کے محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگا یا نہیں۔
اسی طرح کوئلہ ساہیوال لے جایا جائے گا تو کیا ساہیوال کے مزدور،کھیت مزدوراورکسانوں کی تنخواہوں اور دہاڑیوں میں اضافہ ہوگا یا نہیں ۔ بلاول بھٹو نے این ای ڈی یونیورسٹی کا کیمپس تھر میں قائم کرنے کا اعلان کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ لاکھوں کی آبادی میں کتنے پرائمری اسکول قائم کیے جائیں گے ۔ گزشتہ برس 2018 میں تھر میں جو 638 بچے بھوک اور بیماری سے مرگئے ان کا تدارک آیندہ کیسے ہوگا۔ کتنے ہیلتھ سینٹر ، اسپتال ، میٹرنٹی قایم کیے جائیں گے ۔بچیوں کے اغوا ، تبدیلی مذہب کو روکنے کے کیا اقدام کیے جائیں گے ۔
کیا سرکاری اخراجات میں کمی کرکے تھرکے عوام کو جینے کا حق دینے کے لیے وہاں کاشت کاری کو فروغ دینے کے لیے نہریں کھودی جا ئیں گی یا نہیں ۔ تھر پارکرکے عوام کو پینے کا صاف پانی اور معقول ٹرانسپورٹ کا انتظام ہوگا یا نہیں ۔ یہی صورتحال عمران خان کی ہے ، انھوں نے بلوچستان میں تقریر کرتے ہوئے ایک لاکھ پچیس ہزار آبادی کو مکان فراہم کرنے کی بات کی ہے ۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ ان میں کتنے بلوچ ، پختون ، براہوی اور ہزاروی ہونگے یعنی مقامی آبادی کے لیے بنائے جا رہے ہیں یا نہیں ۔
چین نے بلوچستان ،گوادرمیں مقامی آبادی کے لیے اسپتال بنایا، اسکول بنایا ، میٹرنٹی ، ڈسپینسری اور نہ کارخانے بنائے ہاں مگر ایک چینی لیبرکالونی زیر تعمیر ہے اس میں چینی مزدور رہائش پذیر ہونگے ۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ ملک یا ریاست میں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ ریاست کا نام ہی ہے چند لوگ صاحب جائیداد طبقات کی حفاظت کریں ۔ ارب پتی ،کھرب پتی بن جائیں اور غریب غریب تر ہوجائیں ۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں روزانہ ہزاروں افراد بھوک ، افلاس ، غربت ، لا علاجی اور غذائی قلت سے مر رہے ہیں تو دوسری طرف لگژری کاروں ،عالی شان محلوں ، ایئرکنڈیشنوں ، منرل واٹروں، نجی ہوائی جہازوں، زمینوں کے رقبوں ، بینکوں کے اکائونٹوں اور دیگر ممالک میں سرمایہ کی منتقلی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ادھر ادھر سے اربوں ڈالر آنے کے اعلانات ہو رہے ہیں لیکن مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔
ہندوستان میں مذہبی فرقہ پرست جماعت بی جے پی کی کامیابی کے لیے ہمارے حکمران دعاگو ہیں ، جس طرح ٹرمپ نے نیتن یاہو کی کامیابی پر اپنے بیان میں کہا کہ مشرق وسطیٰ میں سب سے اچھا با اثر اور پر وقار شخصیت نیتن یاہو ہیں ۔ قربان جائوں ٹرمپ کے ایسے خیالات پر۔ اسرائیل اور ہندوستان کی عوام خود سامراجی اور متعصبانہ پالیسیوں سے تنگ ہیں جب کہ ٹرمپ اور عمران خوش ہیں ۔ یہ تو ایک دوسرے کو سامراجی ترغیب اور انتہا پسندی میں تقویت پہنچانے کی بات کرتے ہیں ۔ مگر عوام مودی اور عمران کی عوام دشمن پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں ۔
بہت جلد اسرائیل ، امریکہ ہندوستان اور پا کستان کے عوام مہنگائی ، بے روزگاری ، لا علاجی سے تنگ آکر حکمرانوں کے جبر اور استحصال کا خاتمہ کرکے دم لیں گے ۔ ہر چندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی کمیو نسٹ نظام میں ہی مضمر ہے ۔ مسائل تب مکمل حل ہونگے جب دنیا ایک ہوجائے گی۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔کوئی طبقہ ہوگا ، دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہونگے۔
