حکومت ایڈز کی روک تھام کے بجائے صرف تشخیص میں مصروف

سندھ میں ساڑھے 10 ہزار ایچ آئی وی ایڈزکے رجسٹرڈ مریضوں کے علاوہ ہزاروں کیسز غیر رجسٹرڈ ہیں

طریقہ علاج سے لاعلمی اور ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کے باعث اندرون سندھ کے مریض علاج کیلیے کراچی آنے پر مجبور۔ فوٹو: فائل

سندھ کے مختلف شہروں میںایچ آئی وی ایڈز کی تشخیص کے پیش نظر قائم کیمپس مرض کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے بجائے عوام میں بے چینی، ذہنی دباؤ اور پریشانی کا سبب بن رہے ہیں، جب کہ حکومت مرض کی روک تھام کے بجائے مرض کے تشخیص میں مصروف ہے۔

سندھ بھر میں ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، سندھ بھر سے ساڑھے 10 ہزار ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلا رجسٹرڈ مریضوں کے علاوہ سندھ میں ہزاروں کیسز غیر رجسٹرڈہیں، ایچ آئی وی ایڈز کی تشخیص کیلیے سندھ حکومت اور سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت سندھ کے ان شہروں جہاں کیسز زیادہ ہیں تشخیصی کیمپس قائم کردیے گئے جہاں روزانہ کی بنیاد پر عام ڈاکٹر عوام کے ٹیسٹ کرتے ہیں اور ان میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص کرتے ہیں جس کے بعد ان شہروں میں قابل ڈاکٹر نہ ہونے اور علاج کے طریقہ کار سے لاعلم ہونے کی وجہ سے عوام علاج کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں جو غریب عوام کے لیے پریشانی کا سبب بنتا ہے۔

اس حوالے سے سندھ کنٹرول ایڈز پروگرام کے سابق منیجر اور ماہر ایچ آئی وی ایڈز فزیشن ڈاکٹر شرف علی شاہ نے بتایا کہ لاڑکانہ میں پہلا آؤٹ بریک انجیکٹنگ ڈرگ یوزرزکا کیس 2003 میں سامنے آیا، دوسرا آؤٹ بریک کیس 2016 میں ڈائیلیسز کے مریضوں کا ہوا اور یہ تیسرا آؤٹ بریک ایچ آئی وی ایڈز کا ہے جس میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے، لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے بڑھتے ہوئے کیسز کی پیچیدہ صورتحال غیر متوقع نہیں ہے۔

سندھ بھر میں تشخیصی کیمپ بنادیے گئے ہیں جہاں لاکھوں بچوں اور بڑوں میں ایچ آئی وی ایڈز کی تشخیص کی جارہی ہے جبکہ ایڈز کی تشخیص کرنا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کام ہے جو کیئر پرووائڈر اور جنرل پریکٹشنرز ایک طریقہ کار کے تحت ٹیسٹ کرتے ہیں، سندھ حکومت کو ٹیسٹنگ سینٹرز کھولنے کی ضرورت ہے جہاں قابل اور تربیت یافتہ پریکٹشنرز کو تعینات کیا جائے، جگہ جگہ قائم کیمپس میں تشخیص کے بعد مریضوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور علاج کے طریقہ کار سے لاعلمی کے باعث مریض ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

سندھ حکومت سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے منیجر کا انتخاب میرٹ پر کرے ناتجربہ کار فرد کا انتخاب بڑھتے کیسز پر قابو نہ پانے کی ایک وجہ ہے، سندھ حکومت ڈاکٹروں کو سرنجز کے صحیح استعمال کے طریقہ کار، معیاری خون کی محفوظ طریقے سے منتقلی کے حوالے سے آگاہی دینے کیلیے پروگرام شروع کرے ایچ آئی وی ایڈز کے متاثرہ افراد کی پری ٹیسٹ اور پوسٹ ٹیسٹ کاؤنسلنگ ہونی چاہیے تاکہ وہ کسی پریشانی اور ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہوں ایچ آئی وی ایڈز سے شدید متاثرہ شہر لاڑکانہ میں میڈیکل یونیورسٹی اور بچوں کا اسپتال موجود ہے اس کے باوجود کوئی قابل ڈاکٹر موجود نہیں ہے جو ان مریضوں کا علاج کر سکے۔

ایچ آئی وی وائرس انسان کے مدافعتی نظام کو تباہ کر دیتا ہے


ماہرین طب کے مطابق ایچ آئی وی ایڈز پھیلنے کی وجہ ان سیف سیکشول ریلیشن، ایک سرنج کا ایک سے زائد بار استعمال اور خون کی غیر محفوظ طریقے سے منتقلی ہے۔

ایچ آئی وی ایک وائرس ہے جو انسان کے مدافعتی نظام کو تباہ کردیتا ہے اور مدافعت نظام کمزور ہوجانے سے مختلف نوعیت کی بیماریاں باآسانی مریض پر حملہ کرنا شروع کردیتی ہیں جس کے بعد ایچ آئی وی وائرس ایڈز میں منتقل ہوجاتا ہے ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص کے بعد اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی (اے آر ٹی) ڈرگ کے ذریعے وائرس کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔

لاڑکانہ اور رتو ڈیرو میں 337 افراد میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہو گئی

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے منیجر ڈاکٹر سکندر میمن کے مطابق لاڑکانہ اور اس کی تحصیل رتوڈیرو میں 25 اپریل 2019 سے کی جانے والی اسکریننگ میں اب تک 337 افراد میں ایچ آئی وی وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ ایچ آئی وی وائرس سے متاثر افراد کی تعداد میں تشخیصی عمل جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے،337 میں سے بد قسمتی سے بچوں کی تعداد 250 سے زائد ہے جوکہ تشویشناک بات ہے۔

شکار پور میں 116 افراد کے سیمپل لیے گئے جن میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص نہیں ہوئی، خیرپور میں 3 رجسٹرڈ مریض ہیں جن کا علاج چل رہا ہے، میرپورخاص اور کراچی میں بھی کیسز سامنے آئے ہیں، چند روز قبل سیکریٹری صحت نے لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال لاڑکانہ کا افتتاح کیا جس میں ایک خصوصی وارڈ قائم کیا گیا ہے جہاں ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلا نئے بچوں کا علاج کیا جاسکے گا۔

لاڑکانہ میں سامنے آنے والے نئے کیسز کی رجسٹریشن کے بعد ٹیسٹ اور دواؤں کے ذریعے علاج کیا جائے گا جبکہ وارڈ میں ایچ آئی وی ایڈز کے لیے کیے جانے والے سی ڈی فور ٹیسٹ کے لیے مشینیں بھی رکھ دی گئی ہیں۔

 
Load Next Story