کون سا ایسا خطہ، ملک یا علاقہ امریکہ کا ہے جہاں ہسپانوی ، پرتگالی ، ڈچ اور برطانوی سامراج نے حملہ کرکے مقامی آبادی کا قتل عام نہ کیا ہو۔ لاکھوں انسانوں کو زندہ جلایا گیا ۔ مغربی افریقی غلاموں کو زراعت کی کاشت کے لیے افریقہ سے امریکہ خاص کر لاطینی امریکہ لایا گیا ۔ ان کی لڑکیوں سے زبردستی شادی کرکے یورپی نسل کو پھیلایا گیا ۔اس وقت امریکہ میں اوسطاً ہر ملک میں تقریباً 2 فیصد سے زیادہ مقامی آبادی نہیں ہے۔
لاطینی امریکہ کا انتہائی مغربی ملک سوری نام جہاں اب بھی 30فیصد لوگ ہندوستانی ہیں جن کی زبان ہندی اور اردو ہے۔ گنے کی کاشت کروانے کے لیے ہندوستان سے سوری نام لے جایا گیا تھا ، یہاں تقریباً دو صدی تک مقامی آبادی حملہ آور قاتلوں سے لڑتی رہی اور آخرکار ان کا قتل عام ہوا ۔جنوبی افریقہ ، مڈا گاسکر اور مارشس وغیرہ کی آدھی آبادی ہندوستانی ہے۔ بلکہ مارشس اور ماڈگاسکرکی قومی زبان فرنچ کے ساتھ ساتھ ہندی بھی ہے۔
لاطینی امریکہ سمیت جہاں جہاں یورپی سامراج نے قبضہ کیا اور قتل عام کیا وہاں کی مقامی آبادی کے مذاہب وثقافت کو تہ وبالا کیا۔ اسی طرح برطانوی اور ڈچ سامراج آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مقامی آبادی کا دو صدیوں 1642-1870تک قتل عام کرتا رہا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈکی مقامی آبادی میں جو سیاہ لوگ تھے اب وہاں چار فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ جبراً مقامی آبادی کی لڑکیوں کو ریپ کیا اور یورپی نسل بڑھائی۔آج آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی تقریباً ساری آبادی برطانوی نسل میں بدل گئی ہے۔
کینیڈا میں آج بھی قدیم آبادی کو فرسٹ سٹیزن کہا جاتا ہے،ان کے بچوں کو چرچوں میں رکھا جاتا ہے، زبردستی انھیں عیسائی بنایا جاتا ہے اور انھیں ان کی اپنی زبان میں بات کر نے کی اجازت نہیں۔اس پر 2018میں کینیڈا کی قدیم آبادی سے دیکھائوے کے لیے ٹی وی چینلز پرکینیڈا کے وزیر اعظم نے ان سے معا فی مانگی تھی ۔ جاپان کے مشرقی ملک فیوجی کی 50 فیصد آبادی ہندوستانی ہے جنھیں جاپانی سامراج ہندوستان سے غلام بنا کر زرعی کاشت کے لیے لے گئے تھے۔
کچھ یہی صورتحال ہمارے اندرون ملک میں بھی ہے۔ سوئی گیس، سوئی بلوچستان سے دریافت ہوئی ۔ سارے ملک میں ترسیل ہوتی ہے لیکن گیس کی ریالٹی بلوچ غریب لوگوں کو دینے کی بجائے سرداروں کو دی گئی ۔ نگر پارکر سندھ میں قیمتی پتھر گرینائٹ دریافت ہوا جس کی ریالٹی ایسے لوگوں کو دی گئی جن کا تعلق نگر پارکر سے تھا ہی نہیں۔ اب گزشتہ دنوں بلاول بھٹو نے تھری عوام کو بہت کچھ دینے کا اعلان کیا اور تھرکے عوام کوکوئلے کی دریافت میں حصہ دینے کی بات بھی کی ۔ مگر تھر سے کوئلے کی بجلی 660 میگا واٹ فیصل آباد اور دوسرے علاقوں کو فراہم کی جائے گی مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ فیصل آباد کے پاور لومز اور ٹیکسٹائل کے محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگا یا نہیں۔
اسی طرح کوئلہ ساہیوال لے جایا جائے گا تو کیا ساہیوال کے مزدور،کھیت مزدوراورکسانوں کی تنخواہوں اور دہاڑیوں میں اضافہ ہوگا یا نہیں ۔ بلاول بھٹو نے این ای ڈی یونیورسٹی کا کیمپس تھر میں قائم کرنے کا اعلان کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ لاکھوں کی آبادی میں کتنے پرائمری اسکول قائم کیے جائیں گے ۔ گزشتہ برس 2018 میں تھر میں جو 638 بچے بھوک اور بیماری سے مرگئے ان کا تدارک آیندہ کیسے ہوگا۔ کتنے ہیلتھ سینٹر ، اسپتال ، میٹرنٹی قایم کیے جائیں گے ۔بچیوں کے اغوا ، تبدیلی مذہب کو روکنے کے کیا اقدام کیے جائیں گے ۔
کیا سرکاری اخراجات میں کمی کرکے تھرکے عوام کو جینے کا حق دینے کے لیے وہاں کاشت کاری کو فروغ دینے کے لیے نہریں کھودی جا ئیں گی یا نہیں ۔ تھر پارکرکے عوام کو پینے کا صاف پانی اور معقول ٹرانسپورٹ کا انتظام ہوگا یا نہیں ۔ یہی صورتحال عمران خان کی ہے ، انھوں نے بلوچستان میں تقریر کرتے ہوئے ایک لاکھ پچیس ہزار آبادی کو مکان فراہم کرنے کی بات کی ہے ۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ ان میں کتنے بلوچ ، پختون ، براہوی اور ہزاروی ہونگے یعنی مقامی آبادی کے لیے بنائے جا رہے ہیں یا نہیں ۔
چین نے بلوچستان ،گوادرمیں مقامی آبادی کے لیے اسپتال بنایا، اسکول بنایا ، میٹرنٹی ، ڈسپینسری اور نہ کارخانے بنائے ہاں مگر ایک چینی لیبرکالونی زیر تعمیر ہے اس میں چینی مزدور رہائش پذیر ہونگے ۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔ ملک یا ریاست میں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ ریاست کا نام ہی ہے چند لوگ صاحب جائیداد طبقات کی حفاظت کریں ۔ ارب پتی ،کھرب پتی بن جائیں اور غریب غریب تر ہوجائیں ۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں روزانہ ہزاروں افراد بھوک ، افلاس ، غربت ، لا علاجی اور غذائی قلت سے مر رہے ہیں تو دوسری طرف لگژری کاروں ،عالی شان محلوں ، ایئرکنڈیشنوں ، منرل واٹروں، نجی ہوائی جہازوں، زمینوں کے رقبوں ، بینکوں کے اکائونٹوں اور دیگر ممالک میں سرمایہ کی منتقلی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ادھر ادھر سے اربوں ڈالر آنے کے اعلانات ہو رہے ہیں لیکن مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔
ہندوستان میں مذہبی فرقہ پرست جماعت بی جے پی کی کامیابی کے لیے ہمارے حکمران دعاگو ہیں ، جس طرح ٹرمپ نے نیتن یاہو کی کامیابی پر اپنے بیان میں کہا کہ مشرق وسطیٰ میں سب سے اچھا با اثر اور پر وقار شخصیت نیتن یاہو ہیں ۔ قربان جائوں ٹرمپ کے ایسے خیالات پر۔ اسرائیل اور ہندوستان کی عوام خود سامراجی اور متعصبانہ پالیسیوں سے تنگ ہیں جب کہ ٹرمپ اور عمران خوش ہیں ۔ یہ تو ایک دوسرے کو سامراجی ترغیب اور انتہا پسندی میں تقویت پہنچانے کی بات کرتے ہیں ۔ مگر عوام مودی اور عمران کی عوام دشمن پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں ۔
بہت جلد اسرائیل ، امریکہ ہندوستان اور پا کستان کے عوام مہنگائی ، بے روزگاری ، لا علاجی سے تنگ آکر حکمرانوں کے جبر اور استحصال کا خاتمہ کرکے دم لیں گے ۔ ہر چندکہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی کمیو نسٹ نظام میں ہی مضمر ہے ۔ مسائل تب مکمل حل ہونگے جب دنیا ایک ہوجائے گی۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔کوئی طبقہ ہوگا ، دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہونگے۔